Friday, November 27, 2020

پاکستان اور اسرائیل کے خفیہ روابط۔۔ ایک جائزہ

ایک عرصے سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی مہم جاری ہے ۔ ممتاز صحافی اور روزنامہ جسارت کے کالم نگار جناب آصف جیلانی نے اس مہم کا قیام پاکستان کے وقت سے ایک تفصیلی جائزہ لیاہے۔ یہ چشم کشا تحریر روزنامہ جسارت نے 20 اگست کو شایع کی ہے۔ آصف جیلانی کا صحافتی تجربہ کئی دہائیوں پر محیط ہے۔ وہ امروز اور جنگ کے علاوہ بی بی سی پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔ انکے مضمون کا ایک خلاصہ پیش خدمت ہے:

·         1940کے تاریخی اجلاس میں جہاں  قرارداد پاکستان منظور ہوئی، قائد اعظم نے اپنے صدارتی خطبہ میں برطانیہ کو خبردار کیا تھا کہ فلسطینیوں کے خلاف جو سازش ہورہی ہے، اسے تسلیم نہیں کیا جائے گا اور ہندوستان کے مسلمان کسی صورت میں فلسطینیوں پر فوجی بل پر کوئی فیصلہ قبول نہیں کریں گے۔

قائداعظم کی زندگی ہی میں بابو لوگوں نے 'یوٹرن'کا آغاز کیا

·         اپریل 1948 میں ظفراللہ خان نے نیو یارک میں اسرائیل کے سابق صدر وائز مین اور اقوام متحدہ میں اسرائیل کے سفیر ابا ایبان سے ملاقات کی جس میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کے سوال پر بات چیت ہوئی

·         1957 میں ذوالفقار علی بھٹو نے اقوام متحدہ میں اسرائیلی مندوب شتابل روزینہ سے کھانے پر ملاقات کی تھی اور بقول شتابل روزینہ اس ملاقات میں مرحوم بھٹو نے کہا تھا کہ پاکستان کا مفاد اسی میں ہے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرلے کیونکہ اسرائیل اب ایک حقیقت ہے۔

·         جنرل ضیاء کے دور میں پہلی بار پاکستان اور اسرائیل کے درمیان انٹیلی جنس کے شعبے میں تعاون کا سلسلہ شروع ہوا۔ جنرل ضیاء نے آئی ایس آئی کو ہدایت کی تھی کہ وہ اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد کے ساتھ رابطہ قائم کرے

·         1993 میں وزیراعظم بینظیر بھٹو نے اس زمانے کے ڈایریکٹر ملٹری آپریشنز پرویز مشرف کو ہدایت کی تھی کہ وہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کے ساتھ آئی ایس آئی کے روابط تیز تر کردیں۔ بتایا جاتا ہے کہ اس ہدایت سے پہلے بینظیر بھٹو نے نیویارک میں اسرائیل کے ایک اعلیٰ ایلچی سے خفیہ ملاقات کی تھی

·         1998 میں نواز شریف نے ایک خفیہ ایلچی اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو سے ملاقات کے لیے تل ابیب بھیجا تھا۔ اس مشن کا مقصد اسرائیل کو یقین دلانا تھا کہ پاکستان اپنی جوہری ٹیکنالوجی ایران کو منتقل نہیں کرے گا۔نواز شریف نے دفتر خارجہ کو ہدایت کی تھی کہ اسرائیل سے متعلق پاکستان کی پالیسی پر نظر ثانی کی جائے۔اکتوبر 1998 میں صدر رفیق تارڑ نے اسرائیل کے صدر ایزر وائزمین ہاتھ ملاتے ہوئے مبینہ طور پر کہا تھا ’’آپ امن کے آدمی ہیں اور آپ سے ملاقات ایک بڑا اعزاز ہے‘‘۔ یہ ملاقات انقرہ کی ایک استقبالیہ تقریب ہوئی تھی۔

·         جون 2003 کی صدر بش اور مشرف کی کیمپ ڈیوڈ ملاقات کے بعد اسرائیل سے تعلقات کیلئے باقاعدہ مہم کا آغاز ہوا۔ مذاکرات کے بعد جس تیزی سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا معاملہ ابھرا، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جنرل مشرف اس مسئلے پر امریکی صدر سے وعدہ کر کے آئے تھے۔ کیمپ ڈیوڈ مذاکرات کے فوراً بعد پاکستان میں ایک نجی ٹیلی وژن چینل نے اس سوال پر ایک سروے کرایا۔جائزے کے مطابق پاکستانی عوام کی بڑی تعداد اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حق میں ہے۔سروے کے بعد پاکستان کے دفتر خارجہ نے اس سوال پر ایک خلاصہ تیار کیا جس میں یہ دلیل پیش کی گئی تھی کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات سے پاکستان کو سیاسی، فوجی اور اقتصادی فوائد حاصل ہوں گے۔

·         2005 میں پاکستان اور اسرائیل کے وزرائے خارجہ کے درمیان استنبول میں پہلی بار کھلم کھلا ملاقات ہوئی جس میں پاکستان کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے مسئلے پر غور کیا گیا تھا۔

·         2010 میں وکی لیکس نے امریکا کے اس سفارتی تار کا انکشاف کیا جس میں کہا گیا تھا کہ ’’ آئی ایس آئی کے سربراہ احمد شجاع پاشا نے واشنگٹن کے توسط سے اسرائیل کو خبردار کردیا تھا کہ ہندوستان پر دہشت گرد حملہ ہونے والا ہے۔ اسکے بعد  احمد شجاع پاشا کا موساد سے براہ راست رابطہ رہا

گویا سر ظفر اللہ، روشن خیال بھٹو اور انکی دختر نیک اختر، اسلامی خیال کے جنرل ضیاالحق،  چودھری برادران، بردہ فروش پرویز مشرف اور ووٹوں کو عزت دینے والے نوازشریف اسرائیل کے معاملے میں ہم خیال و پرعزم اور ایک پیج پر ہیں

اب وزیراعظم عمران خان نے غیر مبہم اعلان کیا ہے کہ ' فلسطین کے منصفانہ اور فلسطینیوں کیلئے قابل قبول حل تک پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کریگا' اللہ خانصاحب کو استقامت عطافرمائے



 

Thursday, November 26, 2020

افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا

افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا

ڈاکٹر صاحبان پریشان

18 نومبر کو امریکہ کے قائم مقام وزیر دفاع جناب کرسٹوفر ملر نے افغانستان اور عراق سے فوجیوں کی واپسی کا اعلان کردیا۔ جناب ملر نے کہا کہ اگلے سال  15 جنوری تک افغانستان میں تعینات امریکی فوج کی تعداد 2500 کردی جائیگی۔ صدر ٹرمپ اپنی 2016 کی انتخابی مہم کے وقت سے افغانستان کوامریکی فوج کےلئے دلدل اور ٹیکس دہندگان کیلئے بھاری بوجھ قرار دے رہے ہیں۔اپنے رفقا کی مجلس میں انھوں نے کئی بار کہاکہ کرپشن، سفارش اور اقرباپروری میں لتھڑی کابل انتظامیہ کیلئے تیزوطرار اور سخت جان ملاوں کو شکست دینا ناممکن ہے اور اپنے انا کے گنبد میں بند کابل کے ڈاکٹر (ڈاکٹر عبداللہ اور ڈاکٹر اشرف گنی)صاحبان کو  زمینی حقائق کا بالکل بھی ادراک نہیں۔ امریکہ کے زیر انتظام تعمیر نو کے کام پر نظررکھنے والی مقتدرہ 'اسپیشل انسپکٹر جنرل برائے افغان تعمیر نو یا CIGARنے تخمینہ لگایا ہے کہ افغانستان میں امریکی فوج کے قیام اور حکومت کی اعانت پر واشنگٹن ہر سال 70 ارب ڈالر خرچ کررہا ہے۔ اس رقم کا بڑا حصہ حکومتی اہلکاروں، جنرل عبدالرشید دوستم اور اسماعیل خان اور دوسرے قبائلی سرداروں کی جیب میں چلا جاتا ہے۔ افغان فوج میں منشیات کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ چرس و بھنگ خریدنے اور نشے کا شوق پورا کرنے کیلئے سرکاری سپاہی شہریوں کو لوٹنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ امریکی سراغرساں اداروں نے شک ظاہر کیا ہے کہ اٖفغان حکومت کے اہلکار اپنی جیبیں گرم کرنے کیلئے طالبان کو اسلحہ فروخت کررہے ہیں۔ کئی وارداتوں میں طالبان نے امریکی ساختہ ہموی بکتر بند گاڑیاں استعمال کی ہیں۔ ان میں سے کچھ تو مالِ غنیمت ہیں یعنی امریکی و نیٹو افواج سے چھینی گئی ہیں لیکن شمالی افغانستان میں استعمال ہونے والا زیادہ تر اسلحہ سرکاری فوج نے طالبان کو فروخت کیا ہے۔

اپنی تقریروں میں صدر ٹرمپ نے افغانستان پر امریکی حملے کو غیر ضروری اور سابق صدر بش کی بہت بڑی غلطی قرار دیاتھا۔قارئین کو یاد ہوگا کہ 11 ستمبر کو جب دہشت گردی کا واقعہ المعروف نائن الیون کا ظہور ہوا اور تو اسکے صرف 24 گھنٹے بعد ابتدائی تحقیق سے بھی پہلے امریکہ نے افغانستان پر حملے کا اعلان کردیا۔ اسوقت تک حملہ آوروں کی شناخت تو دور کی بات انکی تعداد کا تعین بھی نہیں ہوا تھا۔ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق جو 19 دہشت گرد اس خون آشامی کے ذمہ دار ٹہرائے گئے، ان میں سے ایک بھی افغانی نہ تھا۔صدر ٹرمپ اپنی تقریروں کے دوران اشاروں کنایوں میں اس حقیقت کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ عراق کے بارے میں تو صدر ٹرمپ بہت کھل کر کہتے ہیں کہ صدام حسین کی جانب سے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار یا WMDکا حصول  سابق صدر بش کا تصنیف کردہ سفید جھوٹ تھا۔   

صدر ٹرمپ کو افغانستان میں امریکی فوج کے کردار پر بھی سخت اعتراض ہے۔ انکاکہنا ہے کہ دشمن کا سر توڑنے کیلئے دلاوروں کو دوسرے ملک بھیجا جاتا ہے۔ انکا یہ کام نہیں کہ بیرکوں میں بیٹھ کر میزبان ملک کے فوجیوں کو تربیت دیں اور حکومتی عمال کو کرپشن سے پرہیز کے لیکچر اور اچھی طرز حکمرانی کے گر سکھائیں۔ وہ کہتے رہے ہیں کہ افغانستان میں امریکی فوج پولیس کا کردار اداکررہی ہے جو ہمارے جوانوں کے شایان شان نہیں۔ ایک بار جوش خطابت میں موصوف کہہ گئے کہ طالبان کو کچلنا نامکن نہیں  لیکن اسکے لئے جو کاروائی ضروری ہے اس میں ایک کروڑ افغان شہریوں کے مارے جانے کا امکان ہے۔

اقتدار سنبھالتے ہی انھوں نے امریکی فوج کو افغانستان 'فتح' کرنے کا آخری موقع دیا۔ اضافی فوجی دستوں کی تعیناتی کےساتھ  اپنے جرنیلوں کی منہ مانگی شرائط پوری کردیں اور فوجی حکمت عملی کے معاملے میں مکمل آزادی بلکہ قتل عام کا لائیسنس دیدیا گیا۔13 اپریل 2017 کو ننگرہار کے ضلع آچن پر انسانی تاریخ کا سب سے بڑا غیر جوہری بم GBU-43گرایاگیا۔اس  دیو ہیکل بم کا ٹیکنیکل نام Massive Ordnance Air Blast Bomb یا موب ہے لیکن ہلاکت خیزی کی بنا پر اسے 'بموں کی ماں' کہا جاتا ہے۔ ہمارے خیال میں تباہی پھیلانے والے اس منحوس و نامراد کو ماں کے بجائے ڈائن کہنا چاہے۔ 10 ٹن وزنی اور 30 فٹ لمبے اس بم کا قطر 40 انچ ہے جس کے پھٹنے پر دھماکے کی شدت 11 ٹن TNT کے مساوی ہے۔ ہیروشیماپر گرائے جانیوالے ایٹم بم کی تاثیر 15 ٹن TNTکے برابر تھی۔ غیر معمولی حجم اور وزن کی بنا پر اسے روائتی بمبار طیاروں میں نصب کرنا ممکن نہیں لہٰذا اسے C-130مال بردار طیارے سے پھینکا گیا۔امریکہ کے  گوداموں میں  ایسی 19 'ڈائنیں' اور موجود ہیں۔ دوسرے بموں کے برعکس GBU-43 سطح زمین سے 50 فٹ اوپر پھٹتا ہے اور 11 ٹن بارود کے قیامت خیز دھماکے سے انسانوں اور جانوروں کے کان کے پردے پھٹ جاتے ہیں اور  دماغ  ماوف ہوجاتے ہیں۔زیر زمیں  سرنگیں زمیں بوس ہوجاتی ہیں اور انہدام کا عمل ایسی برق رفتاری سے ہوتا ہے کہ خندقوں میں پناہ لینے والوں کو فرار تو دورکی بات سانس لینے کا موقع بھی نہیں ملتا اوریہ زیرزمین پناہ گاہیں قبرستان بن جاتی ہیں۔دھماکے سے اٹھنے والے شعلوں کی حدت ایک طرف تو 3 سے 5 کلومیٹر کے علاقے میں موجود ہر چیز کو جھلسا کر رکھ دیتی ہے تو دوسری جانب یہ خوفناک آگ فضا میں موجود آکسیجن کو پھونک دیتی ہے جس سے ہر متنفس کا دم گھٹ جاتاہے۔ آکسیجن کے فنا ہونے سے دھماکے کی جگہ پر ایک مہیب خلا پیداہوتا ہے اور قریب موجود لوگ کھچ کر آگ کے الاو میں گر پڑتے ہیں۔ پینٹاگون ( امریکی وزارت دفاع ) کا دعویٰ تھا کہ  اس حملے سے ایک بھی شہری متاثر نہیں ہوا۔ 'بموں کی ماں' نے چن چن کر صرف دہشت گردوں کو نشانہ بنایااور شہریوں کو اپنے دامنِ رحمت میں چھپالیا۔ ہندوستانی حکومت کے مطابق اس حملے میں بھارتی ریاست کیرالہ سے تعلق رکھنے والے 20 افراد بھی جاں بحق ہوئے جو مبینہ طور پر  لوگ داعش کی نصرت کو افغانستان گئے تھے۔

کھلی اجازت کے بعداس قسم کے وحشیانہ قوت قاہرہ کے آزادانہ استعمال سے شہری ہلاکتیں تو بڑھیں لیکن زمینی صورتحال میں کوئی فرق نہ آیا اور طالبان کو ان کے مورچوں سے ایک انچ بھی پیچھے نہ دھکیلا جاسکا،چنانچہ صدر ٹرمپ نے اپنی دوکان بڑھالینے کا فیصلہ کرلیا۔طالبان سے براہ راست مذکرات ہوئے اور 29 فروری کو فوجی انخلا کا معاہدہ طئے پاگیا جس کے تحت طالبان کی جانب سے واپس ہوتی نیٹو افواج کیلئے پر امن راستہ فراہم کرنے اور افغان سرزمین امریکہ یا کسی اور ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے کی یقین دہانیوں کے بدلے امریکہ نے نومبر تک اپنے فوجیوں کی تعداد 4 سے 5 ہزار تک کر لینے کا وعدہ کیا جبکہ مکمل انخلا کیلئے سے مئی 2021کا ہدف طئے ہوا۔

معاہدے پر دستخط ہوتے ہی امریکی سپاہیوں کی واپسی شروع ہوئی۔ اس دوران کرونا کی بناپر امریکی وزیردفاع نے فوجیوں کی نقل وحرکت روک دی تھی لیکن صدر ٹرمپ نے ایک خصوصی حکم کے تحت افغانستان سے انخلا کو استثنیٰ دیدیا۔ 24 جولائی کو امریکی مرکز دانش یونائٹیڈ اسٹیٹس انسٹی ٹیوٹ آف پیس یا USIPکی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے قطر امن بات چیت میں امریکی وفد کے قائد جناب خلیل زاد نے انخلا کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں امریکی فوج کی تعداد 15000 سے کم کرکے 8600 کردی گئی ہے اور بقیہ امریکی فوج کا انخلا جولائی 2021 تک مکمل کرلیا جائیگا۔ انھوں نے بتایا کہ امریکہ اپنے پانچ فوجی اڈے خالی کرچکا ہے۔خلیل زاد نے خالی کئے جانیوالے اڈوں کے نام نہیں بتائے لیکن عسکری حلقوں کا کہنا ہے کہ ہرات میں شین ڈنڈ، قندھار ائرپورٹ، ہلمند میں گرم سیر اورکیمپ لیدرنیک اور صوبہ نمروز کے شہر دلارام کے اڈے خالی کردئے گئے ہیں اور تمام نفری سمیٹ کرکابل کے قریب بگرام اڈے پر جمع کردی گئی ہے۔

8 اکتوبر کی صبح  ایک مختصر ٹویٹ میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ "ہمیں افغانستان میں خدمات سرانجام دینے والے اپنے بہادر مردو خواتین کو کرسمس تک واپس امریکہ بلا لینا چاہیے'۔اس سے چند گھنٹہ پہلے امریکی صٖدر کے مشیر برائے قومی سلامتی  رابرٹ اوبرائن نے جامعہ نواڈا، لاس ویگاس میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ آئندہ برس کے اوائل تک افغانستان میں امریکی فوج کی تعداد 2500 کردی جائیگی۔ انکا کہنا تھا کہ افغان دھڑوں کی امن معاہدے پر رضامندی طویل اور کٹھن ہے لیکن افغانوں کیلئے امن کا کوئی متبادل نہیں۔

چند دن بعد فاکس ٹیلی ویژن سے باتیں کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا کہ طالبان سمیت تمام افغان دھڑے امن کیلئے مخلص ہیں اور کچھ ہی عرصے میں امن معاہدے پر دستخط ہوجائینگے۔امریکی صدر کا خیال ہے کہ طالبان جنگ و جدل پر آمادہ، بہادر، مضبوط اور بہت تیز تو ہیں لیکن امن کیلئے انکے اخلاص پر شک کی کوئی وجہ نہیں۔ صدر ٹرمپ نےاپناموقف دہرایاکہ دوسروں کے جھگڑے میں اپنے بہادر جوانوں کو کبھی نہ ختم ہونے والی جنگ میں جھونک دینا سراسرحماقت ہے۔

امریکی انتخابات کی گہماگہمی میں افغانستان کا معاملہ کچھ پیچھے ہوتانظر آیا، لیکن زلمے خلیل زاد اور وزیرخارجہ مائک پومپیو قطر میں موجود طالبان قیادت سے رابطے میں رہے۔ بلکہ خود صدرٹرمپ نے فو ن پر طالبان کے نائب امیر ملا عبدالغنی برادر سے بات کی۔

انتخابات کے بعد جہاں صدر ٹرمپ نے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے عدالتی و عوامی جدوجہد کے آغاز کا عندیہ دیا وہیں فوجوں کی واپسی تیز کرنے کے لئےپنٹاگون کو ہدائت جاری کردی۔ شنید ہے کہ وزیردفاع مارک ایسپر افغانستان اور عراق سے فوجوں کی واپسی کے کام کو معطل کرکے مزید کاروائی نئی انتظامیہ کے قیام تک موخر کردینا چاہتے تھے جس پر صدر ٹرمپ نے انھیں بصد سامان رسوائی برطرف کردیا۔

اسی کے ساتھ انسداد دہشت گردی کے ڈائریکٹر کرسٹوفر ملر نے قائم مقام وزیردفاع کا منصب سنبھال لیا۔ قائم مقام اسلئے کہ امریکہ میں کابینہ کے ارکان کا تقرر سینیٹ کی توثیق سے مشروط ہے۔ نئی سینیٹ جنوری میں حلف اٹھائیگی جسکے بعد ہی  توثیق کی کاروائی کا آغاز ہوگا۔ صدرٹرمپ کی مدت صدارت 20 جنوری کو ختم ہورہی ہے چنانچہ لگتا ہے کہ جناب ملر قائم مقام کی حیثیت سے ہی سبکدوش ہوجائینگے۔ 55 سالہ سابق کرنل کرسٹوفر ملر ایک عسکری دانشور ہیں کہ موصوف افغانستان اور عراق  میں کمپنی کمانڈر رہ چکے ہیں اور ساتھ ہی انھوں نے امریکہ کی موقر جامعہ  جارج واشنگٹن سے امتیاز کیساتھ بی اے بھی کیا ہے۔

اپنی تقرری کے فوراً بعد فوج کے نام ایک یادادشتِ عام یا Memoمیں انھوں نے کہاکہ القاعدہ کی شکست نوشتہ دیوار ہے  چنانچہ ہمارے جوانوں کے گھر واپس آنے کا وقت آچکا ہے۔ اپنے میمو میں کرنل ملر نے کہا کہ ہمارے بہت سے جوان  طویل جنگ سے تھک گئے ہیں، ان میں سے ایک میں بھی ہوں۔ تاہم ہمیں چوکس رہنے کی ضرورت ہے کہ اب ہمارا کردار قیادت سے اعانت میں تبدیل ہورہا ہے۔ میمو میں کہا گیاکہ جنگ کا خاتمہ معاہدے پر ہوتا ہے اور اس حوالے سے ہماری پیشرفت تسلی بخش ہے۔واشنگٹن کے عسکری ماہرین نے میمو کو   کرسمس سے پہلے افغانستان و عراق سے مکمل فوجی انخلا کا عندیہ قراردیا تھا جسکی تصدیق چند ہی دن بعد ہوگئی جب وزیرموصوف نے افغانستان میں امریکی سپاہیوں کو تعداد کو 2500 کرنے کا باضابطہ حکم جاری کردیا۔

خیال ہے کہ امریکی فوج کی یہ  مختصر نفری اب کابل ائرپورٹ، امریکی سفارتخانے اور بگرام بیس کی حفاظت پر معمور ہوگی۔اسی دوران امریکی وزیرخارجہ مائک پومپیو قطر پہنچے اور یہی پیغام افغان مذاکراتی ٹیم کو بھی پہنچادیا گیا۔ پیغام بڑا سادہ اور واضح ہے کہ “میاں خوش رہو ہم دعا کرچلے” یعنی اب تم جانو اور ملا، بلبل نے آشیانہ چمن سے اٹھالیا۔ فوجی انخلا کے اس دوٹوک اعلان کے بعد کابل میں سراسیمگی کے آثار واضح ہیں۔افغان حکومت کو معلوم ہے کہ غیر ملکی فوج کے انخلا کے بعد منشیات کی لت میں مبتلا انکے سپاہیوں کیلئے طالبان کا مقابلہ ناممکن حد تک مشکل ہے۔ معاملہ صرف عسکری اعانت کا نہیں بلکہ اب کابل پرڈالروں کی بارش بھی تھمنے کو ہے اور اگر ایسا ہوا تو کابل سرکار کے لئے اپنے ملازمین کیلئے تنخواہ دینا بھی ممکن نہ ہوگا۔ 19 سال سے برستے امریکی من و سلوٰی نے عادتیں بگاڑدی ہیں اور انکے لئے نئی حقیقت کا سامنا اتنا آسان نہ ہوگا۔ یورپی یونین نے کابل انتظامیہ کی مالی و عسکری اعانت برقرار کا وعدہ کیا ہے تاہم کرونا وائرس کی وبا سے ان ملکوں کی معیشتیں شدید دباو میں ہیں اور یورپ کیلئےبڑی رقم کی فراہمی ممکن نظر نہیں آتی۔ازبک جنگجو رہنما عبدالرشید دوستم نے طالبان کا مقابلہ کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے لیکن کابل کے ڈاکٹر صاحبان کو دوستم کی صلاحیت اور نیت دونوں ہی مشکوک لگ رہی ہے۔

قطر میں ہونے والی سرگرمیوں سے اندازہ ہوتاہے کابل کا وفد طالبان کی شرائط پر مذاکرات کیلئے تیار ہوگیاہے۔ 21 نومبر کو سرکاری وفد کی رکن محترمہ فوزیہ کوفی نے کہاکہ کئی ہفتوں کے تعطل کے بعد وفود کی شکل میں ہونے والے مذاکرات  آگے بڑھتے نظر آرہے ہیں اور ایجنڈے کے کچھ نکات پر اتفاق ہوگیا ہے۔فوزیہ صاحبہ پر امید ہیں کہ طالبان جنگ بندی پر رضامند ہوجائنگے۔

جیسا کہ ہم اس سے پہلے ایک نشست میں عرض کرچکے ہیں۔ قطر مذاکرات کے دونوں فریق گفتگو کے ابتدائیہ پر ہی یکسو نہیں۔ طالبان کا اصرار ہے کہ فروری میں ہونے والے طالبان امریکہ معاہدے کو بین الافغان مذاکرات کی بنیاد بنایا جائے۔ اسکی تشریح کابل وفد کے خیال میں یہ ہے کہ قطر بات چیت، طالبان سے مراعات کیلئے کابل انتطامیہ کی منت سماجت ہے چنانچہ ڈاکٹر صاحبان بین الافغان مذاکرات سوداکاری کے انداز میں کرنا چاہتے ہیں یعنی طالبان کو شرکت اقتدار، قیدیوں کی رہائی اور پابندیوں کے خاتمے  کے عوض ہتھیار رکھنےو اور افغان دستور کی غیر مشروط  وفاداری پر آمادہ کیا جائے۔ پچھلے ہفتے ڈاکٹر اشرف غنی نے کہا کہ امریکی معاہدے کے بجائے قرآن و شریعت کو بات چیت کی بنیاد بنایا جائے۔ ڈاکٹر صاحب نے وضاحت نہیں کہ اس سے انکی کیا مرادہے۔

ادھر میدان میں طالبان کی عسکری سرگرمیاں جاری ہیں۔ تقریباً سارے افغانستان میں انھوں نے کابل فوجوں کو نشانے پر رکھ لیا ہے اور ایک اندازے کے مطابق دو سے تین درجن سرکاری فوجی ہر روز مارے جارہے ہیں۔ حال ہی میں طالبان نے ڈرون کا استعمال بھی شروع کردیاہے جس سے انکی کاروائیاں مزید مہلک ہوگئی ہیں۔ مولوی حضرات بہت ہی صراحت ے ساتھ کہہ چکے ہیں کہ امن معاہدے سے پہلے وہ اپنے ہتھیار نہیں رکھیں گے۔ سفارتی حلقوں کا کہنا ہے کہ بات چیت کیساتھ حملے جاری رکھ کر طالبان یہ تاثر دے رہے ہیں کہ امن بات چیت ڈاکٹر صاحبان کی مجبوری ہے۔ طالبان میز اور میدان دونوں جگہ بہتر پوزیشن میں ہیں۔فوجی انخلا اور اسکے نتیجے میں نئی زمینی حقائق افغاں حکومت کے بدلتے تیور سے بھی عیاں ہیں۔ پاکستانی وزیراعظم عمران خان کے دورہ کابل  اور اس دوران اشرف غنی کی نرم و شیریں گفتگو کو سیاسی و سفارتی مبصرین بہت اہمیت دے رہے ہیں۔

دوسری طرف امریکہ کے قدامت پسند عناصر اپنی فوج کی واپسی کو شکست قراردےرہے ہیں۔ سینیٹ کے قائد ایوان سینیٹر مچ مک کانل نے کہا کہ فوجی انخلا دہشت گرد انتہا پسندوں کیلئے  اچھی خبر ہے۔ صدر ٹرمپ کے سابق مشیر قومی سلامتی جنرل مک ماسٹر نے ابھی فوجی انخلا پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس سے افغانستان کے 5 فیصد طالبان خوش اور 95 فیصد عوام کو مایوسی ہوئی ہے۔جنرل مک ماسٹر سے صدر ٹرمپ کی اس سے قبل بھی جھڑپ ہوچکی ہے۔جب صدر ٹرمپ نے پہلی بار  افغانستان سے فوجی واپس بلانے کی بات کی اسوقت جنرل مک ماسٹر انکے مشیر قومی سلامتی تھے۔ جب جنرل صاحب نےافغانستان میں  امریکی فوج رکھنے کی تزویراتی اہمیت بیان کی  تو صدر ٹرمپ نے مبینہ طور پر انھیں ڈانٹ پلادی۔ اس توہین پر جنرل مک ماسٹر نے  استعفے دیدیا۔ صدر ٹرمپ کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ جنرل صاحب کو   برطرف کیا گیاتھا۔

انا کے قتیل صدر ٹرمپ پہلے بھی اپنی رائے سے اختلاف کرنے والوں کو کسی خاطر میں نہ لاتے تھے اور اب جبکہ انکی رخصتی کو چند ہفتے باقی رہ گئے ہیں وہ کیوں کسی کی سنیں گے؟ نومنتخب صدر جو بائیڈن مکمل فوج انخلا سے پہلے افغانستان میں امن کو یقینی بنانا چاہتے ہیں لیکن انکے اقتدار سنبھالنے سے پہلے ہی وہاں امریکی فوجوں کی تعداد 2500 ہوچکی ہوگی۔ اس مختصر افرادی قوت کیساتھ طالبان سے عسکری تصادم چچا سام کے حق میں نہ ہوگا اور نئی انتظامیہ کیلئے ٹرمپ افغان پالیسیوں کا تسلسل ہی منظقی معلوم ہوتا ہے۔ 

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 27 نومبر


2020

 

Wednesday, November 25, 2020

امریکہ کی پہلی خاتون وزیرخزانہ

امریکہ کی پہلی خاتون وزیرخزانہ

نومنتخب امریکی صدر جو بائیڈن  نے ڈاکٹر جینیٹ ییلین Janet Yellenکو وزیرخزانہ نامزد کردیا۔ وہ امریکہ کی پہلی خاتون وزیرخزانہ ہونگی۔ جینیٹ ییلین اور انکے شوہر گزشتہ 30 سال سے جامعہ کیلی فورنیا میں درس و تدریس کے فرایض سرانجام دے رہے ہیں۔ دونوں میاں بیوی سیاسی اعتبار سے آزاد خیال لیکن راسخ العقیدہ یہودی ہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ کو 2014 میں صدر اوباما نے فیڈرل ریزرو (اسٹیٹ بینک) کا سربراہ نامزد کیا تھا۔وہ فیڈرل ریزرو کی پہلی خاتون سربراہ تھیں۔ اس اعتبار سے ہم پاکستانی امریکہ سے آگے رہے کہ ہمارے یہاں آزادی کے 71 سال بعد 2018 میں ڈاکٹر شمشاد اختر اسٹیٹ بینک کی پہلی خاتوں گورنر تعینات ہوئیں جبکہ امریکیوں نے اس باب میں صنفی مساوات کا سفر 244سال میں طئے کیا

ابتدائی تعلیم کے بعد جینیٹ ییلن نے جامعہ ییل Yaleسے پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی اور جامعہ ہارورڈ میں اسسٹنٹ پروفیسر مقرر ہوئیں۔ مشہور ماہر معاشیات جارج ایکلوف سے شادی کے بعد دونوں میاں بیوی نے لندن اسکول آف اکنامکس میں تدریس و تحقیق کا سلسلہ شروع کیا۔ 1980 میں ڈاکٹر ییلین امریکہ واپس آکر جامعہ کیلی فورنیا برکلے سے وابستہ ہوگئیں اور اس جامعہ سے انکا تعلق اج تک قائم ہے۔

1997 میں صدر بل کلنٹن نے ڈاکٹر صاحبہ کو اقتصادی مشیروں کی کمیٹی کا رکن نامزد کیا۔ 2010 میں انھیں فیڈرل ریزرو کا نائب اور 2014 میں سربراہ بنادیا گیا۔ سینیٹ سے توثیق کے دوران ڈاکٹر صاحبہ کو قدامت پسندوں کی طرف سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ تلخ و تیز بحث مباحثے کے بعد 26 کے مقابلے میں 56 ووٹوں سے انکی توثیق ہوگئی جو امریکی تاریخ میں فیڈرل ریزرو کے سربراہ کیلئے سخت ترین رائے شماری تھی۔ 2018 میں انکی چار سالہ مدت مکمل ہونے پر صٖدر ٹرمپ نے تجدید کے بجائے انھیں سبکدوش کردیا۔

ڈاکٹر صاحبہ ایسے وقت میں امریکی وزارت خزانہ سنبھالیں گی جب کرونا کی وجہ سے امریکی معیشت سخت دباو میں ہے۔عام لوگوں کو بھوک و بیروزگاری کے عذاب سے نمٹنے کیلئے Stimulus Packageکی شکل میں سرکار کی جانب سے مالی اعانت کی توقع ہے جبکہ آزادمعیشت کی علمبردار ییلن صاحبہ fiscal disciplineیااقتصادی نظم و ضبط کی تلقین کر رہی ہیں۔

بلاشبہ اپنی قابلیت، صلاحیت اور تجربے کی بنا پر ڈاکٹر صاحبہ اس منصب کیلئے بہت ہی مناسب ہیں لیکن ڈیموکریٹس اور ریپبلکن کے درمیان شدید کشیدگی کی بناپر توثیق کے دوران سخت مخالفت کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ اگر سینیٹ کے ضمنی انتخاب میں ڈیموکریٹس دونوں نشستیں جیتنے میں کامیاب نہ ہوئے تو وہ ایوان کی اقلیتی جماعت بن جائینگے اور اس صورت میں ڈاکٹر صاحبہ کی توثیق ریپبلکن پارٹی کے رحم و کرم پر ہوگی۔



 

امریکی ادارہ سراغرسانی کی مجوزہ سربراہ! انسانی حقوق کے حوالے سے تحفظات

امریکی ادارہ سراغرسانی کی مجوزہ  سربراہ! انسانی حقوق کے حوالے سے تحفظات  

امریکہ کے نومنتخب صدر جو بائیڈن نے محترمہ ایورل ہینز Avril Hainesکو ڈائریکٹر برائے نیشنل اینٹلیجنیس نامزد کیا ہے۔ 51 سالہ ایورل  کا دعویٰ ہے کہ وہ اپنے باس کی ہاں میں ہاںملانے والی نہیں بلکہ اپنے علم و عقل اور ضمیر کے مطابق فیصلے کرتی ہیں۔ ایورل،  اوباماانتظامیہ میں قومی سلامتی کی نائب مشیر رہ چکی ہیں۔یہودی مذہب سے تعلق رکھنے والی ایورل نے جامعہ شکاگو سے  طبعیات (Physics) میں بی اے کرنے کے بعد کافی عرصہ کار میکینک کے طور پر کام کیا۔ اس دوران انھوں نے ہوائی جہاز اڑانے کی تربیت بھی لی۔کچھ عرصہ بعد  انھوں نے قانون کی تعلیم کے موقر ادارے جامعہ جارج ٹاون سے قانون کی سند حاصل کی اور  ہیگ کی عالمی عدالت  میں وکالت کا شوق پورا کیا۔اسکے بعد انھوں نے  وفاقی جج کے دفتر میں بطور کلرک کام کرکے قانون پر اپنی گرفت مضبوط کرلی۔

تین سال تک امریکی  وزارت خارجہ میں بطور قانونی مشیر کام کرنے کے بعد وہ  سینیٹ کی مجلس قائمہ برائے خارجہ امور میں ڈیموکریٹک پارٹی کی قانونی مشیر رہیں۔ اسوقت  نائب صدر کی حیثیت سے جو بائیڈن  سینیٹ کے سربراہ تھے۔ 2013 میں صدر اوباما نے انھیں سی آئی اے کا ڈپٹی ڈائریکٹر مقرر کیا اور اوباماصدارت کے آخری دوسال انھوں نے نائب مشیر برائے  قومی سلامتی کے فرائض انجام دئے۔ایورل کی جانب سے صدر ٹرمپ کی نامزد کردہ سی آئی اے ڈائریکٹرمحترمہ جیناہیسپل Gina Haspel کی حمائت امریکہ میں انسانی حقوق کے علمبرداروں کیلئے تشویش کا سبب بنی تھی۔اس پس منظر پر چند سطور

 جیناہیسپل صاحبہ سی آئی اے کی ملازمت کے دوران زیرحراست افراد پر تشدد کیلئے مشہور تھیں۔ سی آئی اے نے پاکستان سمیت دنیا بھر میں زیرزمین عقوبت کدے قائم کررکھے ہیں جنھیں Black Sitesکہا جاتا ہے۔ پاکستانی خفیہ اداروں کے عقوبت کدے Safe Housesکہلاتے ہیں اور کئی مقامات پر سی آئی اے کے تعاون سے مشترکہ ٹارچر سینٹر بھی کام کررہے ہیں۔ پاکستانی عقوبت کدوں کا ذکر بر سبیل تذکرہ یہاں آگیا کہ طالبان کے سابق سفیر ملاعبدالسلام ضعیف نے اپنی یادداشت میں اس پر گفتگو کی  ہے۔

محترمہ ہیسپل صاحبہ تھائی لینڈمیں  چشم گربہ یا Cat’s Eyes کے خفیہ نام سے ایک بلیک سائٹ کی انچارج تھیں۔ چشم گربہ میں مبینہ طور پر  مصری فوج کے جلاد تعینات کئے  گئے  جنھیں اخوانیوں پر تشدد کا تجربہ تھا۔ چشم گربہ میں 'دہشت گردوں' کی لب کشائی کیلئے جو حربے استعمال کئے گئے انکے تصور سے ہی  رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں جن میں بجلی کے جھٹکے، ناخن کھینچنا اور بدنام زمانہ واٹر بورڈنگ شامل ہیں۔امریکی سینیٹ نے بھی واٹربورڈنگ کو غیر انسانی تشدد قراردیا ہے

انسانی حقوق کے اعتبار سے مشکوک ماضی کی بناپر ریپبلکن پارٹی کے سینئر رہنما سینیٹر جان مک کین نے جیناہیسپیل کی نامزدگی کی شدید مخالفت کی لیکن ایورل ہینز نے یہ سب کچھ جانتے ہوئے  اور پارٹی پالیسی کے برخلاف جیناہیسپل کی حمائت میں بیان جاری کیا۔ حالانکہ ریپبلکن پارٹی کے  دوانتہائی قدامت پسند  رہنماوں سینیٹر  جیک فلیک اور ران پال نے توثیق کیلئے ہونے والی رائے شماری میں جینا کے خلاف ووٹ دیا۔ سینیٹر مک کین بیماری کی وجہ سے رائے شماری میں موجود نہ تھے لیکن انھوں نے ہسپتال سے اپنے ایک بیان میں کہا اگر وہ ایوان تک  آسکتے تو جینا کے خلاف ووٹ دیتے۔

ایورل  پر انسانی حقوق کی خلاف وزری کے حوالے سے کوئی الزام نہیں لیکن ایک وحشی صفت خاتون کی سی آئی اے جیسے حساس ادراے کیلئے انکی حمائت  نے ایورل کی  ترجیحات اور اقدار کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کردئے ہیں۔ مسلمانوں اور رنگدار اقلیت کے حوالے سے امریکی سراغرساں اداروں کا کردارماضی میں بہت اچھا نہیں رہا۔  نائن الیون کے بعد مساجد کی خفیہ نگرانی اور سطحی  نوعیت  کے  ترسیمی جائزوں(profiling) اور متعصبانہ رپورٹنگ  کی بنیاد پر مسلم نوجوانوں کی گرفتاریوں کے بہت سے واقعات ہوئے ہیں اور ان چیرہ دستیوں سے خیراتی ادارے بھی محفوظ نہیں رہے

جو بائیڈن نے  انتخابی مہم کے دوران  سب کایعنی inclusive Americaکا وعدہ کیا تھا لیکن  وزیرخارجہ کیلئے جنگجو صفت   ٹونی بلنکن  اور اب  قومی سراغرساں ادارے  کی سربراہی کیلئے ایورل  ہینز کی نامزدگی سے اقلیتیں تحفظات کا شکار ہورہی ہیں۔