افغانستان میں بدامنی کی نئی لہر کا خطرہ
افغانستان کے جنگجو رہنما اور خود ساختہ فیلڈ مارشل عبدالرشید دوستم نے حکومت کو پیشکش کی ہے کہ اگر انھیں فوج کی سربراہی سونپ دی جائے تو وہ طالبان کو کچل سکتے ہیں۔شمالی صوبے فاریاب کے ضلع قرم قل میں اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے دعویٰ کیا کہ انکے 5000 تربیت یافتہ سپاہی ملاوں کو چھٹی کا دودھ یاد دلاسکتے ہیں۔ 66 سالہ ازبک نژاد دوستم نے ایک دوجماعتیں ہی پڑھی ہونگی کہ لڑائی جھگڑے پر انھیں اسکول سے نکال دیاگیا۔دوستم نے بھتہ خوری کا آغاز شبرغن ریفائنری مزدور یونین سے کیا۔اس دوران انھوں نے ہڑتال کی دھمکی دیکر انتظامیہ سے خوب مال بٹورا ساتھ ہی شہر میں دوکانداروں کو ہراساں کرکے اضافی مال کمایا۔جلد ہی انکا ایک مضبوط جتھہ بن گیا اور تقریباً 20 ہزار سے زیا دہ مجرم پیشہ افراد انکے گروپ سے وابستہ ہوگئے۔کچھ دن بعد دوستم فوج میں بھرتی ہوگئے اور عسکری مالخانے سے اسلحہ چراکر اپنی نجی ملیشیا کو مسلح کردیا۔
اسی دوران روسی فوجیں افغانستان میں داخل ہوگئیں اور دوستم نے سرخ پرچم تھام لیا۔ شیرِ پنجشیراحمد شاہ مسعود نے دوستم ملیشیا کو مار مار کر جوزجان تک محدود کردیا۔ تاہم انھوں نے مال کمانے کا نیا سلسلہ ڈھونڈ لیا اور شبر غن سے گزرنے والی مرکزی شاہراہ پر ناکہ لگاکر لوٹ مار شروع کردی۔ دوستم کے روسی کٹھ پتلیوں سے اچھے تعلقات تھے۔ آخری روس نواز صدر نجیب اللہ نے انھیں ہیرو آف ریپبلک کا اعزاز دیا۔
روس کی پسپائی پر وہ فارسی بانوں کے رہنما بن گئے۔ حکمتیار اور برہان الدین ربانی کی مخالفت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انھوں نے شمالی افغانستان پر گرفت مضبوط کرلی۔ طالبان کی پیشقدمی پر موصوف فرار ہوکر ترکی چلے گئے۔ نائن الیون کے بعد جب امریکہ نے افغانستان پر حملے کا فیصلہ کیا تو قرعہ فال دوستم کے نام نکلا جو خود کو جنرل دوستم کہلواتے تھے۔ دوستم سی آئی اے اور ایرانی خفیہ ایجنسی کی نگرانی میں واپس آئے۔ ایرانی اسلحے سے لیس انکے دستے نے امریکی چھاتہ برداروں کے بحفاظت اترنے کا انتظام کیا جسکے بعد امریکی فوجیں تو کابل کی طرف روانہ ہوئیں اور دوستم نے شمالی علاقوں میں قتل عام کابازار گرم کردیا۔اس میں سب سے مشہور قلعہ جنگی کا واقعہ ہے جب انکی گلم جم ملیشیا نے غیر ملکی مجاہدین کو سنگینیں بھونک کر ہلاک کیا۔
یہاں موجود طالبان نے شدید مزاحمت کی۔ دوستم نے اپنی اہلیہ کو بطور ایلچی بھیج کر پیغام دیاکہ اگر یہ لوگ ہتھیار ڈالدیں تو انھیں جنگی قیدی بناکر جینیوا کنونشن کے تحت تحفظ فراہم کیا جائیگا۔ طالبان انکی باتوں میں آگئے اور ہتھیار رکھدئے۔ دوستم ملیشیا نے ان طالبان کو، جنکی اکثریت 17 اٹھارہ سال کے بچوں پر مشتمل تھی کنٹینروں میں ٹھونس دیا اور 2000 سے زیادہ بچے بھوک پیاس اور دم گھٹنے سے جاں بحق ہوگئے۔ شبر غن گیس پلانٹ کے قریب دشت لیلٰی کی پہاڑیوں پر انکی قبریں ہیں جہاں مقامی لوگ سفید چادریں چڑھاکر عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔
جنرل دوستم کو سیاست سے بھی دلچسپی ہے۔ 2014 کے صدارتی انتخابات میں ڈاکٹر اشرف غنی نے انھیں نائب صدر کا امیدوار نامزد کیا۔ دوستم نے ٹھپے بازی کی مدد سے ڈاکٹر صاحب کو کامیابی دلادی۔ اشرف غنی کے مخالف امیدوار ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔امریکہ کے دباو نے انھیں شرکت اقتدار پر رضامند کردیا اور عبداللہ عبداللہ کے لئے چیف ایکزیکیوٹیو کا منصب تراش لیا گیا۔ دوستم کی بھتہ خوری اور بلیک میلنگ سے ڈاکٹر اشرف غنی بہت پریشان تھے چنانچہ انھوں نے امریکہ سے شکائت کی اور چچاسام کی سرزنش پر دوستم استعفیٰ دیکر دوبارہ ترکی چلے گئے۔
گزشتہ انتخابات سے پہلے وہ واپس تشریف لائے اور اس بار انھوں نے عبداللہ عبداللہ پر ہاتھ رکھا۔ انتخابات کا نتیجہ اس بار بھی متنازعہ رہا۔ دوستم کی شہہ پر ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے متوازی حکومت قائم کرلی اورامریکہ بہادر نے ایک مرتبہ پھر صلح کرادی۔ اس بار فرمانبرداری کے عوض ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کو امن مذاکرات کی سربراہی عطا ہوئی۔ عبدالرشید دوستم فوج کے سربراہ بننا چاہتے تھے لیکن افغان فوج میں اسکے خلاف مزاحمت تھی چنانچہ پیرانہ سالی کی بناپر ان سے معذرت کرتے ہوئے دوستم کو مارشل کا اعزازی عہدہ عطا ہوا۔
سیاسی و عسکری حلقوں کا خیال ہے کہ امریکی فوجوں کی واپسی سے کابل انتطامیہ جس خوف میں مبتلا ہے، جنرل دوستم اس سے فائدہ اٹھانے کیلئے اسلحہ اٹھانے کی پیشکش کررہے ہیں۔ امریکی وزیردفاع کے مطابق پندرہ جنوری تک افغانستان میں امریکی فوج کی تعداد 2500 رہ جائیگی۔ اس مختصر سی نفری کیساتھ امریکہ طالبان سے پنگا لینے کی کوشش نہیں کریگا اور خیال ہے کہ کابل انتطامیہ کو فضائی مدد بھی فراہم نہیں کی جائیگی کہ اگر ملا مشتعل ہوکر امریکی اڈوں پر ٹوٹ پڑے تو دفاع بہت مشکل ہوگا۔
جنرل دوستم کی شیخی اپنی جگہ لیکن انکا جتھ اب اتنا مضبوط نہیں۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران طالبان نے انکے آبائی صوبے جوزجان میں حملے کرکے دوستم کے ذاتی محافظوں پر حملے کئے ہیں جس میں گزشتہ چند ماہ کے دوران 500 سے زیادہ دوستم سپاہی مارے جاچکے ہیں۔
ایک خبر یہ بھی ہے کہ دوستم طالبان سے براہ راست رابطے میں ہیں اور انھوں نے ملاوں کو اُدھر تم اِدھرہم کی پیشکش کی ہے یعنی جنوب اور مشرقی افغانستان میں طالبان کی حکومت ہو شمال کے فارسی بان علاقوں میں دوستم کی۔ طالبان افغانستان کی سالمیت و یکجہتی پر سودے بازی کو تیار نہیں اور نہ ہی وہ قلعہ جنگی و دشت لیلٰی قتل عام کو بھولے ہیں۔ جب کسی نے طالبان ترجمان سے دوستم کی دھمکی کے بارے میں پوچھا تو انھوں مسکراتے ہوئے کہا چہ پدی چہ پدی کا شوربہ
No comments:
Post a Comment