وحشت کے ڈیڑھ سو دن ۔ بیت المقدس نیا نشانہ؟؟؟؟؟
ہفتہ وار کالم نگا رہر سات دن بعد اس آزمائش سے گزرتے ہیں کہ اس بار کس موضوع پر طبع
آزمائی کی جائے لیکن غزہ حملے کے بعد سے ہمیں
وہاں سسکتے اور تڑپتے بچوں کے علاوہ کوئی اور مسئلہ اہم لگتا ہی نہیں اور بقولِ
حضرتِ فیض ' خاک میں لِتھڑے ہوئے، خون میں نہلائے ہوئے'
ننھے لاشے ہر وقت آنکھوں کے سامنے رہتے
ہیں۔ اس موضوع پر یہ ہمارا
پندرہواں مضمون ہے اور یہ تحریریں کسی بھی
اعتبارو معیار سے کالم نہیں بلکہ زندہ
درگور ہوجانے والے بچوں کا نوحہ ہے۔غزہ قتل عام پر سب سے حقیقت پسندانہ اور
انتہائی دردناک تبصرہ ایک ننھی فلسطینی
بچی کا ہے۔ کسی صحافی نے پوچھا غزہ کہاں واقع ہے؟ تو غربِ اردن کی ایک نو سالہ
فلسطینی لڑکی نے جواب دیا کہ آدھا غزہ جنت
میں اور باقی زخموں سے چور صحرائے سینائی
کے جنوب میں بحیرہ روم کے کنارے ایڑیاں رگڑ رہاہے۔
برازیل
کے صدر لوئز لولا ڈی سلوا نے کیا خوب کہا کہ
' غزہ خونریزی کو جنگ کہنا
غلط ہے، یہ درحقیقت جدید ترین ہتھیار وں سے لیس، منظم فوج کا عورتوں
اور بچوں پر حملہ ہے'۔ ادیس ابابا میں افریقی یونین کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جناب
لولا بولے کہ غزہ میں جو ہو رہا ہے وہ جنگ نہیں نسل کشی ہے۔ تاریخ میں
کبھی ایسا نہیں ہوا سوائے ایک مرتبہ کے کہ
جب ہٹلر نے یہودیوں کو مارنے کا فیصلہ کیا تھا۔ عالمی عدالتِ (ICJ) کے
روبرو جنوبی افریقہ کے سفیر Vusimuzi Madonsela نے کہا کہ 'اسرائیل فلسطینیوں سے جوامتیازی و توہین آمیز سلوک
کررہا ہے وہ ہمارے ملک میں 1994تک جاری رہنے والے
Apartheid سے بدتر ہے۔
غزہ پر آتش و آہن کی موسلا
دھار بارش کا یہ 142 وا ں دن ہے اور کالم کی اشاعت تک ڈیڑھ سو دن ہونے کو ہونگے۔ اس خونریزی
کے بند ہونے بلکہ دھیما ہونے کا کوئی امکان نہیں کہ یہ بی بی کی انا، اسرائیل کے قاہرانہ جبر اور فلسطینیوں کے پرعزم صبر کی
جنگ ہے۔ گورے مغرب کی غیر مشروط و لامحدود پشتیبانی اور دنیا کی خاموشی اس آگ کو
ہوادے رہی ہے۔
جنگ کے
خلاف آوازیں اسرائیل سے بھی اٹھ رہی ہیں لیکن وہاں تشویش کا محور غزہ میں زیر
حراست قیدی ہیں، گزشتہ ہفتے اسرائیل کے سابق وزیراعظم یہود براک نے فوجی ریڈیو پر ایک انٹرویو میں کہا کہ نیتھن یاہو کے لئے دبنگ
نظر آنا قیدیوں کی رہائی سے زیادہ اہم ہے۔ وہ اپنی انا کیلئے یرغمالیوں کی زندگیاں
خطرے میں ڈالنے کو تیار ہیں۔ بی بی کے مزاج ٹھکانے لگانے کیلئے کنیسہ (پارلیمان)
کے باہر 30,000 شہریوں کے تین ہفتے طویل دھرنے کی ضرورت ہے۔جب ملک بند ہو جائے گا
تو نیتن یاہو کو احساس ہو گا کہ ان کا وقت ختم ہو چکا۔
امریکہ بہادر کی دلچسپی بھی
صرف قیدیوں سے ہے چانچہ پیرس، قطر، قاہرہ ہر جگہ مذاکرات کی میزیں سجی ہیں۔ ابھی (25 فروری) تھوڑی دیر پہلے امریکی صدر کے مشیر قومی سلامتی جیک سولیون نے
پیرس سے ندا دی کہ 'مذاکرات کاروں کے مابین غزہ میں عارضی جنگ بندی کے بدلے قیدیوں
کی رہائی کے ممکنہ معاہدے کے بنیادی
خدوخال پر "اتفاق" ہوگیا ہے۔ (حوالہ CNN)۔
یعنی قیدیوں کا تبادلہ مکمل ہوتے ہی بمباری دوبارہ شروع کردی جائیگی۔ اہل غزہ
عارضی جنگ بندی کی تجاویز کو کئی بار مسترد کرچکے ہیں۔ انکا کہنا ہے ہے غزہ سے
اسرائیلی فوج کی واپسی کے بعد ہی قیدیوں کے تبادلے پر بات ہوگی۔
عارضی فائر بندی کیلئے
بیقرار امریکہ چند دن قبل غزہ جنگ بندی کیلئے سلامتی کونسل میں الجزائر کی
قرارداد کو ویٹو کرچکا ہے۔ مسودہ پیش ہوتے ہی واشنگٹن نے اسے
ناقابل قبول قراردیا تھا۔ اقوام متحدہ میں امریکہ کی مستقل مندوب محترمہ
لنڈا ٹامس گرین فیلڈ کا کہناتھا کہ قرارداد
کی جلد بازی میں منظوری سے پائیدار امن کیلئے جاری حساس مذاکرات کی حوصلہ شکنی
ہوگی۔ ستم ظریفی کہ فاضل مندوب قاہرہ کے جس حساس مذاکرات کی طرف اشارہ فرمارہی
تھیں وہاں سے اسرائیل کا وفد یہ کہہ کر پہلے ہی واپس جا چکا تھا کہ اہلِ غزہ کی شرائط ہمیں منظور
نہیں۔
عالمی عدالت نے اپنے گول مول فیصلے میں اسرائیل سے جو وضاحت طلب کی
تھی اسکا بھی تل ابیب نے کوئی تسلی
بخش جواب نہیں دیا۔ 26 جنوری کو سنائے جانے والے فیصلے کاجواب دینے
کیلئے اسرائیل کو 30 دن کی مہلت دی گئی تھی۔ اس دوران جنوبی افریقہ نے فوری جنگ
بندی کی ایک اور درخواست عدالت کے روبرو پیش کردی جس پر تادم تحریر بحث جاری ہے۔
گزشتہ ہفتے 27 رکنی یورپی یونین کے وزرائے خارجہ نے ایک
مشترکہ بیان میں اسرائیل سے 'درخواست' کی تھی کہ وہ رفح میں ایسی فوجی کارروائی نہ کرے جس
کے نتیجے میں پہلے سے تباہ کن انسانی صورتحال مزید خراب ہو۔ اس قدم سے بنیادی
خدمات اور انسانی امداد کی فوری اور ضروری فراہمی معطل ہوجائیگی۔ ہنگری نے اس بیان
پر دستخط نہیں کئے
غزہ کے ساتھ اب بیت المقدس سے لہو کی مہک محسوس ہورہی ہے اور ڈر
ہے کہ رمضان میں مسجد اقصیٰ میدانِ کربلا کا منظر پیش کریگی۔ اسرائیلی اخبارات کے
مطابق رمضان المبارک کے دوران فلسطینیوں کے القدس شریف میں داخلے کو محدود کرنے کے
اقدامات کی وزیراعظم نیتھں یاہو نے منظوری دیدی ہے۔یہ تجویز انتہا پسند وزیر
اندرونی سلامتی المعروف پولیس منسٹر، اتامر بن گوئرنے پیش کی تھی۔ موصوف کا کہنا ہے کہ قبلہ اول کے تصور نے فلسطینیوں
اور اسرائیل کے عرب شہریوں میں مسجد اقصیٰ سے جذباتی وابستگی پیدا کردی یے۔ 'قبلہ اول' کی زیارت کیلئے رمضان اور
دوسرے اسلامی تہواروں پر مسجد اقصیٰ میں غیر معمولی ہجوم ہوتا ہے اور نمازیوں کی
صفیں مسجد کے دالان یعنی سارے القدس شریف
(Temple Mount)تک آجاتی ہیں۔ اس دوران مسجد
میں جذباتی خطاب اور القدس لنا (القدس ہمارا ہے) کے نعروں سے نمازی ذہنی طور پر
مشتعل رہتے ہیں۔
اپنےایک حالیہ خطاب میں
انھوں نے کہا ٓ کہ 7 اکتوبر کو حملے کو 'طوفان الاقصیٰ' پکارنے کے پیچھے بھی یہی
حکمت عملی کار فرما تھی کہ 'قبلہ اول' کے نام پر دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات بر
انگیختہ کئے جائیں۔ وزیرموصوٖف چاہتے ہیں کہ معراج النبی (ص) کے حوالے سے القدس
شریف کی تاریخی حیثیت تو بر قرار رہے لیکن قبلہ اول کے تصور کی حوصلہ شکنی کی
جائے۔
منصوبے کے تحت پہلی تراویح
سے اتنے ہی لوگوں کو کمپاونڈ میں آنے کی اجازت دی جائیگی جتنے مسجد اقصیٰ کے
اندرسماسکیں۔ دالان میں صٖفیں بنانے کی ممانعت ہوگی۔ القدس شریف کے مختلف دروازوں
خاص طور سے بابِ دمشق پر سحر و اٖفطار کیئے اشیائے خوردونوش کے جو اسٹال لگائے
جاتے ہیں انکی اجازت منسوخ کی جارہی ہے۔ اسرائیلی خفیہ ایجنسی، شاباک (Shin Bet) نے بن گوئر کی تجویز کو
داخلی سلامتی کیلئے نقصان دہ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ مسجد اقصیٰ کے معاملے میں
فلسطینی حد درجہ حساس ہیں اور پابندیوں سے غربِ اردن کے فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیل
کے عرب شہریوں میں بھی اشتعال پھیلے گا۔ تاہم
پولیس منسٹر نے شاباک کی سفارش مسترد کردی اور ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق کابینہ
کے حالیہ اجلاس میں وزیراعظم نے جناب گوئر کے مشورے کوصاد کردیا۔
مشرقی بیت المقدس المعروف
مسلم کوارٹر کا اسلامی تشخص ختم کرنے کیلئے یہاں سے فلسطینیوں کو بیدخل کرنے کے
ایک جامع منصوبے کی بھی وزیراعظم نے اصولی منظوری دیدی ہے۔ یروشلم کے مضافاتی علاقے معالی ادومیم Ma'ale Adumim میں فلسطینیوں کے مکانات
منہدم کرکے 3000 نئے گھر تعمیر کئے
جائینگے۔ 1967 میں قبضے کے فوراً بعد 49 ہزار مربع کلومیٹر سے زیادہ رقبہ خالی
کراکر یہاں 37ہزار اسرائیلیوں کو
آباد اور بیدخل کئے جانے والے ہزاروں فلسطینیوں کو خیمہ بستییوں میں ٹھونس دیا گیا
تھا۔
واشنگٹن
کو اسرائیل کے اس اعلان پر
سخت 'تشویش'ہے۔ ارجنٹینا کے دارالحکومت بیونس آئرس میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے
امریکی وزیرخارجہ ٹونی بلیکنکن نے اس خبر کو مایوس کن قراردیا۔ انکا کہنا تھا کہ
امریکہ نئی آبادیوں کی تعمیر کو امن کیلئے منفی اقدام سمجھتا ہے اور اس معاملے پر
ڈیموکریٹس اور ریپبلکن میں کوئی اختلاف نہیں۔ اسرائیل کو منانے کیلئے بلینکن صاحب
تل ابیب روانہ ہورہے ہیں۔
اہل غزہ کو صفحہِ ہستی سے
مٹانے کے ہونکے میں روس سے برسرِپیکار یوکرین،
چچاسام کی نظروں سے اوجھل ہوچکا ہے۔ ایک نجی محفل میں یوکرینی صدر ولادیمر
زیلینسکی یہ کہتے سنے گئے کہ یوکرینی فوج کا توپوں اور ٹینک کے گولوں کا ذخیرہ
تقریباً ختم ہوچکا ہے جبکہ چچا سام کی ساری توجہ اپنے لاڈلے کو نوازنے پر ہے۔صورتحال
سے فائدہ اٹھاتے ہوئے روسیوں نے مشرقی یوکرین میں دونیتسک
صوبے کے اہم شہر Avdiivka
پر قبضہ
کرلیا۔
اسرائیل کو اہل غزہ کیساتھ
بحیرہ احمر میں یمن کے حوثیوں کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا ہے جو امریکہ اور
برطانیہ کی جانب سے مسلسل حملوں کے باوجود پرعزم ہیں کہ بحیرہ
احمر، آبنائے باب المندب اور خلیج عدن اسرائیل کیلئے
NO GOعلاقہ بنارہیگا۔ اسرائیل آنے اور جانے والے جہازوں کو نشانہ
بنانے کیئے میزائیل اور ڈرونوں کے ساتھ اب زیرآب اسلحہ بھی استعمال ہورہا ہے۔ حال
ہی میں حوثیوں نے امریکہ کا جدید ترین MQ-9
Reaper ڈرون مارگرایا۔حوثیوں کا کہنا ہے تین کروڑ ڈالر لاگت کے اس ڈرون کو
مغربی یمن میں دارالحکومت صنعا کے قریب زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائیل سے
نشانہ بنایا گیا۔
اسی دوران پانامہ پرچم برادر
جہاز بھی زد میں آگیا جو بحیرہ اسود کی
بندرگاہ Novorossiysk
سے تین لاکھ بیرل تیل لے کر بحرہند کی بندرگاہ اڑیسہ جارہا تھا۔ اس
ٹینکر کو یمنی بندرگاہ المخاہ کے قریب
نشانہ بنایا گیا۔ 24 فروری کو اسرائیل
کیلئے محو سفر 41 ہزار ٹن کھاد سے لدے بلیز (Belize) کے پرچم بردار برطانوی جہاز روبیمر
Rubymar کو میزائیل حملے میں شدید نقصان پہنچا۔ امریکی مرکزی کمان کے مطابق پیندے میں پڑجانے
والے شگافوں کی وجہ سے اسکی غرقابی کا خطرہ ہے ۔
غزہ خونریزی اسرائیل کو بھی مہنگی پڑرہی ہے۔ اسرائیل کے
مرکزی ادارہ شماریات یا Central
Bureau of Statistics کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے
کہ گزشتہ تین ماہ کے دوران قومی معیشت 20 فیصد سکڑ گئی۔تین سال پہلے کرونا وائرس کے دوران معیشت کا حجم 30 فیصد کم ہواتھا۔کسادبازاری،
مہنگائی اور بیروزگاری کیوجہ سے آٹھ فیصد سے زیادہ اسرائیلی بے گھر ہوچکے ہیں۔
زوال پزیر معیشت پر مزدور
مشتعل ہیں۔ اسرائیلی مزدور تنظیم کے سربراہ ہارون بار ڈیوڈ نے صنعتی شہر بئر شیبہ میں مزدروں کے قومی کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم نیتھن یاہو، اسرائیل کیلئے تباہی کا
استعارہ بن گئے ہیں۔بی بی سانحہِ 7 اکتوبر کی ذمہ داری قبول کرکے فوری طور پر نئے
انتخابات کا اعلان کریں ورنہ مزدور سڑکوں پر ہونگے۔ مزدوروں کی نمائندہ یونین 1920
میں قائم ہوئی تھی اورا س سے وابستہ کارکنوں کی تعداد آٹھ لاکھ سے زیادہ ہے۔
بڑھتے ہوئے جانی نقصان،
سپاہیوں کی معذوری، کساد بازاری، مزدروں کی طرف سے ہڑتال کی دھمکی اور 25 فروری کو تل ابیب میں
اشتعال انگیز مظاہروں سے بی بی دباو میں تو
ہیں لیکن انکی چوٹ کھائی انا اتنی آسانی سے ہتھیار ڈالتی نظر نہیں آتی۔
ہفت
روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی یکم مارچ 2024
ہفت روزہ
دعوت دہلی، یکم مارچ 2024
روزنامہ
امت کراچی یکم مارچ 2024
ہفت روزہ
رہبر سرینگر 3 ماتچ 2024
روزنامہ قومی صحافت لکھنو
No comments:
Post a Comment