سیکیولر
و 'ملا' قیادت کا فرق
سیاسی
و نظریاتی اعتبار سے فلسطین دو حصوں میں تقسیم ہے۔ یعنی سیکیولر الفتح
جو مقتدرہ فلسطین یا Palestinian Authority (PA)پر قابض ہے اور حماس جسکا سیاسی اثرورسوخ غزہ تک محدود کردیا گیا
ہے۔PAدراصل فلسطین کی نیم بلکہ
غیر خودمختار حکومت ہے جسے اب ساری دنیا تسلیم کرتی ہے۔ 2006 میں PAکے عام انتخابات
منعقد ہوئے جس میں حماس سے 44 فیصد ووٹ لے
کر 132 رکنی ایوان میں 74نشستیں جیت لیں۔ دلچسپ بات کہ غزہ کے ساتھ دریائے اردن کے مغربی کنارے پر بھی
حماس کو زبردست کامیابی نصیب ہوئی۔
انتخابات کے بعد
حماس کے اسماعیل ہنیہ نے وزیراعظم کی
حیثیت سے حلف اٹھایا۔ تاہم اسرائیل اور امریکہ
کیلئے حماس کی حکومت قابل قبول نہ
تھی چنانچہ PAکے خلاف اقتصادی
پابندیاں عائد کردی گئیں اور صرف 15 ماہ
بعد صدر محمودعباس نے اسماعیل ہنیہ کو
برطرف کردیا۔ہم نے اسی بناپر الفتح کو PAپر 'قابض' قراردیا ہے۔
حماس نے حکومت سے معزولی کے بعد آئینی احتجاج تو کیا لیکن
خانہ جنگی سے بچنے کیلئے جلد ہی مصالحت کرلی۔ اسکےبعد سے حماس کی ساری توجہ غزہ پر
ہے۔ لیکن محمود عباس کو حماس کا غزہ پر
عمل دخل بھی پسند نہیں اور وہ اسرائیل اور
السیسی کی جانب سے غزہ کے بائیکاٹ کی کھل کر حمائت کرتے ہیں۔حماس پر دباو برقرار رکھنے کیلئے انھوں نے
غزہ کے سرکاری ملازمین کی تنخواہیں روکی ہوئی ہیں جسکے بارے میں انکا موقف ہے کہ
معاشی مشکلات کی بنا پر PAکیلئے تنخواہوں کی ادائیگی ممکن نہیں۔
دوسری طرف محمود عباس قطر پر بھی دباو ڈال
رہے ہیں کہ وہ غزہ کو مدد فراہم نہ کرے کہ
اس سے حماس کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔
محمود عباس اور انکے رفقا مالی وسائل کی کمی اور شدید اقتصادی مشکلات کا رونا روکر کسی نہ
کسی بہانے PAے سرکاری ملازمین کی
تنخواہوں میں کٹوتی اور ادائیگی میں تاخیز
کرتے رہتے ہیں۔ حتیٰ کہ اسرائیلی جارحیت
کے متاثرین کی مدد سے بھی انھوں نے یہ کہہ کر ہاتھ کھینچ لیا ہے کہ 'خزانہ
خالی ہے'
گزشتہ دنوں ITکے ماہر چند منچلوں
نے PAکے شعبہ مالیات میں
الیکٹرانک نقب زنی یا Hackingکرکے کچھ دستاویزات اڑالیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ فلسطینیوں کو کفائت کا درس
دینے والے محمود عباس نے PA وزرا کی تنخواہوں میں 67 فیصد اضافہ کیا اور ساتھ ہی اپنی تنخواہ
4 ہزار سے بڑھاکر 6 ہزار ڈالر ماہانہ کرلی۔
اس خبر پر سارے فلسطین میں چہ می گوئیوں کا آغاز ہوا اور Against the Current نام سے بننے والے نوجوانوں کے ایک گروپ نےسوشل میڈیا پر دھمکی دی
کہ اگر وزارا اور وزیراعظم کی تنخواہوں میں اضافہ منسوخ نہ کیا گیاتو وہ تحریک چلائینگے۔ PAقیادت کی بے شرمی دیکھئے کہ انھوں نے اس خیانت کا اعتراف
فلسطینی عوام کے بجائے اقوام متحدہ کے سامنے کیا اور الجزیرہ کے مطابق فلسطین
کیلئے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے
نکولائی لاڈنوف Nickolay
Mladenovنے تصدیق کی ہے کہ PAکے وزیراعظم ڈاکٹر حمد
الشتیہ اپنی اور کابینہ کی تنخواہوں میں اضافہ واپس لینے پر رضامند ہوگئے ہیں۔ کیا
اس فیصلےکا اطلاق صدر محمود عباس پر بھی
ہوگا؟ ابھی یہ بات واضح نہیں۔
ایک طرف سیکیولر رہنماوں کا سنگدلانہ رویہ جو اپنی ہی قوم کا خون نچوڑ کر عیش کر رہے ہیں تو دوسری
طرف مردودِ عالم دہشت گرد حماس کا
کردار کہ غزہ میں اسماعیل ہنیہ سمیت حماس کی پوری قیادت
عوام کے ساتھ گرم و سرد جھیل رہی ہے۔ قطر سے ملنے والی امداد
اسقدر شفاف طریقے پر تقسیم ہورہی ہے کہ اقوام متحدہ و اسرائیل کے آڈیٹروں کو بھی
کوئی قابل اعتراض نکتہ نہ مل سکا۔ وسائل
لوٹنے کے بجائے حماس نے سرکاری آمدنی کا
ایک حصہ سماجی خدمات کیلئے مختص کردیا ہے جس سے اسکول اور ہسپتال چلائے جارہے ہیں۔
اسرائیلی بمباری سے زیادہ تر بجلی گھر تباہ ہوچکے ہیں اسلئے بجلی کی
محدودفراہمی جنریٹرز کے ذریعے ہوتی ہے۔
حماس کا اعلان ہے کہ اسکولوں، ہسپتالوں اور ادارہ ِنکاسی و فراہمی آب کو بجلی کی فراہمی
یقینی بنانے کیلئے ڈیزل کی ایک مخصوص مقدار وقف رکھی جائیگی تاکہ اگر باہر سے ڈیزل
آنے میں تاخیر ہو تعلیم، علاج و معالجہ
اور شہری سہولتیں متاثر نہ ہوں۔ڈیزل کا یہ محفوظ ذخیرہ کسی اور
کام کیلئے استعمال نہیں ہوگا حتیٰ کہ اسے مساجد اور حماس کے مرکزی دفتر کیلئے بھی
استعمال نہیں کیا جاسکتا۔
دنیا کا معیار بھی عجیب ہے کہ عوام کے راحت کیلئے اپنا آرام
قربان کرنے والے انتہا پسند و دہشت گرد ہیں جبکہ عوام کے کفن سے
پوشاک بنانے والے اعتدال پسند اور مہذب۔
No comments:
Post a Comment