سوڈان لہو لہو
پیر کو
جب ساری اسلامی دنیا عید کی تیاریوں میں مصروف
تھی سوڈان کے دارالحکومت خرطوم میں
قیامت ٹوٹ پڑی جب پرامن احتجاج
پر فوج نے گولی چلادی جس سے 30
افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے۔
ان
مظاہرین کا موقف بڑا سادہ سا ہے۔ یہ
لوگ اپنے حکمرانوں کا انتخاب خود کرنا چاہتے ہیں جبکہ فوجی جنتا کا اصرار ہے
کہ بلڈی سویلنیز کو کیا پتہ
ہمیں معلوم ہے کہ ملک کیلئے کیا
بہتر ہے۔
سوڈان گزشتہ 9 ماہ سے بے چینی کا شکارہے۔ اسکا آغاز اسوقت ہوا جب بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بیروزگاری سے تنگ آکر لوگ سڑکوں پر نکلے۔
صدر عمرالبشیر نےمطاہرین کی بات سننے کے بجائے ریاست بہت مضبوط ہے کا موقف اپنایا
اور بہت جلد 'ارحل یا عمرالبشیر' (عمراالبشیر صاحب ہماری جان چھوڑدیجئے)کا
نعرہ نوشتہ دیوار بن گیا۔ عوامی تحریک سے
فوج کے طالع آزماوں نے فائدہ اٹھایا اور 11 اپریل
کو عمرالبشیر معزول کرکے جیل بھیجدئے گئے۔ حسب معمول فوری انتخابات کا
اعلان ہوا لیکن تاریخ نہیں بتائی گئی اور اب ٹیکنوکریٹ حکومت تشکیل دینے کی بات
ہورہی ہے۔
دروغ
بر گردن راوی سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ ٹیکنو کریٹ کا ڈھول خلیجی شہزادوں MBSاور MBZنے جرنیلوں کو تھمایا
ہے۔ ان بانکوں کا خیال ہے کہ عرب دنیا میں
ووٹ،انتخاب اور جمہوریت جیسی بدعات اخوان المسلمون عام کررہی ہے ۔ مشرق وسطیٰ کا استحکام گولی و شمشیر کا مرہون
منت ہے پرچہ انتخاب کا یہاں کیا کام ؟
قتلِ عام کے باوجود سوڈانی اپنی جدوجہد ختم کرنے پر تیار
نہیں اور منگل کو سارے ملک میں زبردست
مظاہرے ہوئے۔دیکھنا ہے کہ صبر اور جبر کے مقابلے میں کون کامیاب ہوتا ہے۔
No comments:
Post a Comment