Thursday, September 19, 2019

خود کش ڈرون حملہ یا اجتماعی خودکشی


خود کش ڈرون حملہ  یا اجتماعی خودکشی
مئی میں سعودی ارامکو کی دو تنصیبات پر حملے کے ٹھیک چار ماہ بعد 14 ستمبر کو خود کش ڈرون حملوں سے دنیا میں خام تیل کا سب سے بڑا پراسیسنگ پلانٹ شعلوں کی نذر ہوگیا۔
14 مئی کو 'نامعوم' ڈرونز نے الشیبہ کے قریب خام تیل کے دو پمپنگ اسٹیشنوں کو نشانہ بنایا تھا جو  بحر احمر پر واقع ینبوع آئل ٹرمینل جانے والی تیل پائپ لائن کیلئے استعمال ہوتے ہیں۔ بعد میں یمن کے حوثیوں نے دعویٰ کیا کہ یہ انکے 7 مسلح خودکش ڈرونز کی کاروائی ہے جسکا مقصد 'دشمن' کی اہم تنصیبات کو نشانہ بنانا تھا۔ سعودیوں کی خوش قسمتی کہ نقصان بہت زیادہ نہ ہوا اور بہت جلد اسکی مرمت کرلی گئی۔ اس واقعہ سے صرف 2 دن پہلے متحدہ عرب امارات کی بندرگاہ الفجیرہ پر 4 ٹینکروں کو نشانہ بنایا گیا جن میں سے دو کا تعلق سعودی عرب سے تھا۔ امریکیوں کا کہنا ہے کہ اس حملے کے پیچھے ایران تھا لیکن یہ الزام اب تک ثابت نہ ہوسکا۔اسکے ایک ماہ بعد 14 جون کو نامعلوم میزائلوں نے خلیج اومان میں متحدہ عرب امارات اور سعودی آئل ٹینکروں کو نشانہ بنایا۔
 اب ہفتے کو صبح سویرے ابقیق اور الخریص میں تیل کی تنصیبات پر تباہ کن حملہ کیا گیا ہے۔ یہ اتفاق کے سوا اور کچھ نہیں لیکن سعودی عرب میں تیل کی تنصیاب اور اثاثوں پر بڑےحملوں کیلئے 14 تاریخ کا انتخاب کیا گیا۔ابقیق خلیج عرب کے کنارے ظہران سے 37 میل جنوب مغرب میں ہے۔ سعودی ارامکو کا عظیم الشان  صدر دفتر ظہران ہی میں ہے  جبکہ الخریص سعودی دارالحکومت ریاض سے 100 میل کے فاصلے پر ہے۔ 1940میں دریافت ہو نے والے ابقیق کے میدان سے 4 لاکھ اور الخریص سے 14 لاکھ بیرل تیل روزانہ نکالا جاتا ہے۔ تیل کی پیداوار سے زیادہ ابقیق کی اہمیت یہاں واقع دنیا کے اس سب سے بڑے پراسیسنگ پلانٹ کی بنا پر ہے جہاں روزانہ  70 لاکھ بیرل  خام تیل کو برآمد کیلئے تیار کیا جاتا ہے۔ بعض اخبارات میں اسے ابقیق ریفائنری کہا گیا ہے جو درست نہیں۔ حملہ ریفائنری پر نہیں بلکہ پراسیسنگ  پلانٹ پر ہوا ہے۔
سعودی تیل میں گندھک کی بڑی مقدار پائی جاتی ہے جو پائپ لائن کیلئے اچھی نہیں کہ گندھک لوہے کو گلانے کا سبب بن سکتا ہے۔ ابقیق پلانٹ پر خام تیل سے گندھک نکال کر مائع کو پائپ لائن کیلئے  مضر  کثافتوں سے کسی حد تک پاک کرلیا جاتاہے۔ اسی بناپر اس پلانٹ کو تیکنیکی اصطلاح میں Stabilization Facilityکہا جاتا ہے۔
دوسری طرف خریص کی ترقی و بہتری پر سعودی ارامکو نے  حال ہی میں 3 ارب ڈالر کی خطیر رقم خرچ کی ہے۔ اس میدان سے تیل کے علاوہ  32 کروڑ مکعب فٹ گیس یومیہ حاصل کی جاتی ہے۔ سعودی حکومت کی نئی حکمت عملی کے تحت تیل کی برامدات بڑھانے کیلئے مقامی سطح پر گیس کے استعمال کی حوصلہ افزائی کی جارہی اور گیس پلانٹ پر بھی تیل کے بجائےگیس سے چلنے والے انجن نصب کئے جارہے ہیں۔ الخریص سے حاصل ہونے والی گیس میں گندھک کی مقدار کافی زیادہ ہے جسکی وجہ سے یہ چولہوں کیلئے مناسب نہیں چنانچہ اسے قریب ہی واقع شدقم گیس پلانٹ کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔
 ابتدائی خبروں میں کہا گیا کہ مسلح ڈرونز نے ابقیق پراسیسنگ پلانٹ اور الخریص کی تنصیبات کو نشانہ بنایا جس سے زبردست آگ بھرک اٹھی۔ امریکہ کے خلائی مرکز NASAنے سیٹیلائٹ کی مدد سے لی ہوئی جو تصاوہر جاری کی ہیں اسکے مطابق 50 میل کے علاقے سے دھویں کے بادل اور شعلے بھڑکتے نظرآرہے ہیں۔ابقیق دنیا میں تیل کے سب سے بڑے میداں غوار کے بہت قریب واقع ہے۔ غوار سے حاصل ہونے والے خام تیل کا مجموعی حجم 80 لاکھ بیرل روزانہ ہے۔اس خبر کے فوراً بعد المسیرہ ٹیلی ویژن پر حوثیوں کے بریگیڈئر جنرل یحیٰ سریع نے اسکی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے  کہاکہ  یمن سے اڑان بھرنے والے اسکے 10 مسلح ڈرونز سے دشمن کو کاری ضرب لگائی گئی ہے۔ انکا کہنا تھا کہ جب تک سعودی عرب یمن پر فضائی حملے ختم نہیں کردیتا حملے جاری رہینگے۔ جنرل صاحب نے دعویٰ کیا کہ تیل کے میدانوں اور تنصیبات سمیت سارا سعودی عرب انکے نشانے پر ہے۔
سعودی عرب نے ابقیق اور الخریص پر حملے کا اعتراف تو کیا لیکن نقصانات کے بارے میں کوئی حتمی بیان نہیں جاری ہوا۔ ارامکو کے سربراہ  حسن نصر کا کہنا ہے کہ آگ پر قابو پانے کے بعد مرمت کا کام جاری ہے۔ جناب نصر پراعتماد ہیں کہ تیل کی برآمد جلد ہی دوبارہ شروع ہوجائیگی۔ پیر کی صبح صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے سعودی وزیر توانائی  شہزدہ عبدالعزیز بن سلمان نے پرعزم لہجے میں کہا کہ ابقیق پلانٹ کی ایک تہائی گنجائش  آج شام یا کل صبح تک بحال کرلی جائیگی۔ اس دعوے کی  تصدیق  بہت مشکل ہے کہ صحافیوں کو پلانٹ تک رسائی حاصل نہیں۔
توانائی سےوابستہ سیانوں کا خیال ہے کہ ابقیق کی آتشزدگی سے عالمی منڈی میں 57 لاکھ بیرل یومیہ یا 6 فیصدکی کمی واقع ہوگئی ہے لیکن اس بار دنیا میں وہ افراتفری نہیں دیکھی گئی جو 1973 کے عرب بائیکاٹ یا 1978 میں ایرانی انقلاب کےدوران نظر آئی تھی۔اسکی بنیادی وجہ شائد یہ ہے کہ ان دنوں کے برعکس آج امریکہ تیل کی پیداور میں نہ صرف خود کفیل ہے بلکہ یورپ کو فراہم کی جانیوالی LNGکی بڑی مقدار امریکہ ہی سے برآمد کی جاتی ہے۔ آج صبح صدر ٹرمپ نےبڑی بے نیازی سے کہا ' سعودی تنصیبات پر حملے سے تیل کی فراہمی میں جو خلل واقع ہوا ہے اس سے امریکہ کو کوئی اثر نہیں پڑیگا کہ اب ہم تیل و گیس کے حوالے سے خود کفیل ہیں' انھوں نے اپنے یورپی و ایشائی اتحادیوں کو اطمینان دلاتے ہوئے ضرورت پڑنے پرتیل کے محفوظ ذخائر کے دہانے کھول دینے کا عندیہ بھی دیا۔ یہ محٖفوظ ذخیرہ کیا ہے اس پر چند سطور۔
امریکہ  نے 1973 کے عرب بائیکاٹ کے بعد برے وقتوں کیلئے   تیل کا ایک عظیم الشان  Strategic Petroleum Reserve (SPR)  یا ذخیرہ تعمیر کیا ہے جسکے تحت 72 کروڑ  بیرل تیل  لوزیانہ  (Louisiana)اور ٹیکسس   (Texas)کے زیرزمین ذخائر یا  depleted Reservoir میں محفوظ کیا کیا گیا ہے۔یوں سمجھئے کہ   جن  چٹانوں سے  تیل  اور گیس کی قابلِ پیداوار مقدار حاصل کرلی گئی انکی مسامدار چٹانوں کو خام تیل  سے بھردیا گیا۔ خیال  ہے صدر ٹرمپ سعودی تیل کی غیر موجودگی میں عالمی  طلب پورا کرنے کیلئے  SPR سے کچھ تیل بازار میں لے آنے کی منظوری دے دینگے۔ لیکن انکے وزیرتوانائی رک پیری نے جرمنی میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے فرمایا کہ منٖڈی میں طلب کے مطابق تیل موجود ہے لہٰذا فی الحال SPRکا منہہ کھولنے کی ضرورت نہیں۔ دوسری طرف  سعودی تیل کی بندش نے امریکہ میں سلیٹی چٹانوں سے تیل کی کشید کو منافع بخش کاروباربنادیا ہے۔ روائتی میدانوں کے مقابلے میں سلیٹی چٹانوں سے حاصل ہونے والے تیل کی پیداواری لاگت زیادہ ہوتی ہے لیکن 60 ڈالر فی بیرل پر سلیٹی چٹانوں کا سینہ چیرکر تیل کشید کرنا پرکشش ہوگیا ہے۔اسی کے ساتھ متاثرہ پلانٹ کی ہنگامی بنیادوں پر مرمت کی شکل میں امریکی کمپنیوں کیلئے بھاری معاوٖضے پر کاروبار کے نئے مواقع میسر آگئے ہیں۔  ابقیق حملے کے نتیجے میں تیل اور سونے کی قیمتیں بڑھ گئیں۔ امریکی بازار حصص دباو میں لیکن تیل اور خدمت رساں اداروں کے  ساتھ اسلحہ بنانے والے اداروں لاک ہیڈ مارٹن (Lockheed Martin) ، ریتھیان (Raytheon) ، جنرل ڈائنامکس (General Dynamics)، بوئنگ حصص کی قیمتوں میں واضح اضافہ ہوا۔
ابقیق اور خریص پر حملوں سے پیدا ہونے والی صورتحال کا ایک سنگین انسانی پہلو بھی ہے۔ جیسا کہ ہم نے اوپر عرض کیا ابقیق پلانٹ کابنیادی مقصد خام تیل سے گندھک کی علیحدگی ہے۔ پلانٹ کی جزوی تباہی کی بناپر فضامیں گندھک سے بننے والی ہائیڈروجن سلفائیڈ گیس یا H2Sکا تناسب خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے۔ یہ گیس انسانی جان کیلئے کتنی خطرناک ہے اسکا انداز محض اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ اگر کوئی شخص 48 گھنٹوں تک ایسی فضا میں سانس لے جہاں H2Sکا تناسب 100فی ملین یا (100/1000000)کے قریب ہو تو اسکی موت واقع ہوسکتی ہے۔ سڑے انڈے کی ناگوار بو اس گیس کی پہچان ہے لیکن قوت شامہ یا سونگھنے کی قوت ہی اس نامراد گیس کا پہلا ہدف ہے اور اگر فضا میں اسکا تناسب 3 فی ملین (3/1000000)سے بڑھ جائے تو اسکا ناگوار تعفن محسوس نہیں ہوتا۔ یعنی تعاقب کرتے  قاتل کی آہٹ بھی محو ہوجاتی ہے۔ 
یہ تو تھااس معاملے کا تیکنیکی و معاشی رخ ۔اب اس واقعے کے عسکری پہلو اور سیاسی محراکات کا جائزہ لیتے ہیں۔
اس واقعہ  کی غیر مشروط ذمہ داری یمن کے حوثیوں نے قبول کرلی ہے لیکن اتوارکو عراقی خفیہ ایجنسی کے ذرایع نے انکشاف کیا کہ  ابقیق اور الخریص پر ہونے والا ڈرون حملہ شیعہ عراقی ملیشیا الحشد الشعبی (PMF) کی کاروائی ہے ۔ ڈیڑھ لاکھ مسلح جوانوں پر مشتمل ایران نواز  PMF عراقی فوج کاحصہ ہے۔ گزشتہ ماہ اسرائیل نے انکے ٹھکانوں پر پانچ فضائی حملے کئے تھے جس میں مبینہ طور پر پاسداران انقلاب ایران کے کئی اعلیٰ افسران جاں بحق ہوئے جو PMFجوانوں کو میزائل اور ڈرون استعمال کی  تربیت دے رہے تھے۔ حشد الشعبی نے الزام لگایا تھا کہ ان کے ٹھکانوں پرحملے کے مالی اخراجات سعودی عرب نے اسرائیل کو ادا کئے تھے جسکا انتقام لینے کیلئے 5 حملوں کے جواب میں جنوبی عراق سے 10 ڈرون سعودی کی طرف داغے گئے۔ عراقی وزیراعظم عادل عبدالمہدی  نے اس خبر کی سختی سے تردید کی ہے۔
اگر اس بات کو تسلیم کرلیا جائے کہ یہ ڈرون حوثیوں نے یمن سے داغے ہیں تو اس سے امریکہ کے جدید ترین پیٹریاٹ دفاعی نظام پر سوالیہ نشان اٹھ رہے ہیں کہ یمن سےاڑان بھرنے والے 10 ڈرون نے سعودی حدود میں  پانچ سو میل دور جاکر اپنے اہداف کو نشانہ بنایا اور اڑتی چڑیا کی شناخت کا دعوٰی کرنے والے  پیٹریاٹ کو اسکی خبر تک نہ ہوسکی جبکہ یہ کوئی پہلا حملہ نہ تھا۔ اس سے پہلے بھی اس قسم کے ڈرون ارامکو کی تنصیبات کو نشانہ بناچکے ہیں اور تازہ حملہ کسی بھی اعتبار غیر متوقع نہیں تھا۔ سعودیوں نے پیٹریات کی تنصیب پر 5 ارب 40 کروڑ ڈالر خرچ کئے ہیں۔ تاہم اس عطار سے دوا لینے والوں کی کمی نہیں۔ پیر کی دوپہر واشنگٹن آئے بحرین کے ولی عہد شہزادہ سلمان بن حمد الخلیفہ صدر ٹرمپ کے ساتھ ٹیلی ویژن پر نمودار  ہوئےاور ٖفخر سے اپنے ملک کیلئے پیٹریاٹ نظام خریدنے کا اعلان کیا۔ صدر ٹرمپ سیاست دان اچھے ہیں یا نہیں لیکن سیلز مین وہ غضب کے ہیں۔
امریکیوں کا اصرار ہے کہ حملہ ایرانیوں نے کیا ہے۔ امریکی وزیرخاجہ مائک پومپیو کا خیال ہے کہ اس حملے میں ڈرون کے علاوہ ایرانی کروز میزائل بھی استعمال ہوئے ہیں۔ سیاروں کی مدد سے حاصل کی جانیوالی تصویروں سے اندازہ ہوتاہے کہ انتہائی مہارت سے تنصیبات کو چن چن کر نشانہ بنایا گیا ہے اور دس میں سے ایک بھی ڈرون کا نشانہ خطا نہیں ہوا۔ امریکیوں کاکہناہے کہ جزیات کی ایسی موزونیت اور  کمال کی درستگی حوثیوں کے بس کی بات نہیں یا یوں کہئے کہ ایسی سادگی و پرکاری کا مظاہرہ صرف ایرانی کرسکتے ہیں۔ پیر کی صبح اپنے ایک ٹویٹ میں صدر ٹرمپ نے کہا 'ہمیں سعودی عرب  پر حملہ کرنے والے 'مجرموں' کے بارے میں کچھ اندازہ ہے۔ ہم کیل کانٹو ں سے لیس (Locked and loaded) تصدیق کا انتظار کررہے ہیں'۔ اقوام متحدہ میں امریکہ کی مستقل نمائندہ محترمہ کیلی کرافٹ نے بھی ایران کو اس حملے کا ذمہ دار قراردیا۔ مزے کی بات کہ شعلہ افشانی کے ساتھ بات چیت کیلئے بھی کوششیں جاری ہیں۔ امریکی صدر چاہتے ہیں کہ اقوام متحدہ کے سربراہی اجلاس کے دوراں انکی اپنے ایرانی ہم منصب سے غیر رسمی بات چیت ہوجائے۔
بحرینی ولی عہد کے ہمراہ صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے ایران پر براہ راست الزام لگانے سے گریز کیا اور ایک صحافی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ لگتا تو ہے لیکن  ابھی تک ایران کے ملوث  ہونے کی تصدیق نہیں ہوئی۔ فی الحال یہ کہنا مشکل ہے کہ اگر تحقیقات کے نتیجے میں ایران حملہ آور ثابت ہوگیا تو امریکہ کا ردعمل کیا ہوگا۔ جیسا کہ ہم نے عرض کیا اس واقعہ سے سب سے زیادہ امریکہ کو فائدہ پہنچا ہے۔ اسکی تیل کی صنعت نے دنیا میں پہلا مقام حاصل کرلیا۔ اسلحے کی تجارت عروج پر ہے۔ تیل کے حوالے سے چین اندیشہ ہائے دور دراز کا شکار ہوگیا ہےکہ بیجنگ کی صنعت درآمدی تیل کے رحم و کرم پر ہے۔ گویا چین سے تجارتی جنگ میں امریکہ کو واضح برتری حاصل ہوگئی ہے۔ دوسری طرف سعودی عرب کے ساتھ اسکے خلیجی حلیف بھی بے حد پریشان ہیں۔ حوثی یا (ایرانی) ڈرون کا بظاہرکوئی موثر توڑ نظر نہیں آرہا۔ حالیہ حملے نے سعودی معیشت پر کاری ضرب لگائی ہے جو 2015سے جاری جنگ، السیسی کی کفالت اور بحر احمر کے کنارے دور حاضر کے جدید ترین سیاحتی مرکز کے تعمیری اخراجات کی بنا پر  شدید دباو میں ہے۔ پہلے عراق میں تیل کی تنصیبات کو تہس نہس کیا گیا۔ عراقی تیل کی پیداواری لاگت دنیامیں سب سے کم تھی۔اسکے بعد بدقسمتی نے لیبیا کا رخ کیا۔ جسکا انتہائی لطیف اور کثافتوں سے پاک سدرہ لائٹ  Sidra Light تیل سب سے مہنگا فروخت ہوتا تھا۔ خاکم بدہن اب کہیں سعودی عرب کی باری تو نہیں۔ عراق اور لیبیا کی تباہی کے اخراجات عربوں نے برداشت کئے اور اب لگتا ہے کہ نادیدہ قوتوں نے یہ علم عجم کے انقلابیوں کو تھمادیا ہے۔
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 20 ستمبر 2019

No comments:

Post a Comment