Sunday, February 27, 2022

غضب کیا ترے وعدے پہ اعتبار کیا۔۔۔

 

غضب کیا ترے وعدے پہ اعتبار کیا۔۔۔

یوکرینی عوام کو آج جس مشکل کا سامنا ہے اسکا ماتم اپنی جگہ لیکن یہ عالمی وعدہ خلافی کی ایک شرمناک مثال بھی ہے۔ یوکرین سو ویت یونین (USSR)کا حصہ تھا۔افغانستان سے  روسی فوج کی بصد سامانِ رسوائی روانگی پر  سوویٹ یونین کی شکست و ریخت کا آغاز ہوا۔ جب 1991 میں یوکرین نے آزاد ریاست کی حیثیت سے اپنے سفر کا آغاز کیا اسوقت سوویت دور کی جوہری تنصیبات اور اسلحہ وہاں موجود تھا۔  دنیا کے 'پانچ بڑوں 'کو  وہاں جوہری ہتھیاروں کی موجودگی پر سخت تشویش تھی ، چنانچہ یوکرین پر زور دیا گیا کہ وہ اپنے جوہری پروگرام کو ختم کرکے جوہری ہتھیار سے دستبردار ہوجائے۔ ایسی ہی 'تلقین' قازقستان اور بلارس کو بھی کی گئی تاہم ان تمام ملکوں کو اپنے دفاع کی طرف سے تشویش تھی۔

ان تینوں ملکو ں کے خدشات دور کرنے کیلئے دفاع اور تعاون کی یورپی تنظیم OSCEکے بینر تلے ہنگری کے دارالحکومت بڈاپسٹ میں ایک اجلاس ہوا۔ جہاں سلامتی کونسل کے پانچوں مستقل ارکان نے یقین دلایا کہ اگر  یہ تینوں ملک  اپنا جوہری پروگرام ختم کردیں تو برطانیہ، روس اور امریکہ  انکے تحفظ اور سلامتی کے ذمہ دار ہونگے۔ کئی دن کی گفتگو کے بعد 5 دسمبر 1994 کو ضمانتِ تحفط کی ایک یادداشت پر دستخط ہوئے جسے Budapest Memorandum on Security Assuranceکہا جاتا ہے۔

پانچ نکاتی اس یادداشت میں برطانیہ، روس اور امریکہ نے بہت صراحت کیساتھ ضمانت دی  تھی کہ اگر قازقستان، یوکرین اور بیلارُس اپنا جوہری پروگرام ختم کرکے ایٹمی اسلحہ روس کے حوالے کردٰیں تو:

  1. تینوں ملکوں کی سلامتی، خودمختاری اور سرحدوں کا مکمل احترام کیا جائیگا
  2. ان ملکوں کو دھمکی یا انکے خلاف طاقت کے استعمال سے گریز کیا جائیگا
  3. انکے خلاف کسی قسم کی معاشی پابندی نہیں لاگئی جائیگی
  4. اگر یہ ملک دھمکی یا طاقت کا نشانہ بنے تو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل انکے دفاع کی ذمہ دار ہوگی
  5. اگر اس عہد سے متعلق کبھی کوئی شک یا ابہام پیدا ہوا تو تینوں ضامن مشورے کے بعد ان ملکوں کو اعتماد میں لینگے

اس تحریری معاہدے کے باوجود 2014 میں روس نے کریمیا اور دو مشرقی صوبوں کے بڑے علاقے پر قبضہ کرلیا یعنی ضامن نے خود ہی معاہدے کی دھجیاں بکھیر دیں لیکن دنیا خاموش رہی اور اب ایک بار پھر بے اماں یوکرینی روسی بمباری کا نشانہ بن رہے ، ہیں۔ اگر انکے پاس جوہری ہتھیار ہوتا تو وہ اس بے بسی کے عالم میں نہ مارے جاتےلیکن بھولی یوکرینی قیادت نے 'بھیڑیوں' کو معصوم سمجھنے کی مجرمانہ غلطی کا ارتکاب کیا جسکی قیمت آج ساڑھے چار کروڑ یوکرینی ادا کررہے ہیں۔

اس یادادشت پر دستخط کی تصویر نیچے موجود ہے جس روس کے سابق صدر بورس یلسٹن، امریکی صدر بل کلنٹن، یوکرین  کے صدر لیونڈ کشما (Leonid Kuchma)اور برطانیہ کے وزیراعظم جان میجر نظر آرہے ہیں۔ان میں سے بورس یلسٹن آنجہانی ہوچکے  لیکن جان میجر اور بل کلنٹن اب بھی حیات ہیں۔  اپنے دستخطوں  سے جاری ہونے والی ضمانت کی دھجیاں بکھرتی دیکھ کر انھیں ذرا شرم نہ آئی۔


Thursday, February 24, 2022

مشرقی یورپ کی خوفناک جنگ نیٹو اور روسی دفاع بہانہ ۔۔ توانائی اور دانہ اصل نشانہ

 

نوٹ؛ یہ مضمون روسی حملے سے چاردن پہلے لکھا  گیا ہے

مشرقی یورپ کی خوفناک جنگ

نیٹو اور روسی دفاع بہانہ ۔۔ توانائی  اور دانہ اصل نشانہ

کہا جاتا ہے کہ جنگ میں سب سےپہلے سچائی شہید ہوتی ہےلیکن مشرقی یورپ کی حالیہ کشیدگی کے دوران پہلی گولی چلنے سےقبل ہی سچائی کو زندہ دفن کردیا گیا۔ صدر بائیڈن روسی حملے کیلئے تاریخ پر تاریخ دے رہے ہیں۔ پہلے کہا گیا کہ حملہ بیجنگ اولمپک کے خاتمے سے پہلے ہوگا اور اسکے بعد امریکی وزیرخارجہ انٹونی بلینکن نے فرمایا کہ 16 فروری کو حملہ متوقع ہے۔ امریکی صدر تقریباً ہر روز ڈرا' رہے ہیں کہ حملہ کسی بھی وقت  ہوسکتا ہے۔ دوسری طرف روس کا اصرار ہے کہ سپاہی فوجی مشقوں کیلئے بھیجے گئے ہیں اور جیسے جیسے مشقیں ختم ہورہی ہے فوجی دستے واپس بلائے جارہے ہیں۔امریکہ، روس کی یقین دہانیوں کو سفید جھوٹ کہہ رہا ہے تو ماسکو کا خیال ہے کہ  صدر بائیڈن کا جنگی جنون  وسط مدتی انتخابی مہم کا حصہ ہے۔ یہ انتخابات 8 نومبر کو ہونگے جب ایوان نمائندگان (قومی اسمبلی) کی تمام سیٹوں  اور سینیٹ کی ایک تہائی نشستوں پر چناو ہوگا

جمعرات (17 فروری) کو امریکی وزیرخارجہ  نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں گراف، چارٹ اور رنگین نقشوں کی مدد سے یوکرین پر روس کے متوقع حملے کی تفصیلات بیان  کیں۔ انکا کہنا تھا کہ  کاروائی کا آغاز خوفناک  بمباری  اور میزائیل اندازی سے ہوگا، ساتھ ہی Cyberحملوں کے ذریعے یوکرین کا مواصلاتی نظام اور  بنیادی ڈھانچہ مفلوج کردیا جائیگا۔ میدان صاف ہونے کے بعد روسی ٹینکوں اور بکتر بندگاڑیوں کی شکل میں آگے بڑھتی فولادی دیوار کی حفاظت میں ہر طرف سے پیادہ دستے آگے بڑھائے جائینگے۔جناب بلینکن نے کہا روسی افواج کیلئے اہداف کا بھی تعین کرلیا گیا ہے۔ تاہم اس سنسنی انکشاف کے دفاع  میں امریکی وزیر خارجہ نے کسی قسم کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا۔

 گزشتہ ہفتےاخباری کانفرنس کے دوران جب ایک صحافی نے انھیں یاددلایا کہ 18 برس پہلے عراق میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار المعروف WMDکی موجودگی کے حوالے سے انکے سابق ہم منصب کولن پاول بھی اسی طرح نشان زدہ نقشے دکھا کر عراق میں  WMD کی موجودگی ثابت کرتے تھے۔ اس پر بقراطی بگھارتے ہوئے موصوف نے فرمایا 2003 میں اس قسم کی باتیں جنگ شروع کرنے کی دلیل کے طور پر کی گئیں جبکہ میں جنگ روکنے کیلئے یہ باتیں بتارہا ہوں۔

جہاں تک روس کا تعلق ہے تو وہاں بھی جھوٹ کا بازار گرم ہے اور جناب پیوٹن کی نیت کا فتور کسی سے پوشیدہ نہیں۔سات سال پہلے جہاں انھوں نے جزیرہ  نمائے کریمیا پر قبضہ کرکے لاکھوں تاتار اور قازق مسلمانوں کو بے دخل کیاوہیں موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئےمشرقی یوکرین کے دوصوبوں پر قبضہ جمالیا۔ لوہنسک (Luhansk)اور دونیٹزک (Donetsk)صوبے یوکرین کے زرخیز ترین علاقوں میں شمار ہوتے ہیں۔  یہاں آباد تاتاروں کو مغربی جانب دھکیلنے کے بعد اسے روس نواز سرب باغیوں کے حوالے کردیا گیا۔ جلد ہی جھرلو برانڈ یفرنڈم کے بعد یہ دونوں صوبے، ڈونیٹزک پیپلز ریپبلک  (روسی مخفف DNR)اور لوہانسک  پیپلز ریپبلک (روسی مخفف LNR ) کے نام سے خودمختار ممالک  بنا دئے گئے جسے اب تک خود روس نے بھی تسلیم نہیں کیا۔ کچھ عرصہ بعد ان دونوں 'ملکوں' نے خود کو Noverussiaیا نیو رشیا کے نام سے مسیحی فیڈریشن میں ضم کرلیا جسکا سرکاری مذہب Orthodox روسی مسیحیت قرارپایا۔ تاہم یہ وفاق 2015 سے معطل ہے۔

یوکرین، نیورشیا کو دہشت گردوں کے ہاتھوں یرغمال بنا گیا علاقہ کہتا ہے جسے واپس لینے کیلئے وقتاً فوقتاً فوجی کاروائی ہوتی رہتی ہے۔ گزشتہ چند دنوں سے یہ محاذ پھر گرم ہے۔ روس نواز باغیوں کا کہنا ہے کہ امریکہ اورنیٹو کی شہہ پر یوکرین انکے شہری علاقوں پر گولہ باری کررہا ہے جسکی وجہ سے خون جمادینے والی سردی میں ہزاروں افراد پناہ لینے کیلئے مشرقی سرحد عبور کرکے روس جانے پر مجبو ہوگئے ہیں۔ صدر بائیڈن کے خیال میں یہ یوکرین پر حملے کیلئے روس کی جانب سے جوازتراشی کا مکروہ عمل ہے۔

روسی صدر دنیا کو یقین دلا رہے ہیں کہ وہ یوکرین کیخلاف کسی قسم کے جارحانہ عزائم نہیں رکھتے اور 'فوجی مشقیں' امریکہ اور نیٹو کی متوقع توسیع پسندی کیخلاف مزاحمت کی تیاری کیلئے ہیں۔ لیکن انھوں نے اپنا سارے کا سارے اسلحہ  یوکرین کی سرحد پر لادھرا ہے۔ مشرق میں روس یوکرین سرحد اور جنوب میں بحرا اسود کے ساتھ شمال میں بلارُس یوکرین سرحد پر بھی روسی سپاہی مورچہ زن ہیں۔ معاملہ صرف روائتی ہتھیار تک محدود نہیں بلکہ 19 فروری کو روس نے علاقے میں آوازسے کم ازکم پانچ گنا تیز رفتار میزائلوں کی مشق کی۔ مغربی روس اور بحر اسود سے داغے جانیوالے یہ میزائیل جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

جنگ ہوگی یا نہیں اسکے بارے میں یقین سے کچھ کہنا مشکل ہے لیکن اگر جنگ چھڑگئی تو  ساری دنیا کو اسکی بھاری قیمت اداکرنی ہوگی ۔ جیسا کہ ہم ایک نشست میں پہلےعرض کرچکے ہیں کہ نیٹو اور امریکہ روسی حملے کاجواب سونے کی گولیوں سے دینگے یعنی سینہ و سر کو نشانہ بنانے کے بجائے سخت اقتصادی پابندیوں کے ذریعے روسیوں کے پیٹ پر لات رسید کی جائیگی۔

یوکرین پر حملے کی صورت میں جوابِ آں غزل کے طور پر روس سے جرمنی  آنے والی  گیس پائپ لائن بند کردی جائیگی ۔ یورپ میں ایندھن کی 40 فیصد ضرورت روسی گیس سے پوری ہوتی ہے جو روسی تیل اور گیس کے مجموعی برآمدی جحم کانصف ہے۔ چیک ریپبلک، لٹویہ، فن لینڈ، پولینڈ، ہنگری،  بلغاریہ اور  سلاواکیہ کی90 فیصد توانائی روس سے آنے والی گیس کی مرہونِ منت ہے۔گیس  پائپ لائن بند کرنے سے  بلاشبہ روسی معیشت پر کاری ضرب لگے گی۔لیکن اس سے ساری دنیا میں تیل کی قیمتوں پر اثر پڑیگا۔ یورپ کو فراہم کی جانیوالی گیس کا حجم تقریباً 183 ارب مکعب میٹر سالانہ ہے۔ کہاجارہاہے کہ ناروے، قطر ، آذربائیجان اور الجزائر روسی گیس کی کمی پوری کرنے کیلئے پرعزم ہیں لیکن اسکے نتیجے میں دوسرے ملکوں کو تیل اور LNGکی فراہمی متاثر ہوگی۔

مثال کے طور پر قطر نے گزشتہ برس مجموعی طور پر 77 ملین ٹن LNGبرآمد کی۔ اس سال وہ دنیا کے مختلف ملکوں سے 97 ملین ٹن LNGفروخت کرنے کا معاہدہ کرچکا ہے یعنی اسے ان معاہدوں کی لاج رکھنے کیلئے LNG کی پیدواری گنجائش میں ایک چوتھائی کا اضافہ کرنا ہوگا۔ گیس ذخیرے کے اعتبار سے توقطر کیلئے کوئی مسئلہ نہیں کہ اسکے تصدیق شدہ ذخائر کا جم 858 ہزار ارب مکعب فٹ (TCF)ہے، لیکن قدرتی گیس کو LNGمیں تبدیل کرنے کیلئے وقت درکار ہے۔ اسکا مطلب ہوا کہ یورپ کی ضرورت پوری کرنے کیلئے قطر اپنے  موجودہ گاہکوں کو LNGکی فراہمی کم از کم وقتی طور پر کم کردیگا۔

دوسری طرف روس میں غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر اطمینان بخش سطح پر ہیں، اسکے اخراجات آمدنی سے کم ہیں۔ ماسکو کا خزانہ خاصہ مستحکم ہے لہذا یورپ جانے والی گیس پائپ لائن کی بندش سے وقتی طورپر تو آمدنی متاثر ہوگی لیکن اسکے لئے ایشیا میں نئے گاہک تلاش کرنا زیادہ مشکل نہ ہوگا

اس ممکنہ جنگ کے نتیجے میں توانائی کا بحران یقیناً ساری دنیا کو بری طر متاثر کریگا لیکن اسکے غذائی پہلو پر ہم نے اب تک کسی تشویش کا مظاہرہ نہیں دیکھا حالانکہ یوکرین یورپ میں غذائی اجناس اور خوردنی تیل (vegetable Oil) کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے۔ جیسے ایک زمانے میں پنجاب کو برصغیر کا بریڈ باسکٹ کہا جاتاتھا ویسے ہی یوکرین یورپ کیلئے روٹی کی چنگیری ہے۔گزشتہ برس یوکرین نے ایک کروڑ 80 لاکھ ٹن گندم برآمد کیا۔یورپی یونین کے علاوہ لبنان، شام، یمن اور مصر یوکرینی گندم کے سے بڑے خریدار ہیں۔چین اور یورپی ممالک بھی یوکرینی گندم خریدتے ہیں۔ قیمت کم ہونے کی وجہ سے لبنان کی ضرورت کا پچاس فیصد گندم یوکرین سے آتا ہے۔لیبیا اپنی ضرورت کا 43 فیصد اور یمن 22 فیصد یوکرین سے حاصل کرتے ہیں۔ملائیشیا ، انڈونیشیا اور بنگلہ دیش میں استعمال ہونے والی گندم کا 28فیصد یوکرین سے آتا ہے۔ مصر نے گزشتہ برس 30 لاکھ ٹن گندم یوکرین سے خریدا۔ دوسرے ملکوں کی تو خیر ہے لیکن اگر جنگ کے نتیجے میں یوکرینی گندم کی رسد متاثر  ہوئی تو لبنان، شام اور یمن جیسے تباہ حال ملکوں کیلئے مہنگا غلہ خریدنا بہت مشکل ہوگا۔

بدقسمتی سے گندم اور ددسرے ضروری دانوں یعنی جو اور ryeکے کھیت روسی سے ملحقہ مشرقی یوکرین میں ہیں۔ ہم اوپر عرض کرچکے ہیں کہ مشرقی یوکرین کے دو زرخیز صوبوں پر پہلے ہی  روس نوازباغیوں کا قبضہ ہے۔ جنگ کی صورت میں مشرقی یوکرین میدان جنگ بنے گا اور اس خونریزی کا حتمی نتیجہ کچھ بھی ہو گولہ باری کا آغاز ہوتے ہی ہر خوشہ ِ گندم جل کر خاک ہوجائیگا۔اس لڑائی سے جہا ں دنیا بھر میں توانائی کا بحران پیدا ہوگا وہیں غذائی قلت کے مارے شامی، یمنی اور لبنانی نانِ شبینہ سے محروم ہوجائینگے۔

کشیدگی کی بنیادی وجہ تو نیٹو  رکنیت کیلئے یوکرین کی خواہش ہے لیکن تیاریوں اور پیش بندیوں سے صاف ظاہر ہے کہ امریکہ کی نظر یورپی گیس منڈی پر ہے اور روس کی یوکرینی گندم پر۔ یعنی نیٹو بہانہ اور گیس و دانہ اصل نشانہ ہے

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 25 فروری 2022

ہفت روزہ دعوت  دہلی 25 فروری


2022

 

 

 

Monday, February 21, 2022

پاناما کا ہنگامہ، صفحاتِ بہشت، پنڈورہ کا ڈھنڈورااور اب سوئز سیکریٹ بی بی FATFکیا کررہی ہیں؟؟؟

پاناما کا ہنگامہ، صفحاتِ بہشت، پنڈورہ کا ڈھنڈورااور اب سوئز سیکریٹ

بی بی FATFکیا کررہی ہیں؟؟؟

اپریل 2016 میں پانامہ لیکس، ایک سال بعد، Paradise Papers (ہم نے اسکا ترجمہ صفحاتِ بہشت کیاہے)اور اکتوبر 2021میں پنڈورا باکس کے بعد اب سوئز سیکریٹ اسکینڈل خبروں کی زینت ہے۔

خیال ہے کہ سوئٹزر لینڈ کے معرو ف بینک کریڈٹ سوئز Credit Suisse کےکسی ملازم نے جرمن اخبار Süddeutsche Zeitung کو دنیا کے نامی گرامی افراد کے رکھے ہوئے 'چوری کے مال' کی تفصیلات بتادیں اور یوں یہ open secretطشت از بام ہوگیا۔ پچھلے تین انکشافات کی طرح سوئز سیکڑیٹ میں بھی مسلم دنیا کے بڑے بڑے مردانِ آہن کا ذکر ہے۔ اس میں نام تو فلپائن کے آنجہانی مارکوس اور بہت سے  دوسرے جرائم پیشہ افراد کے بھی ہیں لیکن ہمارے 'مشاہیر' کی اکثریت ہے۔

مصر کے سابق صدر حسنی مبارک، انکے صاحبزدوں، سمدھیوں، قریبی رفیق ہشام طلعت مصطفےٰ کے علاوہ  خفیہ سروس کے وحشی صفت سابق سربراہ عمر سلیمان نے مصری عوام کے کروڑوں ڈالر چوری کرکے کریڈٹ سوئز کے بے نامی کھاتوں میں جمع کرائے۔ اردن کے شاہ عبداللہ انکی ملکہ رانیہ اور اردنی خفیہ ایجنسی کے اعلیٰ اہلکاروں کے کروڑوں ڈالر وہاں جمع ہیں۔ عُمان کے سابق سلطان قابوس، الجزائر کے سابق صدر عبدالعزیز بوتفلیکا کے ساتھ صدر ضیاالحق کے دست راست جنرل اختر عبدالرحمان اور راولپنڈی کے سابق کور کمانڈر و سابق سربراہ واپڈاجنرل زاہداکبر کے بے نامی اکاونٹ بھی اس بینک میں ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ فہرست میں چند پاکستانی سیاستدانوں کے نام بھی شامل ہیں لیکن تلاش کے باوجود ہمیں کوئی نام نہ مل سکا اسلئے اس معاملے پر خاموشی ہی دیانت داری کا تقاضہ ہے۔

فہرست میں 128 ممالک سے تعلق رکھنے والے 30 ہزار کھاتہ داروں کی تفصیلات فراہم کی گئی ہیں جنکے مجموعی نقد اثاثوں کا حجم  100 ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ بینک میں پاکستانیوں کے مختلف کھاتوں (اکاونٹ)میں مجموعی طور پر 80 لاکھ ڈالر سے زیادہ رقم جمع ہے۔ چوری کی دولت جمع کرانے کا سلسلہ 1947 سے جاری ہے۔قومی دولت کی لوٹ مار پر ماتم کا یہاں موقع نہیں کہ  زیادہ تر  ڈاکو ہم پر مغرب نے مسلط کررکھے ہیں جبکہ پاکستان میں ہم خود انھیں منتخب کرتے ہیں۔

ایک طرف FATFنے ٹیرر فناسنگ اور منی لانڈری کے نام پر پاکستان کا ناطقہ بند اور قافیہ تنگ کررکھا ہے جبکہ یورپ خود ڈاکووں اور چوروں کی جنت بناہوا ہے۔  کالے اور ناجائز دھن کو اجلا ومُصٖفّا کرنے کے اکثر کارخانے مہذب دنیا کی نوآبادیات ہیں جنھیں ٹیکس چوروں کی جنت یا Tax Heavenکہا جاتاہے۔ ان میں سے چند یہ ہیں:

پانامہ (Panama): وسطی و جنوبی امریکہ کے ساحل پر واقع پانامہ  اسپین کی کالونی ہواکرتاتھا جسے 1903 میں آزادی دیدی گئی۔

برمودا (Bermuda): شمالی بحر اوقیانوس میں 64ہزار نفوس پر مشتمل یہ ملک برطانیہ کی نیم خودمختار کالونی ہے۔

جرسی (Jersey): شمال مغربی فرانس کے ساحل پر واقع یہ ملک تاجِ برطانیہ کی ملکیت ہے

برٹش ورجن آئی لینڈ (BVI): جیسا کہ نام سے ظاہر ہے غرب الہند (Caribbean)میں واقع بی وی آئی بھی برطانیہ کی ایک کالونی ہے۔

لکژمبرگ :(Luxembourg) سوالاکھ نفوس پر مشتمل مغربی یورپ کا یہ ملک برسلز، فرینکفرٹ  اور اسٹراسبرگ کی طرح یورپی یونین کے چار دارالحکومتوں میں سے ایک ہے۔

باہاماس (Bahamas) : بحر اوقیانوس میں ویسٹ انڈیز کے قریب واقع اس مجمع الجزائر کی آبادی پونے چارلاکھ سے کچھ زائد ہے۔

سوئٹزرلینڈ دنیا بھر کے چوروں سب سے محفوظ پناہ گاہ کہ جہاں بے نامی اکاونٹ کھولنے کی اجازت ہے۔ یعنی صرف کھاتہ دار کو اس اکاونٹ اور اس میں جمع رقم کا علم ہے۔

دوسری طرف کراچی سے خیبر تک پاکستان کے ہر بینک میں شناختی کارڈ نمبر اور فنگر پرنٹس سمیت کھاتے دار کی تمام  تفصیل محفوظ ہے جسکی ایک نقل اسٹیٹ بینک کو باقاعدگی سے فراہم کی جاتی ہے۔ کھاتوں  میں جمع ایک ایک پائی کا حساب موجود ہے۔ اسکے باوجود بی بی FATFکاخیال ہے کہ پاکستان میں ٹیررفنانسنگ روکنے کا  نظام مشکوک ہے اور اس حوالے سے نظر ثانی کے ہراجلاس میں Do moreکے کچھ اضافی نکات تھماکر پاکستان کا نام  انتباہی فہرست (گرے لسٹ) میں مزید کچھ عرصےکیلئے ٹانک دیا جاتا ہے۔ پیرس میں گفتگو و سماعت کے دوران کارکردگی بہتر بنانے کا وعدہ کرتے ہوئے پاکستان کے بابو لوگ سوئٹزر لینڈ، برٹش ورجن آئی لینڈ، برمودا، لکژ مبرگ اور جرسی میں ہونے والی   چوری چماری کی منظم وارداتوں کا ذکر کیوں نہیں کرتے؟


 

یوکرین کے مشرقی صوبوں پر قبضے کو روسی پارلیمان نے تسلیم کرلیا ابھرتے نکھرتے پاک روس تعلقات کا مستقبل مشکوک ہوگیا

 

یوکرین کے مشرقی صوبوں پر  قبضے کو روسی پارلیمان نے تسلیم کرلیا

ابھرتے نکھرتے پاک روس تعلقات کا مستقبل مشکوک ہوگیا

روس نے آج یوکرین کے دومشرقی صوبوں میں روس نواز باغیوں کی حکومت کو آزاد ریاستوں کی حیثیت سے تسلیم کرلیا۔ جب 2014 نے روس نے جزیرہ  نمائے کریمیا پر قبضہ کرکے لاکھوں تاتار اور قازق مسلمانوں کو بے دخل کیا تھا اسی دوران موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئےمشرقی یوکرین کے دوصوبوں پر جزوی قبضہ جمالیاگیا۔ لوہنسک (Luhansk)اور دونیٹزک (Donetsk)صوبے یوکرین کے زرخیز ترین علاقوں میں شمار ہوتے ہیں۔  یہاں آباد تاتاروں کو مغربی جانب دھکیلنے کے بعد اسے روس نواز باغیوں کے حوالے کردیا گیا۔ جلد ہی جھرلو برانڈ یفرنڈم کے بعد یہ دونوں صوبے، ڈونیٹزک پیپلز ریپبلک  (روسی مخفف DNR)اور لوہنسک  پیپلز ریپبلک (روسی مخفف LNR ) کے نام سے خودمختار ممالک  بنا دئے گئے۔ کچھ عرصہ بعد ان دونوں 'ملکوں' نے خود کو Noverussiaیا نیو رشیا کے نام سے مسیحی فیڈریشن میں ضم کرلیا جسکا سرکاری مذہب Orthodox روسی مسیحیت قرارپایا۔ تاہم یہ وفاق 2015 سے معطل ہے۔

خود روس نے بھی ان ریاستوں کو تسلیم نہیں کیا تھا لیکن آج روسی پارلیمان (Duma)نے لوہنسک  پیپلز ریپبلک اور ڈونیٹزک پیپلز ریپبلک  کو نہ صرف آزاد و خودمختار ملک کی حیثیت سے تسلیم کرلیا بلکہ 'امن و امان' برقرار رکھنے کیلئے ان حکومتوں کی درخواست پر وہاں روسی فوج بھی بھیج دی گئی۔

یوکرین، LNR اور DNR  کے مقبوضہ حصوں کو  دہشت گردوں کے ہاتھوں یرغمال بنا گیا علاقہ کہتا ہے جسے واپس لینے کیلئے وقتاً فوقتاً فوجی کاروائی ہوتی رہتی ہے۔

روسی سرحد سے متصل ڈونیٹزک کے مشرقی حصے پر قبضے سے باغیوں کو بحرازاق (AZOV)تک رسائی مل گئی ہے۔ دنیاکے اس سب سے اُتھلے سمندر کی زیادہ سے زیادہ گہرائی 46 فٹ ہے جبکہ بعض مقامات پر یہ سمندر  3 فٹ سے بھی کم گہرا ہے۔ دلچسپ بات کہ اس سمندر کے نام پر بھی خونریزفسادات ہوچکے ہیں۔ روسی اسے AZOV کہتے ہیں جبکہ تاتاروں کیلئے یہ ازاق ہے جسکے ترک معنی ہیں 'نشیبی زمین'۔ سوویٹ یونین کے زمانے میں اس سمندر کو بحرِ ازاق کہنا جرم تھا۔ یہ سمندر  3 کلومیٹڑ چوڑی آبنائے کرش (Kerch)کے ذریعے بحرِ اسود سے ملا ہوا ہے۔ یہ تاتاروں کا علاقہ ہے۔ یہ وہی تاتار ہیں جنھوں نے پہلے بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجاکر اسلامی تہذیب کو تاراج کیا لیکن جب اللہ کی رحمت نے انکے دلوں کو  توحید کی روشنی دکھادی تو ان دلاوروں نے اپنے لہو سے عثمانی سلطنت کی بنیاد رکھدی۔

ہے عیاں یورش تاتار کے افسانے سے

پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے

کچھ عسکری ماہرین کا خیال ہے کہ یہ علاقہ روسیوں کیلئے ایک اور افغانستان بن سکتا ہے

اقوام متحدہ، امریکہ، یورپی یونین اور نیٹو نے روس کے فیصلے پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے  اسے یوکرین پر حملہ قرار دیا ہے۔ یوکرین کی درخواست پر فرانس نے 'روسی جارحیت' کا جائزہ لینے کیلئے سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا ہے۔ اسی کیساتھ یورپی یونین کے ممالک نے روس پر پابندیاں لگانے کی تیاری شروع کردی ہیں۔

اس تناظر میں وزیراعظم کا دورہ روس اہمیت اختیار کرگیا ہے۔ پاکستانی وزارت خارجہ  کے مطابق خانصاحب 23 فروری کو ماسکو پہنچیں گے۔ توقع ہے کہ اس دوران کئی معاہدوں کو آخری شکل دی جائیگی جس میں ایک گیس پائپ لائن بھی شامل ہے۔اگر روس پر پابندیاں لگادی گئیں تو پاکستان کو امریکہ و مغرب کی جانب سے شدید دباو کا سامنا کرنا پڑیگا۔ اسٹیٹ بینک کی آئی ایم ایف کی حوالگی کے بعد ان معاہدوں کیلئے رقوم کی فراہمی ناممکن حد تک مشکل ہوگی۔