ایرنی جہاز کے کپتان کو رشوت کی پیشکش
دوماہ قبل 4 جولائی
کو برطانوی بحریہ نے جبل الطارق
(جبرالٹر) سے گزرتے ہوئے ایک تیل
بردار ایرانی جہاز 'گریس ون (Grace One)کو قبضے میں لے لیا تھا۔ اس ٹینکر پر لدا 21 لاکھ بیرل خام تیل مبینہ طور پر شامی بندرگاہ بنی یاس لے جایا جارہا تھا۔ بنی یاس میں شام کی سب سے
بڑی تیل ریفائنری ہے۔یورپی یونین نے شام پر تجارتی پابندیاں عائد کررکھی ہیں
جسے بنیاد بناکر اس جہاز پر قبضہ کیا گیا۔
جواب میں صرف
دوہفتے بعد 19 جولائی کو ایرنیوں نےآبنائے ہرمز سے گزرتا ہوا ایک برطانوی جہاز پکڑ لیا ۔ جہاز کے 23 رکنی عملے کو
تو چند دن بعد ہی رہا کردیا گیا لیکن یہ جہاز اب تک ایران کے قبضے میں ہے۔
گزشتہ ماہ برطانیہ نے ایرانی ہاز کو چھوڑدیا۔ تجارتی
جہازوں کی حرکت پر نظر رکھنے والے ادارے
کا کہنا ہے کہ پاکستان کے وقت کے مطابق
جمعرات کو سوا بارہ بجے گریس ون کوجسے اب 'آدرین
دریا' کہا جاتا ہے بنی یاس کی شامی بندرگاہ پر دیکھا گیا جبکہ پیر کی شام یہ جہاز بحر روم میں شام اور
قبرص کے درمیان تھا اور جہاز کی سبک رفتاری سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس پر لدا تیل
اتارا جاچکا ہے۔
فنانشل ٹائمز (FT)نے انکشاف کیا ہے کہ جبرالٹر سے روانگی پرامریکی حکومت نے ایرانی ٹینکر کےبھارتی کپتان
پر دباو ڈالا کہ وہ اپنا جہاز کسی ایسی بندرگاہ پر لے جائے جہاں امریکی بحریہ اس
پر قبضہ کرسکے۔FTکے مطابق یہ
پیشکش کسی اور نے نہیں بلکہ خود امریکی وزارت خارجہ میں ایرانی امور کے سربرا ہ برائن ہک (Brian Hook)نے کی۔ برائن ہک کا منصب
نائب وزیرخارجہ کے مساوی ہے۔ جہاز
کے کپتان اخلیش کمار کے نام اپنے برقی خط میں جناب ہک نے ان سے لاکھوں ڈالر انعام
کاوعدہ بھی کیا۔ اس پیشکش کے ساتھ یہ دھمکی بھی تحریر تھی کہ اگر بات نہ مانی تو
کپتان کی زندگی بہت تلخ ہوسکتی ہے۔اخبار کے مطابق جناب ہک ایرانی
جہاز کے ملاحوں کو خط لکھ کر بھاری معاوضے
کے عوض ان جہازوں کو امریکی بحریہ کے زیراثر بندرگاہوں کی طرف ہانکنے کی درخواست کررہے ہیں۔
ایرانی وزیرخارجہ
جاوید ظریف نے ملاحوں کے نام برائن ہک کے خطوط کوبحری قزاقی قراردیا ہے۔ انھوں نےاپنے ایک ٹویٹ
میں طنز کیا کہ صدرٹرمپ کے بیضوی دفتر (Oval Office) نے کچھ ہفتہ پہلے مجھے امریکہ کے
دورے کی جو دعوت دی تھی وہ بھی کچھ ایسا ہی حربہ تھا۔
کیا جناب برائن ہک
کی مبینہ
پیش کش امریکی قانون FCPAکی صریح خلاف ورزی نہیں؟؟؟
No comments:
Post a Comment