ہم اپنے خواب کیوں بیچیں؟؟؟
کل یعنی 25 جون سے بحرین کے دارالحکمومت منامہ
میں فلسطین امن منصوبے کے سب سے اہم پہلو
کی رونمائی کی جائیگی جسے صدرٹرمپ نے فلسطینیوں کیلئے Deal of the centuryقراردیا ہے۔ اس کا لب لباب یہ ہے کہ
آزادی وخودمختاری کو بھول کر اسرائیل تسلط کے تحت اقتصادی سرگرمیوں کے ذریعے لوگوں کو
خوشحال بنادیاجائے۔ باقی رہی آزادی تو
میاں اصل چیز پیٹ ہے ۔ قومی حمیت، عزت، خودمختاری وغیرہ تو دیوانے
کا خواب ہے جسکی تعبیر میں تم اپنی نسلیں گنوا رہے ہو۔
لیکن سرپھرے
فلسطینیوں نے آزادی و استقلال کی فاقہ کشی
کو غلامی کی شکم پروری پر ترجیح دیتے ہوئے اس منصوبے کو یکسر مسترد کردیا ہے۔ آج
سارے فلسطین میں اس منصوبے کے خلاف مظاہرے
کئے گئے ۔ فلسطینیوں نے یکسو ہوکر Deal of the Centuryکو 'بحرین کی منحوس
بیٹھک' کا نام دیا ہے۔
فلسطینیوں کے جذبات
کی درست ترجمانی حضرت احمد فراز کی اس نظم
سے ہوتی ہے۔ آپ بھی ملاحظہ فرمائیں۔
فقیرانہ روش رکھتے تھے
لیکن اس قدر نادار ہم
کب تھے
کہ اپنے خواب بیچیں
ہم اپنے زخم آنکھوں
میں لئے پھرتے تھے
لیکن رو کشِ بازار ہم
کب تھے
ہمارے ہاتھ خالی تھے
مگر ایسا نہیں پھر
بھی
کہ ہم اپنی دریدہ
دامنی
الفاظ کےجگنو
لئے گلیوں میں آواز ہ لگاتے
'خواب لے لو خواب'
لوگو!
اتنے کم پندار ہم کب
تھے
ہم اپنے خواب کیوں بیچیں
کہ جن کو دیکھنے کی
آرزو میں
ہم نے آنکھیں تک
گنوادی تھیں
کہ جنکی عاشقی میں
اور ہوا خواہی میں
ہر ترغیب کی شمعیں
بجھادی تھیں
چلو ہم بے نوا
محرومِ سقف و بام
ودرٹہرے
چلو ہم بد مقدر بے
ہنر ٹہرے
پر اپنے آسماں کی داستانیں
اور زمیں کے انجم و
مہتاب کیوں بیچیں
خریدارو!
تم اپنے کاغذی انبار
لائے ہو
ہوس کی منڈیوں سے
درہم و دینار لائے ہو
تم ایسے دام تو ہر
بار لائے ہو
مگر تم پر ہم اپنے
حرف کے طاوس
اپنے خون کے سرخاب
کیوں بیچیں
ہمارے خواب بے وقعت
سہی
تعبیر سے عاری سہی
پر دل زدوں کے خواب
ہی تو ہیں
نہ یہ خواب ِ ز،لیخا
ہیں
کہ اپنی خواہشوں کے
یوسفوں پر تہمتیں دھرتے
نہ یہ خوابِ عزیزِ
مصر ہیں
تعبیر جن کی اس کے
زندانی بیاں کرتے
نہ یہ ان آمروں کے
خواب
جو بے آسراخلقِ خدا
کو دار پر لائیں
نہ یہ غارت گروں کے
خواب
جو اوروں کے خوابوں
کو تہہِ شمشیر کرجائیں
ہمارے خواب تو اہل
صفا کے خواب ہیں
حرفِ نوا کے خواب ہیں
مہجوردروازوں کے خواب
محصور آوازوں کے خواب
اور ہم یہ دولتِ
نایاب کیوں بیچیں
ہم اپنے خواب کیوں
بیچیں
No comments:
Post a Comment