Thursday, November 19, 2020

بائیڈن انتظامیہ!! تنظیم اور ترجیح

بائیڈن انتظامیہ!!  تنظیم اور ترجیح

امریکی انتخابات کو تین ہفتے گزرجانے کے باوجود کئی ریاستوں میں ووٹوں کی گنتی اب تک جاری ہے۔ زیادہ تر مقامات پر ڈاک سے آنے والے پرچہ انتخاب کا شمار ہورہا ہے جبکہ جارجیا میں ریاستی سکریٹری آف اسٹیٹ کے حکم پرتمام ووٹوں کی ہاتھ سے دوبارہ گنتی کی جارہی ہے۔ تاہم صدارتی انتخابات کے غیر سرکاری حتمی نتائج کے مطابق ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار سابق نائب صدر جو بائیڈن 306 انتخابی یا الیکٹرل ووٹ لے امریکہ  چھالیسویں صدر منتخب ہوچکے ہیں۔ انکے حریف صدر ٹرمپ کے کھاتے میں 232ووٹ درج ہیں۔ قصر مرمریں کی کنجی کیلئے 270 الیکٹرل ووٹ درکار ہیں چنانچہ اگر دوبارہ گنتی کے بعد جارجیا میں صورتحال تبدیل ہو بھی گئی تو نتائج پر کوئی فرق نہیں پڑیگا اسلئے کہ کلیہ انتخاب میں جارجیا کے 16 ووٹ ہیں۔ حتیٰ کہ جارجیا کے ساتھ  پنسلوانیہ کے نتائج بدل جانے کی صورت میں  بھی جو بائیڈن ہی نومنتخب صدر رہیں گے۔

 ریاضی کے مطابق صدر ٹرمپ کی کامیابی کا اب کوئی امکان نہیں اور جمہوری اقدار کی رو سے انھیں باوقار انداز میں اپنی شکست مان لینی چاہئے۔ لیکن موصوف اس پر تیار نظر نہیں آتے۔ انکا کہنا ہے کہ جو بائیڈن میڈیا پر انتخاب جیتے ہیں اور بدترین دھاندلی کے ذریعے بائیں بازو کے سوشلسٹوں نے امریکی عوام کی امنگوں کا خون کیا ہے۔ امریکی سیاسی حلقے ٹویٹر پر صدر ٹرمپ کی شعلہ افشانیوں کو چائے کی پیالی میں طوفان قراردے رہے ہیں کہ صدر ٹرمپ کی جانب سے  اب تک کسی سنجیدہ قانونی سرگرمی کا آغاز نہیں ہوا۔ پنسلوانیہ، مشیگن، ایریزونا اور وسکونسن میں صدرکی 9 انتخابی عذداریاں ابتدائی سماعت کے بعد مسترد کی جاچکی ہیں۔ خبروں کے مطابق موقر وکلا انکا مقدمہ لڑنے کو تیار نہیں۔ پنسلوانیہ میں ٹرمپ انتخابی مہم نے مقدمے کیلئے Wright Morris & Arthurنامی وکلا کی مشہور کمپنی کی خدمات حاصل کی تھیں لیکن 13 نومبر کو جج کے روبرو انکے وکلا نے پیروی سے انکار کرتے ہوئے منسوخی کیلئے اپنے وکالت نامےعدالت میں جمع کرادئے۔ وکلا نے صدر ٹرمپ سے مطلع کردیا ہے کہ  کیس میں جان نہیں۔ صدر کے ذاتی وکیل اور نیویارک کے سابق رئیسِ شہر روڈی جولیانی عدالتوں میں صدر ٹرمپ کی پیروی کیلئے راضی و پرعزم ہیں لیکن جناب جولیانی کی وجہ شہرت سیاست ہے اور وکالت کے حوالے سے موصوف کوئی بڑا نام نہیں۔

صدر کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ  سپریم کورٹ سے پورے انتخاب کو کالعدم کرنے کی درخواست کرنے والے ہیں لیکن دنیا بھر کی طرح امریکی عدلیہ بھی اداروں کو بے وقار   نہیں ہونے دیگی۔  سب سے بڑی بات کہ  اگر انتخابات پر جھاڑو پھرے تو ریپبلکن پارٹی کے نومنتخب سینیٹرز، 11 گورنر اور ارکان ایوان نمائندگان کا کیا ہوگا؟؟؟

صدر ٹرمپ کے پاس ملک گیر مظاہروں کا راستہ موجود ہے۔ 14نومبر کو دارالحکومت واشنگٹن میں صدر ٹرمپ کے حامیوں نے زبردست جلوس نکالا جس میں عوامی امنگوں پر ڈاکہ مردہ باد، امریکہ پر سوشلسٹوں کا قبضہ نامنظور اور ترقی و خوشحالی کے چار مزید سال کے نعرے لگائے گئے۔ اس موقع پر سیاہ فام اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے جوابی مظاہرہ کیا۔دھکم پیل اور ہاتھاپائی کے دوران ایک شخص چھری کے وار سے زخمی ہوگیا۔

امریکی نظمِ حکومت میں صدر بہت بااختیار ہے لیکن امریکی دستور کے مصنفین نے اختیار میں اعتدال کیلئے کلیدی  نوعیت کے صدارتی فیصلوں کو مقننہ سے مشورے بلکہ توثیق کا پابند کردیا ہے۔ مثلاً اٹارنی جنرل سمیت وفاقی کابینہ، وفاقی جج، سفرا، خفیہ اداروں کے اعلیٰ اہلکار، حکومتی انتظام کے تحت چلنے والے خود مختار اداروں کے سربراہ اور عسکری قیادت کا تقرر کانگریس کے ایوان بالا یعنی سینیٹ کی توثیق سے مشروط ہے۔ اسی طرح سالانہ میزانیہ، دوسرے ملکوں کو اسلحے کی فروخت اور دوسرے اہم معاملات کی کانگریس سے منظوری لازمی ہے۔ کچھ معاملات پر صدارتی ایکزیکیوٹیو آرڈر سے کام چل سکتا ہے لیکن اگر گانگریس کھلی مخالفت پر اتر آئے تو قانون سازوں کیلئے انتظامی مشنری کو غیر موثر کردینا کچھ مشکل نہیں۔ ایک بڑی مثال اومابا دور میں سپریم کورٹ کے جج کی تقرری کا معاملہ ہے۔ جسٹس انتھونی اسکالیا فروری 2016میں انتقال کرگئے۔صدر اوباما نے انکی جگہ ایک سینئر جج میرک گارلینڈ کو نامزد کیا۔ اسوقت امریکی سینیٹ میں 2 اتحادیوں کو ملاکر  46 ڈیموکریٹس کے مقابلے میں ریپبلکن سینیٹروں کی تعداد54 تھی۔ سینیٹ کے قائد ایوان مچ میک کانل نے یہ کہہ کرتوثیق سے انکار کردیا کہ صدر اوباما کی مدت صدارت ختم ہونے میں ایک سال سے بھی کم کا عرصہ باقی ہے اور سپریم کورٹ کے جج کا تقرر ساری زندگی کیلئے ہوتا ہے۔چنانچہ یہ اہم فیصلہ نئے صدر کیلئے چھوڑدینا چاہئے۔اس سال ستمبر میں جب سپریم کورٹ کی جج جسٹس روتھ بدر گنزبرگ کا انتقال ہوا تو یہی موقف ڈیموکریٹس نے اختیار کیا اور قائد حزب اختلاف نے مچ مک کانل کو یاد دلایا کہ 2016 میں انتخابات 10 مہینے دور تھے جبکہ اس بار تو قبل از ووٹنگ بھی شروع ہوچکی ہے لہذا جج کا تقرر انتخابات تک  موخر کردیا جائے لیکن اکثریت کے بل پر چند ہفتوں میں جسٹس ایمی کونی بیرٹ کی سپریم کورٹ سے توثیق کرالی گئی۔

اسی طرح کانگریس کے ایوان زیریں یا ایوان نمائندگان (قومی اسمبلی) پر ڈیموکریٹک پارٹی کی گرفت صدر ٹرمپ کو کچھ معاملات پر ناکوں چنے چبا چکی ہے۔ صدر ٹرمپ نے وعدہ کیا تھا کہ وہ غیرملکی تارکین وطن کی آمد روکنے کیلئے میکسیکو کی سرحد پر دیوار تعمیر کرینگے لیکن ایوان نمائندگان نے اسکے لئے رقم منظور نہیں کی اور یہ منصوبہ ادھورا رہ گیا۔

اس گفتگو کے پس منظر میں عرض ہے کہ تین نومبر کو صدارتی چناو کیساتھ ایوان نمائندگان کی کل 435 اور سینیٹ کی 35 نشستوں کے انتخابات ہوئے۔ ان نشستوں میں سے 23 ریپبلکن پارٹی کے سینیٹروں کی میعاد مکمل ہونے پر خالی ہوئی ہیں اور ڈیموکریٹس کو اپنی 12 نشستوں کا دفاع کرنا تھا۔ نتائج کے مطابق ڈیموکریٹس نے ایریزونا اور کولوریڈو میں ریبپلکن سے نشستین چھین لیں اور جواب میں صدر ٹرمپ کی جماعت نے الاباما میں ڈیموکریٹس رکن کی معیاد مکمل ہونے پر خالی ہونے والی سیٹ ہتھیالی۔ اب نئی سینیٹ کی ہئیت ترکیبی کچھ اسطر ح ہے کہ 100 رکنی ایوان میں 50 ریپبلکن ارکان کے مقابلے میں 48 نشستوں پر ڈیموکریٹس براجمان ہونگے۔ جارجیا کی دو نشستوں پر کوئی بھی امیدوار مطلوبہ 50 فیصد ووٹ نہ حاصل کرسکا چنانچہ یہاں جنوری کے پہلے ہفتے میں ضمنی یا Run-offانتخاب ہوگا۔ اگر ڈیموکریٹس یہ دونوں نشست جیت گئے پھر تو خیر ہے ورنہ ایوان بالا پر ریپبلکن کی برتری صدر بائیڈن کیلئے سخت مشکل کا سبب بن سکتی ہے۔ حالیہ دنوں میں دونوں جماعتوں کے درمیان نفرت کی حد تک جو کشیدگی نظر آرہی ہے اسے دیکھتے ہوئے کسی قسم کی مفاہمت یا رواداری کا کوئی امکان نہیں اور سیاسی مبصرین ہر نکتے  پر دمادم مست قلندر کی توقع کررہے ہیں۔

سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ اعترافِ شکست سے انکار اور صدر ٹرمپ کا مہم جویانہ انداز جارجیا میں سینیٹ کے ضمنی انتخاب کیلئے اپنے حامیوں کا حوصلہ بڑھانے کی ایک کوشش ہے۔ شکست تسلیم کرلینے سے صدر کی کمزوری ظاہر ہوگی۔ وہ اپنے حامیوں کو یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ جنگ جاری ہے اور کمر کھولنے کا وقت ابھی نہیں آیا۔ صدر کی موجودہ مدت 20 جنوری تک ہے اور وہ یہ عرصہ امریکی روائت کے مطابق غیر موثر و نمائشی یا lame-duckصدر کی طرح نہیں گزارنا چاہتے۔ وہ جلد ہی جارجیا میں اپنے سینیٹ کے امیدواروں کیلئے بھرپور انتخابی مہم شروع کرنے والے ہیں اور اگر ریپبلکن پارٹی سینیٹ کی کم ازکم ایک نشست جیتنے میں کامیاب ہوگئی تو وہ پروقار انداز میں اقتدار جو بائیڈن کے حوالے کرکے 2024 میں انتخاب لڑنے کا اعلان کرینگے۔

ایوان نمائندگان کے انتخابات میں بھی ڈیموکریٹک پارٹی کی کارکردگی بہتر نہیں رہی۔ اسوقت ایوان نمائندگان میں ریپبلکن ار کان کی تعداد 197ہے اور 232 نشستیں ڈیموکریٹس کے پاس ہیں لیکن 3 نومبر کے انتخاب کے بعد ڈیموکریٹس کی تعداد گھٹ کر 225 ہونے کی توقع ہے یعنی واضح اکثریت سے صرف 7 زیادہ۔

 ڈیموکریٹک کی صفوں میں نظریاتی تفریق بھی خاصی گہری ہے۔ چار نوخیز خواتین، الیکزینڈرا اورٹیز المعروف AOC، الحان عمر، رشید طلیب اور آیانا پریسلے پر مشتمل گروہ جسے صدر ٹرمپ چارکا ٹولہ یا squadکہتے ہیں اب مزید مضبوط ہوگیا ہے اور اس بار نیویارک سے جمال بومن اور مزو ری سے محترمہ کوری بش نے ڈیموکریٹک پارٹی کے برج گراکر اسے مزید تقویت دیدی ہے۔ جسٹس ڈیموکریٹس کے نام سے اس انقلابیCaucusکے ارکان کانگریس کی تعداداب 10 ہوگئی ہے۔ جسٹس ڈیموکریٹس کم سے کم تنخواہ 15 ٖڈالر فی گھنٹہ، تمام امریکیوں کیلئے صحت بیمہ، پولیس اصلاحات، صنعتی اداروں میں مزدور یونینوں کے قیام، ماحول کی حفاظت، کاربن ٹیکس  کے ساتھ غیر ملکی امور پر بھی اپنی رائے رکھتے ہیں۔ آزاد فلسطینی ریاست کے قیام، تباہی پھیلانے والے ہتھیار (WMD)پر پابندی انکے منشور کا حصہ ہے۔ برما میں مسلمانوں کی نسل کشی، ترک نژاد چینی مسلمانوں سے بدسلوکی اور کشمیر میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزی پر بھی اس گروپ نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔کیلی فورنیا سے رکن کانگریس شری رو کھنہ سمیت تین ہند نژاد ارکان بھی اس گروپ کا حصہ ہیں۔

جسٹس گروپ کے غیراعلانیہ سرپرست سینیٹر برنی سینڈرز ہیں جنھوں نے پارلیمانی سال کے آغاز پر جسٹس ڈیموکریٹس کے منشور کو آگے بڑھانے کا عزم ظاہر کیا ہے۔برنی سینڈرز کابینہ کی تشکیل، کانگریس کی مجالس قائمہ اور پالیسی سازی میں جسٹس ڈیموکریٹس کو مناسب نمائندگی دینے کا مطالبہ کررہے ہیں۔

اس تناظر میں جوبائیڈن انتظامیہ کا آغاز نا ہموار یا bumpyنظر آرہا ہے۔ جیسا کہ ہم نے عرض کیا کابینہ اور کلیدی تقرریوں کیلئے سینیٹ کی توثیق ضروری ہے اور ریپبلکن پارٹی 'ناپسندیدہ نامزدگیوں' کو مسترد کرکے نئے صدر کیلئے مشکل پیدا کرسکتی ہے۔ اس پس منظر میں اسرائیلی ترغیب کاروں (lobby)کا کام آسان ہوجائیگا اسلئے کہ اسرائیل کے مخلص حامی دونوں جماعتوں کے کلیدی عہدوں پر موجود ہیں چنانچہ اب صفِ مخالف سے حمائت حاصل کرنے کے عوض اسرائیل کے ہمدردوں کو انتظامیہ کی اہم عہدوں پر آگے بڑھانے کی کوشش کی جائیگی۔ اس ضمن میں وزیرخارجہ، وزیردفاع، اسرائیل اور اقوام متحدہ میں امریکہ کے سفیر کے مناصب بہت اہم ہیں۔

امریکی وزیرخارجہ کیلئے جو نام سامنے آرہے ہیں ان میں مشہور دانشور ڈاکٹر سوزین رائس سرفہرست ہیں۔ 55 سالہ سوزین اقوام متحدہ میں امریکہ کی سفیر اور صدراوباما کی مشیر قومی سلامتی رہ چکی ہیں۔اسرائیلیوں کا خیال ہے کہ اسرائیل اور صدر اوباما کے تعلقات کشیدہ کرنے میں ڈاکٹر صاحبہ کا ہاتھ تھا۔ کہا جاتا ہے کہ جب وہ 2014 میں ایران سے ممکنہ معاہدے پر اپنے اتحادی کو اعتماد میں لینے تل ابیب گئیں تو اسرائیل حکام کا رویہ ان سے اچھا نہ تھا۔ اس دوران اسرائیلی زعما نے مبینہ طور پر صدر اوباما کے بارے میں کچھ اس انداز میں باتیں کیں جو نسلی حساسیت کے حوالے سے بیباک نوعیت کی تھیں۔ یہ عام خیال ہے کہ امریکہ کے اسرائیل نواز عناصر کیلئے سوزین رائس کا بطور وزیرخارجہ تقرر پسندیدہ نہ ہوگا لیکن black lives matterتحریک اب مضبوط ہوچکی ہے اور ایک لائق و فائق سیاہ فام دانشور کی کھلی مخالفت ایک مشکل کام ہے۔ متوازن و امن پسنداسرائیلی حلقوں میں ڈاکٹر صاحبہ پسند کی جاتی ہیں اور امریکی یہودی تنظیموں کی فیڈریشن انھیں اعزاز سے بھی نواز چکی ہے۔

ایک اور اہم نام اوباما دور کے نائب وزیرخارجہ ڈاکٹر ولیم برنز ہیں۔ 64 سالہ ڈاکٹر صاحب ایک منجھے ہوئے سفارتکار ہیں جنکی پشت پر 38 سال کا تجربہ ہے۔ انھوں نے مارشل اسکالر شپ پر انگلستان کی جامعہ آکسفورڈ سے بین الاقوامی تعلقات کے پی ایچ ڈی کی اور وہ کئی گرانقدر مقالوں کے خالق ہیں۔امریکی وزارت خارجہ کے ذرایع کا کہنا ہے کہ  مصری تاریخ کے پہلے منتخب صدر محمد مورسی کا تختہ الٹنے کی منصوبہ بندی موصوف نے ہی فرمائی تھی۔ صدر مورسی کیخلاف سیکیولر قوتوں کے محاذ میں اسلام پسند النور پارٹی کی شرکت انھیں کی مہین سفارتکاری کا کمال ہے۔ جمہوری حکومت کی معزولی اور قاہرہ کی مشہور مسجد رابعۃ العدویۃ میں اخوانی کارکنوں کے خون سے کھیلی گئی ہولی کے بعد سب سے پہلے جناب برنز قاہرہ پہنچے اور جنرل السیسی سے ملاقات میں انھیں مکمل حمائت کا یقین دلایا۔ اس وقت تک السیسی مصر کے وزیردفاع تھے۔ اس ہم ملاقات کے بعد جنرل السیسی نے صدر بننے کی کوششیں شروع کیں اورایک سال بعد صدارت کا عہدہ سنبھال لیا۔

ایک اور اہم امیدوار ڈاکٹر وینڈی شرمن ہیں۔ 71 سال وینڈی شرمن جامعہ ہارورڈ میں درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ وینڈی بھی اوباما انتطامیہ میں نائب وزیرخارجہ رہ چکی ہیں۔اگر وزیرخارجہ نہ بنیں تو راسخ العقیدہ یہودی محترمہ وینڈی کی  اقوام متحدہ میں بطور مستقل سفیر تعیناتی بھی خارج از امکان نہیں۔

اقوام متحدہ کے سفیر کیلئے انڈیانا کے ایک چھوٹے سے قصبےساوتھ بینڈ کے سابق رئیس شہر  پیٹ بیوٹیجیج کا نام بھی لیا جارہا ہے۔پیٹ صاحب نے حالیہ صدارتی انتخابات میں بھی قسمت آزمائی کی لیکن پارٹی ٹکٹ کے ابتدائی مقابلوں میں پئے درپئے شکست کے بعد جو بائیڈن کے حق میں دستبردار ہوگئے۔ پیٹ ہم جنس پرست ہیں اور انھوں نے ایک مرد سے شادی کررکھی ہے۔ سابق صدر اوباما ہم جنس پرستوں پر عائد پابندیوں کے سخت خلاف تھے۔ انھوں نے سعودی عرب اور پاکستان  پر زور دیا تھا کہ ہم جنس شادیوں کو آئینی تحفظ فراہم کیا جائے۔ اس اہم عہدے پر پیٹ بیوٹیجیج کے تقرری سے دنیا کو یہ پیغام بھی جائیگاکہ بائیڈن انتظامیہ ہم جنسی پر پابندیوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی سمجھتی ہے۔ 

دو ایک سینیٹرز بھی وزارت خارجہ کے امیدوار ہیں۔ اگر سینیٹ میں ریپبلکن پارٹی کو برتری حاصل ہوگئی تو بہت ممکن ہے کہ نئے امریکی صدر جو خود ایک طویل عرصے تک سینیٹر رہ چکے ہیں اپنے کسی ساتھی سینیٹر کو وزیر خارجہ نامزد کریں۔ تعلقات، رواداری، رکھ رکھاو  اور آنکھ کے لحاظ کی بناپر  سینیٹر کی سینیٹ سے توثیق زیادہ آسان ہے۔ اس سلسلے میں بائیڈن کی ریاست ڈیلاوئیر کے سینٹر کرس کون اور ریاست کنیٹیکٹ کے سینٹر کرس مرفی کا نام لیاجارہا ہے۔ 57 سالہ کرس کون اسرائیلی لابی میں بہت مقبول ہیں اور وہ امر یکہ اسرائیل سیاسی مجلس عمل (AIAPC)کی مجلسوں میں باقاعدگی کی شرکت کرتے ہیں۔ کون صاحب سینیٹ کی مجلس قائمہ برائے خارجہ کے رکن بھی رہ چکے ہیں۔

ریاست کنیٹیکٹ سے 47 سالہ  ڈیموکریٹک سینٹر کرس مرفی بھی جو بائیڈن کے قریبی دوست اور خارجہ امور پر گہری نظر رکھنے والوں میں شمار ہوتےہیں۔ انھوں نے اسرائیل میں امریکی سفارتخانے کی بیت المقدس منتقلی کی مخالفت کی تھی جس پر اسرائیلی لابی ان سے ناراض ہوئی لیکن اسکا کفارہ انھوں  نے اسطرح ادا کیا کہ متحدہ عرب امارات کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے اعلان کے بعد سینٹر صاحب نے سعودی و کوئتی رہنماوں کو فون کرکے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے کی درخواست کی۔ یہ دونوں ریاستیں ڈیموکریٹس کا گڑ ھ ہیں  اور وزیر بننے کی صورت خالی نشست پر ضمنی انتخاب میں ڈیموکریٹک امیدوار کا جیتنا مشکل نہ ہوگا۔

وزیردفاع کیلئے محترمہ مشل فلورنی کا نام لیا جارہا ہے۔ 59 سالہ مشل اوباما انتظامیہ میں نائب وزیردفاع تھیں۔ انکے شوہر اسکاٹ گڈ بھی نائب وزیردفاع رہ چکے ہیں۔ مشل اور انکے شوہر اسرائیل کے پرجوش حامی ہیں۔ تاہم مشل صاحبہ کو غرب اردن میں اسرائیلی بستیوں پر شدید تحٖفظات ہیں۔ اسرائیل کو امریکہ کے جدید ترین میزائیل شکن نظام فولادی گنبد(Iron Dome)کی فراہمی میں مشل صاحبہ نے اہم کردار اداکیا۔

وزیردفاع کیلئے ایک اور اہم امیدوار لیفٹینیٹ کرنل (ر) ٹیمی ڈک ورتھ ہیں۔ اپنی ننھیال کی جانب سے تھائی نژاد ٹیمی امریکی فوج میں پائلٹ تھیں۔ عراق میں انکا ہیلی کاپٹر القاعدہ نے گرالیا۔ شدید زخمی ٹیمی کا پورا دایاں پیر اور بایاں پاوں گٹھنے کے نیچے سے کاٹ دیا گیا۔ انکے دونوں ہاتھ بھی متاثر ہیں۔ نومبر 2016 میں ٹیمی الی نوائے سے امریکی سینیٹر منتخب ہوئیں۔ اس سے پہلے وہ ایوان نمائندگان کی رکن بھی رہ چکی ہیں۔ ٹیمی امریکہ کی واحد سینیٹر ہیں جو اس عہدے پر رہنے ہوئے ماں بنیں جب انھوں نے 2018 میں ایک چاند سی بیٹی کو جنم دیا۔ ڈک ورتھ صاحبہ سینیٹ کی مجلس قائمہ برائے عسکری خدمات کی رکن ہیں۔

وزارت، نظامت و سفارت کا تاج کن لوگوں کے سر سجے گا اسکے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے کہ ان اہم اسامیوں کیلئے نومنتخب صدر نے باضابطہ رابطے ابھی شروع نہیں کئے لیکن آثار کچھ ایسے ہیں کہ بائیڈن انتظامیہ اوباما اقتدار کی شرطیہ نئی کاپی ہوگی۔ یعنی ایران جوہری منصوبہ کی تجدید،چین کے گھیراو کیلئے بحر ہند و خلیج بنگال میں ہند ناو سینا(بھارتی بحریہ) کی تکنیکی اعانت میں اضافہ،اسرائیل کی بھرپور مدد کے ساتھ نئی اسرائیلی بستیوں کے قیام کی مخالفت، آزاد فلسطینی ریاست کی حمائت، دنیا بھر میں ہم جنسی و اسقاط حمل پر پابندیوں کی حوصلہ شکنی، ماحولیاتی کثافت سے بچاو کیلئے پیرس کلب کی سفارشات پر عملدرآمد، نیٹو کا استحکام اور یورپی یونین سے قریبی تعلقات شامل ہیں۔

بائیڈن انتظامیہ کی افغان پالیسی کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے کہ ٹرمپ سرکار کے قائم مقام وزیر دفاع نے کرسمس تک افغانستان سے مکمل فوجی انخلا کا عندیہ دیا ہے۔ اگر 20 جنوری سے پہلے انخلا مکمل ہوگیا تو  فوج کو واپس افغانستان بھیجنے کے بجائے  طالبان سے معاملہ کرکے وہاں امن کو یقینی بنانا امریکہ بہادر کی منطقی  ترجیح ہوگی۔ یورپی یونین اورترکی کے مابین حالیہ کشیدگی میں جو بائیڈن یورپ کی مکمل حمائت کرینگے۔ وہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں انقرہ میں اقتدار کی تبدیلی یا regime change انکی ترجیح ہے۔  

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 20 نومبر 2020

ہفت روزہ دعوت دہلی 20 نومبر


2020

 

No comments:

Post a Comment