امریکہ کے مجوزہ نئے وزیر خارجہ ! توقعات اور اندیشے
صدر ٹرمپ اپنی شکست تسلیم کرنے پر تیار نہیں اور اب بھی پُر امید ہیں کہ 20 جنوری کو وہ اپنی دوسری مدت کا حلف اٹھائیں گے۔ سیاسیات کے علما کا خیال ہے کہ یہ سب کچھ جارجیا کیلئے ہے جہاں جنوری کے پہلے ہفتے میں سینیٹ کی دو نشستوں پر ضمنی انتخابات ہونے ہیں۔ان میں سے اگر ایک نشست بھی صدر کی پارٹی نے جیت لی تو انھیں سینیٹ میں برتری حاصل ہوجائیگی اور ریپبلکن پارٹی جوبائیڈن انتطامیہ کی جان اجیرن کرسکے گی۔
اس بات کا نومنتخب صدر کو اچھی طرح احساس ہے ،لہذا وہ اپنی ٹیم کے چناو میں خاصے محتاط ہیں اور ایسے لوگوں کا انتخاب کررہے ہیں جنکو سینیٹ سے مسترد کیا جاناآسان نہ ہو۔ وفاقی کابینہ اور دوسری اہم تقرریوں کی سینیٹ سے توثیق ضروری ہے۔امریکہ میں اسرائیلی ترغیب کار وں ( لابی) کے دونوں جماعتوں پر اثرات بہت گہرے ہیں اسلئے بائیڈن صاحب ایسے لوگوں کو سامنے لارہے جو اگر اسرائیل نواز نہ ہوں تو بھی کم ازکم اسرائیل مخالف نہ سمجھے جاتے ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ وزارت خارجہ کیلئے خلاف توقع انھوں نے ڈاکٹر سوزین رائس کو نامزد کرنا مناسب نہ سمجھا کہ جب وہ اقوام متحدہ میں امریکہ کی سفیر تھیں اسوقت فلسطین پر رائے شماری کے دوران انھوں نے کئی بار قرارداد کو ویٹو نہ کرنے کی سفارش کی تھی۔
جناب جو بائیڈن نے سکریٹری آف اسٹیٹ یا وزیر خارجہ کیلئے ٹونی بلنکن Anthony Blinken کا انتخاب کیا ہے۔ 58 سالہ بلنکن کے دادانے جرمن بیگار کیمپ میں اذیت برداشت کی ہے اور بقول انکے 'یہودی قوم اور انکاوطن میرے دل کے قریب ہے' ایک راسخ العقیدہ یہودی، ٹونی بلنکن اوباما انتظامیہ میں نائب وزیرخارجہ اور نائب مشیر قومی سلامتی رہ چکے ہیں۔ جنگجو طبیعت کے مالک، بلنکن کو عرب اسپرنگ کے دوران اخوان المسلمون کے عروج پر خاصی تشویش تھی اور انھوں نے مبینہ طور پر تیونس اور مصر کے عام انتخابات میں اخوان کی کامیابی کو اسرائیل کی سلامتی کیلئے سخت خطرہ قرار دیا تھا۔ واشنگٹن کے سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ نائب مشیر قومی سلامتی کی حیثیت سے جناب بلنکن نےصدر مورسی کی حکومت کا تختہ الٹنے کی منصوبہ بندی میں حصہ لیا تھا۔
افغانستان میں اضافی فوج کی تعیناتی اور شمالی وزیرستان پر خوفناک ڈرون حملوں کے بھی وہ پرجوش حامی تھے۔ جو بائیڈن کی نائب صدارت کے دوران یہ انکے مشیر سلامتی تھے اور ایبٹ آباد حملے کی منصوبہ بندی ٹیم میں بھی موصوف شامل تھے۔ آپریشن کے دوران جب صدر اوباما اپنے دلاوروں کے ہاتھوں نہتے مردوخواتین کے قتل کا براہ راست مشاہدہ فرمارہے تھے اس خصوصی مجلس میں بلینکن کو بھی نشست فراہم کی گئی تھی جو صدر اوباما کی جانب اعزار تقرب تھا۔ ہمارا خیال ہے کہ ایبٹ آباد آپریشن صدر اومابا کا انتخابی ڈارامہ تھا۔
انتھونی بلینکن نے جامعہ ہارورڈ سے بی اے کے بعد جامعہ کولبمبیا سے قانون کی سند حاصل کی۔ انھوں نے کچھ عرصہ بطور رپورٹر ایک اخبار میں ملازمت بھی کی۔ 2002 میں جب جو بائیڈن سینٹر کی حیثیت سے سینیٹ کی مجلس قائمہ برائے خارجہ امور کے سربراہ تھے تو بلنکن کمیٹی کے اسٹاف ڈائریکٹر تھے اور یہیں سے وہ جوبائیڈن کے بااعتماد مشیر بن گئے۔ 2008کے انتخابات میں وہ اوباما بائیڈن انتخابی کمیٹی کے سینئر افسر تھے اور حالیہ انتخابات میں بھی انھوں نے جوبائیڈن کی انتخابی مہم میں بھرپور حصہ لیا۔
جناب بلنکن کی بطور وزیر خارجہ نامزدگی پر انقلابی لڑکیوں پر مشتمل گروپ نے جسے صدر ڑمپ اسکواڈ یاچار کا ٹولہ کہتے ہیں تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ اسکواڈ کی رکن محترمہ رشید طلیب نے امید ظاہر کی ہے کہ نئے وزیرخارجہ اسرائیل کے معاملے میں آزادی اظہار کے حوالے سے ہمارے حقوق کا احترام کرینگے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے اسرائیل کے بائیکاٹ کی مہم شروع کررکھی جسے Boycott, Disinvestment and Sanctionیا BDSکہا جاتا ہے۔اس تحریک کا مقصد امریکی سرمایہ کاروں کو اسرائیل میں سرمایہ کاری سے روکنے کی تلقین، مقبوضہ عرب علاقوں کے بیگار کیمپوں اور جیل میں بند قیدیوں سے جبری مشقت کے نتیجے میں حاصل ہونے والی مصنوعات کے بائیکاٹ اور اسرائیل پر پابندیاں عائد کرنا شامل ہے۔ امریکی کانگریس BDSکے خلاف تحریک منظور کرچکی ہے اور وزیر خارجہ مائک پومپیو نے BDSکو صیہونیت کش یا Anti-Sematicقرار دینے کی سفارش کی ہے جبکہ اسکواڈ کی ایک اور رکن الحان عمر کیساتھ مل کر رشید طلیب BDSکی حمائت میں ایک قراردار کانگریس میں پیش کرنا چاہتی ہیں۔ حالیہ انتخابات کے بعد کانگریس میں انقلابی گروپ یا جسٹس ڈیموکریٹس کی تعداد 10 ہوگئی ہے۔
جو بائیڈن ٹرمپ انتظامیہ کے مسلم بین اور ویزے کے حوالے سے ٹرمپ حکومت کی نسل پرست پالیسیوں کو بیک جنبش قلم ختم کرنے کے معاملے میں اپنے وعدوں پر قائم نظر آتے ہیں۔ اس باب میں نائب وزیر خارجہ کی حیثیت سے جناب بلنکن کا رویہ بہت زیادہ مثبت نہیں تھا۔ تاہم زمینی حقیقت اب کافی بدل چکی ہے۔ حالیہ انتخابات میں مسلمانوں نے جو بائیڈن کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ الحان عمر کی عوامی تحریک کی وجہ سے ریاست مینی سوٹا میں ووٹ ڈالنے کا تناسب بہت بہتر رہا۔ اسی طرح مشیگن میں رشید طلیب کی مہم نے جوبائیڈن کیلئے کامیابی کی راہ ہموار کی۔
جناب بلنکن کے بارے میں ہماری گزارشات کی بنیاد بطور نائب وزیر خارجہ اور نائب مشیر سلامتی انکے خیالات اور رویوں پر ہے جبکہ گزشتہ چارسالوں میں پلوں کے نیچے سے کافی پانی بہہ چکا ہے اور اوباما سے بے حد متاثر سہی جوبائیڈن کی اپنی شخصیت ہے چنانچہ بہت ممکن ہے کہ بلنکن صاحب بطور وزیرخارجہ مبنی بر انصاف طرز عمل اختیار کریں اور قوموں کی برادری میں امریکہ کو جو مقام حاصل ہے اسکا پاس کرتے ہوئے اسرائیل کے مغرور حکمرانوں کو معقولیت کی طرف مائل کرتے ہوئے اسرائیل و فلسطین دوقومی ریاست کے منصفانہ بیانئے کو آگے بڑھائیں کہ یہ امن عالم کا سوال ہے۔
اسی کیساتھ ایران کے خلاف خلیجی ممالک کی غیر ضروری پشت پناہی کسی طور مناسب نہیں۔ جناب بلنکن ایران سے ہونے والے جوہری معاہدے JCPOAکی تفصیلات سے واقف ہیں۔ امریکہ کی جانب سے JCPOAکی فوری اور غیر مشروط تجدید سے علاقے میں اسلحے کی دوڑ اور کشیدگی کم ہو سکتی ہے۔ ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے جاتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment