اسرئیل کو تسلیم نہ کرنے کا غیر مبہم اعلان
کافی عرصے سے
یہ خبر گردش کررہی تھی کہ عمران حکومت
اسرائیل کو تسلیم کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔اس گمان کو تقویت
گزشتہ سال اکتوبر میں اس افواہ سے
پہنچی کہ اسلام آباد میں پاک
فضائیہ کے نورخان ہوائی اڈے پر اسرائیلی وزیراعظم نیتھن یاہو کا خصوصی طیارہ اترا اوراس سے برآمد ہونے والے 'چند افراد' کالے شیشوں والی ایک گاڑی میں
شاہراہ دستور کی طرف جاتے نظر آئے۔ صحافتی
حلقوں کا کہنا تھا کہ اومان جاتے ہوئے جناب نیتھن یاہو نے اسلام آباد رک کر اسلام آباد کی اعلیٰ سیاسی و عسکری قیادت سے
ملاقات کی تھی۔
یہ بھی
کہا جارہا تھا کہ معاشی پریشانیوں کے
دلدل اور کشمیر کے مسئلے پر سفارتی
تنہائی سے نکلنے کیلئے اسلام آباد نئے
حمائتی اور اتحادی تلاش کررہا ہے۔ملک کالبرل
اور روشن خیال طبقہ ایک عرسے سے
کہہ رہاہے کہ 'زمینی حقائق' کی بنا پر جیسے خلیجی ممالک اسرائیل سے متعلق اپنی دہا ئیوں پرانی پالیسیوں کو تبدیل کررہے ہیں ، پاکستان کو بھی ان سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس ماہ کے آغاز
میں ممتاز صحافی کامران خان نے ایک ٹویٹ کے ذریعے اس موضوع پر بحث پر آغاز کردیا
تھا۔ کچھ لوگوں کے خیال تھا کہ کامران خان
کا ٹویٹ پیغام دراصل ملک کے مقتدر طبقے کی جانب سے اس حساس مسئلے پر
عوامی ردعمل حاصل کرنے کی ایک کوشش تھا۔ کامران خان کی ٹویٹ کو موضوع بناتے ہوئے اسرائیلی اخبار ہرٹز Haaretzمیں ایک پاکستانی صحافی کنور خلدون شاہد کا ایک مضمون بھی شائع ہوا جس میں کہا
گیا کہ حساس و بدنام تجویز کو اب بحث کیلئے عوام کے سامنے پیش کردیا گیا ہے۔
تاہم وزیراعظم عمران خان نے ان تمام افواہوں کی
دوٹوک انداز میں تردید کردی۔ 26 ستمبر کو نیویارک میں ایشیا سوسائیٹی کی ایک تقریب
میں جب ان سے سوال ہوا کہ کیا موجودہ
حالات اور خارجہ پالیسی کے حوالے سے پاکستان کو درپیش مشکلات کے تناظر میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی کوئی
تجویز زیرغور ہے تو عمران خان نے بہت ہی دوٹوک انداز میں کہا' اس ضمن میں پاکستان کا موقف بہت واضح ہے جسکا اظہار بانی پاکستان قائداعظم نے 1947 میں کیا تھا یعنی جب تک فلسطین کا تنازعہ فلسطینی عوام کی امنگوں کے
مطابق حل نہیں ہوجاتا پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کریگا۔
وزیراعظم
کے اس جواب پر ملک کا لبرل طبقہ بے حد
مشتعل ہے اور انھیں سوشل میڈیاپر لعن طعن کا سامنا ہے ۔
No comments:
Post a Comment