دھاندھلی کو عدالتی تحفظ
امریکی
سپریم کورٹ کاکہنا ہے کہ ایوان
نمائندگان (قومی اسمبلی) کی حلقہ بندی ریاستی اسمبلیوں کا کام ہے اور
سپریم کورٹ اس سلسلے میں کوئی کردار ادا نہیں کرسکتی۔ امریکہ میں سیاہ فام اور دوسری اقلیتوں کو شکائت ہے کہ حلقہ بندی کرتے وقت سیاہ فام اور ہسپانوی ووٹ مختلف حلقوں میں تقسیم کرکے اقلیت کے سیاسی
اثرورسوخ کو تحلیل یا کم ازکم بے اثر کردیا جاتا ہے۔ اس حکمت عملی کو Gerrymanderingکہتے ہیں۔ ڈیموکریٹک
پارٹی کو شکائت ہے کہ اقلیتوں کے ساتھ
سفید فام ووٹروں کو بھی مختلف حلقوں میں تقسیم کرکے انکے ساتھ ہاتھ ہورہا ہے۔
امریکہ میں غریب طبقہ عام طور سے ڈیموکریٹک پارٹی کا حامی ہے
جبکہ امرا ریپبلکن کو ووٹ دیتے ہیں۔
صوبائی مقننہ حلقہ بندی کرتے ہوئے غریب،
سیاہ فام ، ہسپانوی اور رنگدار اقلیتوں کو
کئی حلقوں میں تقسیم کردیتی ہیں جس سے ایک طرف تو انکی قوت تقسیم ہوجاتی ہےا ور
دوسری طرف انتخابات میں انھیں ووٹ ڈالنے
کافی دور جانا ہوتا ہے۔ بعض جگہ سیاہ فام
آبادی کے پولنگ اسٹیشن سفید فام
آبادی میں بنائے جاتے ہیں جہاں انتہا پسند
گورے انھیں ڈرا دھمکا کر ووٹ دینے سے بازرکھتے
ہیں۔ ان علاقوں کی نسل پرست پولیس دوسرے
علاقوں سے آنے والے سیاہ فام ووٹروں پر trespassing یا لوگوں سے چھیڑ چھاڑکے جھوٹے مقدمات بناکر
انھیں ہراساں بھی کرتی ہے۔
امریکہ کی 50 میں سے 30 ریاستوں میں
ریپلکن پارٹی کو ریاستی مقننہ میں واضح اکثریت حاصل ہے جبکہ صرف
12ریاستیں ڈیموکریٹک پارٹی کے قابو میں
ہیں۔
ڈیموکریٹک پارٹی ، سول
سوسائیٹی اور انسدادِ نسلی امتیاز
کے اداروں نے اس قبل از انتخاب یا Pre-poll دھاندھلی کے
خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکٹا یا تھا۔ جس پر سپریم کورٹ نے آج اپنا فیصلہ سنادیا۔ 4 کے مقابلے میں 5 ججوں کا کہنا ہے کہ حلقہ بندی
ریاستی مقننہ کی ذمہ داری ہے جس میں
سپریم کورٹ مداخلت نہیں کرسکتی۔ چیف جسٹس
جان رابرٹس نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ
سیاسی حلقہ بندی یا Gerrymandering ایک حقیقی
مسئلہ ہے لیکن یہ معاملہ سپریم کورٹ کے دائرہِ اختیار سے باہر ہے۔ اپنے اختلافی نوٹ میں جسٹس محترمہ ایلینا کیگن
نے کہا کہ آج کے فیصلے سے
جمہوریت کو نقصان پہنچے گا۔ جسٹس صاحبہ
نے تحریر فرمایا کہ انھیں فیصلے سے اختلاف
کرتے ہوئے افسوس ہورہا ہے لیکن (امریکہ
کیلئے) آزادانہ اور منصفانہ انتخاب سے
اہم کوئی چیز نہیں اور اخلاقی بنیادوں کو
تحفظ فراہم کرنا سپریم کورٹ کی ذمہ داری ہے۔ تین دوسرے ججوں نے جسٹس کیگن کے اختلافی نوٹ پر توثیقی دستخط کئے۔
احباب کی دلچسپی کیلئے عرض ہے کہ امریکہ کی سپریم کورٹ کے ججوں کی تقرری تاعمر ہوتی ہے یعنی امریکی
سپریم کے جج کبھی ریٹائر نہیں ہوتے۔
ججوں کا انتخاب امریکی صدر کرتے ہیں
لیکن حلف اٹھانے سے پہلے نامزدگی کی سینیٹ
سے توثیق ضروری ہے۔ امریکی سپریم کورٹ کا 9 رکنی
بنچ نظریاتی بنیادوں پر تقسیم ہے۔ 2016تک اس بنچ کے
4 جج دائیں بازو کے قدامت پسند،چار آزاد
خیال لبرل اور جسٹس
انتھونی کینیڈی متعدل اور نظریاتی اعتبار سے غیر جانبدار شمار ہوتے تھے۔
2016 میں ایک قدامت پسند جج انتھونی اسکیلیا انتقال کرگئے۔ یہ صدر اوباما کا دور
تھا لیکن سینیٹ میں ریپبلکن کی برتری تھی
اور سینیٹ کے قائد ایوان مچل مک کونل نے موقف اختیار کیا کہ یہ صدر اوباما کے اقتدار کا آخری سال ہے اور اس
دوران انھیں کوئی ایسا فیصلہ نہیں کرنا چاہئے جسکا اثر دوررس ہو۔چنانچہ انھوں نے
صدر اوباماما کے نامزد کردہ جج کی توثیق کیلئے سینیٹ کی سماعت ہی نہ ہونے دی۔ 2017 میں
حلف اٹھاتے ہی صدر ٹرمپ نے انتہائی قدامت پسند جسٹس نیل گورسچ کو جسٹس
اسکیلیا کا جانشین نامزد کیا جسکی ریپبلکن
سینیٹ نے توثیق کردی۔ اس توثیق میں بھی دھاندھلی ہوئی۔ ضابطے کے تحت توثیق کیلئے 60 ووٹ ضروری ہیں لیکن ریپبلکن کے پاس اتنے ووٹ نہ تھے چنانچہ ایک
قرارداد کے ذریعے توثیق کا نصاب سادہ
اکثریت یعنی 51 کردیا گیا۔ اس سکھا شاہی کو امریکی پارلیمانی اصطلاح میں Nuclear Optionکہتے ہیں۔ چنانچہ
جسٹس اسکیلیا کی جگہ نیل گورسچ کی تقرری سے امریکی سپریم کورٹ میں دائیں اور بائیں
کا نظریاتی توازن 4-4-1سے برابر رہا۔
ڈیموکریٹس اور لبرل امریکہ کی بدقسمتی سے جولائی 2018 میں نظریاتی طور پر غیر جانبدار
جسٹس انتھونی کنیڈی خرابی صحت کی بنا پر بنچ سے سبکدوش ہوگئے اور
صدر ٹرمپ نے اس نشست پر ایک انتہائی قدامت پسند جسٹس بریٹ کیونا Brett Kavanaghکو نامزد کردیا ور سینیٹ سے توثیق کے بعد امریکی
سپریم کورٹ میں 4 لبرل ججوں کے مقابلے میں قدامت پسندوں کی تعداد 5ہوگئی۔ آج ان ہی پانچ ججوں
نے Gerrymanderingکو ایک 'ناقابل (عدالتی) مداخلت' شر قراردیکر 2020 کی مردم شماری کے بعد کانگریس
کی نئی حلقہ بندی کو ریپبلکن کے حق میں یقینی بنادیا۔ کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں۔
No comments:
Post a Comment