Monday, February 21, 2022

پاناما کا ہنگامہ، صفحاتِ بہشت، پنڈورہ کا ڈھنڈورااور اب سوئز سیکریٹ بی بی FATFکیا کررہی ہیں؟؟؟

پاناما کا ہنگامہ، صفحاتِ بہشت، پنڈورہ کا ڈھنڈورااور اب سوئز سیکریٹ

بی بی FATFکیا کررہی ہیں؟؟؟

اپریل 2016 میں پانامہ لیکس، ایک سال بعد، Paradise Papers (ہم نے اسکا ترجمہ صفحاتِ بہشت کیاہے)اور اکتوبر 2021میں پنڈورا باکس کے بعد اب سوئز سیکریٹ اسکینڈل خبروں کی زینت ہے۔

خیال ہے کہ سوئٹزر لینڈ کے معرو ف بینک کریڈٹ سوئز Credit Suisse کےکسی ملازم نے جرمن اخبار Süddeutsche Zeitung کو دنیا کے نامی گرامی افراد کے رکھے ہوئے 'چوری کے مال' کی تفصیلات بتادیں اور یوں یہ open secretطشت از بام ہوگیا۔ پچھلے تین انکشافات کی طرح سوئز سیکڑیٹ میں بھی مسلم دنیا کے بڑے بڑے مردانِ آہن کا ذکر ہے۔ اس میں نام تو فلپائن کے آنجہانی مارکوس اور بہت سے  دوسرے جرائم پیشہ افراد کے بھی ہیں لیکن ہمارے 'مشاہیر' کی اکثریت ہے۔

مصر کے سابق صدر حسنی مبارک، انکے صاحبزدوں، سمدھیوں، قریبی رفیق ہشام طلعت مصطفےٰ کے علاوہ  خفیہ سروس کے وحشی صفت سابق سربراہ عمر سلیمان نے مصری عوام کے کروڑوں ڈالر چوری کرکے کریڈٹ سوئز کے بے نامی کھاتوں میں جمع کرائے۔ اردن کے شاہ عبداللہ انکی ملکہ رانیہ اور اردنی خفیہ ایجنسی کے اعلیٰ اہلکاروں کے کروڑوں ڈالر وہاں جمع ہیں۔ عُمان کے سابق سلطان قابوس، الجزائر کے سابق صدر عبدالعزیز بوتفلیکا کے ساتھ صدر ضیاالحق کے دست راست جنرل اختر عبدالرحمان اور راولپنڈی کے سابق کور کمانڈر و سابق سربراہ واپڈاجنرل زاہداکبر کے بے نامی اکاونٹ بھی اس بینک میں ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ فہرست میں چند پاکستانی سیاستدانوں کے نام بھی شامل ہیں لیکن تلاش کے باوجود ہمیں کوئی نام نہ مل سکا اسلئے اس معاملے پر خاموشی ہی دیانت داری کا تقاضہ ہے۔

فہرست میں 128 ممالک سے تعلق رکھنے والے 30 ہزار کھاتہ داروں کی تفصیلات فراہم کی گئی ہیں جنکے مجموعی نقد اثاثوں کا حجم  100 ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ بینک میں پاکستانیوں کے مختلف کھاتوں (اکاونٹ)میں مجموعی طور پر 80 لاکھ ڈالر سے زیادہ رقم جمع ہے۔ چوری کی دولت جمع کرانے کا سلسلہ 1947 سے جاری ہے۔قومی دولت کی لوٹ مار پر ماتم کا یہاں موقع نہیں کہ  زیادہ تر  ڈاکو ہم پر مغرب نے مسلط کررکھے ہیں جبکہ پاکستان میں ہم خود انھیں منتخب کرتے ہیں۔

ایک طرف FATFنے ٹیرر فناسنگ اور منی لانڈری کے نام پر پاکستان کا ناطقہ بند اور قافیہ تنگ کررکھا ہے جبکہ یورپ خود ڈاکووں اور چوروں کی جنت بناہوا ہے۔  کالے اور ناجائز دھن کو اجلا ومُصٖفّا کرنے کے اکثر کارخانے مہذب دنیا کی نوآبادیات ہیں جنھیں ٹیکس چوروں کی جنت یا Tax Heavenکہا جاتاہے۔ ان میں سے چند یہ ہیں:

پانامہ (Panama): وسطی و جنوبی امریکہ کے ساحل پر واقع پانامہ  اسپین کی کالونی ہواکرتاتھا جسے 1903 میں آزادی دیدی گئی۔

برمودا (Bermuda): شمالی بحر اوقیانوس میں 64ہزار نفوس پر مشتمل یہ ملک برطانیہ کی نیم خودمختار کالونی ہے۔

جرسی (Jersey): شمال مغربی فرانس کے ساحل پر واقع یہ ملک تاجِ برطانیہ کی ملکیت ہے

برٹش ورجن آئی لینڈ (BVI): جیسا کہ نام سے ظاہر ہے غرب الہند (Caribbean)میں واقع بی وی آئی بھی برطانیہ کی ایک کالونی ہے۔

لکژمبرگ :(Luxembourg) سوالاکھ نفوس پر مشتمل مغربی یورپ کا یہ ملک برسلز، فرینکفرٹ  اور اسٹراسبرگ کی طرح یورپی یونین کے چار دارالحکومتوں میں سے ایک ہے۔

باہاماس (Bahamas) : بحر اوقیانوس میں ویسٹ انڈیز کے قریب واقع اس مجمع الجزائر کی آبادی پونے چارلاکھ سے کچھ زائد ہے۔

سوئٹزرلینڈ دنیا بھر کے چوروں سب سے محفوظ پناہ گاہ کہ جہاں بے نامی اکاونٹ کھولنے کی اجازت ہے۔ یعنی صرف کھاتہ دار کو اس اکاونٹ اور اس میں جمع رقم کا علم ہے۔

دوسری طرف کراچی سے خیبر تک پاکستان کے ہر بینک میں شناختی کارڈ نمبر اور فنگر پرنٹس سمیت کھاتے دار کی تمام  تفصیل محفوظ ہے جسکی ایک نقل اسٹیٹ بینک کو باقاعدگی سے فراہم کی جاتی ہے۔ کھاتوں  میں جمع ایک ایک پائی کا حساب موجود ہے۔ اسکے باوجود بی بی FATFکاخیال ہے کہ پاکستان میں ٹیررفنانسنگ روکنے کا  نظام مشکوک ہے اور اس حوالے سے نظر ثانی کے ہراجلاس میں Do moreکے کچھ اضافی نکات تھماکر پاکستان کا نام  انتباہی فہرست (گرے لسٹ) میں مزید کچھ عرصےکیلئے ٹانک دیا جاتا ہے۔ پیرس میں گفتگو و سماعت کے دوران کارکردگی بہتر بنانے کا وعدہ کرتے ہوئے پاکستان کے بابو لوگ سوئٹزر لینڈ، برٹش ورجن آئی لینڈ، برمودا، لکژ مبرگ اور جرسی میں ہونے والی   چوری چماری کی منظم وارداتوں کا ذکر کیوں نہیں کرتے؟


 

No comments:

Post a Comment