Sunday, June 2, 2019

اب بھی پاکستان پر الزام


اب بھی پاکستان پر الزام  
ہندوستان ہمیشہ سے الزام لگاتا چلا آرہا ہے کہ  کشمیرمیں بدامنی کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ ہے۔ پاکستان کی بدنصیبی کہ اس ملک  کے دانشور،  میڈیا، سول سوسائیٹی،  مقبول سیاستدان، دفاعی تجزیہ نگار سب ہی  ہندوستان کی بین پر سر ہلارہے ہیں۔ دہشت گردی  کا پروپیگنڈا ایسا سر چڑ ھ بول رہا ہے کہ   اب  ملک کا  محب  وطن  طبقہ بھی لشکرِطیبہ  اور جیشِ محمد جیسی تنظیموں کودہشت گرد سمجھنے لگا ہے۔ حالانکہ یہ تنظیمیں  کئی سالوں سے زیرعتاب ہیں،  انکی مرکزی قیادت  جیلوں میں ہے لیکن کسی کے خلاف دہشت گردی کا ایک معمولی سا الزام بھی ثابت نہیں ہوا۔
آج  مقبوضہ کشمیر کے گورنر  ستیا  پال ملک نے جو اعدادوشمار جاری کئے ہیں اسکے مطابق اس سال کے دوران   جتنے کشمیری  بچوں کو دہشت گرد کہہ کر
بھارتی فوج نے قتل کیا ان میں  75 فیصد مقامی ہیں۔ گورنر صاحب کے مطابق گزشتہ سال یہ تناسب 60 فیصد تھا۔ ہم نے  یہ شعر بہت سنا ہے کہ
اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے۔ اتنا ہی یہ ابھرے گا جتنا کہ دبادینگے
اس حقیقت کا گورنر صاحب  رپورٹ میں اعتراف کیا گیا ہے۔ شری ملک کا کہنا ہے کہ جون 2016 میں حزب المجاہدین کے کمانڈربرہان وانی کی شہادت  کے بعد سے نوخیزکشمیری  تیزی  ے  عسکریت پسندی کی طرف مائل ہورہے ہیں۔
دوسری طرف گورنر صاحب کی اس رپورٹ  پر تبصرہ کرتے ہوئے پولیس کے ترجمان نے کہا کہ اس سال کے دوران کشمیر ی  نوجوانوں میں عسکریت پسندی کا رجحان زوال پزیر ہے اور جماعت اسلامی پر پابندی کے بعد سے دہشت گرد سرگرمیوں میں کمی آئی ہے۔
قارئین  کی وضاحت کیلئے عرض ہے کہ ہم نے بہت کراہیت کے ساتھ کشمیریوں کی پروقار جدوجہد کیلئے دہشت گردی اور عسکریت پسندی کے الفاظ استعمال کئے ہیں جسکا مقصد صرف اس رپورٹ کے مندرجات کی درست ترجمانی ہے۔
گورنر صاحب کی رپورٹ کے بعد پولیس کا یہ کہنا کہ اس سال کے آغاز سے کشمیر ی  تحریک زوال کا شکار ہے طفل تسلی کے سوا اور کچھ نہیں۔ اعدادوشمار کو بہتر کرنے کیلئے بھارتی فوج نے کشمیریوں سے تصادم کی خبریں شایع کرنے پر پابندی لگائی ہوئی ہے تاکہ سب اچھا نظر آئے
غیر جابندار تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ ہندوستانی فوج پر حملوں کی تعداد میں کمی ضرور آئی ہے لیکن اسکی وجہ تحریک آزادی کی کمزوری نہیں بلکہ کشمیری حریت پسندوں کی استعداد  بہت بہتر ہوگئی ہے۔ یعنی  انکے حملے زیادہ مہلک ہوگئے ہیں اوراب کم حملوں میں  زیادہ بھارتی فوجی  ہلاک ہورہے  ہیں۔ کشمیریوں نے سراغرسانی کے میدان میں بھی اپنی مہارت کو بہتر کرلیا ہے۔ وہ بھارتی فوج کی نقل وحرکت پرموثر نظر رکھتے ہیں اور کمزور مقام یا عسکری اصطلاح میں Soft Spotپر ٹھیک ٹھیک  اور کاری شانہ  لگاتے ہیں۔ پلوامہ حملہ ایسی ہی ایک مثال ہے۔
کشمیریوں کو تنہائی کا احساس صرف  سیاسی محاذ پر ہے جہاں پاکستانی وزارت خارجہ نےFATFاور امریکہ سے تعلقات بہتر بنانے کے ہونکے میں کشمیریوں کی سیاسی و سفارتی پشت پناہی سے ہاتھ کھینچ لیا ہے۔اس رپورٹ کی بنیاد پر پاکستانی دفتر خارجہ کو ہندوستان  سے یہ ضرور پوچھنا چاہئے کہ جب    گورنر صاحب  خود ہی اعتراف فرمارہے ہیں کہ فوج سے مقابلے میں مارے جانیوالے 75 فیصدافراد کشمیری ہیں اور 25 فیصد کےبارے میں غیر ملکی ہونے کا شک صرف  اسلئے ظاہر کیا جارہا ہے کہ انکی شناخت نہیں ہوسکی  تو پھر دہشت گردی  میں پاکستان کو کس بنیاد پر موردِ الزام ٹہرایا جارہا ہے جبکہ  شہید یا گرفتار ہونے والے ایک بھی شخص کے بارے میں یہ تصدیق نہیں ہوسکی کہ اسکا تعلق پاکستا ن سے تھا۔

No comments:

Post a Comment