Thursday, February 17, 2022

کینیڈا کا ٹرک دھرنا۔ پہلے سے شکستہ زنجیرِ فراہمی مزید خستہ ہوگئی

 

کینیڈا کا ٹرک دھرنا۔  پہلے سے شکستہ زنجیرِ فراہمی مزید خستہ ہوگئی

تحفظ و انسدادِ کرونا کی پابندیوں  کے خلاف کینیڈا میں اکیس (21)دن سے جاری ٹرک دھرنے کو منتشر کرنے کیلئے پولیس نے طاقت کا استعمال شروع کردیا ہے۔ جمعرات ، 10 فروری کو  کینیڈین ریاست اونٹاریو کی عدالت عظمیٰ نے دھرنا  غیر قانونی قراردیتے ہوئے جمعہ کی شام سات بجے تک اونٹاریو کے شہر ونڈسر اور امریکی ریاست مشیگن کو ملانے والا Ambassador Bridge خالی کرانے کا حکم دیا تھا۔ جسکے بعد گورنر ڈگلس فورڈ نے ہنگامی حالت  نافذ کرکے  پولیس کو دھرنا ختم کرنے کیلئے طاقت کے استعمال کی اجازت دیدی۔وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے بھی ٹرک ڈرائیوروں سے  گھر جانے یا اپنی راہ لینےکی درخواست کی ہے۔

عینی شاہدین کے مطابق عدالتی احکامات کے احترام میں درجنوں  ٹرک راستے سے ہٹالئے گئے ہیں اور وہاں موجود ڈرائیوروں نے  پولیس کو پرامن رہنے کی یقین دہانی کرائی ہے لیکن پولیس کمشنر کا کہنا ہے کہ پرامن رہنا  کافی نہیں  بلکہ شاہراہ کو ہر قسم  کے ٹریفک کیلئے کھلا رکھنا ضرور ی ہے۔ ایک دن پہلے پولیس نے متنبہ کیا تھا کہ ہفتے کے دن  11 بجے کے بعد وہاں کھڑے ٹرکوں میں موجود ڈرائیوروں کی گرفتاری شروع ہوجائیگی۔ٹرکوں کے ساتھ انکی حمائت میں شاہراہ پر دھرنا دئے عام لوگوں کو بھی وہاں سے چلے جانے کی ہدائت کی گئی ہے۔

دھرنے پر مُصِر ٹرک ڈرائیوروں اور مظاہرین کا کہنا ہے کہ  کرونا کی ناروا پابندیوں نے انکے گھروں کے چولہے ٹھنڈے کردئے اور لاکھوں افراد نان ِ شبینہ کو محتاج ہو گئے ہیں۔مظاہرین کا کہنا تھا کہ قومی خزانے سے ملنے والی  تنخواہوں اور مراعات پر عیش کرنے والے پالیسی سازوں کو کیا پتہ کہ اگر پابندیوں اور لاک ڈاون کی وجہ سے دہاڑی دار ایک  دن   مزدوری پر نہ جاسکے تو اسکے زیرکفالت افراد کو کس عذاب کا سامنا کرناپڑتاہے۔ پولیس کی متعدد تنبیہ کے باجود سینکڑوں ٹرک اور ہزاروں مظاہرین  پُل پر موجود ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ تمام لوگ غیر مسلح اور پُرامن ہیں اور ہم کسی صورت  نہ تو قانون اپنے ہاتھ میں  لیں گے اور نہ کسی قسم کا تشدد کرینگے۔ کینیڈا کا دستور اپنے شہریوں پر امن احتجاج و مظاہرے کی ضمانت دیتا ہے اور ہم اپنے اسی حق کے استعمال کیلئے یہاں جمع ہیں۔پولیس افسران  بہلا پھسلاکر ڈرائیوروں کو ٹرک راستے سے ہٹانے پر امادہ کرتے نظر آرہے تھے۔

بات چیت کیساتھ پکڑ دھکڑ اور آنسو گیس کا سلسلہ بھی جاری کہ بقول پولیس  'مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر'۔ اکثر جگہ جزوی ٹریفک تو بحال ہوگیا ہے لیکن تادم تحریر  مجمع منتشر نہیں ہوا۔ دارالحکومت اٹاوا میں اب بھی ہزاروں نعرہ زن  افرد چوکوں اور چوراہوں پر بیٹھے ہیں۔ مظاہرے کی سیاسی و نظریاتی ہئیت خاصہ متنوع ہے۔ ان کی اکثریت تو لازمی جدرین کاری کے مخالفین پر مشتمل ہے لیکن ہجوم میں دائیں بازو کے قدامت پسند بھی ہیں جنھیں  وزیراعظم ٹروڈو کی لبرل معاشی پالیسی پسند نہیں۔ مہنگائی اور غربت کے ستائے لوگ بھی ہیں۔ ویکسین پاسپورٹ کے ساتھ، ہائے مہنگائی اور ٹروڈو مردہ باد کے نعرے بھی زور شور سےلگائے جارہے ہیں۔ 

کینیڈین حکا م کا کہنا ہے کہ کرونا کی پابندیاں 15 فروری سے بتدریج ختم کی جارہی ہیں  اسلئے دھرناجاری رکھنے کا کوئی جواز نہیں اور لاک ڈاون  کے دوران ٹرک ڈرائیوروں کو جو نقصان پہنچا ہے اسکی تلافی کیلئے حکومت  بات کرنے کو تیار ہے۔

تنازعے کا آغاز اسوقت ہوا جب نومبر میں کرونا کی نئی قسم اومکرون Omicronنے کینیڈاکے بڑے حصے کو لپیٹ میں لے لیا۔ اس دوران یہ بات سامنے آئی کہ اومکرون سے متاثر ہونے والوں کی اکثریت ان افراد پر مشتمل ہے جنھوں نے حفاظتی ٹیکے نہیں لگوائے۔ چنانچہ یورپی ممالک کی طرح کینیڈا میں بھی لازمی جدرین کاری Vaccine Mandateکا سلسلہ شروع ہوا۔ فضائی راستوں سے کینیڈا آنے والے غیر ملکیوں اور مقامی شہریوں کیلئے جانچ پڑتال اور شک کی صورت میں قرنطین کا انتظام موجودتھا لیکن زمینی راستے سے  واپس آنے والے کینیڈا کے شہریوں کیلئے کوئی روک ٹوک نہ تھی۔چنانچہ ملک واپس آنے والے کینڈین شہریوں کیلئے ویکسین پاسپورٹ لازمی قراردیدیا گیا جس پر جدرین کاری کی تفصیل موجود ہے۔ ویکسین پاسپورٹ پیش نہ کرنے والے افراد کیلئے امیگریشن کے بعد گھر جانے سے پہلے  دوہفتے قرنطین ضروری ہے۔

 ٹرک ڈرائیوروں کیلئے یہ پابندی بے حد تکلیف دہ ہے۔ اسوقت تک 60 فیصد ٹرک ڈرائیوروں کی جدرین کاری ہوچکی ہے جنکی اکثریت کے پاس ویکسین پاسپورٹ موجود ہے۔ کچھ ڈرائیوروں کو ویکسین پر اعتماد نہیں اور وہ اس انجیکشن کو مضر صحت سمجھتے ہیں جبکہ باقی افراد مذہبی اور دوسرے تحفظات کے پیش نظر جدرین کاری سے اجتناب کررہے ہیں۔ ان لوگوں کو کینیڈا واپسی پر مہنگے ہوٹلوں میں قرنطین کی آزمائش سے گزرنا پڑتا ہے۔ جن لوگوں کی جدرین کاری ہوچکی ہیں ان میں سے بھی بہت لوگوں نے ویکسین پاسپورٹ نہیں بنوایا۔ ایسے افراد کو سرحد پر جانچ پڑتال کے مشکل  مرحلے سے گزرنا ہوتا ہے۔ ٹرک ڈرائیور طویل سفر کے بعد ملک پہنچتے ہیں۔ سفر کی تکان اور اہل خانہ سے علیحدگی کا عذاب سہنے والے یہ محنت کش ملک میں داخل ہوتے ہی فوری طور پر گھر پہنچنا چاہتے ہیں چنانچہ جانچ پڑتال کی کاروائی انھیں بہت گراں گزرتی ہے۔ چڑچڑے ڈرائیوروں اورامیگریشن حکام کے درمیان ناشائستہ جملوں کا تبادلہ عام ہے۔

اس سال کے آغاز پر ٹرک ڈرائیوروں نے کرونا پابندیاں خاص طور سے لازمی جدرین کاری اور ویکسین پاسپورٹ ختم کرنے کیلئے تحریک چلانے کا منصوبہ بنایا۔ اس مشن میں انھیں امریکی ٹرک ڈٖرائیوروں کی بھی اخلاقی حمائت حاصل تھی۔ احتجاجی تحریک کیلئے کاروانِ آزادی یا Freedom Convoy 2022نکالنے کا اعلان کیا گیا۔اخراجات کیلئے اعانت جمع کرنے کی مشہور ویب سائٹ GoFundMeپر اپیل شایع کی گئی۔ کارواں کے مقاصد کی وضاحت کرتےہوئے تحریک کے ترجمان بین ڈکٹر (Ben Dichter) نے کہا کہ ہمارا نصب العین لازمی جدرین کاری اور ویکسین پاسپورٹ کا خاتمہ ہے۔ جناب ڈکٹر کے خیال میں ویکسین پاسپورٹ نے ڈرائیوروں کی  زندگی جہنم بنادی ہے اور اسکے خاتمے پر کوئی سودے بازی نہیں ہوگی۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ ویکسین پر ٹرک ڈرائیوروں کو کوئی اعتراض نہیں لیکن ریاست اسے لازم نہیں کرسکتی۔ کینیڈا آزاد انسانوں کا ملک ہے اور حکومت کو ہماری رضامندی کے خلاف کوئی ضابطہ مسلط کرنے کا حق نہیں۔

ڈرائیوروں کے اس اعلان پر جہاں امریکہ اور کینیڈا کی حکومتوں کے ماتھے پر بل آئے وہیں آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، فرانس اور برطانیہ سمیت کئی دوسری ملکوں کی ٹرک ڈرائیور انجمنوں نے اس فیصلے کا زبردست خیر مقدم کیا۔  

 تحریک کا آغاز برٹش کولمبیا صوبے سے ہوا اور 22 جنوری کو صبح سویرےساحلی شہر پرنس روپرٹ سے روانہ ہونے والا قافلہ شمالی برٹش کولمبیا کے سب سے بڑے شہر پرنس جارج پہنچ گیا۔ دوسرے دن ایک اور قافلہ وینکور Vancouver کے مضافاتی شہر ڈیلٹاسے روانہ ہوا اور ان دونوں قافلوں نے شہر سے نکلنے والی مرکزی شاہراہ بند کردی۔

یہ دونوں کارواں منتظمین کی توقع سے بڑے تھے جس سے حوصلہ پاکر ہر صوبے سے قافلے نکالنے کااعلان کیا گیا۔ چوبیس (24) جنوری کو امریکی سرحد کے قریب کنیڈین شہر ریجینا(Regina)سے 1200 گاڑیوں کے قافلے نے مرکز شہر پہنچ کر ٹریفک کے نظام کو مفلوج کردیا۔

اسکے دوسرے دن یعنی 25 جنوری کو تمام قافلے دارالحکومت اٹاوا (Ottawa) پہنچے ، جہاں سینکڑوں گاڑیوں کے ساتھ 2000 سے زیادہ پیدل مظاہرین بھی تھے۔ اسکے بعد ہر روز کئی سو اضافی گاڑیاں اٹاوا آنے لگیں۔ ٹرک ڈرائیوروں سے یکجہتی کیلئے نجی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں پر دارالحکومت آنے والے افراد نے عملاً شہر پر قبضہ کرلیا اور ایمبیولینس کے علاوہ کسی گاڑی کو گزرنے کی اجازت نہیں تھی۔ قرب وجوار کے دیہاتوں سے نعرہ زن کسان اپنے ٹریکٹر بھی وہاں لے آئے

دوسرے مرحلے میں امریکی سرحد کو مسددود کرنے کا سلسلہ شروع ہوا، 29 جنوری کو کینیڈا کے صوبے البرٹا (Alberta)اور امریکی ریاست مونٹانا (Montana)کی سرحد بند کردی گئی۔ البرٹا مویشی بانی کا بڑا مرکز ہے اور یہاں سے سینکڑوں ٹن گوشت امریکہ بھیجا جاتا ہے۔ سرحد بند ہونے سے جہاں امریکہ میں سور کے گوشت کی قلت پیدا ہوگئی تو دوسری طرف کینیڈا کے قصاب اور گوشت کے آڑھتی پریشان ہوگئے۔ منت سماجت کے بعد دھرنا دینےوالوں نے گوشت سے لدے 50 ٹرکوں کو امریکہ جانے کی اجازت دیدی۔

چچاسام کی حقیقی پریشانی 7 فروری سے شروع ہوئی جب مظاہرین نے  ایمبیسیڈر پُل کو ہر قسم کے ٹریفک کیلئے بند کردیا۔ دریائے ڈیٹرائٹ پر تعمیر کئے جانیوالا یہ سوا دوکلومیٹر طویل پُل، گاڑی سازی  کی امریکی صنعت کیلئے شہہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے۔ کینیڈا اور امریکہ کے مابین تجارتی حجم 511 ارب ڈالر ہے، جس میں دوتہائی یعنی 337 ارب ڈالر مالیت کا سامانِ تجارت بری راستے سے بھیجا جاتا ہے (حوالہ الجزیرہ)

امریکہ اور کینیڈا کے درمیان تجارتی مال و اسباب کی ایک چوتھائی نقل و حمل اسی پل کے ذریعے ہوتی ہے اور ایک اندازے کے مطابق ڈیڑھ لاکھ امریکیوں کا روزگار ایمبیسیڈر پل سے ہونے والی آمدورفت سے وابستہ ہے۔ ڈیٹرائٹ ایک زمانے تک دنیا کا موٹر وہیکل کیپیٹل کہلاتا تھا۔ اب  ڈیٹرائٹ گاڑی سازی کاعالمی مرکز تو نہیں رہا لیکن  یہ شہر امریکہ میں  اِس صنعت کی شناخت ہے۔

امریکی اور کینیڈین گاڑی کی صنعتوں کا انحصار ایک دوسرے پر ہے،  یعنی انجن کہیں بنتا ہے تو بریک دوسرے ملک سے آتے ہیں۔ گاڑیوں کے دروازے امریکی ساختہ ہیں تو اسکے ہینڈل کینیڈا میں بنتے ہیں۔ ایمبیسڈر پُل کے بند ہونے سے گاڑیاں بنانے کے دونوں بڑے کارخانے فورڈ اور جنرل مورٹرز کے ساتھ جاپانی کارساز ادارے ٹویوٹا کے ڈیٹرائٹ پلانٹ پرپیداوارمعطل ہوگئی جسکی وجہ سے نئی گاڑیوں کی قلت کیساتھ پرانی گاڑیوں کی مرمت کا کام مشکل اور مہنگا ہوگیا ہے کہ ضروری پرزہ جات کینیڈا سے آتے ہیں۔

اسی کیساتھ اشیائے خوردونوش خاص طور سے گوشت اور گوشت سے بنی مصنوعات کی دستیابی مشکل ہوگئی ہے جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دکاندار من مانے نرخ وصول کررہے ہیں۔ کرونا کی پابندیوں کی وجہ سے امریکی بندرگاہوں پر کام بہت سست ہے۔جہازوں سے مال اتارنے اور چڑھانے میں تاخیر اور پھر بندرگاہ سے سامان شہر لانے کیلئے ٹرک ڈرائیور بھی ضرورت کے مطابق دستیاب نہیں جسکی وجہ سے جہاں بازاروں میں مال کی قلت ہے تو وہیں دوسرے ممالک سے امریکہ آنے والے جہاز کئی کئی دن گہرے پانیوں میں چکر لگاتے ہوئے ایندھن پھونک رہے ہیں کہ بندرگاہ کے قریب ایک بھی لنگر خالی نہیں جہاں وہ پڑاو ڈال سکیں۔کھلونوں، الیکڑانکس، فیشن ایبل ملبوسات، بھاری مشنریوں اور دوسرے مصنوعات سے لدے جہازان بندرگاہوں پر پھنسے ہوئے  ہیں۔ دنیا بھر میں خام تیل اور اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں جو غیر معمولی اضافہ نظر آرہا ہے اسکی بڑی وجہ امریکہ، چین، اور یورپین بندگاہوں پر بحری ٹریفک جام ہے۔ جسے کاروباری اصطلاح میں شکستگیِ زنجیرِ فراہمی (Supply Chain) کہا جارہا ہے۔

بحری ٹریفک جام کے نتیجے میں نازل ہونے والا قلت و مہنگائی کا عذاب کیا کم تھا کہ ٹرکوں کے دھرنے نے زنجیرِ فراہمی کے ایک اور حلقے کو مفلوج کردیا ہے۔

فی الحال تو یہ بحران صرف امریکی کی شمالی سرحدوں تک محدود ہے لیکن خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا نظرآرہا ہے۔امریکی وزارتِ داخلی سلامتی (DHS) کا کہنا ہے کہ کیلی فورنیا کے ٹرک ڈرائیور بھی اجرتوں میں اضافے اور بہتر سہولیات کیلئے ٹرک کارواں نکالنے کا منصوبہ بنارہے ہیں۔ ہفتے کو جب کینیڈین حکام اپنے ٹرک ڈرائیوروں کو  دھرنا ختم کردینے پر آمادہ کررہے تھے تو عین اسی وقت ٹرکوں کا ایک قافلہ فرانس کے دارالحکومت پیرس کی طرف جاتا نظر آیا۔ آنسو گیس، گرفتاریوں اور پولیس رکاوٹوں کے زریعے ٹرکوں کا یہ جلوس منتشر کردیا گیا لیکن جاتے جاتے ڈرائیور کہہ گئے ہیں کہ 'ہم دوبارہ آئینگے' ۔اشیائے ضرورت کی قلت اور مہنگائی سے دنیا بھر کے محنت کش مضطرب  ہیں۔لاک ڈاون اورانسداد کرونا کی دوسری پابندیاں غریبوں کے اسباب حیات کو چاٹ چکی ہیں۔ حکومتیں ان لوگوں کی دادرسی کے بجائے اپنے دکھڑا رورہی ہیں۔ ماہرین خدشہ ظاہر کررہے ہیں کہ ٹرک دھرنا اور سرحدوں کی بندش آنے والے دنوں میں احتجاج کا نیا عنوان بن سکتا ہے

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 18 فروری 2022

ہفت روزہ دعوت دہلی 18 فروری 2022

روزنامہ امت کراچی 18 فروری 2022

ہفت روزہ رہبر سرینگر 20فروری 2022

روزنامہ قومی صحافت لکھنو


 

No comments:

Post a Comment