Friday, November 27, 2020

پاکستان اور اسرائیل کے خفیہ روابط۔۔ ایک جائزہ

ایک عرصے سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی مہم جاری ہے ۔ ممتاز صحافی اور روزنامہ جسارت کے کالم نگار جناب آصف جیلانی نے اس مہم کا قیام پاکستان کے وقت سے ایک تفصیلی جائزہ لیاہے۔ یہ چشم کشا تحریر روزنامہ جسارت نے 20 اگست کو شایع کی ہے۔ آصف جیلانی کا صحافتی تجربہ کئی دہائیوں پر محیط ہے۔ وہ امروز اور جنگ کے علاوہ بی بی سی پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔ انکے مضمون کا ایک خلاصہ پیش خدمت ہے:

·         1940کے تاریخی اجلاس میں جہاں  قرارداد پاکستان منظور ہوئی، قائد اعظم نے اپنے صدارتی خطبہ میں برطانیہ کو خبردار کیا تھا کہ فلسطینیوں کے خلاف جو سازش ہورہی ہے، اسے تسلیم نہیں کیا جائے گا اور ہندوستان کے مسلمان کسی صورت میں فلسطینیوں پر فوجی بل پر کوئی فیصلہ قبول نہیں کریں گے۔

قائداعظم کی زندگی ہی میں بابو لوگوں نے 'یوٹرن'کا آغاز کیا

·         اپریل 1948 میں ظفراللہ خان نے نیو یارک میں اسرائیل کے سابق صدر وائز مین اور اقوام متحدہ میں اسرائیل کے سفیر ابا ایبان سے ملاقات کی جس میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کے سوال پر بات چیت ہوئی

·         1957 میں ذوالفقار علی بھٹو نے اقوام متحدہ میں اسرائیلی مندوب شتابل روزینہ سے کھانے پر ملاقات کی تھی اور بقول شتابل روزینہ اس ملاقات میں مرحوم بھٹو نے کہا تھا کہ پاکستان کا مفاد اسی میں ہے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرلے کیونکہ اسرائیل اب ایک حقیقت ہے۔

·         جنرل ضیاء کے دور میں پہلی بار پاکستان اور اسرائیل کے درمیان انٹیلی جنس کے شعبے میں تعاون کا سلسلہ شروع ہوا۔ جنرل ضیاء نے آئی ایس آئی کو ہدایت کی تھی کہ وہ اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد کے ساتھ رابطہ قائم کرے

·         1993 میں وزیراعظم بینظیر بھٹو نے اس زمانے کے ڈایریکٹر ملٹری آپریشنز پرویز مشرف کو ہدایت کی تھی کہ وہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کے ساتھ آئی ایس آئی کے روابط تیز تر کردیں۔ بتایا جاتا ہے کہ اس ہدایت سے پہلے بینظیر بھٹو نے نیویارک میں اسرائیل کے ایک اعلیٰ ایلچی سے خفیہ ملاقات کی تھی

·         1998 میں نواز شریف نے ایک خفیہ ایلچی اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو سے ملاقات کے لیے تل ابیب بھیجا تھا۔ اس مشن کا مقصد اسرائیل کو یقین دلانا تھا کہ پاکستان اپنی جوہری ٹیکنالوجی ایران کو منتقل نہیں کرے گا۔نواز شریف نے دفتر خارجہ کو ہدایت کی تھی کہ اسرائیل سے متعلق پاکستان کی پالیسی پر نظر ثانی کی جائے۔اکتوبر 1998 میں صدر رفیق تارڑ نے اسرائیل کے صدر ایزر وائزمین ہاتھ ملاتے ہوئے مبینہ طور پر کہا تھا ’’آپ امن کے آدمی ہیں اور آپ سے ملاقات ایک بڑا اعزاز ہے‘‘۔ یہ ملاقات انقرہ کی ایک استقبالیہ تقریب ہوئی تھی۔

·         جون 2003 کی صدر بش اور مشرف کی کیمپ ڈیوڈ ملاقات کے بعد اسرائیل سے تعلقات کیلئے باقاعدہ مہم کا آغاز ہوا۔ مذاکرات کے بعد جس تیزی سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا معاملہ ابھرا، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جنرل مشرف اس مسئلے پر امریکی صدر سے وعدہ کر کے آئے تھے۔ کیمپ ڈیوڈ مذاکرات کے فوراً بعد پاکستان میں ایک نجی ٹیلی وژن چینل نے اس سوال پر ایک سروے کرایا۔جائزے کے مطابق پاکستانی عوام کی بڑی تعداد اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حق میں ہے۔سروے کے بعد پاکستان کے دفتر خارجہ نے اس سوال پر ایک خلاصہ تیار کیا جس میں یہ دلیل پیش کی گئی تھی کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات سے پاکستان کو سیاسی، فوجی اور اقتصادی فوائد حاصل ہوں گے۔

·         2005 میں پاکستان اور اسرائیل کے وزرائے خارجہ کے درمیان استنبول میں پہلی بار کھلم کھلا ملاقات ہوئی جس میں پاکستان کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے مسئلے پر غور کیا گیا تھا۔

·         2010 میں وکی لیکس نے امریکا کے اس سفارتی تار کا انکشاف کیا جس میں کہا گیا تھا کہ ’’ آئی ایس آئی کے سربراہ احمد شجاع پاشا نے واشنگٹن کے توسط سے اسرائیل کو خبردار کردیا تھا کہ ہندوستان پر دہشت گرد حملہ ہونے والا ہے۔ اسکے بعد  احمد شجاع پاشا کا موساد سے براہ راست رابطہ رہا

گویا سر ظفر اللہ، روشن خیال بھٹو اور انکی دختر نیک اختر، اسلامی خیال کے جنرل ضیاالحق،  چودھری برادران، بردہ فروش پرویز مشرف اور ووٹوں کو عزت دینے والے نوازشریف اسرائیل کے معاملے میں ہم خیال و پرعزم اور ایک پیج پر ہیں

اب وزیراعظم عمران خان نے غیر مبہم اعلان کیا ہے کہ ' فلسطین کے منصفانہ اور فلسطینیوں کیلئے قابل قبول حل تک پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کریگا' اللہ خانصاحب کو استقامت عطافرمائے



 

No comments:

Post a Comment