استنبول میں میئر کا انتخاب
استنبول
میں اتوار 23 جون کو رئیسِ شہر کے چناو کیلئےدوبارہ ووٹ ڈالے جائینگے۔ ترکی میں 31
مارچ کو بلدیاتی انتخابات ہوئے تھے جس میں غیر سرکاری نتائج کے مطابق ریپبلکن پیپلز پارٹی (CHP)کے
امیدوار اکرم امام اوغلو برسراقتدار انصاف
و ترقی پارٹی (AKP) کے بن علی یلدرم کو 15000 ووٹوں سے ہراکر جیت گئے تھے۔ لیکن
AKPنے الیکشن کمیشن کو
دھاندھلی و بے ضابطگیوں کی
شکائت کی اورکمیشن نے ایک ہفتے کی سماعت کے بعد نتائج کالعدم کرکے 23 جون کو
دوبارہ انتخاب کرانے کا حکم دے دیا۔
استنبول
ترکی کا سب سے بڑا شہر اور اسکا ثقافتی و
کاروباری مرکز ہے۔ بلکہ استنبول ترکی کا چہرہ ہے جہاں ڈیڑھ کروڑ افراد آباد ہیں۔،بلدیہ استنبول کا
سالانہ بجٹ 9 ارب ڈالر کے قریب ہے۔
صدراردوان نے انتخابی سیاست کا آغاز اسی شہر سے کیا جب وہ 1994 میں استنبول کے
میئر منتخب ہوئے۔ جسکے بعد جیل یاترا اورآخرکار وزیر اعظم منتخب ہوگئے۔
آج کے
انتخاب میں بن یلدرم اور اکرام امام اوغلو،
سعادت پارٹی کے نجات گوجنار اور وطن پارٹی
کے مصطفےٰ افتخار کے علاوہ 17 آزاد امیدوار حصہ لے رہے ہیں۔ حکمران جماعت نے بن علی کی صورت میں بھاری بھرکم امیدوار
ميدان میں اتارا ہے۔ موصوف سابق وزیراعظم اور قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر کے علاوہ
وفاقی وزیر ٹرانسپورٹ اور حکمراں جماعت کے پارلیمانی قائد رہ چکے ہیں۔ لیکن میئر
کیلئے انکی ہاتھوں کی لکیر ذرا مدھم سی ہے کہ وہ 2014 میں ازمیر سے بری طرح شکست کھاچکے ہیں۔ بن علی یلدرم صدر اردوان کے انتہائی قابل اعتماد بلکہ منہہ
چڑھے ساتھی ہیں۔ دوسری طرف اکرم اوغلو انتخاب تو CHPکے سیکیولر ایجنڈے پر لڑ رہے ہیں لیکن وہ کامیابی کی صورت میں استنبول کے اسلامی تشخص
کے تحفظ کیلئے انتہائی پرعزم ہیں۔ صوم و صلوٰۃ کے پابند اوغلو صاحب کا کہنا ہے کہ
اسلام پر اردوان کا ٹھیکہ نہیں۔ استنبول عثمانی ثقافت کا قابل فخرسرمایہ ہے اور اسکے اسلامی تشخص کی
ہر قیمت پر حفاظت کی جائیگی۔
کردجماعت HDPنے ان انتخابات میں غیر جانبدار رہنے کا اعلان کیا ہے۔کالعدم
PKKکے نظر بند رہنما
عبداللہ اشلان نے جیل سے اپنے ایک پیغام
میں HDPکے ارکان سے کہا کہ
وہ ان انتخابات میں غیر جانبدار رہیں۔ اردوان کی AKPنے قوم پرست MHPسے اتحاد کررکھا ہے جنکی کرد مخالف پالیسیوں کی وجہ سے HDPنے اکرم امام اوغلو
کی حمائت کا اعلان کیا تھا۔ دیکھنا ہے کہ عام کرد عبداللہ اشلان کی بات پر کان
دھرتے ہیں یا نہیں۔ لاکھوں کرد استنبول میں آباد ہیں اور سخت مقابلے کے تناظر میں
کردوں کا ووٹ بے حد اہم ہے۔
رائے
عامہ کے جائزوں کے مطابق اس بار مقابلہ 31 مارچ سے بھی زیادہ سخت ہے اور تجزیہ
نگاروں کاخیال ہے کہ اگر AKPاپنے ووٹروں
کو گھر سے نکالنے میں کامیاب ہوگئی اور کردوں کی اکثریت غیر جانبدار رہی تو بن علی کی کامیابی کی امید
پیدا ہوسکتی ہے۔
No comments:
Post a Comment