فروری کا مہینہ امریکہ اور یورپ کے کئی ممالک میں Black History Monthکے طور پر منایا جاتا ہے۔ امریکی مسلمانوں کیلئے سیاہ فام امریکیوں کی تاریخ دراصل شمالی امریکہ کی اسلامی تاریخ ہے۔ نئی دنیا کی طرف پہلا مسلمان کب آیا، اس کے بارے میں یقین کے ساتھ کچھ کہنا مشکل ہے۔
مورخین کے مطابق امریکہ میں افریقیوں کی آمد کا آغاز1619 میں ہوا جب افریقہ کے ساحلوں سے لاکھوں کی تعداد میں افریقیوں کو پکڑ کر یہاں لایا گیا۔ کچھ مسلم محققین کا کہنا ہے کہ سیاہ فام غلاموں کی امریکہ آمد کا سلسلہ 1555میں شروع ہوا جب سیرالیون سے پکڑے ہوئے غلام امریکہ میں فروخت کئے گئے۔ اس صدی آغاز پر ممتاز امریکی مورخ ڈاکٹر کمبیز غنی بصیری (Kambiz Ghanea Bassiri)نے دعویٰ کیا کہ افریقی غلاموں کے علاوہ مسلم تاجر اور مبلغین بھی شمالی امریکہ آئے تھے۔ ڈاکٹر بصیری امریکی ریاست اوریگن کے رییڈ (Reed)کالج میں علم المذاہب کے استاد ہیں اور انھوں نے اس موضوع پر A History of Islam in Americaکے عنوان سے ایک کتاب بھی تصنیف کی ہے۔
ڈاکٹر صاحب کے مطابق انیسویں صدی کے اختتام پر مارکیٹ اینڈ فلٹن بینک نیویارک کے منیجر رابرٹ بیلز نے جب اپنے وراثتی تبرکات کا جائزہ لیا تو انھیں کانسی کا ایک منقش طشت، قرآن کریم کا نسخہ اور تام چینی کی ایک چائے دانی ملی۔ یہ انکے خاندان کے کسی بزرگ کا اثاثہ تھا جنکا نام مردم شماری کی دستاویزات میں انتھونی جینسن ون سیلے (Anthony Jansen Van Salle)درج تھا جبکہ عرفیت یا also known as (AKA)کے کالم میں van Vaesلکھا تھا۔ 'Salle' دراصل شمالی مراکش کے مشہور تہذیبی مرکز فاس (Fez)کا بربر تلفظ ہے۔ فتح ہسپانیہ کے وقت سے ترکوں کو مور (زندیق بدمذہب ) اور حقارت سے واعظ یا Vaes کہا جاتا تھا۔ اس دور میں صلیبیوں کیلئے ہر مسلمان 'ترک' تھا جیسے آج کے امریکی نسل پرستوں کے نزدیک ہر ہسپانوی میکسیکن Mexicanہے۔
رابرٹ بیلز کے وراثتی نودارات و اثاثاجات اور انکے بزرگ انتھونی کے نام اور عرفیت کی یہ تشریح کی گئی کہ مرحوم کا تعلق مراکش کے شہر فاس سے تھا۔ مسلمان ہونے بنا کی پر وہ 'ترک اور 'واعظ' انتھونی' کہلائے اور آبائی شہر کی مناسبت سے کنیت کے طور انکا نام انتھونی سیلے نقل کیا گیا۔ یہ صاحب ڈچ ویسٹ انڈیا کمپنی کے ساتھ 1630 میں نیویارک کے ساحل پر اترے۔ یہ قافلہ چونکہ ایمسٹرڈم سے آیا تھا اسلئے ابتدا میں اس قصبے کا نام نیوایمسٹرڈم رکھاگیا جو بعد میں نیویارک ہوگیا۔انتھونی صاحب کی چار صاحبزادیوں میں سب سے چھوٹی کا نام حوا تھا اور خیال ہے کہ حوا صاحبہ بینک منیجر رابرٹ بیلز کی جد امجد تھیں۔ مردم شماری کے پرانے رجسٹروں کے جائزے سے انتھونی صاحب کے بھائی ابراہیم کی نشاندہی بھی ہوتی اور ابراہیم کی کنیت بھی van salleیا 'ترک' بیان کی گئی ہے اور خیال ہے کہ وہ انتھونی سے پہلے نیویارک آئے تھے۔اس تحقیق کے ذکر کا مقصد یہ بتانا ہے کہ امریکہ میں مسلمانوں کا داخلہ صرف غلاموں کی شکل میں نہیں ہوا بلکہ تاجروں اور یورپی قبضہ گردوں کیساتھ شمالی امریکہ آنے والوں میں بھی مسلمان شامل تھے تاہم یہ تعداد بے حد کم ہے اور امریکہ کے ابتدائی مسلمانوں کی غالب اکثریت غلاموں پر مشتمل تھی۔
آگے بڑھنے سے پہلے یہ وضاحت ضروری ہے کہ جناب بصیری نے اپنی گرانقدر کتاب میں احمدیہ یا قادیانی تحریک کی تبلیغی مہمات کیساتھ عالیجاہ محمد کو نبی اور (سیاہ فام) مسیح موعود ماننے والے مورش سائنس مندر کا ذکر بھی امریکہ کی اسلامی تحریکوں کے طور پر کیا ہے چنانچہ کتاب سے استفادہ کرتے ہوئے احتیاط لازم ہے۔
افریقہ کے ساحلوں سے پکڑے ہوئے غلام 'گلوں' کی صورت میں پہلے ہالینڈ کی بندرگاہوں پر پہنچائے جاتے جہاں سے بحر اوقیانوس کے راستے انھیں امریکہ لایا جاتا تھا۔ اسی بنا پریہ گھناونا کاروبار Atlantic Slave Tradeکہلاتا تھا۔ افریقہ سے براہ راست امریکہ آنے والا غلاموں سے لدا پہلا جہاز 1619 میں ورجنیا میں لنگر انداز ہوا۔ اسکے بعد سے 'افریقیوں کا شکار' ایک قومی کھیل بن گیا۔ غلاموں کی تجارت اور ہلاکوو تیمور جیسے غارتگروں کے ہاتھوں مفتوحہ آبادیوں کو غلام بنانے کی مثالیں موجود ہیں مگر یہاں طریقہ وارادت بالکل ہی انوکھی تھی کہ جہاز ساحل پر لنگرانداز ہوتے اور نہتی بستیوں کو منہہ اندھیرے گھیرکر عورتوں بچوں سمیت سارےلوگ ہانک کر جہاز پر لاد دئے جاتے۔ دوران سفر مردوں اور عورتوں کو علیحدہ کرکے یہ قزاق کمسن بچیاں آپس میں تقسیم کرلیتے اور پھر انکے درمیان'کثرت اولاد' کا مقابلہ ہوتا تاکہ غلاموں کی نئی کھیپ حاصل کی جائے۔
1898 تک ایک کروڑ افریقی غلام بناکر امر یکہ لائے گئے۔ سفر کے دوران تشدد، بیماری اور دم گھٹنے سے 20لاکھ سے زیادہ غلام ہلاک ہوگئے جبکہ 'گڑبڑ' کرنے والے بہت سے سرکش غلاموں کو انکے پیروں میں وزن باندھ کر سمندر میں پھینک دیا گیا۔ زیادہ تر غلام بحر احمر اور افریقہ کے مغربی اور وسطی ساحلوں سے پکڑے گئے۔ ان غلاموں کی نصف تعداد نائیجیریا کے علاقے بیافرا، گبون اور سیرالیون کے باشندوں پر مشتمل تھی۔اسکے علاوہ سینیگال، لائیبیریا، کانگو اور گھانا کے لوگ بھی پکڑے گئے۔ بحراحمر سے آنے والے قزاقوں نے سوڈانیوں اور حبشیوں کا شکار کیا۔ عمدہ خدوخال کی بنا پر حبشی بچیاں ان اوباشوں کو بہت محبوب تھیں۔ پکڑے جانے والے افریقی غلاموں کی ایک تہائی تعداد مسلمانوں پر مشتمل تھی۔
ان غلاموں کی فروخت کیلئے ورجنیا، شمالی کیرولینا۔ جنوبی کیرولینا اور جارجیا میں غلاموں کی منڈیاں قائم کی گئیں۔ اسوقت امریکہ بحراوقیانوس کے ساحل پر واقع ان 13 کالونیوں پر مشتمل تھا جنھوں نےبرطانیہ سے آزادی کا اعلان کردیا تھا۔ 1776 میں انھیں 13 کالونیوں نے ریاستوں کی شکل اختیار کرکے ریاست ہائے متحدہ امریکہ یا USAکی شکل اختیار کرلی ۔امریکہ کے پرچم پر 13 سرخ و سفید پٹیاں انھیں ابتدائی ریاستوں کو ظاہر کرتی ہیں۔1625 میں ان کالونیوں کی مجموعی آبادی 1980 نفوس پر مشتمل تھی جبکہ 1660 تک غلاموں کی تعداد 2000 سے زیادہ ہوگئی یعنی عددی اعتبار سے غلام مالکوں سے زیادہ تھے جنھیں قابو میں رکھنے کیلئے بدترین ہتھکنڈے اور ظلم کے ضابطے وضع کئے گئے۔ سرکشی کی فوری سزا پھانسی تھی اور یہ سزا اس شدت و کثرت سے دی جاتی تھی کہ پھندے کی تیاری کیلئے رسی کی فروخت ایک نفع بخش کاروبار بن گیا۔ جلادی کا کام 'مجرم' کے خونی رشتے دار سے لیا جاتا تھا یعنی بھائی اپنے بھائی کو یا باپ اپنے بیٹے کو پھندہ لگاتا۔ اس دور میں get the ropeیعنی (پھانسی کیلئے) رسی لاو دھمکی کا استعارہ تھا جو اب بھی یہاں ضرب المثل ہے۔ پھانسی کے علاوہ بورے میں بند کرکے ڈنڈوں کی ضربات سے مارڈالنا، خنجر بھونک کر ہلاک کرنا، زندہ جلانا، غلامو ں کوتیزاب کے ڈرم میں ڈال دینا اور پیروں میں وزن باندھ کر دریابرد کردینا بھی اس دور کی عام سزا تھی۔ بس یوں سمجھئے کہ افریقہ سے پکڑکر امریکہ لائے جانیوالے غلاموں پر جو مظالم توڑے گئے اسکا ذکر کرتے ہوئے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔
پکڑے جانیوالے مسلمانوں نے امریکہ اترتے ہی دعوت و تبلیغ کا آغازکردیا۔ ان غلاموں کی اکثریت نسبتاً تعلیمیافتہ تھی چنانچہ 1898 میں 'کوکب امریکہ' کے نام سے ایک عربی اخبار کا اجرا ہوا۔ کوکب کو امریکہ کا ایک قدیم اخبار ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ یہاں کاقدیم ترین اخبار نیویارک ٹائمز ہے جسکی اشاعت کا آغاز 1851 میں ہوا۔کچھ عرصہ بعد پولینڈ، روس اور مشرقی یورپ سے تاتاروں کی آمد شروع ہوئی جنکے آنے سے سیاہ فام لوگوں کو تقویت ملی اور امریکن محمڈن سوسائیٹی کا قیام عمل میں آیاجو امریکی مسلمانوں کی پہلی انجمن تھی۔ امریکہ کی سیاہ فام آبادی نے بلاامتیاز مذہب نئے آنے والوں کا کھلی بانہوں سے استقبال کیا۔
تارکین وطن کی اکثریت انجنیروں اور کاریگروں پر مشتمل تھی چنانچہ مقامی مسلمانوں کے مشورے پر ان لوگوں کی بڑی تعداد نے مشیگن کے شہر ڈیٹرائٹ کا رخ کیا جہاں اسوقت کار کی صنعت اپنے عروج پر تھی۔ ڈیٹرائٹ کی آبادکاری میں مسلم تارکین وطن کا بہت بڑا حصہ ہے۔1934 میں ایک عرب نژاد سیاہ فام مسلمان والس فرد محمد نے Lost-Found Nation of Islamکی بنیاد رکھی جو بعد میں نیشن آف اسلام بن گئی۔ جنگ عظیم دوم کے آغاز پر لازمی لام بندی کا حکم جاری ہوا جسکی نیشن آف اسلام نے مخالفت کی۔ انکا موقف تھا کہ اسلام نسل، قومیت اور رنگ کی بنیاد پر جنگ کو فساد قراردیتا ہے لہٰذا مسلمان اس جنگ کا حصہ نہیں بن سکتے۔ اس فیصلے سے کشیدگی کا آغاز ہوا اور نیشن آف اسلام کے سربراہ عالیجاہ محمد ساتھیوں سمیت گرفتار کرلئے گئے۔جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیا عالیجاہ محمد اپنے پیرووں اور نیشن آف اسلام کے خیال میں سیاہ فام مسیح موعود تھے۔تاہم عالیجاہ محمد کے صاحبزادے امام وارث دین محمد (رح) نے توحید اور ختم نبوت کے بارے میں خیالات کو درست کرلیا۔
اسلامی تحریک کے عظیم رہنما مالکم ایکس (الحاج ملک الشہباز) کی قیادت میں 1950کی شہری آزادیوں کی ملک گیر تحریک امریکی تاریخ کا ایک انقلابی موڑ ثابت ہوئی۔ مالکم ایکس نے ظلم و زیادتی کے خاتمے اور انصاف و برابری کی جدوجہد کو فریضہ اقامت دین کاجزو قراردیتے ہوئے مسیحیوں کی طرف دستِ تعاون بڑھایا۔ساوتھ کرسچین لیڈر شپ کانفرنس SCLCنے مسلمانوں کی دعوت پر لبیک کہا اور امریکہ کے جمہویت پسندوں کو ایک دبنگ پلیٹ فارم میسر آگیا۔
مالکم ایکس اور ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ شہری آزادیوں، برابری کے حقوق، انصاف اور آزادی کی علامت بن گئے اور جلد ہی سیاہ فام، خواتین اور دوسری لسانی و ثقافتی اقلیتوں کو ووٹ کا حق مل گیا۔ اسکولوں، کالجوں، پارکوں اور تفریح گاہوں کی سیاہ و سفید بنیادوں پر تقسیم ختم ہوگئی اور امریکہ حقیقی معنوں میں ONE NATION UNDER GODقرار پایا۔ سیاہ فام امریکیوں کی جدوجہد سے 1965 میں امیگریشن اور قومیت ایکٹ یا Immigration and Nationality Actمنظور ہوا جس کے تحت یوروپی ممالک کے ساتھ ساری دنیا کے لوگوں کیلئے امریکہ کے دروازے کھولدئے گئے۔اس سے پہلے امیگریشن (گرین کارڈ) کیلئے یورپی باشندوں کو ترجیح دی جاتی تھی۔
سیاہ فام تاریخ امریکہ کا فخروافتخار ہے یہ دراصل امریکہ کی اسلامی تاریخ ہے کہ جسکا ہر پہلو باوقار اور بے مثال جدوجہد کا مظہر ہے۔جہموریت، غلامی کے خاتمے، آزادی، یکساں حقوق، اور سماجی انصاف کیلئے افریقی نژاد امریکیوں کی قربانیاں ناقابل فراموش ہیں۔مالکم ایکس، ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ، محمد علی کلے وغیرہ اس قافلہ سخت جان کے وہ پھول ہیں جنکی یاد سےشاہراہ آزادی اب تک معطر ہے۔امریکہ کے انصاف پسند سفید فام بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ امریکہ کی ثروت و طاقت، جاہ و جلال اور ترقی و خوشحالی سب کی سب غلاموں، افریقی نژاد امریکیوں اور تارکینِ وطن کی محنت کا نتیجہ ہے۔
امریکہ میں سیاہ فام لوگوں کے ساتھ جو سلوک ہوا اسکا سب سے دردناک پہلو یہ ہے کہ ان مظالم کو تاریخ کے صفحات پر جگہ نہیں دی گئی اور امریکی بچوں کے نصاب میں اسکا کوئی ذکر نہیں۔
ڈیموکریٹک پارٹی کے رکن کانگریس (پارلیمان) جان کانیرز John Conyersنے 1989 میں افریقی امریکیوں کیلئے تلافی کمیشن ایکٹ یا Commission to Study Reparation Proposals for African-Americans Actکے عنوان سے ایک مسودہ قانون ایوان زیریں سے پیش کیا تھا۔ بل کے ابتدائئے میں اسکا مقصد بیان کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ 1619 سے 1865 کے دوران 13 امریکی ریاستوں (ابتدائی اکائیاں جنھوں نے USAی بنیاد رکھی) میں سیاہ فام لوگوں کو غلام بناکر رکھا گیا، ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے اور یہ پوری نسل بدترین ناانصافی کاشکار ہوئی۔ ان جرائم کی تحقیق کیلئے ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیشن ترتیب دینے کی ضرورت ہے جو غلام بناکر امریکہ لائے جانیوالے افریقیوں کے نقصانات کا اندازہ لگائے۔ یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ آزاد انسانوں کی نفسیات پر غلامی کی ذلت نے کیا منفی اثر ڈالا ہے؟ غلامی ختم ہونے کے بعد بھی سیاہ فام بدترین نسلی تعصب اور حقارت کا نشانہ بنائے گئے جسکے اثرات اج تک نمایاں ہیں۔ یہ کمیشن ناانصافیوں اور سیاہ فام لوگوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے غیر انسانی سلوک کا غیرجانبدارانہ جائزہ لے اور اسکی تلاقی کیئے اقدامات تجویز کرے۔ بل میں کہا گیا ہے کہ افریقیوں کا غلام بنانے کے ذمہ دار صرف وہ قزاق نہیں جنھوں نے افریقیوں کو انکے گھروں سے پکڑا بلکہ ملک میں قائم غلام منڈیوں کو امریکی حکومت کا تحٖفظ حاصل تھا اور غلاموں کی خرید و فروخت کے بعد انکا انتقالِ ملکیت سرکاری دستاویز پر ہوتا تھا چنانچہ اس بدترین ظلم کی ذمہ داری براہ راست امریکی کانگریس اور حکومت پر عائد ہوتی ہے۔
مسٹر کونئرز کی قرارداد کو سپیکر جم رائٹ نے منظور کرکے بل کی شکل میں HR-40کی حیثیت سے درج کرلیا۔ اسوقت سے یہ بل مجلس قائمہ برائے انصاف کی سماجی انصاف ذیلی کمیٹی کے پاس ہے لیکن اسے سماعت کیلئے پیش نہیں کیا گیا بحث اور رائے شماری تو دور کی بات ہے۔ہر دوسال بعدبار یہ قراداد کانگریس کی مدت ختم ہوجانے پر غیر موثر ہوجاتی ہےْ تاہم جناب کانئیرز بھی بہت مستقل مزاجی کے ساتھ اسے ہر نئی کانگریس میں اسے پیش کرتے رہے۔ جنسی اسکینڈل میں ملوث ہوجانے کی بناپر موصوف دسمبر 2017میں ایوان سے مستعفی ہوگئے۔ کانگریس سے سبکدوشی کے بعد بھی وہ اس بل کیلئے تحریک چلاتے رہے حتیٰ کہ 27 دسمبر 2019 کو جناب کونئیر 90 برس کی عمر میں انتقال کرگئے، یعنی بِل کا مجوز اسے ایوان میں پیش کرنے کی فریاد کرتےکرتے مستعفی ہوا اور دنیا سے چلا گیا لیکن 30 سال گزرنے کے بعد بھی HR-40کوایوان میں پیش کرنے کی نوبت نہ آئی۔
میں نے یہ کب کہا ہے مرے حق میں ہو جواب ۔ لیکن خموش کیوں ہے کوئی فیصلہ تو دے
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل 4 فروری 2022
ہفت روزہ دعوت دہلی 4 فروری 2022
روزنامہ امت کراچی 4 فروری 2022
روزنامہ قومی صحافت لکھنو
ہفت روزہ رہبر سرینگر 6 فروری
2022
No comments:
Post a Comment