افغان امن! ہنوز دلی دور است
افغان امن کے راستے میں حائل اختلافات کی خلیج گہری ہوتی
نظر آرہی ہے۔ کچھ عرصہ قبل کچھ ایسے اشار ےمل رہے تھے کہ گویا امن معاہدے پر
دستخط اب چند دنوں کی بات ہے۔ بلکہ کہا
جارہا تھا کہ طالبان کے سربراہ ملا ہبت اللہ
کی جانب سے مسودے کی توثیق کے بعد
دستخط کیلئے انگریزی، دری اور پشتو زبانوں میں دستاویزات تیار کی جاچکی ہیں۔ 31
اگست کو دوحہ میں طالبان مذاکرات کاروں کے ترجمان ملا سہیل شاہین نے بتایا کہ
ہماری قیادت دستخط سے قبل مسودے کی نوک
پلک درست کررہی ہے۔انھوں نے معاہدے کی راہ میں کچھ رکاوٹوں کا اعتراف تو کیا لیکن
پر امید لہجے میں کہا تھاکہ اگلے چند دنوں میں امن معاہدے پر دستخط ہوجائینگے۔ امریکی
وفد کے ترجمان زلمے خلیل زاد نے بھی کچھ اسی انداز میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس
امن معاہدے کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں جس سے افغانستان میں پائدار امن کا راستہ
ہموار ہوجائیگا۔ لیکن معاملہ اتنا سادہ نہیں اور اسکے کھٹائی میں پڑنے کے امکانات
بھی خاصے قوی ہیں۔ متنازعہ نکات کچھ اسطرح ہیں:
·
امریکی جرنیلوں اور قدامت پسند سیاستدانوں کو
لفظِ انخلا یاWithdrawal میں شکست کا پہلو نظر آرہا ہے۔ امریکی جوائنٹ
چیف آف اسٹاف جنرل ڈنفورڈ کہہ چکے ہیں کہ
امریکی فوج 'پسپا' نہیں ہورہی۔ طالبان کیلئے یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں کہ اسکے لئے Transfer، Return back homeیا کوئی اور
'باوقار' متبال استعمال کیا جاسکتا ہے۔
·
طالبان کا اصرار ہے کہ معاہدہ امارات اسلامی افغانستان اور امریکہ کے درمیان ہونا چاہئے جبکہ امریکیوں کا خیال ہے کہ معاہدے
کے فریق امریکہ اور تحریک طالبان ہیں۔ ملا شائد اس بات پربھی رضامند ہوجائیں۔
·
ایک بڑا مسئلہ امریکیوں کی یہ خواہش ہے کہ معاہدے پر دستخط کے ساتھ ہی
مکمل فائر بندی ہوجائے۔ طالبان کہتے ہیں
کہ وہ لڑائی بند کرکے امریکی فوج کو واپسی کیلئے محفوظ راستہ دینے کے وعدے پر تو قائم
ہیں لیکن کابل انتظامیہ پر حملے جاری رہیں گے۔ملاوں کا کہنا ہے کہ امریکیوں سے امن
معاہدے کے بعد وہ کابل انتظامیہ سے بات
چیت کا آغاز کرینگے جن سے امن معاہدے کے بعدہی
وہ اپنی تلواریں نیام میں رکھیں گے۔ شمالی اٖفغانستان کے صوبے قندوز کا صدر
مقام طالبان کے حصار میں ہے اور یکم ستبمر سے طالبان نے اپنی کاروائیوں کا دائرہ
بڑھاتے ہوئے قندوز کے مغرب میں بلخ، مشرق
میں تخار اور بدخشاں صوبوں کے گرد بھی گھیرا تنگ کردیا ہے۔ افغان حکومت کا کہنا ہے
کہ ایرانی سرحد سے متصل فرح اور ہیرات صوبوں کی طرف بھی طالبان پیشقدمی کررہے ہیں۔
عسکری تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ طالبان کی تازہ ترین کاروائی امریکیوں کو باور
کرانے کیلئے ہے کہ امن معاہدہ انکی مجبوری نہیں اور وہ طاقت کے بل پر بھی اپنی بات
منوا سکتے ہیں۔ طالبان کی جانب سے یہ عسکری کاروا ئی اسوقت کی جارہی ہے جب امن معاہدے پر افغان حکومت کو اعتماد میں لینے
کیلئے زلمے خلیل زاد کابل میں ہیں۔
·
طالبان کا کہنا ہے کہ اگر کابل
انتظامیہ امن مذاکرات میں سنجیدہ ہے تو 28
ستمبر کے صدارتی انتخاب کو منسوخ کردے تاکہ امریکہ سے امن معاہدے کے فوراً بعد ایک
وسیع البنیاد عبوری حکومت قائم کی جاسکے۔ افغان صدارت کے دوبڑے امیدوار ڈاکٹر
عبداللہ عبداللہ اور حزب اسلامی کے گلبدین حکمتیار انتخابات ملتوی کرنے کے حامی
ہیں لیکن ڈاکٹر اشرف غنی اس پر تیار نہیں۔ طالبان کیلئے مشکل یہ ہے کہ اگر وہ ان
انتخابات کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں تو سارے افغانستان میں خون خرابہ ہوگا جبکہ
پرامن انتخابات کی صورت میں کابل حکومت کو
عوامی مینڈیٹ کی سند مل جائیگی اور بعد از انخلا مذاکرات کے دوران طالبان دباو میں
ہونگے۔
·
امریکی جرنیل اور قدامت پسند رہنما
بھی افغانستان سے واپسی کو شکست قراردیتے
ہوئے واپسی کی مخالفت کررہے ہیں۔ سینیٹ میں رپبلکن پارٹی کے رہنما سینیر لنڈے
گراہم افغانستان سے انخلا کے سخت مخالف
ہیں۔ چند روز پہلے انکا ایک مقالہ واشنگٹن پوسٹ میں شایع ہوا جس میں انھوں نے
متنبہ کیا کہ جلدبازی میں افغانستان سے واپسی 9/11جیسے ایک اور سانحے کا سبب بن سکتی ہے۔ انھوں نے جذبانی
انداز میں لکھا کہ طالبان ہمارے جوانوں کے قاتل ہیں اور اس طویل جنگ پر امریکی قوم
نے 1000ارب ڈالر خرچ کئے ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ افغانستان سے امریکی فوج کی واپسی
طالبان کے بجائے امریکہ کی شرائط پر ہونی چاہئے۔ سینیٹر لنڈسے گراہم ریپبلکن پارٹی
کے سینئر رہنما اور صدر ٹرمپ کے مخلص نظریاتی حلیف ہیں۔ میکسیکو کی سرحد پر دیوار
کی تعمیر، مسلمانوں کی امریکہ آمد پر پابندی، سپریم کورٹ کیلئے قدامت پسند ججوں کے
تقرر سمیت تمام مشکل فیصلوں میں وہ صدر ٹرمپ کے شانہ بشانہ رہے ہیں اسلئے سینیٹر
گراہم کی بات کو یکسر مسترد کردینا امریکی صدر کیلئے آسان نہیں۔
·
صدر ٹرمپ کے مشیر قومی سلامتی جان بولٹن کو بھی بعد
ازانخلا صورتحال پر شدید تحفظات ہیں۔ انھیں ڈر ہے کہ نیٹو کی واپسی کے بعد کہیں
افغانستان ویسی ہی خانہ جنگی کا شکار نہ ہوجائے جسکا سامنا 1988 میں روسی انخلا کے
بعدہوا تھا۔ اسی لئے وہ چاہتے ہیں کہ مکمل
انخلا سے پہلے طالبان اور افغان حکومت میں شرکت اقتدار کو معاہدہ طئے پاجائے۔
·
سب سے بڑا تنازعہ انخلا کے ٹائم ٹیبل پر ہے۔ امریکیوں کاکہنا ہے کہ 7200 فوجی
اگلے 9 سے 14 ماہ میں واپس بلالئےجائینگے اور پیچھے رہ جانیوالے 6800 سپاہیوں کی
واپسی افغانستان میں ایک 'مستحکم' حکومت
کے قیام کے بعد ہوگی۔فرانس میں G-7سربراہ کانفرنس کے دوران صدر ٹرمپ نے کہا تھ کہ انھیں
افغانستان سے واپسی کی کوئی جلدی نہیں۔ ساتھ ہی
وہ اپنی یہ دھمکی بھی باربار دہرارہے ہیں کہ انکے لئے افغانستان پر قبضہ
کچھ مشکل نہیں بس اسکے لئے 1 کروڑ افغانوں
کو ہلاک کرنا پڑیگا۔ 29 اگست کو Foxریڈیو پر گفتگو کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا کہ امن معاہدے پر
دستخط ہوتے ہی افغانستان میں امریکی فوج کی تعداد 14000 سے گھٹاکر 6800 کردی
جائیگی جسکے بعد صورتحال کے مطابق بقیہ فوج کی واپسی کا فیصلہ ہوگا۔ انکا کہنا تھا
کہ داعش
یا القاعدہ کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کیلئے افغانستان میں
سراغرسانی کا ایک موثر نظام برقرار رکھا جائیگا۔ صدر ٹرمپ نے دوٹوک انداز
میں کہا کہ 'فوجی انخلا کے بعد بھی افغانستان پر نظر رکھی جائیگی معلوم نہیں
طالبان اس پر تیار ہوتے ہیں یا نہیں؟' صدر ٹرمپ کو خوف افغانستان کے جغرافیہ سے ہے اور انکا خیال ہے کہ وہاں
چھپنے کی جگہیں بہت زیادہ ہیں۔ امریکی چاہتے ہیں
کہ ہیں انھیں تین فوجی
اڈوں پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے دیا جائے۔ واشنگٹن یہ ضمانت دینے کو تیار ہے کہ ان
اڈوں پر تعینات عملہ افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کریگا اور ان
کے باہر طالبان کی چوکیاں ہونگی۔ تاہم طالبان نے اس تجویز کو مذاکرات کے ابتدا ہی
میں مسترد کردیا تھا۔ جون کے آخر میں مذاکرات کے دوران زلمے خلیل زاد نے صدر ٹرمپ
کے ان خدشات کا دوبارہ اظہار کیا جس پر طالبان نے صدر
ٹرمپ کے تحفظات دور کرنے کیلئے اضافی ضمانت کی پیشکش کی تھی لیکن ایسا لگ رہا ہے
کہ امریکی حکومت طالبان کی ان یقین دہانیوں سے مطمئن نہیں۔
·
امریکہ کے چیف آف
آرمی اسٹاف جنرل مائک ملی (Gen Mike Milley)بھی فوری انخلا کے خلاف کھل کر بیان دے چکے ہیں انکا کہنا تھا اس سے امریکہ کے
مفادات متاثر ہوسکتے ہیں۔ سینیٹ کی مجلس
قائمہ برائے عسکری خدمات کی سماعت کے
دوران انھوں نے جذباتی انداز میں کہا تھاکہ واشنگٹن کا قبرستان شہداے اٖفغانستان
سے بھراپڑا ہے۔ ہمارے 20ہزار کڑیل جوان بھری جوانی میں معذور ہوگئے۔ اس عظیم الشان
قربانی سے افغانستان میں جو استحکام حاصل ہوا اسے جلد بازی میں ضائع کردینا مناسب
نہیں۔ جنرل صاحب کا خیال ہے کہ طالبان سے امن معاہدے کے بعد بھی دہشت گردوں پر نظر
رکھنے اور علاقائی استحکام کیلئے کچھ
امریکی فوجیوں کی افغانستان میں موجودگی ضروری ہے۔ طالبان
اس پر بظاہر تیار نہیں اور مذاکرات کے آغاز ہی میں وہ اس تجویز کو مسترد کرچکے
ہیں۔ طالبان نے امریکیوں کو یقین دلایا ہےکہ انخلا کے دوران واپسی کیلئے امریکی فوج کو انکی مرضی کا محفوظ
و پروقار راستہ فراہم کیا جائیگااور بعد افغانستان کے سرزمیں امریکہ سمیت کسی بھی ملک کے خلاف
استعمال نہیں ہوگی۔ انھوں نے داعش اور دوسرے دہشت گردوں کے خلاف موثر کاروائی کا
وعدہ بھی کیا۔انکا کہنا ہے کہ طالبان دہشت گردوں کی گوشمالی خود کرسکتے ہیں اور
اسکے لئے امریکی فوج کی موجودگی ضروری نہیں۔مولوی حضرات
انخلا کیلئے وقت دینے کو تیار ہیں لیکن وہ غیر ملکی فوج کی مکمل واپسی کا واضح
ٹائم ٹیبل چاہتے ہیں۔ مبہم شرائط اور مفروضوں کی بنا پر امریکی فوج کا افغانستان
میں غیر معینہ مدت تک قیام انکے لئے قابلِ قبول نہیں۔
·
امریکی فوج کو طالبان کے اس عزم اور وعدے پر تو کوئی شبہہ نہیں کہ یہ لوگ
افغانستان کو داعش یا القاعدہ کیلئے محفوظ ٹھکانہ نہیں بننے دینگے لیکن انکا خیال
ہے کہ طالبان کیلئے عبدالرشید دوستم کی
جنبش ملی جیسی مسلح و تجربہ کار ملیشیا، اٖفغان فوج اور داعش سے بیک وقت لڑنا ممکن
نہ ہوگا اور ملاوں کے خلاف داعش کا طالبان مخالف عناصر سے اتحاد بھی خارج از امکان
نہیں۔
صدر ٹرمپ کیلئے افغانستان سے جان چھڑانے کی وجہ سیاسی و
عسکری سے زیادہ وہاں اٹھنے والے بھاری اخراجات ہیں۔ امریکی حکومت کے نگراں ادارے
سینئر انسپیکٹر جنرل برائے اٖفغان تعمیرِ نو یعنی SIGARکے مطابق افغانستان میں قیام کے مجموعی اخراجات 70 ارب ڈالر
سالانہ ہیں۔ تربیت پر خطیر اخراجات کے باوجود افغان فوج کی جنگی استعداد اطمینان بخش
نہیں۔ سپاہیوں کی اکثریت منشیات کی عادی
ہے اور نشہ آور مواد کے حصول کیلئے افغان فوجیوں کی جانب سے ڈاکہ زنی اور شہریوں
کے قتل عام کی وارداتیں عام ہیں۔ حکومتی
اخراجات کیلئے ملنے والی امدادی رقوم کا بڑا حصہ رشوت کی نذر ہوجاتا ہے۔
صدر ٹرمپ امریکی ٹیکس دہندگان کی کمائی کے معاملے میں بے حد
حساس ہیں اور اپنے ایک قریبی رفیق کو اخراجات کے معاملے میں بے احتیاطی پر کابینہ
سےبرطرف کرچکے ہیں۔ امریکی صدر نےانتخابی
مہم کے دوران افغان جنگ کو امریکی معیشت پرایک بھاری بوجھ قراردیا تھا اور وہ
افغانستان سے مکمل فوجی انخلا کے حق میں
ہیں۔ امریکی صدر خود کو عقل کل سمجھتے ہیں اور جب کوئی فیصلہ کرلیں تو پھر کسی
مشیر یا وزیر کی رائے کا خاطر میں نہیں لاتے۔ اسی بنا پر واشنگٹن کے سیاسی و عسکری
حلقوں کا خیال ہے کہ گومگو کے باوجود صدر
ٹرمپ افغانستان سے فوجی انخلا کے لئے پرعزم ہیں۔
امریکی فوج کی
واپسی سے جہاں طاقت کے خلا پیدا ہونے کاخدشہ ہے وہیں افغان حکومت کو فوجی انخلا کے نتیجے میں مالی امداد رک جانے
کا خوف بھی ستارہاہے۔ گزشتہ 18 سال سے افغانستان
کی گزربسر چچا سام کی اعانت پر ہورہی ہے۔ کابل کے ڈاکٹر صاحبان کے ساتھ
حکومتی اخراجات کی فکر ملاوں کو بھی دامن گیر ہے۔ انھیں اپنی باصلاحیت و دیانت دار ٹیم پر اعتماد ہے اور ملا
ہبت اللہ کو یقین ہے کہ طالبان مقامی
وسائل پر انحصار کرکے بہت جلد افغان قوم
کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے میں کامیاب ہوجائنگے۔
اس ضمن میں انھوں نے چین ، روس اور
قطر سے مذاکرات بھی شروع کردئے ہیں لیکن امریکی امداد کی یکلخت معطلی سے پیدا ہونے
والا متوقع بحران انکے لئے بھی پریشان کن
سے ہے۔بہت ممکن ہے کہ وہ اقتصادی امداد کے عوض 6800 امریکی سپاہی کچھ عرصے کیلئے ملک
میں رکھنے پر رضامند ہوجائیں۔
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 6 ستمبر 2019
No comments:
Post a Comment