Thursday, February 29, 2024

وحشت کے ڈیڑھ سو دن ۔ بیت المقدس نیا نشانہ؟؟؟؟؟

 

وحشت کے ڈیڑھ سو دن ۔ بیت المقدس نیا نشانہ؟؟؟؟؟

ہفتہ وار کالم نگا رہر سات دن بعد  اس آزمائش سے گزرتے ہیں کہ اس بار کس موضوع پر طبع آزمائی کی جائے لیکن  غزہ حملے کے بعد سے ہمیں وہاں سسکتے اور تڑپتے بچوں کے علاوہ کوئی اور مسئلہ اہم لگتا ہی نہیں اور بقولِ حضرتِ  فیض    ' خاک میں لِتھڑے ہوئے، خون میں نہلائے ہوئے' ننھے لاشے  ہر وقت آنکھوں کے سامنے رہتے ہیں۔ اس موضوع پر یہ ہمارا پندرہواں مضمون ہے  اور یہ تحریریں کسی بھی اعتبارو معیار سے کالم  نہیں بلکہ زندہ درگور ہوجانے والے بچوں کا نوحہ ہے۔غزہ قتل عام پر سب سے حقیقت پسندانہ اور انتہائی دردناک  تبصرہ ایک ننھی فلسطینی بچی کا ہے۔ کسی صحافی نے پوچھا غزہ کہاں واقع ہے؟ تو غربِ اردن کی ایک نو سالہ فلسطینی لڑکی نے  جواب دیا کہ آدھا غزہ جنت میں اور باقی  زخموں سے چور صحرائے سینائی کے جنوب میں بحیرہ روم کے کنارے ایڑیاں رگڑ رہاہے۔

برازیل کے صدر لوئز لولا ڈی سلوا نے کیا خوب کہا کہ  ' غزہ خونریزی کو جنگ کہنا غلط ہے، یہ درحقیقت جدید ترین ہتھیار وں سے لیس، منظم فوج  کا  عورتوں اور بچوں  پر حملہ ہےادیس ابابا میں افریقی یونین کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جناب لولا بولے کہ غزہ  میں جو  ہو رہا ہے وہ جنگ نہیں نسل کشی ہے۔ تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا سوائے ایک مرتبہ  کے کہ جب ہٹلر نے یہودیوں کو مارنے کا فیصلہ کیا تھا۔ عالمی عدالتِ (ICJ) کے روبرو جنوبی افریقہ کے سفیر  Vusimuzi Madonsela نے کہا کہ 'اسرائیل فلسطینیوں سے جوامتیازی و توہین آمیز سلوک کررہا ہے وہ ہمارے ملک میں 1994تک جاری رہنے والے Apartheid سے بدتر ہے۔

غزہ پر آتش و آہن کی موسلا دھار بارش کا یہ 142 وا ں دن ہے اور کالم کی  اشاعت تک ڈیڑھ سو دن ہونے کو ہونگے۔ اس خونریزی کے بند ہونے بلکہ دھیما ہونے کا کوئی امکان  نہیں کہ یہ بی بی کی انا، اسرائیل کے قاہرانہ جبر اور فلسطینیوں کے پرعزم صبر کی جنگ ہے۔ گورے مغرب کی غیر مشروط و لامحدود پشتیبانی اور دنیا کی خاموشی اس آگ کو ہوادے رہی ہے۔

جنگ کے خلاف آوازیں اسرائیل سے بھی اٹھ رہی ہیں لیکن وہاں تشویش کا محور غزہ میں زیر حراست قیدی ہیں، گزشتہ ہفتے اسرائیل کے سابق وزیراعظم  یہود براک نے فوجی ریڈیو پر  ایک انٹرویو میں  کہا کہ  نیتھن یاہو کے لئے دبنگ نظر آنا قیدیوں کی رہائی سے زیادہ اہم ہے۔ وہ اپنی انا کیلئے یرغمالیوں کی زندگیاں خطرے میں ڈالنے کو تیار ہیں۔ بی بی کے مزاج ٹھکانے لگانے کیلئے کنیسہ (پارلیمان) کے باہر 30,000 شہریوں کے تین ہفتے طویل دھرنے کی ضرورت ہے۔جب ملک بند ہو جائے گا تو نیتن یاہو کو احساس ہو گا کہ ان کا وقت ختم ہو چکا۔

امریکہ بہادر کی دلچسپی بھی صرف قیدیوں سے ہے چانچہ پیرس، قطر، قاہرہ ہر جگہ مذاکرات کی میزیں سجی ہیں۔ ابھی (25 فروری) تھوڑی دیر پہلے امریکی صدر کے مشیر قومی سلامتی جیک سولیون نے پیرس سے ندا دی کہ 'مذاکرات کاروں کے مابین غزہ میں عارضی جنگ بندی کے بدلے قیدیوں  کی رہائی کے ممکنہ معاہدے کے بنیادی خدوخال پر "اتفاق" ہوگیا ہے۔ (حوالہ CNN)۔ یعنی قیدیوں کا تبادلہ مکمل ہوتے ہی بمباری دوبارہ شروع کردی جائیگی۔ اہل غزہ عارضی جنگ بندی کی تجاویز کو کئی بار مسترد کرچکے ہیں۔ انکا کہنا ہے ہے غزہ سے اسرائیلی فوج کی واپسی کے بعد ہی قیدیوں کے تبادلے پر بات ہوگی۔  

عارضی فائر بندی کیلئے بیقرار  امریکہ  چند دن قبل  غزہ جنگ بندی کیلئے سلامتی کونسل میں الجزائر کی قرارداد کو ویٹو کرچکا ہے۔ مسودہ پیش ہوتے ہی واشنگٹن  نے اسے  ناقابل قبول قراردیا تھا۔ اقوام متحدہ میں امریکہ کی مستقل مندوب محترمہ لنڈا ٹامس گرین فیلڈ  کا کہناتھا کہ قرارداد کی جلد بازی میں منظوری سے پائیدار امن کیلئے جاری حساس مذاکرات کی حوصلہ شکنی ہوگی۔ ستم ظریفی کہ فاضل مندوب قاہرہ کے جس حساس مذاکرات کی طرف اشارہ فرمارہی تھیں وہاں سے اسرائیل کا وفد یہ کہہ کر پہلے ہی واپس  جا چکا تھا کہ اہلِ غزہ کی شرائط ہمیں منظور نہیں۔

عالمی عدالت نے اپنے  گول مول فیصلے میں اسرائیل سے جو وضاحت طلب کی تھی اسکا بھی تل ابیب نے کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا۔ 26 جنوری کو سنائے جانے والے فیصلے کاجواب دینے کیلئے اسرائیل کو 30 دن کی مہلت دی گئی تھی۔ اس دوران جنوبی افریقہ نے فوری جنگ بندی کی ایک اور درخواست عدالت کے روبرو پیش کردی جس پر تادم تحریر بحث جاری ہے۔

گزشتہ ہفتے 27 رکنی یورپی یونین کے وزرائے خارجہ نے ایک مشترکہ بیان میں  اسرائیل سے 'درخواست' کی  تھی کہ وہ رفح میں ایسی فوجی کارروائی نہ کرے جس کے نتیجے میں پہلے سے تباہ کن انسانی صورتحال مزید خراب ہو۔ اس قدم سے بنیادی خدمات اور انسانی امداد کی فوری اور ضروری فراہمی معطل ہوجائیگی۔ ہنگری نے اس بیان پر دستخط نہیں کئے

غزہ کے ساتھ اب  بیت المقدس سے لہو کی مہک محسوس ہورہی ہے اور ڈر ہے کہ رمضان میں مسجد اقصیٰ میدانِ کربلا کا منظر پیش کریگی۔ اسرائیلی اخبارات کے مطابق رمضان المبارک کے دوران فلسطینیوں کے القدس شریف میں داخلے کو محدود کرنے کے اقدامات کی وزیراعظم نیتھں یاہو نے منظوری دیدی ہے۔یہ تجویز انتہا پسند وزیر اندرونی سلامتی المعروف پولیس منسٹر، اتامر بن گوئرنے پیش کی تھی۔ موصوف  کا کہنا ہے کہ قبلہ اول کے تصور نے فلسطینیوں اور اسرائیل کے عرب شہریوں میں مسجد اقصیٰ سے جذباتی وابستگی پیدا کردی یے۔ 'قبلہ اول' کی زیارت کیلئے رمضان اور دوسرے اسلامی تہواروں پر مسجد اقصیٰ میں غیر معمولی ہجوم ہوتا ہے اور نمازیوں کی صفیں مسجد کے دالان یعنی سارے القدس شریف (Temple Mount)تک آجاتی ہیں۔ اس دوران مسجد میں جذباتی خطاب اور القدس لنا (القدس ہمارا ہے) کے نعروں سے نمازی ذہنی طور پر مشتعل رہتے ہیں۔

اپنےایک حالیہ خطاب میں انھوں نے کہا ٓ کہ 7 اکتوبر کو حملے کو 'طوفان الاقصیٰ' پکارنے کے پیچھے بھی یہی حکمت عملی کار فرما تھی کہ 'قبلہ اول' کے نام پر دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات بر انگیختہ کئے جائیں۔ وزیرموصوٖف چاہتے ہیں کہ معراج النبی (ص) کے حوالے سے القدس شریف کی تاریخی حیثیت تو بر قرار رہے لیکن قبلہ اول کے تصور کی حوصلہ شکنی کی جائے۔

منصوبے کے تحت پہلی تراویح سے اتنے ہی لوگوں کو کمپاونڈ میں آنے کی اجازت دی جائیگی جتنے مسجد اقصیٰ کے اندرسماسکیں۔ دالان میں صٖفیں بنانے کی ممانعت ہوگی۔ القدس شریف کے مختلف دروازوں خاص طور سے بابِ دمشق پر سحر و اٖفطار کیئے اشیائے خوردونوش کے جو اسٹال لگائے جاتے ہیں انکی اجازت منسوخ کی جارہی ہے۔ اسرائیلی خفیہ ایجنسی، شاباک (Shin Bet) نے بن گوئر کی تجویز کو داخلی سلامتی کیلئے نقصان دہ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ مسجد اقصیٰ کے معاملے میں فلسطینی حد درجہ حساس ہیں اور پابندیوں سے غربِ اردن کے فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیل کے عرب شہریوں میں بھی اشتعال پھیلے گا۔  تاہم پولیس منسٹر نے شاباک کی سفارش مسترد کردی اور ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق کابینہ کے حالیہ اجلاس میں وزیراعظم نے جناب گوئر کے مشورے کوصاد کردیا۔

مشرقی بیت المقدس المعروف مسلم کوارٹر کا اسلامی تشخص ختم کرنے کیلئے یہاں سے فلسطینیوں کو بیدخل کرنے کے ایک جامع منصوبے کی بھی وزیراعظم نے اصولی منظوری دیدی ہے۔  یروشلم کے مضافاتی علاقے معالی ادومیم Ma'ale Adumim میں فلسطینیوں کے مکانات منہدم کرکے  3000 نئے گھر تعمیر کئے جائینگے۔ 1967 میں قبضے کے فوراً بعد 49 ہزار مربع کلومیٹر سے زیادہ رقبہ خالی کراکر یہاں 37ہزار اسرائیلیوں کو آباد اور بیدخل کئے جانے والے ہزاروں فلسطینیوں کو خیمہ بستییوں میں ٹھونس دیا گیا تھا۔

واشنگٹن  کو اسرائیل کے اس اعلان پر سخت 'تشویش'ہے۔ ارجنٹینا کے دارالحکومت بیونس آئرس میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے امریکی وزیرخارجہ ٹونی بلیکنکن نے اس خبر کو مایوس کن قراردیا۔ انکا کہنا تھا کہ امریکہ نئی آبادیوں کی تعمیر کو امن کیلئے منفی اقدام سمجھتا ہے اور اس معاملے پر ڈیموکریٹس اور ریپبلکن میں کوئی اختلاف نہیں۔ اسرائیل کو منانے کیلئے بلینکن صاحب تل ابیب روانہ ہورہے ہیں۔

اہل غزہ کو صفحہِ ہستی سے مٹانے کے ہونکے میں روس سے برسرِپیکار یوکرین،  چچاسام کی نظروں سے اوجھل ہوچکا ہے۔ ایک نجی محفل میں یوکرینی صدر ولادیمر زیلینسکی یہ کہتے سنے گئے کہ یوکرینی فوج کا توپوں اور ٹینک کے گولوں کا ذخیرہ تقریباً ختم ہوچکا ہے جبکہ چچا سام کی ساری توجہ اپنے لاڈلے کو نوازنے پر ہے۔صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے روسیوں نے مشرقی یوکرین میں دونیتسک صوبے کے اہم شہر Avdiivka  پر قبضہ کرلیا۔

اسرائیل کو اہل غزہ کیساتھ بحیرہ احمر میں یمن کے حوثیوں کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا ہے جو امریکہ اور برطانیہ کی جانب سے مسلسل حملوں کے باوجود پرعزم ہیں کہ   بحیرہ احمر، آبنائے باب المندب اور خلیج عدن اسرائیل کیلئے NO GOعلاقہ بنارہیگا۔  اسرائیل آنے اور جانے والے جہازوں کو نشانہ بنانے کیئے میزائیل اور ڈرونوں کے ساتھ اب زیرآب اسلحہ بھی استعمال ہورہا ہے۔ حال ہی میں حوثیوں نے امریکہ کا جدید ترین MQ-9 Reaper ڈرون مارگرایا۔حوثیوں کا کہنا ہے تین کروڑ ڈالر لاگت کے اس ڈرون کو مغربی یمن میں دارالحکومت صنعا کے قریب زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائیل سے نشانہ بنایا گیا۔

اسی دوران پانامہ پرچم برادر جہاز بھی  زد میں آگیا جو بحیرہ اسود کی بندرگاہ Novorossiysk سے تین لاکھ بیرل تیل لے کر بحرہند کی بندرگاہ اڑیسہ جارہا تھا۔ اس ٹینکر کو  یمنی بندرگاہ المخاہ کے قریب نشانہ بنایا گیا۔ 24 فروری کو  اسرائیل کیلئے محو سفر 41 ہزار ٹن کھاد سے لدے بلیز (Belize)  کے پرچم بردار برطانوی جہاز روبیمر Rubymar کو میزائیل حملے میں  شدید نقصان پہنچا۔  امریکی مرکزی کمان کے مطابق پیندے میں پڑجانے والے شگافوں کی وجہ سے اسکی غرقابی کا خطرہ ہے ۔

غزہ خونریزی  اسرائیل کو بھی مہنگی پڑرہی ہے۔ اسرائیل کے مرکزی ادارہ شماریات یا Central Bureau of Statistics کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ تین ماہ کے دوران قومی معیشت 20 فیصد سکڑ گئی۔تین سال پہلے  کرونا وائرس کے دوران  معیشت کا حجم 30 فیصد کم ہواتھا۔کسادبازاری، مہنگائی اور بیروزگاری کیوجہ سے آٹھ فیصد سے زیادہ اسرائیلی بے گھر ہوچکے ہیں۔

زوال پزیر معیشت پر مزدور مشتعل ہیں۔ اسرائیلی مزدور تنظیم کے سربراہ ہارون بار ڈیوڈ نے صنعتی شہر  بئر شیبہ میں مزدروں کے قومی کنونشن سے خطاب  کرتے ہوئے کہا کہ  وزیراعظم نیتھن یاہو، اسرائیل کیلئے تباہی کا استعارہ بن گئے ہیں۔بی بی سانحہِ 7 اکتوبر کی ذمہ داری قبول کرکے فوری طور پر نئے انتخابات کا اعلان کریں ورنہ مزدور سڑکوں پر ہونگے۔ مزدوروں کی نمائندہ یونین 1920 میں قائم ہوئی تھی اورا س سے وابستہ کارکنوں کی تعداد آٹھ لاکھ سے زیادہ ہے۔

بڑھتے ہوئے جانی نقصان، سپاہیوں کی معذوری، کساد بازاری، مزدروں کی طرف سے  ہڑتال کی دھمکی اور 25 فروری کو تل ابیب میں اشتعال انگیز مظاہروں سے بی بی دباو میں تو  ہیں لیکن انکی چوٹ کھائی انا اتنی آسانی سے ہتھیار ڈالتی نظر نہیں آتی۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی یکم مارچ 2024

ہفت روزہ دعوت دہلی، یکم مارچ 2024

روزنامہ امت کراچی یکم مارچ 2024

ہفت روزہ رہبر سرینگر 3 ماتچ 2024

روزنامہ قومی صحافت لکھنو


Thursday, February 22, 2024

رفحہ ۔۔۔ انسانوں کا جنگل و مقتل

 

رفحہ ۔۔۔ انسانوں کا جنگل  و مقتل

غزہ میں جاری وحشت 29 ہزار معصوموں کا خون چاٹ چکی ہے جس میں 70 فیصد خواتین اور چھوٹے بچے ہیں۔ زخمیوں کی تعداد 69 ہزار کے قریب ہےجنھیں علاج کی سہولت تو درکنار اسپتال کے بستر بھی میسر نہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق غزہ کی پوری پٹی رہنے کے قابل نہیں رہی۔ سرنگوں کی تلاش میں اسرائیلی فوج زمین میں سوراخ کرکے شدید دباو کے ساتھ سمندر کا پانی نیچے پمپ  کررہی ہے  جس کے نتیجے میں  جگہ جگہ کھاری دلدل بن گئے ہیں اور سیوریج کا نطام تباہ ہوچکا ہے۔ دنیا کے گنجان ترین آبادی میں سیوریج کا نطام ختم ہونے سے  جو صورتحال جنم  لے رہی ہے اسے سوچ کر ہی طبیعت متلانے لگتی ہے۔

اس خونریزی کی ناقابل برداشت قیمت معصوم بچے اداکررہے ہیں۔ جن نونہالوں کو انکے رب نے اپنے پاس بلالیا ، اُن مرجھاجانے والے غنچوں پر افسوس تو ہے لیکن جنت کو مہکا دینے والے یہ پھول نسبتاً خوش نصیب ہیں کہ عذاب و آزمائش سے نجات پاگئے۔ غزہ کی وزارت صحت کے مطابق 17 ہزار  بچے اپنے والدین اور سرپرستوں سے بچھڑے گئے ہیں۔ بہت سوں کے ماں  باپ  اسرائیلی بمباری میں مارے گئے جبکہ ہزاروں زخمی اپنے جگر گوشوں سے بے خبر مختلف مقامات پر زیرعلاج یا پناہ گزیں ہیں۔

امریکی ساختہ طیاروں اور ٹینکو ں سے  بلا تعطل بمباری و گولہ باری نے غزہ کو کھنڈر بنادیا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق  70 فیصد عمارات تباہ ہوچکی ہیں۔ پناہ کی تلاش میں غزہ کی آدھی آبادی مصری سرحد کے قریب  رفحہ  سمٹ ائی ہے اور  15 مربع کلومیٹر کے  رقبے پر بارہ لاکھ کے قریب انسان ٹھنسے ہوئے ہیں۔ سڑکو ں اور میدانوں میں چادریں تان کر لوگوں نے آشیانے بنالئے  اور بے چھت کی یہ پناہ گاہیں اسرائیلی ڈرون کے نشانے پر ہیں۔ یہ ڈر اونے پرندےدو سو معصوم شہریوں کا روزانہ شکار کر رہے ہیں۔

آتش و آہن کی موسلا دھار بارش کیساتھ اسرائیل اب رفحہ پر خوفناک بری حملے کے لئے پرتول رہا ہے اور اس مقصد کیلئے ٹینک اور بکتر بند گاڑیوں  کے قافلے رفحہ کی طرف رواں دواں ہیں۔ اس حملے سے سڑکوں پر کھلےآسمان تلے پناہ لئے ہوئے  شہریوں کی ہلاکت لازمی ہے۔ عسکری مبصرین اور ماہرین  کا خیال ہے کہ رفحہ پر حملے سے غزہ کے جنگجووں کا تو شاید کچھ نہ بگڑے لیکن رفحہ بارہ لاکھ انسانوں کا شمشان گھاٹ بن جائیگا۔ امریکہ سمیت اسرائیل کے تمام اتحادی و پشتیبان حملہ روکنے کیلئے پتھر دل محبوب کی منت سماجت کررہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے  کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے وزرائے اعظم نے  بھی اپنے ایک  مشترکہ بیان میں اسرائیل سے 'انسانیت کی خاطر' فوری جنگ بندی کی درخواست کی۔

رفحہ پر فوج کشی کا جو بھیانک نتیجہ نکلے گا اس پر سلیم الفطرت یہودیوں کو بھی پریشانی ہے۔ پندرہ فروری کو برطانیہ کے قدامت پسند یہودی امام (ربّائی) جاناتھن وائٹن برگJonathan Wittenberg نے رفحہ پر متوقع اسرائیلی حملے کی مخالفت کرتے ہوئے غزہ معاملے کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کا مطالبہ کیا۔ اپنے ایک تحریری بیان میں ربائی محترم نے کہا ' یہ الفاظ رفحہ میں اسرائیل کے ممکنہ عسکری اقدامات کے بارے میں گہری تشویش کی وجہ سے لکھے جارہے ہیں۔اس معاملے پر خاموش رہنا دیندار لوگوں کیلئےناممکن ہے'۔ ربائی وائٹن برگ نے کہا ' ان اقدامات سے اہل غزہ کو جوناقابل تصورمصائب جھیلنے پڑیں گے اسکے تصور سے  ہی مجھے خوف آتا ہے۔ اس سے پیدا ہونے والی نفرت سے ہمیں، اسرائیل اور یہودیوں کی نیک نامی کو جو زخم لگے گا اسکی ٹیس ہماری کئی نسلیں محسوس کرینگی'

یہودیوں کی قدامت پسند فکرونظر یورپ میں مسورتی یہودیت یا Masorti Judaism کہلاتی ہے۔ مسورتیوں کا خیال ہے کہ دنیا کے تمام مسائل کا حل موسوی شریعت میں ہے جسے حا لاخا (Halakhe)کہتے ہیں۔ یہودیو ں کا سواد اعظم تلمود کو ماخذ شریعت مانتا ہے۔ غزہ پر حملے کے آغاز میں 17 اکتوبر کو ربائی وائٹن برگ ، برطانوی مسیحیوں کے اسقفِ آعظم جسٹن ویلبی اور مسلم امام ابراہیم موگر ا نے ملاقات کے بعد ایک مشترکہ بیان میں اسرائیلی حملے کی مذمت کی تھی۔

 لیکن بی بی نے ان تمام 'درخواستوں اور گزارشات' کو حقارت سے مسترد کرتے ہوئے  اپنی فوج کو حکم دیا ہے کہ رفحہ سے 15لاکھ فلسطینیوں کی منتقلی کا کام 10 مارچ یعنی آغاز رمضان سے پہلے مکمل کرلیا جائے۔

اس حکم میں  رمضان کا ذکر بہت معنی خیز ہے۔ اس سے ایک طرف تو بی بی یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ اسرائیل مذہبی رواداری اور پرامن بقائے باہمی پر یقین رکھنے والا ملک ہے جو تمام مذاہب اور مذہبی روایات و شعائر کا احترام کرتا ہے۔ دوسری طرف وہ چاہتے ہیں کہ مصر کے جنرل السیسی  اپنی سرحدیں کھول کر  رفحہ میں پناہ لئے اہل غزہ  کو  احترام رمضان کے نام پر صحرائے سینائی لے آئیں ۔ اس قدم سے جنرل صاحب کو  اسلامی دنیا میں پزیرائی نصیب ہوگی کہ وہ  ان لاکھوں بے کسوں کی میزبانی کا خرچ صرف اسلئے برداشت کررہے کہ یہ  ستم رسیدہ رمضان اطمینان سے گزارسکیں۔ لیکن اس کا اصل مقصد غزہ  سے فلسطیینوں کے انخلا کے بعد  اسرائیلی قبضے کی تکمیل ہے ۔

ایک طرف چچاسام اسرائیل  سے رفحہ پر حملہ نہ کرنے  کی درخواستیں کررہے ہیں تو دوسری جانب سلامتی کونسل میں جنگ بندی کی ہر تجویز کو ویٹو کرنے کا سلسلہ جاری ہے ۔ اسی ہفتے الجزائر نے  جنگ بندی قرارداد کا ایک  مسودہ سلامتی کونسل میں پیش کیا ہے  جسے بحث و رائے شماری سے پہلے ہی  واشنگٹن نے مسترد کردیا، اقوام متحدہ میں امریکہ کی مستقل نمائندہ محترمہ لنڈا ٹامس گرین فیلڈ نے موقف اختیار کیا کہ قرارداد کی جلد بازی میں منظوری سے پائیدار امن کیلئے جاری حساس مذاکرات کی حوصلہ شکنی ہوگی۔ ستم ظریفی کہ فاضل مندوب قاہرہ کے جس حساس مذاکرات کی طرف اشارہ فرمارہی ہیں وہاں سے اسرائیل نے اپنا وفد یہ کہہ کر واپس بلالیا ہے کہ اہل غزہ کی شرایط ہمیں منظور نہیں۔ مستضعفین کا اصرار ہے کہ اسرائیل اپنی فوجیں 7 اکتوبر کی پوزیشن پر واپس لے جائے پھر قیدیوں کے تبادلے پر بات چیت ہوگی۔

امن کے معاملے میں دورنگی کا شکار صرف بائیڈن انتظامیہ نہیں بلکہ ساری کی ساری امریکی قیادت اسرائیل کی پشت پناہی کیلئے پرعزم ہے۔ امریکی سینیٹروں نے رات بھر بحث مباحثے کے بعد منگل (13 فروری) کی صبح پانچ بجے اسرائیل کو 14 ارب 10 کروڑ ڈالر دینے کی قرارداد 29 کے مقابلے میں 79 ووٹوں سے منظور کرلی۔ فلسطینیوں پر آٹش و آہن برسانے کیلئے اسرائیل کو خوفناک میزائیل و بمبار دینے کیساتھ اہل غزہ اور ساکنانِ غرب اردن کی مرہم پٹی کیلئے بھی  9 ارب 15 کروڑ ڈالر تجویز کئے گئے ہیں۔ اس حوالے سے ایک امید افزا خبر یہ کہ ہالینڈ کی عدالت نے F-35بمباروں کی تیاری میں استعمال ہونے والے پرزوں کی برآمد پر پابندی لگادی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے درخواست کی تھی کہ غزہ قتل عام میں عدم تعاون کے عملی اظہار کیلئے جنگی سازوسامان کی اسرائیل برآمدگی روکی جائے۔ امریکی ساختہ ایف 35 بمبار طیاوں کے کچھ اہم پرزے ہالینڈ میں بنتے ہیں

گوری دنیا کی مکمل پشت پناہی اور بھرپور امداد کے بل پر اسرائیل غزہ کو کھنڈر اور آگ کے گڑھے اور تندور بنادینے میں تو کامیاب ہوگیا جہاں معصوم بچے اصحاب الاخدود کی سنت دہرارہے ہیں۔ تاہم  قیادت کی سنگدلی و خوں آشامی اسرائیلیوں کو بھی مہنگی پڑ رہی ہے۔ غزہ میں فوجیوں کی بڑھتی ہوئی ہلاکت و معذوری سے اسرائیلی فوج شدید دباو میں ہے اور وزارت دفاع نے فوجی بھرتی کا نیا پروگرام وضع کیا ہے جس کے لئے کئی ارب ڈالر درکار ہیں۔ خرچ کی تو خیر ہے کہ امریکہ اور یورپی یونین نے خزانے کے منہہ کھول رکھے ہیں لیکن یہاں ایک بہت بڑا مذہبی تنازعہ کھڑا ہوگیا ہے ۔

اسرائیل میں لازمی فوجی خدمت کا قانون نافذ ہے یعنی ہر اسرائیلی لڑکے کو 2 سال آٹھ ماہ اور لڑکی کو دو سال فوجی خدمات سرانجام دینی ہوتی ہیں۔ یہ مدت ختم ہونے کے بعد بھی لام بندی قانوں کے تحت ریاست جب چاہے کسی بھی شہری کو فوجی خدمت کیلئے واپس بلاسکتی ہے۔ آجکل تقریباً سارے ہی reserve محاذ جنگ پر ہیں ۔ گھمسان کی جنگ کی وجہ سے محفوظ دستوں کی ڈیوٹی کادورانیہ بڑھادیا گیا ہے۔ غزہ تعینات اسرائیلی فوج میں وبائی امراض بھی پھیل رہے ہیں جس نے صورتحال مزید دشوار کردی ہے۔

اسوقت اسرائیلی فوج کی ملازمت سب سے خطرناک سمجھی جارہی ہے چنانچہ نوجوان فوجی بھرتی کی طرف مائل نہیں ۔ ملازمت کو پرکشش بنانے کیلئے تنخواہوں اور مراعات میں بھاری اضافے کا ایک منصوبہ وزارت دفاع نے پیش کیا ہے جس میں فوج کیساتھ reserveجوانوں کی تنخواہ تقریباً دگنی کردینے کی تجویز ہے۔ حالیہ جنگی جنون کی بناپراس تجویز کی مخالفت کسی کے لئے ممکن نہیں لیکن قائد حزب اختلاف یار لیپیڈ نے ایک نئے پہلو کی طرف نشاندہی کی ہے جس پر قدامت پسند سخت مشتعل ہیں۔

لازمی فوجی خدمت کے قانون سے حریدی، عبرانی تلفظ شریدی (Heridi) فرقے کے یہودی مستثنیٰ ہیں۔ یہ دراصل Ultra-Orthodox Jewsہیں۔ سرائیل کی یہودی آبادی میں حریدیوں کا تناسب 10 فیصد کے قریب ہے۔حریدی خود کو توریت اور احکامات ربُانی یا تلمود (Talmud)کا وارث سمجھتے ہیں اور انکے یہاں ہر مرد کیلئے توریت و تلمود کی تعلیم فرض سمجھی جاتی ہے۔ درس و تدریس کیلئے مخصوص مدارس ہیں جہاں طلبہ ٹاٹ پر بیٹھ کر توریت حفظ کرتے ہیں۔ ان مدارس کو Yeshivaکہا جاتا ہے۔ Yeshiva کے معنی ہی ہیں زمین پر بیٹھنا۔ ماضی میں کئی بارحریدیوں کا استثنٰی ختم کرنے کی تجویزآئی لیکن مولویوں نے لبرل عناصر کی ایک نہ چلنے دی۔ حریدیوں کی نمائندہ پاسداران توریت یاShas Partyہر قدامت پسند حکومت کا حصہ رہی ہے چنانچہ یہ استثنیٰ آج تک قائم ہے۔ شاس کا کہنا ہے کہ لازمی فوجی تربیت کیلئےYeshivaسے 32 مہینے کی غیرحاضری تعلیم میں حرج کا سبب بنے گی اور 'حفظ ' متاثر ہوگا ۔

گزشتہ ہفتے قائد حزب اختلاف یار لیپڈ نے حکومت کے فوجی بل کی حمائت کو حریدی استثنیٰ کی منسوخی سے مشروط کرنے کا اعلان کردیا۔ انکا کہنا ہے کہ آبادی کے لحاظ سے اسرائیل ایک چھوٹا ملک ہے جبکہ اپنی بقا کیلئے ہمیں ایک بڑی فوج کی ضرورت ہے۔ حریدیوں کے استثنیٰ سے دوسری آبادیوں پر غیرمنصفانہ دباو پڑرہاہے جو غزہ کی سنگین صورتحال کے تناظر میں کسی طور مناسب نہیں۔دوسری طرف شاس اور یہودی توریت جماعت (UTJ) فوجی تربیت سے استثنیٰ کو 'سرخ لکیر' قرار دے رہی ہیں۔ وزیراعظم نتھین یاہو کے اتحاد کو 120 رکنی کنیسہ (پارلیمان ) میں 64 ارکان کی حمائت حاصل ہے جس میں شاس اور UTJ کا مجموعی حجم 18 ہے۔ یعنی ان میں سےاگر ایک جماعت بھی الگ ہوئی تو حکومت تحلیل ہوجائیگی۔

اسرائیل کی پشت پناہی کرنے والے تجاری ادارے بھی دباو محسوس کررہے ہیں۔ مک ڈانلڈ (McDonald)کی انتظامیہ نے اپنے حصص یافتگان کو بھیجی گئی رپورٹ میں کہا ہے کہ غزہ جنگ کے بعد بائیکاٹ سے کارپوریش کا کاروبار متاثر ہورہا ہے۔ مصر، انڈونیشیا اور ملائیشیا میں بائیکاٹ بہت موثر ہے۔ امریکہ میں ذبیحہ گوشت نہ ہونےکی وجہ سے مسلمانوں میں میکڈانلڈ پہلے بھی بہت زیادہ مقبول نہ تھا۔ تاہم اسکی کیلی فورنیا میں ایک شاخ بند ہوچکی ہے۔ بیرونِ امریکہ کمپنی کو بکری میں 10 فیصد اضافے کی توقع تھی لیکن دسمبر میں ختم ہونے والی سہہ ماہی کے دوران یہ اضافہ ایک فیصد سے بھی کم تھا۔ خلیجی ممالک خاص طور سے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں بائیکاٹ زیادہ موثر نہیں۔

گفتگو کا اختتام ایک حوصلہ افزا نوٹ پر

اہل غزہ کے پاس کھانے کو نہیں لیکن قرآن کی تعلیم میں ایک دن ناغہ نہیں ہوا۔ ناظرہ کیساتھ حفظ کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ گزشتہ ہفتے حفظ اور  جزوی حفظ کرنے والی بچیوں کا جلسہ تقسیم اسناد منعقد ہوا۔ قرآن یاد کرلینے کی خوشی ان کے معصوم چہروں سے  پھوٹی پڑرہی تھی حالانکہ ان میں بہت سی یتیم و بے سہارا ہوچکی ہیں۔  اعصاب و حوصلہ شکن مصائب و آلام کے باوجود حفظ قران کی خوشی میں ان غمزدوں نے شیرینی بھی تقسیم کی کہ جب اللہ کا کلام سینوں میں محفوظ اور زبانوں پر جاری ہوجائے تو مافی مشکل؟؟؟؟

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 23 فروری 2024

ہفت روزہ دعوت دہلی 23 فروری 2024

ہفت روزہ رہبر سرینگر 25 فروری 2024


Thursday, February 15, 2024

پاکستان کے انتخابات ۔۔ غیر شفاف اور غیر فیصلہ کن

 

پاکستان کے انتخابات ۔۔ غیر شفاف اور غیر فیصلہ کن

گزشتہ ماہ بنگلہ دیش (سابق مشرقی پاکستان) میں انتخابات ہوئے اور 8 فروری کو پاکستان کے لوگوں نے قومی اور چاروں صوبوں کی اسمبلیوں  کا انتخاب کیا۔ انتخابی نتائج پر تبصرے سے پہلے  ملک کی سیاسی صورتحال کا ایک جائزہ

پاکستان گزشتہ 23 ماہ سے سیاسی بحران کا شکار ہے، اس کا آغاز   8 مارچ 2022کو وزیراعظم عمران خان کے خلاف حزب اختلاف کی تحریک عدم اعتماد سے ہوا۔اس تحریک کے روح رواں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (PDM)کے سربراہ مولانا فضل الرحمان تھے۔جماعت اسلامی نے اس تحریک سے علیحدہ رہنے کا اعلان کیا۔ اسی طرح پشتون تحفظ موومنٹ اور مسلم لیگ ق نے بھی  عدم اعتماد کی قرارداد پر دستخط نہیں کئے۔ 27 مارچ کو  سابق وزیراعظم  نے ایک کاغذ لہراتے ہوئے انکشاف کیا کہ امریکی وزارت خارجہ کے ایک اعلیٰ افسر ڈانلڈ لو نے پاکستانی سفیر سے ایک ملاقات میں عمرا ن خان کو ناپسندیدہ قرار دیتے ہوئے regime changeکی فرمائش کی ہے۔ کپتان نے مزید کہا کہ  سفیرِ پاکستان اسد  مجید خان نے خفیہ سفارتی مراسلے یا Cypherکی شکل میں  یہ بات وزیرخارجہ  کو بتادی ہے۔خان صاحب نے انکشاف کیا کہ پاکستانی سفیر اور  ڈانلڈ لو کی ملاقات 7 مارچ کو ہوئی اور اس کے دوسرے ہی روز قراردادِ عدم اعتماد پیش کردی گئی۔ کپتان نے دعویٰ کیا کہ یہ تحریک حکومت گرانے کے امریکی 'حکم' کی تعمیل کیلئے پیش کی گئی ہے۔ زعمائے پی ڈی ایم کا دعویٰ تھا کہ وہ کافی عرصے سے عدم اعتماد کی تحریک لانے کا سوچ رہے  تھے لیکن منظوری کیلئے مطلوبہ ووٹ کو یقینی بنانے میں وقت لگا اور اس کا سائفر سے کوئی تعلق نہیں۔ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے سائفر ملنے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ  اسکا جواب امریکہ کو بھجوادیا گیا ہے جسے سفارتی اصطلاح میں dé·marche  کہتے ہیں۔

عمران خان نے پیشکش کی کہ اگر حزب اختلاف عدم اعتماد کی تحریک واپس لے لے تو وہ قومی اسمبلی تحلیل کرکے نئے انتخابات کرانے کو تیار ہیں لیکن حزب اختلاف نہ مانی۔ تین اپریل کو جب عدم اعتماد کی تحریک قومی اسمبلی میں پیش ہوئی تو ڈپٹی اسپیکر  جناب قاسم سوری نے جو اجلاس کی صدارت کررہے تھے،  قرارداد کو خلاف ضابطہ قراردیتے ہوئے مستر کردیا اور وزیر اعظم کی سفارش  پر صدر عارف علوی نے قومی اسمبلی تحلیل کرکے  ضابطے کے مطابق الیکشن کمیشن  کو  90 دن کے اندر نئے انتخابات کرانے کا حکم دیدیا۔

ڈپٹی اسپیکر کی جانب سے  قرارداد مسترد کئے جانے پر حزبِ اختلاف  سپریم کورٹ پہنچ گئی اور عدالت عظمیٰ نے اسپیکر کے فیصلے کو غیر آئینی قراردے دیا۔ فیصلہ آتے ہی 10 مارچ کو حزب اختلاف نے قرارداد عدم اعتماد ایوان میں  پیش کردی۔اس روز  اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر سمیت برسراقتدار تحریک انصاف کے تمام ارکان نے اجلاس کا بائیکاٹ کیا تاہم  وزیرمملکت علی محمد خان علامتی طور پر ایوان میں موجود تھے۔ سابق اسپیکر ایاز صادق نے اجلاس کی صدارت کی اور جب راے شماری کا وقت آیا تو صرف علی محمد خان، پشتون تحفظ موومنٹ کے محسن داوڑ اور جماعت اسلامی کے مولانا چترالی تحریک عدام اعتماد کے مخالف تھے۔ عدم اعتماد کے نتیجے میں حزب اختلاف کے شہباز شریف وزیراعظم منتخب ہوگئے۔[

شدید مہنگائی اور سیاسی بحران کی وجہ سے شہباز حکومت عوام میں انتہائی غیر مقبول رہی۔ نو مئی کو بدعنوانی کے الزاام میں عمران خان کو گرفتار کرلیا گیا، جس پر تحریک انصاف کی طرف سے شدید رد عمل سامنے آیا۔  مشتعل مظاہرین نےکئی شہروں میں فوجی تنصیبات اور  کورکمانڈروں کے دفاتر پر توڑ پھوڑ کی۔اس دوران تحریک انصاف کے سینکڑوں رہنما اور کارکن گرفتار کرلئے گئے۔عدالت کے حکم پر عمران رہاہوگئے لیکن جلد ہی انھی  دوبارہ گرفتار کرلیا گیا۔ دورانِ حراست  غیر ملکی دوروں پر ملنے والے تحائف فروخت کرنے کے الزام میں عمران کو تین سال کی سزا سنائی گئی۔ سزا پانے کے نتیجے میں عمران خان  سیاست سے نااہل ہوگئے۔

مدت مکمل ہونے پر گزشتہ برس 13 اگست کو قومی اور چاروں صوبائی اسمبلیاں تحلیل ہوگئیں۔ آئین کی رو سے انتخابات  90 دن مکمل ہونے پر 12 نومبر تک ہوجانے چاہئے تھے لیکن چناو کیلئے 8 فروری کی تاریخ طئے کی گئی۔  ۔ اسی دوران الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کو ایک انتباہی مکتو ب لکھا جس میں نشاندہی کی گئی تھی کہ    پارٹی نے جماعتی انتخابات نہیں کرائےا ور اگر فوری طور پر انتخابات نہ کروائے گئے تو  تحریک انصاف عام انتخابات میں اپنا انتخابی نشا ن 'بلّا' (bat) استعمال نہیں کرسکے گی۔ تحریک انصاف نے ہنگامی بنیادوں  پر  انتخاب منعقد کرکے بیرسٹر گوہر خان کو پارٹی کو چئرمین چُن لیا،  لیکن الیکشن کمیشن نے ان انتخابات کو غیر شفاف اور خلاف ضابطہ قرار دیتے ہوئے  پی ٹی آئی سے انتخابی نشان  واپس لے لیا۔

اس سال 30 جنوری کو خصوصی عدالت نے سائفر کے افشا اور رازاداری یا official secret act کی خلاف وزری پر عمران خان کو دس سال کی سزا سنادی۔ اسکے 4 دن  بعد بشریٰ بی بی  سے  دوران عدت  نکاح پر عمران خان اور انکی ہلیہ کو سات سال قید کی سزا ہو گئی۔  رازداری ایکٹ کی تفصیلات کا ہمیں علم نہیں لیکن  پارٹی انتخابات اور دوران عدت نکاح کے حوالے سے ہمارا  خیال ہے کہ  انصاف کے تقاضے پورے نہیں کئے گئے۔

سلطانی جمہور کو یقینی بنانے کیلئے سیاسی جماعتوں کا جمہوری ہونا ضروری ہے جسکی بنیادی شرط پارٹی انتخابات ہیں۔ انتخابی ضابطے کے تحت ہر سیاسی جماعت Intra-Partyانتخابات کرانے کی پابند ہے۔تحریک انصاف سے انتخابی نشان واپس لینے کا فیصلہ اس اعتبار سے  تو درست ہے کہ عمران خان نے کافی عرصے سے پارٹی انتخابات نہیں کرائے لیکن  یہ عدل و مساوت کی رو سے ایک امتیازی  بلکہ انتقامی فیصلہ تھا کہ جماعت اسلامی کے سوا پاکستان کی کسی بھی سیاسی جماعت میں انتخابات نہیں ہوتے۔ جناب بلاول بھٹو کو تو  انکی والدہ مرحومہ کی وصیت کی بنیاد پر پارٹی قیادت سونپی گئی ہے۔ مسلم لیگ میں بھی انتخابات کے بجائے نامزدگیوں سے کام چلایا جارہا ہے۔

دوران عدت نکاح کا مقدمہ انتہائی بھونڈا اور اسلامی شریعت سے مذاق ہے۔ معاملہ بس اتنا سا ہے کہ  بشریٰ بی بی  نے عدت اس دن سے گِنی جس روز سابق شوہر نے انھیں زبانی طلاق دی۔ انھیں تحریری طلاق نامہ نومبر کے آخر میں ملا جسکی رو سے نکاح والے دن عدت مکمل نہیں ہوئی، خانصاحب نے دوباہ نکاح منعقد کرکے اس غلطی کی تلافی کردی۔ اس میں نہ کوئی ملکی قانوں ٹوتا نہ شریعت کے کسی ضابطے کی خلاف ورزی ہوئی، بس ایک سہو تھا جسکا ازالہ کردیا گیا۔ سچی بات یہ ہے کہ عدت کی مدت زبانی طلاق کے دن سے ہی گنی جانی چاہیے اور اس اعتبار سے دوسرانکاح بھی ضروری نہ تھا۔

آب آتے ہیں انتخابات کی طرف اور سب سے پہلے  فارم 45 اور 47 پر مختصر گفتگو کہ آجکل اسکا بڑا شور ہے۔ ہر پولنگ اسٹیشن پر گنتی کے بعد تمام امیدواروں کے حاصل کردہ ووٹوں کی تفصیل فارم 45 پر درج کی جاتی ہے۔یہ  فارم وہاں موجود  پولنگ ایجنٹؤں کی تصدیقی دستخط کے بعد پریزائیڈنگ افسران حلقہ کے  Returning Officerیا آراو کو بھیج دیتے ہیں۔ ساتھ ہی اسکی مستند نقول  بطور سند ایجنٹوں کے حوالہ کردی جاتی ہیں۔ تمام پولنگ اسٹیشنوں سے حاصل ہونے والے فارم 45 پر درج ووٹو ں کو جمع کرکے حلقے یا constituencyسے ہر امیدوار کو ملنے والے ووٹوں کی مجموعی تعداد فارم 47 پر لکھ کرکے ضلعی  اور صوبائی الیکشن کمشنر کو بھیجی جاتی ہے۔ فارم 47 دراصل حلقے کے غیر سرکاری نتیجے کا اعلان ہے۔ فارم 47 کے اعدادوشمار پر اعتراض کی صورت میں پولنگ اسٹیشنوں سے ملنے والے فارم 45 دکھاکر تصحیح کی درخواست دائر کی جاسکتی ہے۔

حالیہ انتخابات میں  ووٹنگ اور گنتی کے مرحلوں پر تو کسی بڑی شکائت کی اطلاع  نہیں ملی۔ بعض پولنگ اسٹیشنوں پر عملہ دیر سے پہنچا، کچھ مقامات پر سیاسی کارکنوں کے درمیان دھول دھپے کی وارادت بھی ہوگئی تاہم یہ واقعات اکا دکا تھے۔گنتی کے بعد دستخط شدہ  فارم 45 بھی بالکل درست جاری کئے گئے۔ دھاندلی بلکہ کھلی بے ایمانی کا مظاہرہ  فارم 47 کی تدوین کے وقت کیا گیا۔ کراچی میں جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کو ملنے والے اکثر فارم 47 خودساختہ ہیں یعنی وہ  فارم45 کا مجموعہ نہیں۔ تحریک انصاف کے افراد کا کہنا ہے کہ پنجاب میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ کراچی میں فارم 45 کی رو سے صوبائی اسمبلی کے تیرہ حلقوں میں جماعت اسلامی کے امیدوار جیت چکے ہیں لیکن فارم 47 کے مطابق  ان نشستوں پر ایم کیو ایم کے ووٹ زیادہ ہیں۔ دیکھنا ہے کہ ان  انتخابی بے ضابطیوں پر داد رسی  کیلئے کیا راستہ اخیتار کیا جاتا ہے۔  

غیر سرکاری نتائج کے مطابق  قومی اسمبلی کی 93 نشستیں تحریک انصاف، 75 نوازلیگ اور 54  پیپلز پارٹی کے حصے میں آئیں ہیں ۔ متحدہ قومی موومنٹ نے 17 نشتوں پر کامیابی حاصل کی۔ مولانا فضل الرحمان کی جمیعت علمائے اسلام اور مسلم لیگ ق کو تین تین نشستیں ملیں۔ مولانا صاحب  ڈیرہ اسماعیل خان کی آبائی نشست ہارگئے لیکن انھوں نے پشین (بلوچستان) سے کامیابی حاصل کرلی۔  ان انتخابات کی خاص بات کہ پارلیمانی تاریخ کا یہ پہلا موقع ہے جب قومی اسمبلی میں جماعت اسلامی کی نمائندگی صفر ہوگی۔

ضابطے کے تحت انتخابات کے 20 دن کے اندر نئی اسمبلی حلف اٹھائیگی جسکے بعد خواتین کی 60 اور اقلیتوں کی 10 مخصوص نشستیں ہر جماعت کو اسکے پارلیمانی حجم کے مطابق ملیں گے۔ تحریک انصاف نے  انتخابات میں بطور پارٹی حصہ نہیں لیا لہذا اس کوٹے میں اسکو کوئی حصہ نہیں مل سکتا۔ افواہ ہے کہ حلف اٹھانے کے بعد انکے تمام ارکان مجلس وحدت المسلمین (MWM)میں  شامل ہوجائینگے تاکہ  مخصوص نشستوں سے اپنا حصہ حاصل کیا جاسکے۔

تحریک انصاف کیلئے سب سے بڑی آزمائش اپنے ارکانِ پارلیمان کی وفاداری قائم رکھنا ہے ، یہ تمام لوگ آزاد حیثیت سے منتخب ہوئے  ہیں اسلئے  ان پر آئین کی شق 63-Aالمعروف فلور کراسنگ ایکٹ کا اطلاق نہیں ہوتا۔ آزاد ارکان اپنی مرضی سے وزیراعظم و وزیراعلیٰ کیلئے ووٹ دے سکتے ہیں۔ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں تحریک انصاف کے آزاد ارکان کو ساتھ ملا کر اپنا پارلیمانی حجم بڑھانا چاہتے ہیں۔ یا یوں کہئے کہ ضمیر خریدنے کیلئے بولیاں دی جارہی ہیں۔ آزاد پنچھیوں کیلئے ن لیگ کی رفاقت زیادہ پرکشش ہے کہ انکے پاس  پہلے ہی 74 نشستیں ہیں اور کم ازکم 10 آزاد ارکان ان سے آملے ہیں۔ ایم کیوایم  اور بلوچ عناصر نے بھی مسلم لیگ سے اتحاد کا عندیہ دیاہے۔ سب سے اہم  کہ بی بی مقتدرہ ان  پر مہربان لگ رہی ہیں اور یہاں لیلٰےِ اقتدار اسی دیوانے کو فرحتِ وصال بخشتی ہے جو بی بی کے سایہ الطاف میں ہو،۔

دوسری طرف پی ٹی آئی کی عوامی حمائت کو نظر انداز کرنا  مقتدر حلقے کیلئے آسان  نہیں۔ اگر عمران خان نے MWMسے الحاق کی اجازت دیدی تو پیپلز پارٹی سے شرکت اقتدار بھی آسان ہوجائیگا کہ شیعہ مکتبہ فکر کی بناہر MWMکے پیپلز پارٹی اور زرداری خانداان سے اچھے مراسم ہیں ۔ پی ٹی ائی کے قائد بیرسٹر گوہر دوسال پہلے تک پیپلز پارٹی میں تھے اور وہ جناب آصف زرداری کے بہت قریب ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو وفاق اور چاروں صوبوں میں MWM (تحریک انصاف) کی حکومت قائم ہوسکتی ہے۔ آصف زرداری اپنے بیٹے کو وزیراعظم بنانا چاہتے ہیں جبکہ بیرسٹر صاحب بھی وزرت عظمیٰ کا ارمان رکھتے ہیں۔ پارلیمانی نظام حکومت میں منصب وزارت عظمی کی شمع باری باری عشاقان اقتدار کے سامنے رکھنے کی نظیر  بھی موجود ہے۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 16 فروری 2024

ہفت روزہ دعوت دہلی 16 فروری 2024

روزنامہ امت کراچی 16 فروری 2024

ہفت روزہ رہبر سرینگر 18 فروری 2024

روزنامہ قومی صحافت لکھنو

نوٹ: یہ مضمون 10 فروری کو لکھا گیا ہے


Thursday, February 8, 2024

وحشت و بربریت کا پانچواں مہینہ

 

وحشت و بربریت کا پانچواں مہینہ

غزہ پر آہن و آتش کی مسلسل بارش کا پانچواں مہینہ شروع ہوگیا، فی الحال یہ  وحشت ختم ہوتی نظر نہیں آتی، اور ختم ہو بھی کیسے کہ عالمی عدالت سمیت کسی میں یہ ہمت نہیں کہ اسرائیل کا ہاتھ پکڑسکے۔ عدالت کے حالیہ فیصلے سے ان وحشیوں کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔ ٹھوس شواہد و ثبوت کے باوجود عالمی عدالت نے غزہ میں اسرائیلی فوج کی کاروائی کو نسل کشی قراردیکر خونریزی فوری طور پر بند کرنے کا حکم دینے کے بجائے  'احتیاط' کی نصیحت کرتے ہوئے وضاحت کیلئے ایک ماہ کی مہلت دیدی ۔ اس عرصے میں اسرائیل کو حملے جاری رکھنے کی مکمل آزادی حاصل ہے۔

اہل غزہ کا قتل عام جاری رکھنے کیلئے اتحادیوں نے خزانوں کے منہہ کھول رکھے ہیں۔ ہر روز امریکہ کے تین دیوہیکل مال بردار طیارےمہلک گولہ بارود لے کر تل ابیب اتر رہے ہیں۔ اس کار خیر میں اب جرمنی بھی سرگرم ہوگیا ہے اور ٹینکوں کے 15 ہزار گولے خصوصی پروزاوں سے اسرائیل پہنچا دئے گئے ہیں۔

امریکہ اور یورپ کیساتھ اسرائیل کے عرب احباب بحری نقل وحمل میں تل ابیب کو کلیدی اعانت فراہم کررہے ہیں۔ ایشیا سے اسرائیل آنے والے جہازوں کا تیز ترین راستہ بحیرہ احمر ہے کہ یہاں سے شمال مشرق میں خلیج عقبہ کے دہانے پر اسکی ایلات بندرگاہ جبکہ بائیں جانب نہر سوئز سے گزر کر بحر روم کی اسرائیلی بندرگاہوں تک رسائی مل جاتی ہے۔ حوثی کاروائیوں کی بنا پر بحیرہ احمر اسرائیل کیلئے no goایریا بن چکی ہے جسکی وجہ سے خلیج عقبہ اور نہر سوئر دونوں راستے عملاً مسدود ہیں۔ اسرائیل کے عبرانی چینل 13 نے انکشاف کیا ہے کہ اب اسرائیل آنے والے جہاز  خلیج عدن سے بحیرہ احمر کی  طرف جانے کے بجائے  دائیں جانب خلیج اومان میں متحدہ عرب  امارات (UAE)کی  خوف فکّان اور فجیرہ کی بندرگاہوں پر مال اتارریے ہیں جہاں سے ٹرکوں کے ذریعے سعودی عرب اور اردن کے راستے یہ سامان اسرائیل پہنچایا جارہا ہے۔ یعنی اہل غزہ کے قتل عام میں  گوری اقوام کیساتھ اسرائیل کے عرب دوست بھی مقدور بھر حصہ لے رہے ہیں۔

جہاں  متحدہ عرب امارات، درآمدی محصولات و بندرگاہ اخراجات اور سعودی عرب و اردن راہداری کی مدمیں اہل غزہ کے  لہو کی قیمت وصول کررہے ہیں وہیں غزہ جانے والے امدادی ٹرکوں نے آمرِ مصر جنرل السیسی کیلئے کمائی کا ایک نیا کھاتہ کھول دیا ہے۔ امداد بھیجنے والے اداروں نے الزام لگایا ہے کہ مصری فوج سے وابستہ جنرل انٹیلیجنس سروس (GIS) غزہ جانیوالے سامان پر 5000 ڈالر فی ٹرک حفاظتی فیس وصول کررہی ہے۔

جنگ بندی سے تو کسی کو دلچسپی نہیں لیکن غزہ میں زیرحراست اسرائیلی قیدی چھڑانے کیلئے امریکہ، یورپی یونین، مصر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سر توڑ کوششوں میں مصروف ہیں۔ گزشتہ دنوں پیرس میں تفصیلی مذاکرات ہوئے۔ اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ مذاکرات کا مقصد وزیراعظم بن یامین نیتھین یا ہوالمعروف بی بی پر مقامی دباوکم کرنا ہے۔ محاذ جنگ سے  ٹوٹے پھوٹے ٹینکوں کی آمد، جلی ہوئی لاشوں اور نشان عبرت بنے معذور جوانانِ رعنا کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ بی بی اپنی قوم کو یقین دلا رہے ہیں کہ وہ طاقت کے ذریعے حماس کو قیدیوں کی رہائی پر مجبور کر دینگے، لیکن لواحقین کے مظاہروں میں  شدت آتی جارہی ہے اور قیدیوں کی واپسی کیساتھ  اب بی بی کی رخصتی کا مطالبہ بھی شروع ہوچکا ہے۔

ایک اسرائیلی ٹیلی ویژن چینل پر گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیراعظم یہودا براک نے ہاتھ جوڑ کر کہا 'بی بی خدا کے واسطے جان چھوڑ دو'۔ انکا کہنا تھا کہ اگرنیتھن یاہو اقتدار سے چمٹے رہے تو اسرائیل غزہ کی دلدل میں غرق ہوجائیگا۔ سابق اسرائیلی وزیراعظم نے  متنبہ کیا کہ اسرائیل کیلئے مہلت تیزی سے ختنم ہورہی ہے۔غزہ سے سر ٹکراتے 100 دن گزر گئے۔ اب نئی سوچ اور اپروچ کی ضرورت ہے۔ اگر بی بی ملک سے مخلص ہیں تو غلطی تسلیم کرکے گھر چلے جائیں اور اسرائیلی عوام کونئی قیادت منتخب کرنے کا موقع دیں

اسرائیل کی جانب سے  قیدیوں کی رہائی کے عوض  عارضی جنگ بندی اور امدادی سامان کی غزہ روانگی میں سہولت کاری کے وعدے کئے جارہے ہیں جبکہ مستضعٖفین کا  کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج کی غزہ سے واپسی اور آئندہ حملہ نہ کرنے کے وعدے کی سلامتی کونسل سے ضمانت کے بعد ہی قیدیوں کے تبادلے پر بات ہوگی۔ دوریاستی فارمولے  کو مستضعفین نے مہمل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ  اہل غزہ نے  بلدیاتی اختیارات حاصل کرنے کیلئے 25 ہزار معصوم جانوں کی قربانی نہیں دی، ہمیں نہر سے بحر تک فلسطین کے سوا کچھ قبول نہیں

تین فروری کو بی بی نے بتایا کہ اسرائیل کی جانب سے امن تجاویز حماس کو بھیج دی گئیں ہیں جسکا جواب جلد متوقع ہے۔ اسی ضمن میں ترک صدکے مشیر سلامتی ابراہیم کالن نے قطر میں حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ سے ملاقات کی ہے۔ عرب ذرایع سے باتیں کرتے ہوئے امریکی حکام نے خیال ظاہر کیا ہے کہ چھ ہفتے جئگ بندی اور قیدی رہا ہوجانے کے بعد بی بی کے پاس  جنگ دوبارہ شروع کرنے کا کوئی جواز نہ ہوگا۔

جواز و دلیل ان لوگوں کیلئے اہم ہے جو خود کو کسی فورم پر جوابدہ سمجھتے ہوں۔ یہاں تو  یہ عالم ہے کہ فوج کی سرپرستی میں حوّارہ کے فلسطینیوں پر پتھراو اور فائرنگ کرنے والے چار انتہا پسند  قبضہ گردوں (settlers) کی اسرائیلی میڈیا پر تصویر  دیکھ کر امریکی صدر نے جب انکےخلاف تادیبی پابندیاں (Sanctions) عائد کیں تو  بی بی اور انکے اتحادی سخت مشتعل ہوگئے۔  ایوان وزیراعظم سے جاری ہونے والے  ایک بیان میں کہا گیاکہ ' علاقے کے باسیوں کی عظیم اکثریت پرامن اور قانون پر عمل کرنے والوں کی ہے۔ یہاں کے بہت سے نوجوان غزہ میں اسرائیل کا دفاع کررہے ہیں۔ قانون شکنی کرنے والوں کے خلاف موثر کاروائی کا نظام موجود ہے اور اس تناظر میں امریکی صدر کا یہ قدم غیر ضروری ہے۔ وزیرخرانہ اسموٹرچ نے اس پر ایک  ردا مزید لگاتے ہوئے کہا کہ اپنا دفاع کرنے والے معصوم اسرائیلیوں پر پابندی لگاکر امریکی صدر پُرامن  آباد کاروں پر حملوں کو جائز قرار دے رہے ہیں۔

غزہ میں پائیدار جنگ بندی اسلئے بھی بہت مشکل لگ رہی  ہے کہ بی بی سرکار کے انتہا پسند اتحادی غزہ سے فلسطینیوں کو نکال کر وہاں اسرائیلی بستیاں تعمیر کرنے کیلئے انتہائی پرعزم ہیں، گزشتہ ہفتہ بی بی کے دفتر کے باہر قدامت پسندوں نے زبردست مظاہرہ کیا جسکی قیادت 12 وزرا کر رہے تھے۔ مظاہرین نے غزہ خالی کراو، بحیرہ روم ہمارا ہے کہ نعرے لگائے۔ جلوس کے سامنے ایک بڑے بینر پر عبرانی میں درج تھا کہ  'فلسطینیوں کا غزہ سے انخلا ہی پائیدار امن کا ضامن ہے'

اسرائیلی فوج کی خون آشامی، کچھ عرب ممالک سمیت ساری دنیا کا تعاون اور انتہا پسندوں کی جانب سے غزہ کو چٹیل میدان بنادینے کے دعوٰی ایک طرف لیکن  بدترین قتل عام کے باوجود اسرائیل عسکری فتح سے ابھی کافی دور ر ہے۔ انکے فوجی اعلامیوں میں ہر روز  ایک نئی سرنگ کے انکشاف اور تباہی کی باتصویر خبر شایع ہوتی ہے۔ غزہ کے اسپتالوں، مساجد ، جامعات اور مفاد عامہ کے عمارات اسی جواز پر تباہ کی گئیں کہ انکے نیچے سرنگوں کے دہانے ہیں۔ بہت سی قبضے میں لی گئی سرنگوں کا امریکی صحافیوں کو دورہ بھی کروایا گیا۔ ان سرنگوں کو بحر روم کے پانی سے بھرنے کیلئے جدید پمپ اور بکتر بند مواد میں لپٹے پائپ امریکہ نے فراہم کئے ہیں۔ لیکن  وال اسٹریٹ جنرل نے اسرائیلی فوج کے حوالے سے بتایا کہ 114 دن گزر جانے کے بعد بھی 80 فیصد سے زیادہ سرنگیں صحیح سلامت اور اہل غزہ کے قبضے میں ہیں جن تک رسائی تو کیا اسرائیلیوں کو انکا کچھ پتہ ہی نہیں۔ اہل غزہ نے حملہ آوروں کو پھانسنے کیلئے جعلی سرنگیں کھود رکھی ہیں جو دراصل آگ کے گڑھے ہیں جنکی زد میں آکر درجنوں اسرائیلی سپاہی راکھ بن گئے۔

اس حوالے سے  اسرائیلی میڈیا پر ایک بڑی دلچسپ خبر کتوں کے بارے میں شایع ہوئی ہے۔ یہ تو آپ کو معلوم ہی ہے کہ دور حاضر کی جنگوں  میں کتے  اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اسرائیلی فوج غزہ میں سرنگوں کے سراغ اور دھماکہ خیر مواد پرآمد کرنے کیلیے امریکی نسل کے تربیت یافتہ کتے بھی لائی ہے۔ دوسری جانب اہل غزہ کے یہاں کتے پالنے کا رواج نہیں لیکن اسرائیلی فوج کے غزہ میں قدم رکھتے ہی  مقامی آوارہ کتے میدان میں آگئے۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ غزہ کے کتے ہمارے کتوں کی طرح سمجھدار تو نہیں لیکن بہت بہادر،  لڑاکا اور خونخوار ہیں۔ ہمارا کتا غزہ کے کسی کتے کی گرفت میں آجائے تو اپنی ہلاکت کے باوجود وہ اسرائیلی کتے کی گردن میں دانت گاڑےرکھتا ہے ۔

میدان جنگ کی خبروں پر شدید سنسر کے باوجود اسرائیلی فوج میں تھکن کی خبریں اسرائیلی میڈیا پر بھی آرہی ہیں، کئی بریگیڈ کی واپسی کے بعد اسرائیلی فوج  نےاپنے مایہ ناز Kfirبریگیٖڈ کو “آرام” کیلئے غزہ سے واپس بلالیاہے۔ پیادہ فوج پر مشتمل یہ بریگیڈ خان یونس میں تعینات تھا۔شدید جانی نقصان کی بناپرپیادہ اور ہلکے بکتر بند دستوں پر مشتمل چھ بریگیڈ اس سے پہلے واپس بلائے گئے ہیں۔ دو فروری کو  اسرائیلی فوج  نے اپنے  ٹینکوں  کے غزہ سے واپس ہونے کی تصاویر شایع کی ہیں جن میں یہ  ٹینک  بوسیدہ نظر آرہے ہیں۔ اس حوالے  سے عسکری حلقوں میں یہ لطیفہ بھی عام ہے کہ  اہل غزہ کے تیار کردہ راکٹوں کے ہاتھوں ایک کروڑ ڈالر کے  Merkava ٹینک کا حشر دیکھ کر فلپائن اور دوسرے خریدار اب اسرائیلی ٹینکوں کے بجائے 200 ڈالر کے یاسین RPG  خرید رہے ہیں۔

میڈیا اور  امریکی قیادت  پوری طرح اسرائیل کی پشت پر ہے لیکن  تصویر کا دوسرا رخ بھی آہستہ اہستہ واضح ہونے لگا ہے۔ ایسویسی ایٹیڈ پریس اور جامعہ شکاگو کے ادارے NATIONAL OPINION RESEARCH CENTERیا NORCنے 2 فروری کو رائے عامہ کا جو جائزہ شایع کیا ہے اسکے مطابق 50 فیصد امریکی سمجھتے ہیں کہ غزہ میں اسرائیلی کاروائی حد سے گزر چکی ہے۔ نومبر میں یہ خیال 40 فیصد امریکیوں کا تھا۔ اس سروے کی اہم بات یہ ہے کہ اب ریپبلکن پارٹی سے وابستہ افراد کی رائے بھی تبدیل  ہو رہی ہے۔ نومبر میں 18 فیصد ریپبلکن سمجھتے تھے کہ اسرائیل زیادتی کررہا پے۔ اب یہ تناسب 33 فیصد ہوچکا ہے۔

اسی عوامی دباو  کا نتیجہ ہے کہ امریکی ڈیموکریٹک پارٹی کے پارلیمانی اجتماع (Caucus)نے ایک قرارداد کی   منظوری دی جس میں (فلسطین و اسرائیل) دو ریاستی فارمولے کا مطالبہ کیاگیا ہے۔  رائے شماری کے دوران  51میں سے 49 سینیٹروں نے  تحریک کی حمائت کی۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ مضبوط و مستحکم جمہوری اسرائیل کے شانہ بشانہ فلسطینی امنگوں کی ترجمان آزاد و خودمختار فلسطینی ریاست  مشرق وِسطی میں پائیدار امن کی ضمانت بن سکتی  ہے۔

تباہی و بربادی کے باوجود اہل غزہ  مایوس نہیں۔ یکم جنوری سے نئے تعلیمی سال کا اغاز اس شان سے ہوا کہ پٹی کا کوئی بھی اسکول، جامعہ ،لائبریری، طباعتی مرکز  یا بچوں کا تفریحی پارک سلامت نہیں۔ اساتذہ کی بڑی تعداد بھی شہید ہوچکی لیکن سخت جان اور پُرعزم اہل غزہ کہاں ہار ماننے والے ہیں۔  آتش و آہن کی موسلا دھار بارش میں کھلے آسمان تلے اسکول قائم کردیے گئے ہیں جہاں باقاعدگی سے کلاسیں شروع ہوچکی ہیں۔ اسی مثبٹ نوٹ پر ہم آج کی گفتگو ختم کرتے ہیں۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 9 فروری 2024

ہفت روزہ دعوت دہلی، 9 فروری 2024

روزنامہ امت کراچی 9 فروری 2024

ہفت روزہ رہبر سرینگر 11 فروری 2024

روزنامہ قومی صحافت لکھنو