وائسرائے والا رویہ
افغانستان میں 28
ستمبر کو صدارتی انتخابات ہورہے ہیں جن میں حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمتیار بھی امیدوار ہیں۔
نیٹو کی سرپرستی میں ہونے افغانستان میں انتخابات کی ساکھ بہت اچھی نہیں۔ گزشتہ صدراتی
انتخاب کے بعد تو خانہ جنگی کی نوبت آگئی تھی لیکن امریکی وزیرخارجہ جان کیری نے ڈاکٹر
اشرف غنی اور ڈاکٹر عبداللہ عبدللہ کو شرکت اقتدار پر راضی کرکے معاملہ ٹال دیا۔
اسی حوالے سے گزشتہ
روز حکمتیار نے افغان حکومت سے شفاف انتخابات کا مطالبہ کیا۔ اس مطالبے میں
حکمتیار تنہا نہیں۔ تقریباً تمام جماعتوں اور رہنماوں نے افغان الیکشن کمیشن کی صلاحیتوں پر تحفظات اظہار کیا ہے۔
حکمتیار نے ایک انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے الیکشن
کمیشن کو متنبہ کیاکہ انتخابات میں دھاندھلی یا بے ایمانی کے سنگین نتائج برآمد ہونگے۔ انھوں نے کہا کہ
ہم جمہوریت اور آزادی کی خاطر ہتھیار رکھ
کر اس نظام کا حصہ بنے ہیں ایسے اقدامات
نہ کئے جائیں جسکی بنا پر ہمیں اپنے فیصلے پر پچھتاوا محسوس ہو۔ ہماری لئے واپسی
کے دروازے کھلے ہوئے ہیں۔اس قسم کے بیانات
انتخابی مہم کا حصہ ہیں۔ اسکا جواب اگر
انکے مخالفین ، افغان حکومت اور الیکشن کمیشن
کی جانب سے آتا تو یہ معمول کی بات تھی۔
لیکن افغانستان میں جرمنی کے سفیر جناب پیٹر
پروول Peter
Prügel صاحب تمام سفارتی
آداب کو بالائے طاق رکھ کر پھٹ پڑے۔ اپنے ایک ٹویٹ میں انھوں نے حکمتیار کے بیان کو
دھمکی آمیز اور تشدد کی دعوت قراردیتے ہوئے اسے ناقابل قبول قراردیا۔ سفیر باتدبیر
یہاں پر رک جاتے تو بھی ٹھیک تھا لیکن موصوف
نے اس بنیاد پر حکمتیار کو انتخابات سے نااہل قراردیتے ہوئے انکے خلاف
قانونی کاروائی کا مطالبہ کردیا۔
ہمارے خیال میں جرمن
سفیر کا بیان نہ صرف غیر ضروری اور اشتعال
انگیز اور سفارتی رکھ رکھاو کے خلاف ہے بلکہ
اس سے ان لوگوں کی حوصلہ افزائی ہوگی جنکا خیال ہے کہ مغربی ممالک جمہوریت
اور انتخابات کے نام پر افغانستان میں اپنے وفادارمسلط رکھنا چاہتے ہیں۔ افغان وزارت
خارجہ کو چاہئے کہ وہ جرمن سفیر کو
ناپسندیدہ شخصیت قراردیکر انکی ملک سے فوری واپسی کا مطالبہ کرے۔
حکتیار کی جانب سے
اسلحہ رکھ کر جمہوری عمل میں شریک ہونے کے عمل کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہئے تاکہ
دوسرے عناصر بھی انکی پیروری کرتے ہوئے
بلٹ کے بجائے بیلٹ کا راستہ اختیار کریں۔
No comments:
Post a Comment