Wednesday, June 5, 2019

ڈنمارک کےانتخابات میں مسلم مخالف انتہا پسندوں کو شکست


ڈنمارک کےانتخابات میں مسلم مخالف انتہا پسندوں کو شکست
  شمالی یورپ  کے ملک ڈنمارک کاسرکاری نام سلطنتِ ڈنمارک ہے یعنی یہاں ائینی بادشاہت ہے۔ ڈنمارک  شمالی بحراوقیانوس کی اس عمرانی ومعاشرتی اکائی کا حصہ ہے جسے Nordic Countriesکہا جاتا ہے۔ ڈنمارک کے علاوہ  فن لینڈ، آئس لینڈ، ناروے اور سویڈن بھی نارڈک کہلاتے ہیں۔ لسانی وثقافتی ہم آہنگی کی بناپر سلطنتِ ڈنمارک، سلطنتِ سوئیڈن اور سلطنتِ  ناروے کو Scandinavianممالک بھی کہا جاتا ہے۔ جزائر فرو  Faroe اور  گرین لینڈ Greenlandڈنمارک وفاق سے وابستہ آزادو خودمختار Countiesہیں۔ ڈنمارک دنیا میں زندہ  سور اور سور کے گوشت یعنی Porkکا سب بڑا برآمد کنندہ ہے۔
 58 لاکھ نفوس پر مشتمل اس ملک کی ایک ایوانی مقنہہ Folketingکہلاتی ہے جسکے لغوی معنی (Folk + Thing)عوام کی چیز کے ہوئے یعنی عوامی اسمبلی یا پارلیمان ۔ ڈینش پارلیمان 179 نشستوں پر مشتمل ہے جس میں سے 175 ارکان ڈنمارک سے منتخب ہوتے ہیں جبکہ جزائر فرو اور گرین  لینڈسے دو دو ارکان کو منتخب کیا جاتا ہے۔ سارے یورپ میں برطانیہ کے علاوہ  ہر جگہ انتخابات متناسب نمائندگی کی بنیاد پر ہوتے ہیں ۔ یعنی لوگ پارٹیوں کو ووٹ دیتے ہیں اور ہر پارٹی کے مجموعی ووٹوں کے تناسب سے پارلیمنٹ میں انکے لئے نشستین مختص کردی جاتی ہیں جسکی وجہ سے انکا انتخابی نطام Electables یا لوٹوں کی لعنت سے محفوظ ہے۔
 یورپ اور شمالی امریکہ کی طرح  ڈنمارک میں بھی اسلام فوبیا اپنے عروج پر ہے۔ یہاں مسلمانوں کی تعداد 6 فیصد کے قریب ہے یعنی مسیحیت کے بعد اسلام   دوسرابڑامذہب ہے اور دعوت و تبلیغ کے ساتھ کم عمری کی شادی کی بنا پر مسلمانوں کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے جس پر متعصب لوگوں خاص طور سے پیپلز پارٹی (DPP)اور نیورائٹ (New Right)پارٹی کو سخت تشویش ہے۔ DPPکے سربراہ  کرسچین ڈال کا کہنا ہے کہ اسلامی تہذیب و ثقافت پر اصرار کی  وجہ سے ڈینش مسلمانوں نے ملک کے اندر ایک اور ریاست قائم کرلی ہے اور وہ معاشرے میں ضم ہونے کو تیار نہیں۔ یہاں رہتے ہوئے بھی انکی وفاداری اور وابستگیاں  مشرق وسطیٰ کے ساتھ ہیں۔ انھوں نے وعدہ کیا تھا کہ برسراقتدار آکر وہ  غیر ملکیوں کی آمد کو نارڈک ممالک کے باشندوں تک محدود کردینگے یا تھوڑے بہت یورپیوں کو یہاں قیام کی اجازت ہوگی۔ نیورائٹ کی سربراہ محترمہ پامیلا ورمنڈ (Permille Vermund)بھی جناب ڈال کی ہم خیال تھیں اور انھوں نے ڈنمارک کی شناخت کی  بحالی کیلئے ہونے والی قانون سازی میں پیپلز پارٹی کی مکمل حمائت کا اعلان کیا ہے۔
آج ہونے والے انتخابات میں   ووٹ ڈالنے کا تناسب  70.3 فیصد رہا۔نتائج کے مطابق بائیں بازو کی طرف مائل حزب اختلاف کی سوشل ڈیموکریٹس 48 نشستوں کے ساتھ پہلے نمبرہے جبکہ حکمراں  ڈنمار ک لبرل پارٹی (Venstre)گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں بہتر کارکردگی کے باوجود   43 نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر آگئی۔ سب سے بھاری نقصان اسلام مخالف پیپلز پارٹی کا ہوا جسکی نشستیں 37 سے کم ہوکر 16 رہ گئیں۔ انکی اتحادی نیورائٹ  صرف 4 نشستوں پر کامیابی حاصل کرسکی۔ ڈینش مسلمانوں نے پیپلز پارٹی کو ہدف بنایا تھا اور لگتا ہے کہ اس بار انکا تیر نشانے پر لگا ہے۔سوشلسٹوں کی کارکردگی بھی بہت اچھی رہی اور انھوں نے گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں اپنا پارلیمانی حجم دگنا یعنی 14 کرلیا۔
خیال ہے کہ   ملکہ معظمہ مارگریٹ دوئم قائد حزب  اختلاف اور سوشل ڈیموکریٹس کی سربراہ محترمہ میٹ فریڈرک سن  Mette Frederiksen  کو حکومت سازی کی دعوت دینگی۔41 برس کی  میٹ    دائیں، بائیں، لبرل اور سوشلسٹ سب کو ملاکر ایک ایسی حکومت بنانے ککا عزم رکھتی ہیں جو عام لوگوں کے مفادات کیلئے کام کرے۔کہتی ہیں کہ مجھے عام آدمی  کی ضرورت کا اچھی طرح احساس ہے کہ میں اپنے 2 ننھے بچوں کی اکیلے پرورش کررہی  ہوں۔41 برس کی میٹ مطلقہ ہیں۔  نفرت و تعصب کا ایجنڈا  ناکام بنانے اور پیپلز پارٹی کو خاک  چٹانے پر ڈینش  عوام اور مسلمانوں کو دلی مبارکباد۔

   

No comments:

Post a Comment