Friday, November 13, 2020

حسن ناصر

حسن ناصر  

آج 13 نومبر ہے، ممتاز کمیونسٹ رہنما حسن ناصر کا یوم وفات۔ یہ سوچ کر ہمیں اپنا دور طالب علمی یاد آگیا

یہ نظریاتی سیاست کا زمانہ تھا اور

·        سنی و شیعہ

·        سندھی و مہاجر، بلوچ وپٹھان

کے بجائے

·         اسلامی و کمیونسٹ انقلاب

·        البدر کے خون سے، گنبد رسول سےاور  چادربتول سے ایشیا سبز ہے کے نعرے لگتے

 تو دوسری طرف

·        سرخ سویرے کی آرزو کی جاتی

طلبہ یونین کے انتخابات بھی اسی بنیاد پر ہوتے۔ سچ تو یہ ہے کہ اپنے زمانہ طالب علمی میں ہمیں پتہ ہی نہ چلا کہ ہمارا مخالف امیدوار

·        شیعہ ہے یا سنی

·        اسکا تعلق پنجاب سے ہے یا وہ فرزند کراچی ہے

اس زمانے میں جلسے جلوس بھی نظریاتی نوعیت کے ہوا کرتے تھے۔

·        امام خمینی کے حامیوں پر شاہ ایران  کے تشدد کیخلاف جلوس نکالے جاتے

·        بنگلہ دیش نامنظورکے مظاہرے ہوتے

·        جنگ اکتوبر (عرب اسرائیل) کیلئے عربوں کی حمائت میں اسلام پسند طلبہ سڑکوں پر آجاتے

تو دوسری طرف

·        یوم مئی پر تعلیمی اداروں کو سرخ پر چموں سے سجایا جاتا

·        چلی میں صدر سلواڈور آئندے  کا تختہ الٹنے کے خلاف زبردست جلوس نکلا

اس دوران نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن (NSF)یوم حسن ناصر  بہت ہی  احترام سے مناتی تھی۔ جامعہ اور کالجوں پر سرخ پرچم لہراےجاتے، جلوس نکلتے، مجالس مذاکرہ اور جلسوں کا اہتمام ہوتا تھا۔

حسن ناصر، نواب محسن الملک کےنواسےتھے۔سید مہدی علی کے نام سے مشہور  نواب صاحب آل انڈیا مسلم لیگ کے بانیوں میں شمار کئے جاتے ہیں ۔ یکم جنوری 1928 کو  جنم  لینے والے حسن ناصر نوعمری میں  مسلم قوم پرست تھے۔ تعلیم کیلئے  جب  حسن ناصر انگلستان کی جامعہ کیمبرج میں داخل ہوئے تو مارکسسٹوں سے انکے روابط استوار ہوئے اور موصوف کمیونسٹ پارٹی کے کارکن بن گئے۔تحریک پاکستان کے ابتدائی دنوں میں حیدرآباد کوپاکستان کا حصہ بنانے کی کوششیں شروع ہوئیں۔ اس کشمکش میں کمیونسٹ پارٹی بھی ہندو مسلم میں تقسیم ہوگئی  اور حسن ناصر مایوس ہوکر پاکستان آگئے

پاکستان آکر حسن ناصر  کمیونسٹ پارٹی کے سکریٹری جنرل تعینات ہوئے،ساتھ ہی انھوں نے نیشنل عوامی پارٹی (NAP)میں شمولیٹ  اختیار کرلی۔ اس زمانے کی نیپ آجکل کی ANPکی طرح  محدودپختون قوم پرست گروہ کے بجائے پاکستان کی نمائندہ ترقی پسند جماعت تھی۔مشرقی پاکستان کے مولانا عبدالحمید خان بھاشانی اسکے سربراہ  اور محمودالحق عثمانی سکریٹری جنرل تھے۔ خان عبدلغفارخان ، خان عبدالولی خان، عبدالصمد اچکزئی، غوث بخش بزنجو، عطااللہ مینگل، گل خان نصیر، میاں محمودعلی قصوری جیسے سینئر سیاسی رہنماوں کیساتھ سند ھ محاذ کے جی ایم سید، شیخ عبدالمجید سندھی نیپ کی مرکزی قیادت کا حصہ تھے۔ آجکل کے مغرب نواز بناسپتی ترقی پسندوں اور دیسی سیکیولروں کی طرح نیپ دین بیزاربھی نہ تھی اور اسکے اکثر رہنماوں کے مولانامودودی سے ذاتی مراسم تھے۔خاص طور سے محمودعلی قصوری مولانا کے گہرےعقیدت مند تھے۔ ان سینئر رہنماوں کی موجودگی میں حسن ناصر کو نیپ کا آفس سکریٹری بنایاگیا۔

1958 میں مارشل لالگاکر جنرل ایوب خان (وفاقی وزیر عمر ایوب کے دادا) نے سیاسی جماعتوں کو کالعدم کردیا۔ نیپ اور جماعت اسلامی پر انکی خاص نظرِ کرم تھی۔

1960 میں حسن ناصر کراچی سے گرفتار کرکے لاہور کے بدنام زمان شاہی قلعہ پہنچا دئے گئے جہاں بدترین تشدد کے نتیجے میں حسن ناصر دم توڑ گئے۔ سرکاری اعلان میں کہا گیا کہ حسن ناصر سے خودکشی کی تھی۔کاغذی کاروائی کے بعد انکی میت کو دفنا دیا گیا۔ حکومتی پریس نوٹ کے مطابق حسن ناصر کا انتقال 13 نومبر 1960 کو ہواتھا جب مرحوم کی عمر صرف 32 سال تھی۔ انکی موت پر سارے ملک میں ہنگامے پھوٹ پڑے۔اس احتجاج میں جماعت اسلامی بھی شامل تھی۔خوفناک مارشل لا کے باوجود زبردست احتجاج پر ایوب خان سراسیمہ ہوگئےاور انھوں نے  قبر کشائی کرکے لاش کے پوسٹ مارٹم کا حکم دیا۔ میت کی شناخت کیلئے انکی والدہ زہرہ علمدار حسین  حیدرآباد سے   لاہور آئیں لیکن 4 دسمبر کو جب میت قبر سے نکالی گئی تو وہ بوسیدہ ہوکر ناقابل شناخت ہوچکی تھی۔ محترمہ زہرہ نے قد کاٹھ دیکھ کر صاف صاف کہا کہ یہ انکا بیٹا نہیں اور حکومت جھوٹ بول رہی ہے جسکے بعد لاش کو پوسٹ مارٹم کئے بغیر دوبارہ دفن دیا گیا۔


 

No comments:

Post a Comment