Monday, September 30, 2019

افغان انتخابات ۔ مایوس کن صورتحال


افغان انتخابات ۔ مایوس کن صورتحال      
افغانستان  میں صدارتی انتخابات مکمل ہوگئے اورووٹوں کی گنتی جاری ہے۔ اس پورے مرحلے کی سب سے مثبت بات یہ ہے  کہ طالبان نے تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے  پولنگ کے روز بڑے پیمانے پر حملوں سے گریز کیا۔ بعض علاقوں سے تشدد کی خبریں  آئیں لیکن  زیادہ تر واقعات طالبان اور افغان و نیٹو فوج کے درمیان تصادم کا نتیجہ تھے۔
طالبان کا کہنا ہے کہ جب  عوام خود ہی انتخابی عمل سے دور رہے تو انھیں خالی پولنگ اسٹیشنوں پر مکھی مارتے انتخابی عملے کو نشانہ بنانے کی کیا   ضرورت  تھی۔ افغان انتخاب کے   چند اہم نکات:
·        الیکشن کمیشن کے مطابق  افغانستان میں اہل ووٹروں کی کل تعداد ایک کروڑ 60 لاکھ ہے
·        ان 16 ملین  لوگوں میں سے  96 لاکھ خواتین و حضرات نے  ووٹ کیلئے خود رجسٹر کرایا
·        28 ستمبر کو 18 صوبوں کے 445 پولنگ اسٹیشنوں پر پولنگ کے عملے نے  خوف  کی بنا پر ذمہ داری اداکرنے سے انکار کردیا
·        ابتدائی نتائج کے مطابق  20 لاکھ ووٹ ڈالے گئے
·        غیر جانبدار مبصرین کا خیال ہے کہ اس میں سے نصف  کے قریب  ووٹ ٹھپے بازی کا نتیجہ ہیں۔ خاص طور سے شمال کے فارسی بان علاقوں میں ووٹ  ڈالنے کا تناسب زیادہ رہا جو دراصل  جنرل رشید دوستم کی بندوق کا نتیجہ ہے
ابتدائی گنتی میں ڈاکٹر عبداللہ  عبداللہ  کو برتری  حاصل ہے جسکی بنیاد پر ڈاکٹر صاحب نے  کامیابی کا دعویٰ بھی کردیا ہے۔ اب تک ڈاکٹر اشرف غنی کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا لیکن خیال  ہے کہ  شمالی علاقوں میں ٹھپے بازی  پر انھیں شدید تشویش ہے اور وہ ان نتائج کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کرینگے۔ ایک اور اہم امیدوار حزب اسلامی کے سربراہ  گلبدین حکمتیار  بھی انتخابات  کی شفافیت کے حوالے سے اپنے تحفظات   کااظہار کرچکے ہیں۔
ابھی یہ کہنا قبل ازوقت ہے کہ انتخابات کے سرکاری نتائج کے اعلان پرناکام رہنے والے امیدواروں کا ردعمل کیاہوگا لیکن خیال یہی ہے کہ  ہارنے والے امیدوار دھاندھلی کے خلاف محض الیکشن کمیشن کا دروازہ کھٹکھٹانے پر اکتفا نہیں کرینگے بلکہ 2014 کی تاریخ بھی دہرائی جاسکتی ہے جب پشتو ں و فارسی بان تصادم تک کی نوبت آچکی تھی ۔  اگراسوقت  امریکی وزیرخارجہ جان کیری دباو ڈال کر دونوں ڈاکٹر صاحبان کو شرکت اقتدار کے فارمولے پر راضی نہ کرتے تو خونریز تصادم ہوسکتا تھا۔
انتخابات میں عوام کی عدم شرکت کی ایک سے زیادہ  تشریح کی جاسکتی ہے۔طالبان کے ہمدرد ملاوں سے یکجہتی میں ووٹنگ سے دور رہے۔ پولنگ اسٹیشنوں پر حملے کے خوف  نے بھی بہت سے لوگوں کو پولنگ اسٹیشنوں تک آنے سے باز رکھا   جبکہ جمہوری نظام سے عوام کی مایوسی بھی عدم شرکت کی ایک وجہ ہے۔
وجوہات کچھ بھی ہوں عوام کی عدم شرکت سے منتخب ہونے والے صدر کا مینڈیٹ اسکے حلف اٹھانے سے پہلے ہی مشکوک ہوچکا ہے۔

Sunday, September 29, 2019

روش ہشنا (نیا عبرانی سال)


روش ہشنا (نیا عبرانی سال)
گزشتہ برس کی طرح اس بار بھی یروشلم میں دیوار گریہ کے نزدیک آجکل خاصی کشیدگی ہے تاہم اسکا مسلمانوں یا عربوں سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ یہودیوں کی موم بتی مافیا اور انکے 'مولویوں' کے درمیان تنازعہ ہے۔ اس دیوار کو یورپ کے یہودی Kotel، عبرانی میٰں ہکوتل ہمعرروی اور عربی میں المبکیٰ یا کوچہِ آہ و زاری کہتے ہیں۔ مسلمان اسے حائط البراق بھی کہتے ہیں کہ روائت کے مطابق نبی مہربان اسی مقام سے براق پر آسمانوں کی سیر کو گئے تھے۔
مساجد کی طرح دیوار گریہ پر بھی خواتین اور مردوں کیلئے الگ الگ جگہ مختص ہے اور خواتین کی جگہ خاصی تنگ ہے جس پر خواتین ایک عرصے سے احتجاج کر رہی ہیں لیکن چیف ربائی اس طرف توجہ نہیں دے رہے۔ گزشتہ برس 23 اگست کوعبرانی کیلینڈر کے چھٹے مہینے کے آغاز پر کشیدگی بہت بڑھ گئی۔  اس مہینے کو  ایل Elulکہتے ہیں۔ جیسے مسلمان رجب سے رمضان کا انتظار شروع کردیتے ہیں اسی طرح یہودیو ں کے یہاں استقبال روش ہشنا ایک ماہ پہلے سے شروع کردیا جاتا ہے۔ عبرانی سال نو عبرانی کلینڈر کے ساتویں مہینے سے شروع ہوتا ہے جسے تشری کہتے ہیں۔ اگر لفظ روش ہشنا کا تجزیہ کیا جائے تو یہ عربی لفظ راس اورسنہ سےماخوذ ہے۔ راس کا مطلب ہے سر جسکا عبرانی تلٖفظ راش ہے اور  سنہ یعنی سال عبرانی میں ہشنا بن گیا۔ گویا راش ہشنا کے لغوی معنی ہوئے سال کا سر یا نیا سال۔
یہودی روایات کے مطابق اس روزاللہ نےحضرت آدم علیہ السلام اور انکی اہلیہ حضرت حواکو تخلیق فرمایا تھا اور مورث اعلیٰ کے جشن ولادت پر تمام معبدوں میں بگل بجایا جاتا ہے جو بکرے کے سینگوں کا بنا ہوتا ہے۔ اس بگل کو Shofarکہتے ہیں۔ ایل کے مہینے کے آغاز بھی شوفر بجایا جاتا ہے لیکن صرف ایک یا دوبار دیوار گریہ پر عبادت کے آغاز سے پہلے جبکہ روش ہشنا پر ساری رات بگل بجانے اور شور کرنے کا روج ہے۔ دیوار گریہ پر عورتوں کو بگل بجانے کی اجازت نہیں ہے صرف مرد شوفر بجاتے ہیں اسکے علاوہ چھوٹی بچیوں کو بھی بگل بجانے کی اجازت ہے۔ اسی طرح عام لوگوں کو دیوار گریہ کے پاس توریت پڑھنے کی اجازت نہیں۔  ربائیوں کا کہنا ہے کہ توریت سمجھنے کیلئے علم کی ضرورت ہے اور کلام اللہ کو سمجھنا ہر کس و ناکس کی بات ہیں۔ یہ بیان تو قرآن میں بھی موجود ہے کہ اللہ نے حضرت موسیٰ کو 40 دن کیلئے کوہ طور پر طلب کیا تھا اور اسوقت حضرت کچھ قبائلی سرداروں کو بھی اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ اس موقع پر اللہ نے احکامات کی لوح یاتختیاں حضرت موسیٰ کو عطا کی تھی۔اس واقعہ سے ربائی یہ ثابت کرتے ہیں کہ توریت کا سمجھنا ہر ایک کیلئے ممکن نہیں اور اللہ نے بھی اسے عوام پر نازل کرنے کے بجائے مخصوص لوگوں کو بلا کر سمجھایا تھا۔
لبرل خواتین یہ ماننے کو تیار نہیں انکا خیال ہے کہ توریت ہر آدمی سمجھ سکتا ہے۔ اسی طرح انھیں یہ بات بھی تسلیم نہیں کہ بگل صرف مرد بجاسکتے ہیں۔ اور خواتین کو بھی بگل بجانے پر اصرار ہے۔ یہاں ایک اور بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ توریت قرآن کی طرح مصحف کی شکل میں نہیں بلکہ کاغذی طومار یا Scrollکی شکل میں ہے۔ گزشتہ سال کی طرح اس بار بھی خواتین اپنے ساتھ بگل اور توریت کے Scrolls لیکر آئیں لیکن دروازے پر سیکیورٹی حکام نے اسے خواتین سے چھین لیا لیکن کچھ تیز طراز لڑکیاں گارڈز کو غچہ دیکر توریت و بگل اندر لے جانے میں کامیاب ہوگئیں۔ اور دیوارکے پاس ربائی کی تلاوت سننے کے بجائے انھوں نے خود ہی توریت پڑھنی شروع کردی اور جن خواتین کے پاس بگل تھے انھوں نے اسے بجانا شروع کردیا۔ شوفر کے بارے میں بھی یہودیوں کے احسن طریقہ یہ ہے دعا کے آٖغاز سے پہلے دو ایک بار بجایا جاتا ہے پھر خاموشی اختیار کرلی جاتی ہے تاکہ لوگ سکون سے آہ و زاری کریں یا ربائیوں سے توریت کی تلاوت سن سکیں۔اگر شوفر میسر نہ ہو تو موجود نہ ہو تو کسی بھی قسم کا بھو نپو استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یہودی عقائد کے مطابق اپنے مورث اعلیٰ (آدم و حوا) کے جشن ولادت کے موقع پر بگل بجانا اور شور کرنے کا حکم توریت سے ثابت ہے۔شور مچانے کے علاوہ روش ہشنا کے موقع پر مٹھائی کھانا اور تقسیم کرنا انکے یہاں مستحب ہے۔نئے سال کے دسویں دن یعنی 10 تشری کو یہودی ملت یوم کپر منائیگی جو دراصل یوم استغفار ہے۔ اس سال یہ تہوار 8 اکتوبر کو ٖغروب آفتاب سے اگلے روز رات تک جاری رہیگا۔یہودی یوم کپر کے موقع پر 25 گھنٹے کا روزہ رکھتے ہیں۔ روزے کے دوران اکل و شرب سے پر ہیز کے ساتھ چمڑے کے جوتے پہننے کی ممانعت ہے۔ منہہ ہاتھ دھونا، غسل کرنا اور خوشبو لگانے کی بھی اجازت نہیں۔کپر کی پہلی رات یہودی مسلک کے اعتبار سے شب جائزہ ہے کہ اس روز اللہ تعالیٰ آنے والے یوم کپر تک اپنے بندوں کی قسمت تحریر فرماتے ہیں۔ اسی لئے یہ رات عام طور سے عبادت و گریہ زاری میں گزاری جاتی ہے اور اللہ سے نصیب اچھا لکھنے کی درخواست کی جاتی ہے۔ یوم استغفار کے موقع پرانفرادی توبہ کے ساتھ ملی کوتاہیوں اور قومی گناہوں سے اجتماعی توبہ کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔ یوم کپر یہودیوں کا مقدس ترین دن ہے۔ روش ہشنا اور یوم کپر کے موقع پر یہودی احباب کو دلی مبارکباد۔ اللہ کرے یوم استعفار کی برکت سے یہ تہواراسرائیل و فلسطین میں دائمی اور پائیدار امن کا نقطہ آغاز بن جائے۔
روش ہشنا 2019:  29ستمبر غروب آفتاب سے یکم اکتوبر کو رات کی تاریکی پھیلنے تک
یوم کپر 2019: 8ا کتوبر غرب آفتاب سے 9 اکتوبر رات کی سیاہی پھیلنے تک




Saturday, September 28, 2019

ہیوسٹن میں ایک سکھ پولیس افسر کا قتل


ہیوسٹن میں ایک سکھ پولیس  افسر کا قتل      
ہیوسٹن  میں 27 ستمبر کویک  سکھ پولیس افسر ہلاک ہوگیا۔ 42 سالہ   سندیپ سنگھ دھاریوال  کو چند برس پہلے اس بنا پر شہرت نصیب ہوئی کہ اس نے اپنے یونیفارم کے ساتھ سکھوں کی دستار یا پگڑی  پہننے پر اصرار کیا اور آخر کار 2015 میں  ہیوسٹن پولیس ڈپارٹمنٹ HPDنے مذہبی روایات کے احترام میں سندیپ کو استثنیٰ دیدیا۔
کل سندیپ نے  ٹریفک کے قانون کی مبینہ خلاف  ورزی پر ایک گاڑی کو رکنے کا اشارہ کیا تو ڈرئیور  نے   کھڑکی کے شیشے نیچے کرکے  سندیپ پر گولی چلادی جو اس غریب کے سر پر لگی جس سے سندیپ موقع پر ہی ہلاک ہوگیا۔  فائرنگ کے بعد حملہ آور  وہاں سے فرارہونے میں کامیاب ہوگیا لیکن  سندیپ  کی سرکاری گاڑی کے دیشبورڈ Dashboard  پر لگے دیڈیو کیمرے سے اس  شناخت کرلیاگیا اور چند ہی گھنٹوں بعد موصوف دھرلئے گئے۔
تحقیقات  پر حملہ آور کی شناخت  47 سالہ  رابرٹ  سولس کے طورپر ہوگئی۔ رابرٹ اس  سے پہلے بھی تشدد، فائرنگ  اور دوسری مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث رہا ہے اور اسوقت   بھی اپنی ضمانت کی توسیع کیلئے کچہری جارہا تھا۔
سوال یہ ہے کہ ایک  مجرم پیشہ شخص کو اسلحے کا لائیسنس کیسے جاری ہوا۔ قتل کے محرکات پر تحقیقات جاری ہیں اور اس معاملے کے نسلی پہلو اور تعصب و  نفرت کی بنیادکو خارج ازامکان  نہیں قراردیا جاسکتا۔

اسرئیل کو تسلیم نہ کرنے کا غیر مبہم اعلان


اسرئیل کو تسلیم نہ کرنے کا غیر مبہم اعلان     
کافی  عرصے سے  یہ خبر گردش کررہی تھی کہ عمران حکومت  اسرائیل کو تسلیم کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔اس گمان  کو تقویت  گزشتہ سال اکتوبر میں اس افواہ سے  پہنچی کہ اسلام آباد  میں پاک فضائیہ کے  نورخان   ہوائی  اڈے پر اسرائیلی وزیراعظم  نیتھن یاہو کا خصوصی طیارہ اترا اوراس سے  برآمد ہونے  والے 'چند افراد' کالے شیشوں والی ایک گاڑی میں شاہراہ  دستور کی طرف جاتے نظر آئے۔ صحافتی حلقوں کا کہنا  تھا کہ  اومان جاتے ہوئے جناب نیتھن یاہو نے  اسلام آباد رک کر  اسلام آباد کی اعلیٰ سیاسی و عسکری قیادت سے ملاقات کی تھی۔
یہ بھی کہا جارہا تھا کہ  معاشی پریشانیوں کے دلدل   اور کشمیر کے مسئلے پر سفارتی تنہائی  سے نکلنے کیلئے اسلام آباد نئے حمائتی اور اتحادی تلاش کررہا ہے۔ملک کالبرل  اور روشن خیال  طبقہ ایک عرسے سے کہہ رہاہے   کہ  'زمینی حقائق' کی بنا پر جیسے خلیجی ممالک  اسرائیل سے متعلق   اپنی دہا ئیوں پرانی پالیسیوں کو تبدیل  کررہے ہیں ، پاکستان کو بھی   ان سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس ماہ کے آغاز میں ممتاز صحافی کامران خان نے ایک ٹویٹ کے ذریعے اس موضوع پر بحث پر آغاز کردیا تھا۔ کچھ لوگوں کے خیال تھا  کہ  کامران خان  کا ٹویٹ پیغام  دراصل  ملک کے مقتدر طبقے کی جانب سے اس حساس مسئلے پر عوامی ردعمل حاصل کرنے کی ایک کوشش تھا۔   کامران خان کی ٹویٹ کو موضوع بناتے ہوئے     اسرائیلی اخبار ہرٹز  Haaretzمیں ایک پاکستانی صحافی کنور خلدون شاہد کا ایک مضمون بھی شائع ہوا جس میں کہا گیا کہ حساس و بدنام تجویز کو اب بحث کیلئے عوام کے سامنے پیش کردیا گیا ہے۔
تاہم  وزیراعظم عمران خان نے ان تمام افواہوں کی دوٹوک انداز میں تردید کردی۔ 26 ستمبر کو نیویارک میں ایشیا سوسائیٹی کی ایک تقریب میں جب ان سے سوال ہوا کہ کیا  موجودہ حالات اور خارجہ پالیسی کے حوالے سے پاکستان کو درپیش مشکلات  کے تناظر میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی کوئی تجویز زیرغور ہے تو عمران خان نے بہت ہی دوٹوک انداز میں کہا'  اس ضمن میں پاکستان کا موقف  بہت واضح ہے جسکا اظہار بانی پاکستان  قائداعظم نے 1947 میں کیا تھا یعنی جب  تک فلسطین کا تنازعہ فلسطینی عوام کی امنگوں کے مطابق حل نہیں ہوجاتا پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کریگا۔
وزیراعظم کے اس جواب پر  ملک کا لبرل طبقہ بے حد مشتعل ہے اور انھیں سوشل میڈیاپر لعن طعن کا سامنا ہے ۔