رفحہ ۔۔۔ انسانوں کا جنگل و مقتل
غزہ
میں جاری وحشت 29 ہزار معصوموں کا خون چاٹ چکی ہے جس میں 70 فیصد خواتین اور چھوٹے
بچے ہیں۔ زخمیوں کی تعداد 69 ہزار کے قریب ہےجنھیں علاج کی سہولت تو درکنار اسپتال
کے بستر بھی میسر نہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق غزہ کی پوری پٹی رہنے کے قابل نہیں
رہی۔ سرنگوں کی تلاش میں اسرائیلی فوج زمین میں سوراخ کرکے شدید دباو کے ساتھ
سمندر کا پانی نیچے پمپ کررہی ہے جس کے نتیجے میں جگہ جگہ کھاری دلدل بن گئے ہیں اور سیوریج کا
نطام تباہ ہوچکا ہے۔ دنیا کے گنجان ترین آبادی میں سیوریج کا نطام ختم ہونے سے جو صورتحال جنم
لے رہی ہے اسے سوچ کر ہی طبیعت متلانے لگتی ہے۔
اس
خونریزی کی ناقابل برداشت قیمت معصوم بچے اداکررہے ہیں۔ جن نونہالوں کو انکے رب نے
اپنے پاس بلالیا ، اُن مرجھاجانے والے غنچوں پر افسوس تو ہے لیکن جنت کو مہکا دینے
والے یہ پھول نسبتاً خوش نصیب ہیں کہ عذاب و آزمائش سے نجات پاگئے۔ غزہ کی وزارت
صحت کے مطابق 17 ہزار بچے اپنے والدین اور سرپرستوں سے بچھڑے گئے ہیں۔
بہت سوں کے ماں باپ اسرائیلی بمباری میں مارے گئے جبکہ ہزاروں زخمی اپنے
جگر گوشوں سے بے خبر مختلف مقامات پر زیرعلاج یا پناہ گزیں ہیں۔
امریکی
ساختہ طیاروں اور ٹینکو ں سے بلا تعطل
بمباری و گولہ باری نے غزہ کو کھنڈر بنادیا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق 70 فیصد عمارات تباہ ہوچکی ہیں۔ پناہ کی تلاش
میں غزہ کی آدھی آبادی مصری سرحد کے قریب رفحہ سمٹ ائی ہے اور 15 مربع کلومیٹر کے رقبے پر بارہ لاکھ کے قریب انسان ٹھنسے ہوئے
ہیں۔ سڑکو ں اور میدانوں میں چادریں تان کر لوگوں نے آشیانے بنالئے اور بے چھت کی یہ پناہ گاہیں اسرائیلی ڈرون کے
نشانے پر ہیں۔ یہ ڈر اونے پرندےدو سو معصوم شہریوں کا روزانہ شکار کر رہے ہیں۔
آتش و
آہن کی موسلا دھار بارش کیساتھ اسرائیل اب رفحہ پر خوفناک بری حملے کے لئے پرتول
رہا ہے اور اس مقصد کیلئے ٹینک اور بکتر بند گاڑیوں کے قافلے رفحہ کی طرف رواں دواں ہیں۔ اس حملے
سے سڑکوں پر کھلےآسمان تلے پناہ لئے ہوئے
شہریوں کی ہلاکت لازمی ہے۔ عسکری مبصرین اور ماہرین کا خیال ہے کہ رفحہ پر حملے سے غزہ کے جنگجووں
کا تو شاید کچھ نہ بگڑے لیکن رفحہ بارہ لاکھ انسانوں کا شمشان گھاٹ بن جائیگا۔ امریکہ
سمیت اسرائیل کے تمام اتحادی و پشتیبان حملہ روکنے کیلئے پتھر دل محبوب کی منت سماجت
کررہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے وزرائے اعظم نے بھی اپنے ایک مشترکہ بیان میں اسرائیل سے 'انسانیت کی خاطر'
فوری جنگ بندی کی درخواست کی۔
رفحہ پر فوج کشی کا جو
بھیانک نتیجہ نکلے گا اس پر سلیم الفطرت یہودیوں کو بھی پریشانی ہے۔ پندرہ فروری
کو برطانیہ کے قدامت پسند یہودی امام (ربّائی) جاناتھن وائٹن برگJonathan Wittenberg نے رفحہ پر متوقع
اسرائیلی حملے کی مخالفت کرتے ہوئے غزہ معاملے کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کا
مطالبہ کیا۔ اپنے ایک تحریری بیان میں ربائی محترم نے کہا ' یہ الفاظ رفحہ میں اسرائیل کے ممکنہ عسکری اقدامات کے بارے میں
گہری تشویش کی وجہ سے لکھے جارہے ہیں۔اس معاملے پر خاموش رہنا دیندار لوگوں
کیلئےناممکن ہے'۔ ربائی وائٹن برگ نے
کہا ' ان اقدامات سے اہل
غزہ کو جوناقابل تصورمصائب جھیلنے پڑیں گے اسکے تصور سے ہی مجھے خوف آتا ہے۔ اس سے پیدا ہونے والی نفرت
سے ہمیں، اسرائیل اور یہودیوں کی نیک نامی کو جو زخم لگے گا اسکی ٹیس ہماری کئی
نسلیں محسوس کرینگی'
یہودیوں کی قدامت پسند
فکرونظر یورپ میں مسورتی یہودیت یا Masorti Judaism کہلاتی ہے۔ مسورتیوں کا خیال ہے کہ دنیا کے تمام مسائل کا حل موسوی
شریعت میں ہے جسے حا لاخا (Halakhe)کہتے ہیں۔ یہودیو ں کا سواد اعظم تلمود کو ماخذ شریعت مانتا ہے۔
غزہ پر حملے کے آغاز میں 17 اکتوبر کو ربائی وائٹن برگ ، برطانوی مسیحیوں کے اسقفِ
آعظم جسٹن ویلبی اور مسلم امام ابراہیم موگر ا نے ملاقات کے بعد ایک مشترکہ بیان
میں اسرائیلی حملے کی مذمت کی تھی۔
لیکن بی بی نے ان تمام 'درخواستوں اور گزارشات'
کو حقارت سے مسترد کرتے ہوئے اپنی فوج کو حکم دیا ہے کہ رفحہ سے 15لاکھ
فلسطینیوں کی منتقلی کا کام 10 مارچ یعنی آغاز رمضان سے پہلے مکمل کرلیا جائے۔
اس حکم میں رمضان کا ذکر بہت معنی خیز ہے۔ اس سے ایک طرف تو
بی بی یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ اسرائیل مذہبی رواداری اور پرامن بقائے باہمی پر
یقین رکھنے والا ملک ہے جو تمام مذاہب اور مذہبی روایات و شعائر کا احترام کرتا
ہے۔ دوسری طرف وہ چاہتے ہیں کہ مصر کے جنرل السیسی اپنی سرحدیں کھول کر رفحہ میں پناہ لئے اہل غزہ کو احترام رمضان کے نام پر صحرائے سینائی لے آئیں ۔
اس قدم سے جنرل صاحب کو اسلامی دنیا میں
پزیرائی نصیب ہوگی کہ وہ ان لاکھوں بے
کسوں کی میزبانی کا خرچ صرف اسلئے برداشت کررہے کہ یہ ستم رسیدہ رمضان اطمینان سے گزارسکیں۔ لیکن اس
کا اصل مقصد غزہ سے فلسطیینوں کے انخلا کے
بعد اسرائیلی قبضے کی تکمیل ہے ۔
ایک طرف چچاسام اسرائیل سے رفحہ پر حملہ نہ کرنے کی درخواستیں کررہے ہیں تو دوسری جانب سلامتی
کونسل میں جنگ بندی کی ہر تجویز کو ویٹو کرنے کا سلسلہ جاری ہے ۔ اسی ہفتے الجزائر
نے جنگ بندی قرارداد کا ایک مسودہ سلامتی کونسل میں پیش کیا ہے جسے بحث و رائے شماری سے پہلے ہی واشنگٹن نے مسترد کردیا، اقوام متحدہ میں امریکہ
کی مستقل نمائندہ محترمہ لنڈا ٹامس گرین فیلڈ نے موقف اختیار کیا کہ قرارداد کی
جلد بازی میں منظوری سے پائیدار امن کیلئے جاری حساس مذاکرات کی حوصلہ شکنی ہوگی۔
ستم ظریفی کہ فاضل مندوب قاہرہ کے جس حساس مذاکرات کی طرف اشارہ فرمارہی ہیں وہاں
سے اسرائیل نے اپنا وفد یہ کہہ کر واپس بلالیا ہے کہ اہل غزہ کی شرایط ہمیں منظور
نہیں۔ مستضعفین کا اصرار ہے کہ اسرائیل اپنی فوجیں 7 اکتوبر کی پوزیشن پر واپس لے
جائے پھر قیدیوں کے تبادلے پر بات چیت ہوگی۔
امن کے معاملے میں دورنگی کا
شکار صرف بائیڈن انتظامیہ نہیں بلکہ ساری کی ساری امریکی قیادت اسرائیل کی پشت
پناہی کیلئے پرعزم ہے۔ امریکی سینیٹروں نے رات بھر بحث مباحثے کے بعد منگل (13
فروری) کی صبح پانچ بجے اسرائیل کو 14 ارب 10 کروڑ ڈالر دینے کی قرارداد 29 کے
مقابلے میں 79 ووٹوں سے منظور کرلی۔ فلسطینیوں پر آٹش و آہن برسانے کیلئے اسرائیل
کو خوفناک میزائیل و بمبار دینے کیساتھ اہل غزہ اور ساکنانِ غرب اردن کی مرہم پٹی
کیلئے بھی 9 ارب 15 کروڑ ڈالر تجویز کئے
گئے ہیں۔ اس حوالے سے ایک امید افزا خبر یہ کہ ہالینڈ کی عدالت نے F-35بمباروں کی تیاری میں استعمال ہونے والے
پرزوں کی برآمد پر پابندی لگادی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے درخواست کی تھی کہ
غزہ قتل عام میں عدم تعاون کے عملی اظہار کیلئے جنگی سازوسامان کی اسرائیل برآمدگی
روکی جائے۔ امریکی ساختہ ایف 35 بمبار طیاوں کے کچھ اہم پرزے ہالینڈ میں بنتے ہیں
گوری دنیا کی مکمل پشت پناہی
اور بھرپور امداد کے بل پر اسرائیل غزہ کو کھنڈر اور آگ کے گڑھے اور تندور بنادینے
میں تو کامیاب ہوگیا جہاں معصوم بچے اصحاب الاخدود کی سنت دہرارہے ہیں۔ تاہم قیادت کی سنگدلی و خوں آشامی اسرائیلیوں کو بھی
مہنگی پڑ رہی ہے۔ غزہ میں فوجیوں کی بڑھتی ہوئی ہلاکت و معذوری سے اسرائیلی فوج
شدید دباو میں ہے اور وزارت دفاع نے فوجی بھرتی کا نیا پروگرام وضع کیا ہے جس کے
لئے کئی ارب ڈالر درکار ہیں۔ خرچ کی تو خیر ہے کہ امریکہ اور یورپی یونین نے خزانے
کے منہہ کھول رکھے ہیں لیکن یہاں ایک بہت بڑا مذہبی تنازعہ کھڑا ہوگیا ہے ۔
اسرائیل میں لازمی فوجی خدمت
کا قانون نافذ ہے یعنی ہر اسرائیلی لڑکے کو 2 سال آٹھ ماہ اور لڑکی کو دو سال فوجی
خدمات سرانجام دینی ہوتی ہیں۔ یہ مدت ختم ہونے کے بعد بھی لام بندی قانوں کے تحت
ریاست جب چاہے کسی بھی شہری کو فوجی خدمت کیلئے واپس بلاسکتی ہے۔ آجکل تقریباً
سارے ہی reserve محاذ جنگ پر ہیں ۔ گھمسان کی
جنگ کی وجہ سے محفوظ دستوں کی ڈیوٹی کادورانیہ بڑھادیا گیا ہے۔ غزہ تعینات
اسرائیلی فوج میں وبائی امراض بھی پھیل رہے ہیں جس نے صورتحال مزید دشوار کردی ہے۔
اسوقت اسرائیلی فوج کی
ملازمت سب سے خطرناک سمجھی جارہی ہے چنانچہ نوجوان فوجی بھرتی کی طرف مائل نہیں ۔
ملازمت کو پرکشش بنانے کیلئے تنخواہوں اور مراعات میں بھاری اضافے کا ایک منصوبہ
وزارت دفاع نے پیش کیا ہے جس میں فوج کیساتھ
reserveجوانوں کی تنخواہ تقریباً
دگنی کردینے کی تجویز ہے۔ حالیہ جنگی جنون کی بناپراس تجویز کی مخالفت کسی کے لئے
ممکن نہیں لیکن قائد حزب اختلاف یار لیپیڈ نے ایک نئے پہلو کی طرف نشاندہی کی ہے
جس پر قدامت پسند سخت مشتعل ہیں۔
لازمی فوجی خدمت کے قانون سے
حریدی، عبرانی تلفظ شریدی (Heridi) فرقے کے یہودی مستثنیٰ ہیں۔ یہ دراصل
Ultra-Orthodox Jewsہیں۔ سرائیل کی یہودی
آبادی میں حریدیوں کا تناسب 10 فیصد کے قریب ہے۔حریدی خود کو توریت اور احکامات ربُانی
یا تلمود (Talmud)کا وارث سمجھتے ہیں اور انکے یہاں ہر مرد کیلئے توریت و تلمود کی
تعلیم فرض سمجھی جاتی ہے۔ درس و تدریس کیلئے مخصوص مدارس ہیں جہاں طلبہ ٹاٹ پر
بیٹھ کر توریت حفظ کرتے ہیں۔ ان مدارس کو Yeshivaکہا جاتا ہے۔ Yeshiva
کے معنی ہی ہیں زمین پر بیٹھنا۔ ماضی میں کئی بارحریدیوں کا
استثنٰی ختم کرنے کی تجویزآئی لیکن مولویوں نے لبرل عناصر کی ایک نہ چلنے دی۔
حریدیوں کی نمائندہ پاسداران توریت یاShas Partyہر قدامت پسند حکومت کا حصہ رہی ہے چنانچہ یہ استثنیٰ آج تک قائم
ہے۔ شاس کا کہنا ہے کہ لازمی فوجی تربیت کیلئےYeshivaسے 32 مہینے کی غیرحاضری تعلیم میں حرج کا سبب بنے گی اور 'حفظ '
متاثر ہوگا ۔
گزشتہ ہفتے قائد حزب اختلاف
یار لیپڈ نے حکومت کے فوجی بل کی حمائت کو حریدی استثنیٰ کی منسوخی سے مشروط کرنے
کا اعلان کردیا۔ انکا کہنا ہے کہ آبادی کے لحاظ سے اسرائیل ایک چھوٹا ملک ہے جبکہ
اپنی بقا کیلئے ہمیں ایک بڑی فوج کی ضرورت ہے۔ حریدیوں کے استثنیٰ سے دوسری
آبادیوں پر غیرمنصفانہ دباو پڑرہاہے جو غزہ کی سنگین صورتحال کے تناظر میں کسی طور
مناسب نہیں۔دوسری طرف شاس اور یہودی توریت جماعت
(UTJ) فوجی تربیت سے استثنیٰ کو
'سرخ لکیر' قرار دے رہی ہیں۔ وزیراعظم نتھین یاہو کے اتحاد کو 120 رکنی کنیسہ
(پارلیمان ) میں 64 ارکان کی حمائت حاصل ہے جس میں شاس اور UTJ
کا مجموعی حجم 18 ہے۔ یعنی ان میں سےاگر ایک جماعت بھی الگ ہوئی تو
حکومت تحلیل ہوجائیگی۔
اسرائیل کی پشت پناہی کرنے
والے تجاری ادارے بھی دباو محسوس کررہے ہیں۔ مک ڈانلڈ (McDonald)کی انتظامیہ نے اپنے حصص یافتگان کو بھیجی گئی رپورٹ میں کہا ہے کہ
غزہ جنگ کے بعد بائیکاٹ سے کارپوریش کا کاروبار متاثر ہورہا ہے۔ مصر، انڈونیشیا
اور ملائیشیا میں بائیکاٹ بہت موثر ہے۔ امریکہ میں ذبیحہ گوشت نہ ہونےکی وجہ سے
مسلمانوں میں میکڈانلڈ پہلے بھی بہت زیادہ مقبول نہ تھا۔ تاہم اسکی کیلی فورنیا
میں ایک شاخ بند ہوچکی ہے۔ بیرونِ امریکہ کمپنی کو بکری میں 10 فیصد اضافے کی توقع
تھی لیکن دسمبر میں ختم ہونے والی سہہ ماہی کے دوران یہ اضافہ ایک فیصد سے بھی کم
تھا۔ خلیجی ممالک خاص طور سے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں بائیکاٹ زیادہ
موثر نہیں۔
گفتگو کا اختتام ایک حوصلہ
افزا نوٹ پر
اہل غزہ کے پاس کھانے کو
نہیں لیکن قرآن کی تعلیم میں ایک دن ناغہ نہیں ہوا۔ ناظرہ کیساتھ حفظ کا سلسلہ بھی
جاری ہے۔ گزشتہ ہفتے حفظ اور جزوی حفظ
کرنے والی بچیوں کا جلسہ تقسیم اسناد منعقد ہوا۔ قرآن یاد کرلینے کی خوشی ان کے معصوم
چہروں سے پھوٹی پڑرہی تھی حالانکہ ان میں
بہت سی یتیم و بے سہارا ہوچکی ہیں۔ اعصاب
و حوصلہ شکن مصائب و آلام کے باوجود حفظ قران کی خوشی میں ان غمزدوں نے شیرینی بھی
تقسیم کی کہ جب اللہ کا کلام سینوں میں محفوظ اور زبانوں پر جاری ہوجائے تو مافی
مشکل؟؟؟؟
ہفت
روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 23 فروری 2024
ہفت
روزہ دعوت دہلی 23 فروری 2024
ہفت روزہ رہبر سرینگر 25 فروری 2024
No comments:
Post a Comment