Thursday, November 19, 2020

جنھیں جرمِ عشق پہ ناز تھا وہ گناہگار چلے گئے

جنھیں جرمِ عشق پہ ناز تھا وہ گناہگار چلے گئے

حضرت علامہ خادم حسین رضوی انتقال کرگئے۔ضلع اٹک کے تکہ توت میں جنم لینے والے علامہ رضوی نے زندگی کی صرف 54 بہاریں دیکھیں۔ علامہ صاحب نے پہلےکیا کارنامے انجام دئے اسکا علم نہیں۔ لیکن گزشتہ چند سالوں کےدوران  خادم رضوی نے ناموسِ رسالت اور تحفظ ختم نبوت کیلئے جس دلسوزی سے کام کیا اس نے ہمیں انکا گرویدہ بنادیا۔ حرمت رسول کے بارے انکے دو ٹوک رویئے نے شرفا، عمران خان اور زرداری تینوں کو انکا جانی دشمن بنادیا تھا۔

عمران سرکار نے تو درندگی کی ساری حدود پارکرلی جب گرفتار کرتے ہوئے دونوں پیروں سے معذور شخص کو دوسری منزل سے سیڑھیوں پر دھکا دیدیا گیا۔ قید کے دو ران بھی انھیں اور انکے ساتھیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ انکے ایک قریبی ساتھی مفتی محمد یوسف حافظ آباد جیل میں انتقال کرگئے۔ 90 برس کے مفتی صاحب ذیابطیس انسولین پر تھے۔ قید کے دوران انسولین تو ایک طرف انھیں عام دوائیں بھی نہ دی گئیں اور اس ضعیف نے تڑپ تڑپ کر جان دیدی۔ ستم ظریفی کے سراج الحق کے علاوہ کسی سیاسی رہنما نے اس ظلم عظیم پر آواز  تک بلند نہ کی۔

علامہ رضوی کا سب سے بڑا کارنامہ پروفیسر عاطف کے تقرری کی منسوخی ہے۔ کچھ مخصوص عناصر 1953کا دور واپس لانا چاہتے تھے لیکن علامہ نے بھرپور تحریک چلاکر یہ فیصلہ تبدیل کروایا۔ علامہ رضوی نے اپنی پوری زندگی گستاخوں اور قلعہِ ختم نبوت پر نقب زنی کرنے والوں کے تعقب کیلئے وقف کررکھی تھی۔

لوگوں کو علامہ صاحب کی ناشائستہ زبان پر اختلاف ہے، یہ انداز ہمیں بھی ناپسند تھا لیکن انکا ہدف اللہ اور رسول کے دشمن تھے اور یہ ناشائستگی ان لوگوں کے خلاف تھی جو ہمارے آقا کی توہین کرکے مذہبی دہشت گردی کے مرتکب ہورہے ہیں۔

اب جبکہ علامہ صاحب اپنی کتابِ زندگی سمیٹ کر اپنے اُس رحیم و شفیق رب کے پاس پہنچ چکے ہیں جو چھوٹی چھوٹی نیکیوں پر بڑے اجر عطافرماتا ہے اور بڑے بڑے گناہوں کو بکمالِ مہربانی معاف فرمادیتا ہے۔

ائے ہمارے رب اس فقیر سے نرمی و درگزر کا معاملہ فرمائیے۔ آپکے اس بندے کو آپکے رسول اور اصحابِ رسول سے عشق تھا۔ اس 'الزام' پر علامہ کو بری طرح جھڑکا گیا اور اس معذور شخص نے ناموس رسالت کی خاطر تذلیل سہی۔ ائے ہمارے رب اسکا بہترین اجر علامہ صاحب کو عطا فرمائیے۔


 

No comments:

Post a Comment