پاکستان کے انتخابات ۔۔ غیر شفاف اور غیر فیصلہ
کن
گزشتہ
ماہ بنگلہ دیش (سابق مشرقی پاکستان) میں انتخابات ہوئے اور 8 فروری کو پاکستان کے
لوگوں نے قومی اور چاروں صوبوں کی اسمبلیوں کا انتخاب کیا۔ انتخابی
نتائج پر تبصرے سے پہلے ملک کی سیاسی صورتحال
کا ایک جائزہ
پاکستان
گزشتہ 23 ماہ سے سیاسی بحران کا شکار ہے، اس کا آغاز 8 مارچ 2022کو وزیراعظم عمران خان کے خلاف
حزب اختلاف کی تحریک عدم اعتماد سے ہوا۔اس تحریک کے روح رواں پاکستان ڈیموکریٹک
موومنٹ (PDM)کے سربراہ مولانا فضل الرحمان
تھے۔جماعت اسلامی نے اس تحریک سے علیحدہ رہنے کا اعلان کیا۔ اسی طرح پشتون تحفظ
موومنٹ اور مسلم لیگ ق نے بھی عدم اعتماد کی
قرارداد پر دستخط نہیں کئے۔ 27 مارچ کو سابق وزیراعظم نے ایک کاغذ لہراتے ہوئے انکشاف کیا کہ امریکی وزارت
خارجہ کے ایک اعلیٰ افسر ڈانلڈ لو نے پاکستانی سفیر سے ایک ملاقات میں عمرا ن خان کو
ناپسندیدہ قرار دیتے ہوئے regime
changeکی فرمائش کی ہے۔ کپتان نے مزید کہا کہ سفیرِ پاکستان اسد مجید خان نے خفیہ سفارتی مراسلے یا Cypherکی شکل میں یہ بات وزیرخارجہ
کو بتادی ہے۔خان صاحب نے انکشاف کیا کہ
پاکستانی سفیر اور ڈانلڈ لو کی ملاقات 7
مارچ کو ہوئی اور اس کے دوسرے ہی روز قراردادِ عدم اعتماد پیش کردی گئی۔ کپتان نے
دعویٰ کیا کہ یہ تحریک حکومت گرانے کے امریکی 'حکم' کی تعمیل کیلئے پیش کی گئی ہے۔
زعمائے پی ڈی ایم کا دعویٰ
تھا کہ وہ کافی عرصے سے عدم اعتماد کی تحریک لانے کا سوچ رہے تھے لیکن منظوری کیلئے مطلوبہ ووٹ کو یقینی
بنانے میں وقت لگا اور اس کا سائفر سے کوئی تعلق نہیں۔ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے سائفر ملنے کی تصدیق کرتے
ہوئے کہا کہ اسکا جواب امریکہ کو بھجوادیا
گیا ہے جسے سفارتی اصطلاح میں dé·marche
کہتے ہیں۔
عمران خان نے پیشکش کی کہ اگر حزب اختلاف عدم اعتماد کی تحریک واپس لے لے تو وہ
قومی اسمبلی تحلیل کرکے نئے انتخابات کرانے کو تیار ہیں لیکن حزب اختلاف نہ مانی۔
تین اپریل کو جب عدم اعتماد کی تحریک قومی اسمبلی میں پیش ہوئی تو ڈپٹی اسپیکر جناب قاسم سوری نے جو اجلاس کی صدارت کررہے تھے،
قرارداد کو خلاف ضابطہ قراردیتے ہوئے مستر
کردیا اور وزیر اعظم کی سفارش پر صدر عارف
علوی نے قومی اسمبلی تحلیل کرکے ضابطے کے
مطابق الیکشن کمیشن کو 90 دن کے اندر نئے انتخابات کرانے کا حکم دیدیا۔
ڈپٹی اسپیکر کی جانب سے قرارداد مسترد
کئے جانے پر حزبِ اختلاف سپریم کورٹ پہنچ
گئی اور عدالت عظمیٰ نے اسپیکر کے فیصلے کو غیر آئینی قراردے دیا۔ فیصلہ آتے ہی 10
مارچ کو حزب اختلاف نے قرارداد عدم اعتماد ایوان میں پیش کردی۔اس روز اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر سمیت برسراقتدار تحریک
انصاف کے تمام ارکان نے اجلاس کا بائیکاٹ کیا تاہم وزیرمملکت علی محمد خان علامتی طور پر ایوان میں
موجود تھے۔ سابق اسپیکر ایاز صادق نے اجلاس کی صدارت کی اور جب راے شماری کا وقت
آیا تو صرف علی محمد خان، پشتون تحفظ موومنٹ کے محسن داوڑ اور جماعت اسلامی کے
مولانا چترالی تحریک عدام اعتماد کے مخالف تھے۔ عدم اعتماد کے نتیجے میں حزب اختلاف
کے شہباز شریف وزیراعظم منتخب ہوگئے۔[
شدید مہنگائی اور سیاسی بحران کی وجہ سے شہباز حکومت عوام میں انتہائی غیر
مقبول رہی۔ نو مئی کو بدعنوانی کے الزاام میں عمران خان کو گرفتار کرلیا گیا، جس
پر تحریک انصاف کی طرف سے شدید رد عمل سامنے آیا۔ مشتعل مظاہرین نےکئی شہروں میں فوجی تنصیبات اور
کورکمانڈروں کے دفاتر پر توڑ پھوڑ کی۔اس
دوران تحریک انصاف کے سینکڑوں رہنما اور کارکن گرفتار کرلئے گئے۔عدالت کے حکم پر عمران
رہاہوگئے لیکن جلد ہی انھی دوبارہ گرفتار
کرلیا گیا۔ دورانِ حراست غیر ملکی دوروں
پر ملنے والے تحائف فروخت کرنے کے الزام میں عمران کو تین سال کی سزا سنائی گئی۔ سزا
پانے کے نتیجے میں عمران خان سیاست سے نااہل
ہوگئے۔
مدت مکمل ہونے پر گزشتہ برس 13 اگست کو قومی اور چاروں صوبائی اسمبلیاں تحلیل ہوگئیں۔
آئین کی رو سے انتخابات 90 دن مکمل ہونے
پر 12 نومبر تک ہوجانے چاہئے تھے لیکن چناو کیلئے 8 فروری کی تاریخ طئے کی گئی۔ ۔ اسی دوران الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کو ایک
انتباہی مکتو ب لکھا جس میں نشاندہی کی گئی تھی کہ پارٹی نے جماعتی انتخابات نہیں کرائےا ور اگر فوری
طور پر انتخابات نہ کروائے گئے تو تحریک
انصاف عام انتخابات میں اپنا انتخابی نشا ن 'بلّا' (bat) استعمال
نہیں کرسکے گی۔ تحریک انصاف نے ہنگامی بنیادوں پر انتخاب منعقد کرکے بیرسٹر گوہر خان کو پارٹی کو
چئرمین چُن لیا، لیکن الیکشن کمیشن نے ان انتخابات
کو غیر شفاف اور خلاف ضابطہ قرار دیتے ہوئے پی ٹی آئی سے انتخابی نشان واپس لے لیا۔
اس سال 30 جنوری کو خصوصی عدالت نے سائفر کے افشا اور رازاداری یا official secret act کی خلاف وزری پر عمران خان کو
دس سال کی سزا سنادی۔ اسکے 4 دن بعد بشریٰ
بی بی سے دوران عدت نکاح پر عمران خان اور انکی ہلیہ کو سات سال قید
کی سزا ہو گئی۔ رازداری ایکٹ کی تفصیلات
کا ہمیں علم نہیں لیکن پارٹی انتخابات اور
دوران عدت نکاح کے حوالے سے ہمارا خیال ہے
کہ انصاف کے تقاضے پورے نہیں کئے گئے۔
سلطانی جمہور کو یقینی بنانے کیلئے سیاسی جماعتوں کا جمہوری ہونا ضروری ہے
جسکی بنیادی شرط پارٹی انتخابات ہیں۔ انتخابی ضابطے کے تحت ہر سیاسی جماعت Intra-Partyانتخابات کرانے کی پابند
ہے۔تحریک انصاف سے انتخابی نشان واپس لینے کا فیصلہ اس اعتبار سے تو درست ہے کہ عمران خان نے کافی عرصے سے پارٹی
انتخابات نہیں کرائے لیکن یہ عدل و مساوت
کی رو سے ایک امتیازی بلکہ انتقامی فیصلہ
تھا کہ جماعت اسلامی کے سوا پاکستان کی کسی بھی سیاسی جماعت میں انتخابات نہیں
ہوتے۔ جناب بلاول بھٹو کو تو انکی والدہ
مرحومہ کی وصیت کی بنیاد پر پارٹی قیادت سونپی گئی ہے۔ مسلم لیگ میں بھی انتخابات
کے بجائے نامزدگیوں سے کام چلایا جارہا ہے۔
دوران عدت نکاح کا مقدمہ انتہائی بھونڈا اور اسلامی شریعت سے مذاق ہے۔ معاملہ بس اتنا سا ہے کہ بشریٰ بی بی نے عدت اس دن سے گِنی جس روز سابق شوہر نے انھیں
زبانی طلاق دی۔ انھیں تحریری طلاق نامہ نومبر کے آخر میں ملا جسکی رو سے نکاح والے
دن عدت مکمل نہیں ہوئی، خانصاحب نے دوباہ نکاح منعقد کرکے اس غلطی کی تلافی کردی۔ اس
میں نہ کوئی ملکی قانوں ٹوتا نہ شریعت کے کسی ضابطے کی خلاف ورزی ہوئی، بس ایک سہو
تھا جسکا ازالہ کردیا گیا۔ سچی بات یہ ہے کہ عدت کی مدت زبانی طلاق کے دن سے ہی
گنی جانی چاہیے اور اس اعتبار سے دوسرانکاح بھی ضروری نہ تھا۔
آب
آتے ہیں انتخابات کی طرف اور سب سے پہلے فارم 45 اور 47 پر مختصر گفتگو کہ آجکل اسکا بڑا
شور ہے۔ ہر پولنگ اسٹیشن پر گنتی کے بعد تمام امیدواروں کے حاصل کردہ ووٹوں کی
تفصیل فارم 45 پر درج کی جاتی ہے۔یہ فارم وہاں
موجود پولنگ ایجنٹؤں کی تصدیقی دستخط کے
بعد پریزائیڈنگ افسران حلقہ کے Returning
Officerیا آراو کو بھیج دیتے
ہیں۔ ساتھ ہی اسکی مستند نقول بطور
سند ایجنٹوں کے حوالہ کردی جاتی ہیں۔ تمام پولنگ اسٹیشنوں سے حاصل ہونے والے فارم 45 پر درج ووٹو
ں کو جمع کرکے حلقے یا constituencyسے ہر امیدوار کو
ملنے والے ووٹوں کی مجموعی تعداد فارم 47 پر لکھ کرکے ضلعی اور صوبائی الیکشن کمشنر کو بھیجی
جاتی ہے۔ فارم 47 دراصل حلقے کے غیر سرکاری نتیجے کا اعلان ہے۔ فارم 47 کے
اعدادوشمار پر اعتراض کی صورت میں پولنگ اسٹیشنوں سے ملنے والے فارم 45 دکھاکر
تصحیح کی درخواست دائر کی جاسکتی ہے۔
حالیہ انتخابات میں ووٹنگ اور گنتی کے مرحلوں پر تو کسی بڑی شکائت
کی اطلاع نہیں ملی۔ بعض پولنگ اسٹیشنوں پر
عملہ دیر سے پہنچا، کچھ مقامات پر سیاسی کارکنوں کے درمیان دھول دھپے کی وارادت
بھی ہوگئی تاہم یہ واقعات اکا دکا تھے۔گنتی کے بعد دستخط شدہ فارم 45 بھی بالکل درست جاری کئے گئے۔ دھاندلی
بلکہ کھلی بے ایمانی کا مظاہرہ فارم 47 کی
تدوین کے وقت کیا گیا۔ کراچی میں جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کو ملنے والے اکثر
فارم 47 خودساختہ ہیں یعنی وہ فارم45 کا مجموعہ نہیں۔ تحریک
انصاف کے افراد کا کہنا ہے کہ پنجاب میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ کراچی میں فارم 45 کی
رو سے صوبائی اسمبلی کے تیرہ حلقوں میں جماعت اسلامی کے امیدوار جیت چکے ہیں لیکن فارم
47 کے مطابق ان نشستوں پر ایم کیو ایم کے
ووٹ زیادہ ہیں۔ دیکھنا ہے کہ ان انتخابی
بے ضابطیوں پر داد رسی کیلئے کیا راستہ اخیتار
کیا جاتا ہے۔
غیر سرکاری نتائج کے مطابق قومی اسمبلی کی 93 نشستیں تحریک انصاف، 75 نوازلیگ اور 54 پیپلز پارٹی کے حصے میں آئیں ہیں ۔ متحدہ قومی
موومنٹ نے 17 نشتوں پر کامیابی حاصل کی۔ مولانا فضل الرحمان کی جمیعت علمائے اسلام
اور مسلم لیگ ق کو تین تین نشستیں ملیں۔ مولانا صاحب ڈیرہ اسماعیل خان کی آبائی نشست ہارگئے لیکن انھوں
نے پشین (بلوچستان) سے کامیابی حاصل کرلی۔ ان انتخابات کی خاص بات کہ پارلیمانی تاریخ کا
یہ پہلا موقع ہے جب قومی اسمبلی میں جماعت اسلامی کی نمائندگی صفر ہوگی۔
ضابطے کے تحت انتخابات کے 20 دن کے اندر نئی اسمبلی حلف اٹھائیگی
جسکے بعد خواتین کی 60 اور اقلیتوں کی 10 مخصوص
نشستیں ہر جماعت کو اسکے پارلیمانی حجم کے مطابق ملیں گے۔ تحریک انصاف نے انتخابات میں بطور پارٹی حصہ نہیں لیا لہذا اس
کوٹے میں اسکو کوئی حصہ نہیں مل سکتا۔ افواہ ہے کہ حلف اٹھانے کے بعد انکے تمام
ارکان مجلس وحدت المسلمین (MWM)میں شامل ہوجائینگے تاکہ مخصوص نشستوں سے اپنا حصہ حاصل کیا جاسکے۔
تحریک انصاف کیلئے سب سے بڑی آزمائش اپنے ارکانِ پارلیمان
کی وفاداری قائم رکھنا ہے ، یہ تمام لوگ آزاد حیثیت سے منتخب ہوئے ہیں اسلئے ان پر آئین کی شق 63-Aالمعروف فلور کراسنگ
ایکٹ کا اطلاق نہیں ہوتا۔ آزاد ارکان اپنی مرضی سے وزیراعظم و وزیراعلیٰ کیلئے ووٹ
دے سکتے ہیں۔ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں تحریک انصاف کے آزاد ارکان کو ساتھ ملا
کر اپنا پارلیمانی حجم بڑھانا چاہتے ہیں۔ یا یوں کہئے کہ ضمیر خریدنے کیلئے بولیاں
دی جارہی ہیں۔ آزاد پنچھیوں کیلئے ن لیگ کی رفاقت زیادہ پرکشش ہے کہ انکے پاس پہلے ہی 74 نشستیں ہیں اور کم ازکم 10 آزاد
ارکان ان سے آملے ہیں۔ ایم کیوایم اور
بلوچ عناصر نے بھی مسلم لیگ سے اتحاد کا عندیہ دیاہے۔ سب سے اہم کہ بی بی مقتدرہ ان پر مہربان لگ رہی ہیں اور یہاں لیلٰےِ اقتدار اسی
دیوانے کو فرحتِ وصال بخشتی ہے جو بی بی کے سایہ الطاف میں ہو،۔
دوسری طرف پی ٹی آئی کی عوامی حمائت کو نظر انداز کرنا مقتدر حلقے کیلئے آسان نہیں۔ اگر عمران خان نے MWMسے الحاق کی اجازت دیدی تو پیپلز
پارٹی سے شرکت اقتدار بھی آسان ہوجائیگا کہ شیعہ مکتبہ فکر کی بناہر MWMکے پیپلز پارٹی اور زرداری
خانداان سے اچھے مراسم ہیں ۔ پی ٹی ائی کے قائد بیرسٹر گوہر دوسال پہلے تک پیپلز
پارٹی میں تھے اور وہ جناب آصف زرداری کے بہت قریب ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو وفاق اور
چاروں صوبوں میں MWM (تحریک انصاف) کی
حکومت قائم ہوسکتی ہے۔ آصف زرداری اپنے بیٹے کو وزیراعظم بنانا چاہتے ہیں جبکہ بیرسٹر
صاحب بھی وزرت عظمیٰ کا ارمان رکھتے ہیں۔ پارلیمانی نظام حکومت میں منصب وزارت عظمی
کی شمع باری باری عشاقان اقتدار کے سامنے رکھنے کی نظیر بھی موجود ہے۔
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 16 فروری 2024
ہفت روزہ دعوت دہلی 16 فروری 2024
روزنامہ امت کراچی 16 فروری 2024
ہفت روزہ رہبر سرینگر 18 فروری 2024
روزنامہ قومی صحافت لکھنو
نوٹ: یہ مضمون 10 فروری کو لکھا گیا ہے
No comments:
Post a Comment