Wednesday, June 12, 2019

لغزشِ زبان کا اعادہ


لغزشِ زبان کا اعادہ
بجٹ  کے بعد  وزیراعظم  عمران خان کے قوم سے خطاب کا پہلا حصہ اس اعتبار سے عوامی امنگوں کا ترجمان تھا کہ وزیراعظم نے ملک کو مدنی ریاست بنانے کے عزم کااعادہ کیا۔ لیکن  لغزش زبان نے نہ صرف  سارامزہ کرکرہ کردیا بلکہ اس سے اندازہ ہوا کہ اسلامی تاریخ کے انتہائی اہم واقعات کے بارے میں  وزیراعظم کی معلومات  درست  نہیں۔ جنگ بدر کے بارے میں انھوں نے کہا
'جب جنگِ بدرہوئی تھی تو صرف 313 تھے لڑنے والے  باقی ڈرتے تھے لڑنے  کیلئے'
حالانکہ جنگ بدر کے وقت  مسلمانوں کی کل افرادی قوت  تھی ہی یہی ۔ صرف  حضرت ابن ام مکتوم کو نبی مہربان نماذ کی امامت کیلئے مدینہ  چھوڑ گئے ۔ یہ بات تو سب کو معلوم ہی ہے کہ حضرت ابن مکتوم (ر)نابینا تھے۔ اسکے علاوہ آپ (صلعم) نے  کچھ دور جاکر مدینے کی امارت کیلئے حضرت  ابولبابہ(ر) کو بھی واپس بھیجدیا۔ اسکے علاوہ سارے کے سارے پیرو جواں  ذوق و شوق  سے  میدانِ بدر پہنچے تھے۔ ڈرنے کا کیا سوال  کہ بچے ضد کرکے جنگ میں شریک ہوئے وہ اپنی ایڑیوں پر کھڑے ہوکر خود کو بڑا دکھانے کی کوشش کررہے تھے ۔دو میں سے ایک بچے کو جب نبی مہربان نے واپس جانے کا حکم دیا تو اس نے کہا کہ آپ نے جس لڑکے کو جنگ پر جانے کی اجازت دی ہے اسے تو میں کشتی میں پچھاڑ سکتا ہوں ۔ اس بچے کے اصرار پر کشتی کروائی گئی اور اس چھوٹے لڑکے نے اپنے سے بڑے کو پچھاڑ دیا چنانچہ اسے بھی شریک کرلیا گیا۔ بے سروسامانی کا یہ عالم کہ اس لمبے سفر پرجانیوالے اللہ کے ان  313 شیروں کیلئے صرف 70 اونٹ  تھے چنانچہ یہ لوگ باری باری اونٹ پر سوار ہوتے یا پیدل چلتے۔ اس مشقت کے باوجود کسی ایک کے ہونٹ پر شکوہ شکائت کا شائبہ تک نہ تھا۔سرکار صلعم اپنی  ساری متاع لیکر جب  بدر پہنچے تو انھوں  نےاسی کا واسطہ دیکر دعا کی کہ 'ائے اللہ اگریہ جماعت ختم ہوگئی تودنیا میں کوئی تیری عبادت کرنے والا نہ رہے گا'۔ ایسے وفاشعار دلاوروں کے بارے میں یہ کہنا کہ 'ڈرتے تھے' سراسر لاعلمی ہے 
اسی طرح  جنگ احد کا ذکر کرتے ہوئے عمران خان نے کہا
'جب جنگ احد ہوئی سرکارِ مدینہ نے جو تیر کمان والے تھے ان کو کہا  تم نے اپنی  پوزیشن نہیں چھوڑنی۔ جب لوٹ مارشروع ہوئی تو وہ چھوڑکر چلے گئے،سرکارِ مدینہ کا حکم نہیں مانا'
شائد عمران خان کو یہ معلوم نہیں کہ جنگ بدر کے فوراً بعد  مال غنیمت کے بارے میں احکامات نازل ہوچکے تھے جسکی تفصیل سورہ انفال میں دیکھی جاسکتی ہے۔ مالِ غنیمت لوٹا نہیں جاتا بلکہ اسےجمع کرکے بیت المال میں جمع کرایاجاتا ہے اور پھر مقررہ حصے نکال کر امیر کے حکم پر مال غنیمت سپاہیوں میں تقسیم ہوتا ہے۔ صحابہ کو اچھی طرح معلوم تھا کہ مال غنیمت  میں ایک تنکے کی خیانت بھی سارے کئے کرائے پر پانی پھیر سکتی ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ عمران خان نبی مہربان کے مخلص ساتھیوں کے بارے میں  یہ گمان بھی نہیں کرسکتے کہ وہ  دورانِ جہاد   لوٹ مار کررہےہونگےاور یہ جملہ لغزشِ زبان کا شاخسانہ ہے۔
تاہم لغرش زبان عمران خان کی پہچان بن چکی ہے۔اس ضمن میں چند مثالیں
·        وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھاتے وقت وہ خاتم النبیین کا تلفظ ٹھیک نہ کرسکے
·        ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں وہ نبی محترم کی تعریف کرتے ہوئے کہہ گئے کہ ہمارے نبی بہت لبرل تھے
·        ایک جامعہ کا سنگ بنیاد رکھتے ہوئے وہ روحانیت ٹھیک سے نہ بول سکے
·        روشنی کی رفتار سے تیز  ریل چلانے کے عزم کا اظہار فرماگئے
·        روانی میں وہ جرمن و فرانس سرحد کے  بجائے جرمن و جاپان سرحد کہہ گئے
لغزش زبان کے یہ تمام واقعات بہت معمولی ہیں اور سامعین و ناظرین  خانصاحب کا نقطہ نظر اچھی طرح سمجھ  چکے ہیں لیکن ان غلطیوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ عمران خان home workکرنے کے عادی نہیں۔ ہمارے خیال میں اصل مسئلہ فی البدیہ تقریر پر اصرار ہے۔ ستم ظریفی کہ انکے مداح بھی 'کپتان  پرچی نہیں لیتا' کہہ کر فی البدیہ خطاب کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔حالانکہ قابل اعتراض بات تو کسی اور کی لکھی  ہوئی پرچی پڑھ کر تقریر کرنا ہے۔  تقریر خود لکھ کر مسودہ پڑھنے میں کیا قباحت ہے؟ دنیا میں ہر جگہ سرابراہان  حکومت و مملکت لکھی ہوئی تقریر کرتے ہیں۔ امریکہ میں تو سیاستدان جلسہ عام سے خطاب بھی لکھی ہوئی تقریر پڑھ کر کرتے ہیں۔ یہ اور بات کہ Teleprompterکے استعمال کی وجہ سے ایسا لگتا ہے کہ گویا فی البدیہ گفتگو ہورہی ہے۔
ہمارا  مخلصانہ مشورہ ہے کہ  خانصاحب تقریر سے پہلے  مسودہ لکھ لیا کریں۔ کیا ہی بہتر ہوکہ  اہم اعدادوشمار،تاریخ اوراسلام، قرآن و سیرت صلعم سے متعلق معلومات  پر علم رکھنے والے کسی ساتھی سے نظرثانی بھی کروالیں  تو لغزش زبان کی ان غلطیوں پر آسانی سے قابوپایا جاسکتا ہے۔قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر کا مطالعہ خاصہ گہرا ہے اور وہ یہ خدمت بہت اچھی طرح انجام دے سکتے ہیں۔

No comments:

Post a Comment