بریگزٹ ۔۔ نگلنا مشکل، اگلنا ناممکن
برطانیہ بہادر
گزشتہ دوسال سے ایک عذاب کا شکار ہیں۔ فارسی کہاوت ہے کہ خودکردہ را علاج نیست،
یہاں یہ مصیبت انکی اپنی لائی ہوئی ہے۔ غریب و نادار مشرقی یورپین اور غیر ملکی تارکین وطن سے پیچھا
چھڑانے کیلئے برطانیہ کے انگریزوں نے یورپی یونین سے علیحدگی کا فیصلہ کرلیا۔
علیحدگی کے حامیوں نے ریفرنڈم کی مہم تحریک آزادی کے طور پر چلائی اور ایسا تاثر
دیا گیاکہ یورپ نے 'گریٹ برطانیہ' کو اپنا غلام بنایا ہوا ہے۔ انگریز عظمت رفتہ اور تجدید نشاۃ ثانیہ کی تلاش
میں ' انگریزوں' نے یونین سے علیحدگی یعنی
British Exit from EUیا BREXITکے حق میں فیصلہ
دیدیا۔ 23 جون 2016 کو ہونے والے ریفرنڈم میں انگلینڈ، مڈلینڈ اور ویلز نے علیحدگی
کے حق میں رائے دی جبکہ اسکاٹ لینڈ کے 62 فیصد اور شمالی آئرلینڈ کے 56 فیصد لوگوں
نے یونین میں رہنے پر اصرار کیا۔ اور تو
اور لندن شہر میں بھی 60 فیصد لوگ علیحدگی کے خلاف تھے۔ مجموعی طور پر صرف 52 فیصد
لوگوں نے علیحدگی کی حمائت کی۔
اس ریفربڈم کا پہلا شکار وزیراعظم ڈیوڈ کمیرون بنے جو یونین میں رہنے کے حامی
تھے۔ ریفرنڈم کے نتائج کو انھوں نے اپنے خلاف عدم اعتماد سمجھتے ہوئے وزارت عظمیٰ
سے استعفیٰ دیدیا۔ تھریسا مے نے اقتدار سنبھالتے ہی نئے انتخابات کروائے جس میں
کوئی بھی پارٹی اکثریت حاصل نہ کرسکی۔ اور قدامت پسند ٹوری پارٹی نے ادھر ادھر سے
اینٹ اور روڑا اکھٹا کرکے کنبہ جوڑ لیا۔
انگریزوں نے یورپی یونین سے علیحدگی کا فیصلہ تو بڑے طمطراق سے کیا تھا لیکن
جب علیحدگی کے مضمرات سامنے آئے تو قوم پرستی کا بھوت کافور ہوگیا۔ برآمدات پر
قدغن، یورپ کے دوسرے ملکوں میں قائم برطانوی اداروں کیلئے اضافی ٹیکس، سفر کیلئے
ویزا فیس اور دوسرے اخراجات کا سن کر چودہ طبق روشن ہوگئے۔ انھیں جلد اندازہ ہوگیاکہ
طلاق بڑی مہنگی پڑیگی۔
چنانچہ مذاکرات کا ڈول ڈالا گیا۔ پرانے تعلقات کی دہائی اور 'کون کہتا ہے کہ
ہم تم میں جدائی ہوگی' گنگناتی تھریسا مے نے علیحدگی کیلئے مذااکرات کے دوران برطانوی برآمدات کیلئے خصوصی مراعات کی درخواست
کی جسے مسترد کردیاگیا یورپی ئونین کا کہنا تھا کہ برطانوی تجارت ورلڈ ٹریڈ
آرگنائزیشن یا WTOکی شرائط پر ہوگی جسکے تحت جیسے کو تیسا کا اصول نافذ ہے یعنی تجارت کرنے والے
دونوں ملک ایکدوسرے پر یکساں شرح محصول
عائد کرینگے۔
برطانیہ چاروں طرف سے پانی میں گھرا ہواہے۔ یورپ سے اسکا زمینی تعلق صرف
ریپبلک آف آئرلینڈ کے ذریعے ہے اور برطانیہ کے صوبہ شمالی آئرلینڈ کی سرحدیں
ریپبلک آف آئرلینڈ سے ملتی ہیں۔ یورپی ممالک کے درمیان واقع سرحد پر افراد و اسباب
کی آمدوروفت پر کوئی روک ٹوک نہیں اسی بنا پر اسے نرم سرحد یا Soft Borderکہتے ہیں۔ برطانیہ کی خواہش ہے کہ یورپی یونین سے علیحدگی کے
بعد بھی آئرلینڈ سے متصل سرحد کو نرم ہی رہنے دیا جائے لیکن یورپی یونین برطانیہ
کے دونوں ہاتھوں میں لڈو دینےکو تیار
نہیں۔
ریفرنڈم کے بعد
یورپی یونین نے علیحدگی کی تکمیل کیلئے 29
مارچ 2019
کا ہدف طئے کیا تھا
لیکن جب وزیراعظم نے 'طلاق کی دستاویز'پارلیمنٹ میں پیش کی تو اسے بھاری اکثریت سے مسترد کرتے
ہوئے وزیراعظم کو ہدائت کی گئی کہ وہ یورپی یونین سے کچھ مراعات حاصل کرنے کی کوشش
کریں۔ دوسری طرف یورپی یونین 'تم روٹھے ہم چھوٹے' کے موقف پر قائم رہی تاہم ازراہ
عنائت علیحدگی کی تاریخ میں 31 اکتوبر کی
کی توسیع کردی گئی۔
پرکشش معاہدے کے
حصول میں ناکامی پر تھریسا مے مستعفی ہوگئیں اور جولائی کے آخر میں وزارت عظمیٰ سنبھالتے ہی وزیراعظم بورس
جانسن نے اعلان کیا کہ معاہدہ ہو یا نہ ہو برطانیہ 31 اکتوبر کو یوپی یونین سے
علیحدہ ہوجائیگا۔ اسکے لئے انھوں نےغیر
مشروط علیحدگی یا No deal, Hard exitکی اصطلاح استعمال کی۔ جناب بورس جانسن علیحدگی کی تحریک کے قائدین میں سے تھے
اور ریفرنڈٓم کے دوران انھوں نے قدامت پسند و قوم پرست رہنما نائیجل فراج کے ساتھ
مل کر علیحدگی کی زبردست مہم چلائی تھی۔
دارالعوام یا پارلیمنٹ کےموذیوں کا منہہ بند کرنے کیلئے بورس جانسن سے 10 ستمبر
سے 14 اکتوبر تک پارلیمنٹ کا اجلاس ملتوی کردیا جسے پارلیمانی اصطلاح میں التوا یا prorogationکہتے ہیں۔ بریگزٹ کیلئے یورپی یونین
کا سربراہی اجلاس 17 سے 18 اکتوبر تک برسلز میں ہوگا جس میں برطانیہ کی علیحدگی کا
فیصلہ کیا جائیگا۔ 14 اکتوبر کو نئے
پارلیمانی سال کے آغاز پر ملکہ معظمہ مشترکہ اجلاس سے خطاب کرینگی جسکے بعد
تقرئباً دوہفتے تک تمام کاروائی معطل کرکے شاہی خطاب پر بحث و مباحثہ ہوگا۔
وزیراعظم کو معلوم ہے کہ یورپی یونین برطانیہ کی شرائط کو تسلیم کرنے کو تیار
نہیں چنانچہ وہ چاہتے تھے کہ معاملے کو پارلیمنٹ میں لانے بغیر علیحدگی کی کڑوی گولی
برطانوی عوام کے حلق سے گزاردیں۔
تاہم3 ستمبر کو پارلیمنٹ میں دھواں
دھار بحث کے دوران غیر مشروط علیحدگی کی تجویز مسترد کرتے ہوئے وزیراعظم کو ہدائت کی گئی کہ
یونین کے سربراہی اجلاس کے دوران وہ
علیحدگی کیلئے تین ماہ توسیع کی درخواست
کریں۔ بورس جانسن کیلئے پریشانی کی بات یہ ہے کہ اس بار خود انکی پارٹی کے بہت سے
ارکان نے غیر مشروط علیحدگی کے حق میں رائے دی ہے۔
پارلمینٹ میں بدترین شکست پر انھوں نے مستعفی ہوکر نئے انتخابات کا عندیہ دیا
لیکن ارکان نے نئے انتخابات کو بریگزٹ کی تاریخ میں توسیع سے مشروط کردیا یعنی بے
چارے بورس جانسن کی گلو خلاصی کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔
پارلیمینٹ کی قرارداد کے مطابق وہ 17 اکتوبر کو ہونے والے یورپی یونین کے سربراہی اجلاس میں بریگزٹ کی
تاریخ میں توسیع کی درخواست کے پابند ہیں۔ ابھی یہ کہنا قبل ازوقت ہے کہ یونین
انکی استدعا قبول لرلیتی ہے یا 31 اکتوبر کو برطانیہ کیلئے ہری جھنڈی لہرادی
جائیگی۔
اگر یونین نے تاریخ میں توسیع کردی اور انتخابات میں برطانوی عوام نے اقتدار
کا تاج لیبر پارٹی پارٹی کے سرسجادیا تو برطانیہ میں علیحدگی کے سوال پر ایک اور
ریفرنڈم ہوگا۔ اس رائے شماری میں اگر برطانوی عوام نے علیحدگی کے فیصلے سے رجوع
کرلیا تو پھر یونین سے علیحدگی کی درخواست واپس لینے کی گزارش کی جائیگی۔
یہاں اتنے سارے اگر ، مگر یا ifاور butحائل ہیں کہ مستقبل کے برطانیہ کی صورت گری بہت مشکل معلوم
ہوتی ہے، بقول غالب ہوتاہے شب وروز تماشہ مرے آگے۔
No comments:
Post a Comment