Thursday, September 12, 2019

صدار تی ٹویٹ !! معاملہ ختم یا دباو بڑھانے کی ایک کوشش


صدار تی ٹویٹ !! معاملہ ختم یا دباو بڑھانے کی ایک کوشش  
گزشتہ ہفتے ہم نے افغان امن کے حوالے سے کچھ خدشات کا ذکر کیا تھا۔ایک ہفتہ پہلے تک تو ایسا لگ رہا تھا کہ گویا امن معاہدے پر دستخط  اب چند دنوں کی بات ہے۔ امریکی وفد کے ترجمان زلمے خلیل زاد نے کچھ اسی انداز میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم اس امن معاہدے کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں جس سے افغانستان میں پائدار امن کا راستہ ہموار ہوجائیگا۔ دوسری طرف  طالبان مذاکرات کاروں کے ترجمان ملا سہیل شاہین نے بتایا کہ ہماری قیادت دستخط سے قبل  مسودے کی نوک پلک درست کررہی ہے۔انھوں نے معاہدے کی راہ میں کچھ رکاوٹوں کا اعتراف کرتے ہوئے پر امید لہجے میں کہا تھاکہ اگلے چند دنوں میں امن معاہدے پر دستخط ہوجائینگے۔
لیکن 5 ستمبر کو کابل میں خود کش دھماکے کو بنیاد بناکر صدر ٹرمپ نے امن مذاکرات کو یکسر معطل کردیا۔ غیر ملکی فوج کے قافلے پر حملے میں ایک امریکی اور رومانیہ کے ایک سپاہی سمیت 10 افراد مارے گئے جنکی اکثریت کاتعلق کابل انتظامیہ کے خصوصی دستے سے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ایک ٹویٹ پیغام میں کہا 'کابل حملے میں ہمارے ایک عظیم جنگجو سمیت 10 افراد مارے گئے جسکی ذمہ داری طالبان نے قبول کرلی ہے۔ اگر طالبان جنگ بندی نہیں کرسکتے تو اسکا مطلب ہے ان میں امن مذاکرات کی صلاحیت ہی نہیں۔ یہ کیسے لوگ ہیں جو سودے بازی کیلئے لوگوں کو قتل کررہےہیں۔ انھوں نے دھمکی آمیز انداز میں دریافت کیا کہ طالبان اور کتنی دہائیوں تک لڑسکتے ہیں۔ صدر ٹرمپ  نے اپنے ٹویٹ میں یہ انکشاف بھی کیاکہ انھوں نے طالبان کے سینئر رہنماوں اور افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی کو امن معاہدے پر بات چیت کیلئے امریکہ آنے کی دعوت دی تھی۔امریکی صدر کے مطابق طالبان سے انکی ملاقات کیمپ ڈیوڈ میں ہونی تھی۔ کیمپ ڈیوڈ امریکی دارالحکومت کے مضافات میں ایک پرتعیش مقام ہے جہاں امریکی صدر ہفتہ وار تعطیل کے دوران قیام کرتے ہیں۔ کسی غیر ملکی مہمان کو کیمپ ڈیوڈ کی دعوت اپنائیت اور اہمیت کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ صدر ٹرمپ طالبان اور افغان صدر دونوں کے دعوت نامے منسوخ کردئے۔ حالانکہ یہ ملاقاتیں الگ الگ ہونی تھیں۔
جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا تھاامن  معاہدے کے حوالے سے صدر ٹرمپ کو امریکی فوج، ریپبلکن پارٹی کے قدامت پسند حلقے، فوج اور حزب اختلاف کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا تھا۔ان لوگوں کے خیال میں یکطرفہ انخلا یاWithdrawal  دراصل ملاوں کے ہاتھوں شکست کا اعتراف ہے۔ اسی دوران یہ خبر بھی امریکی میڈیا پر آئی کہ جب قطر سے مذاکرات کے آخری دور کے بعد زلمے خلیل زاد کابل گئے اور انھوں نے امن معاہدے کے مسودے کی ایک نقل صدر اشرف غنی کو دکھائی تو افغان صدر نے اس پر سخت مایوسی کا اظہار کیا۔ عینی شاہدین کے مطابق زلمے خلیل زاد نے پشتومیں ڈاکٹر اشرف غنی سے کہا 'ڈاکٹر صیب مان جائیں، آپکو شکست ہوچکی ہے۔ اربوں ڈالر کی امداد کے باوجود آپکے سپاہی صدارتی محل کا دفاع بھی نہیں کرسکتے' یہ بات انھوں نے اتنی بلند آواز میں کہی کہ باہر بیٹھے صدارتی عملے نے بھی اسے سنا۔
طالبان اور امریکہ کے درمیان بات چیت کا سلسلہ 2018 کے آغاز سے جاری ہےجب امریکہ کی  نائب وزیرخارجہ برائے جنوب اور وسط ایشیا محترمہ ایلس ویلس (Alice Wells)نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان سے ابتدائی ملاقاتیں کیں۔لبنان میں ایک امریکی فوجی افسر کے گھر جنم لینے والی ایلس اردو، عربی، ہندی اور پشتو راوانی سے بولتی ہیں۔ نرم دم  گفتگو اور گرم دمِ جستجو ایلس کا بہت ہی موثر سفارت کار سمجھا جاتا ہے۔ موصوفہ آجکل لبنان میں امریکی کی سفیر ہیں۔
امریکہ کا خواہش تھی کہ طالبان ہتھیار رکھ کر کابل انتظامیہ سے براہ راست مذاکرات کریں تاکہ قیام امن کے بعد افغانستان سے فوجوں کو واپس بلایا جاسکے لیکن طالبان نے پہلی ملاقات میں ہی صاف صاف کہدیا کہ امریکیوں نے 7 اکتوبر 2001 کو افغانستان پر جب حملہ کیا اسوقت وہاں امارات اسلامی افغانستان پر طالبان کی حکومت تھی چنانچہ اس تنازع کے اصل فریق امریکہ اور طالبان ہیں جبکہ کابل انتظامیہ امریکہ کی نامزد کردیکٹھ پتلی حکومت ہے جس سے مذاکرات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اسکے ساتھ ہی  ملاوں نے امریکیوں کو یہ بھی  باور کرادیا کہ مذکرات صرف ایک نکاتی ایجنڈے یعنی افغانستان سے غیر ملکی فوج کی واپسی پر ہونگے۔
صدر ٹرمپ نے طالبان کے موقف کو تسلیم کرتے ہوئے افغانستان میں امریکہ کے سابق سفیر زلمے خلیل زاد کو اٖفغانستان کی تعمیر نو کیلئے خصو صی نمائندہ نامزد کرکے انھیں طالبان سے براہ راست مذاکرات کی ذمہ داری سونپ دی۔5 ستمبر 2018کو عہدہ سبنھالتے ہی جناب خلیل زاد نے پاکستان، افغانستان، ہندوستان،روس اور چین کا دورہ کیا اوران ملکوں کی قیادت کو افغان امن کے لئے امریکہ کی حکمت عملی سے آگاہ کیا۔
امن ٓمذاکرات کا پہلا دور  گزشتہ سال 12 اکتوبر کو ہوا جو بنیادی طور پر ایک تعارفی اجلاس تھا۔ اجلاس کے بعد جناب زلمے خلیل زاد بہت مطمئن نظر آئے اور اپنے ایک ٹویٹ میں انھوں ے گفتگو کو بے حد حوصلہ افزا قراردیا۔ لیکن جب موصوف کابل پہنچے تو انکا لہجہ بدل گیا۔ وہاں صحافیوں سےباتیں کرتے ہوئے انھوں نے اپنے مخصوص متکبرانہ لہجے میں فرمایا کہ اگر طالبان امن مذاکرات پر راضٰی  نہیں تو ہم جنگ کیلئے تیار ہیں۔ اس بیان پر سخت ردعمل سامنے آیا اور طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے ایک ٹویٹ میں  کہا کہ امریکی فوج تیاری کرلے ہم  گزشتہ 40 سال سے جہاد میں مصروف ہیں اور ہمیں کسی تیاری کی ضرورت نہیں۔
پانچ  ہفتوں بعد 16 اکتوبر کو ایک اور نشست ہوئی جس میں پسپا ہوتی امریکی فوج کیلئے محفوظ راستے کی فراہمی پر بات ہوئی۔ طالبان نے انخلا کے لئے پرامن و باقار راستے کی فراہمی کا وعدہ کیا۔  اسی دوران طالبان کے نائب امیر اور ملا عمر مرحوم کے دست راست ملا عبدالغنی برادر اخوند کی رہائی پر اتفاق ہوا۔ ملا برادر کو امریکی سی آئی اے اور آئی ایس آئی کی مشترکہ ٹیم نے فروری 2010 میں کراچی سے گرفتار کیا تھا۔ ملا صاحب 24 اکتوبر کو رہا کردئے گئے۔ اسی دوران حقانی نیٹ ورک کے بانی مولانا جلال الدین حقانی کے صاحبزادے انس حقانی بھی کابل جیل سے رہا کردئے گئے۔ انس حقانی کو سزائے موت سنائی گئی تھی۔اسکےدوسرے دن ابوظہبی میں طالبان کے ایک وفد اور امریکیوں کے درمیان ملاقات ہوئی
ملاقات کا ایک طویل اور انتہائی سنجید دور 19 جنوری سے  دوحہ میں شروع ہوا جس میں امریکہ نے افغانستان سے فوجی انخلا پر اصولی اتفاق کرلیا اور طئے پایا کہ اگلے مرحلے میں ملا عبدالغنی برادر طالبان کے وفد کی قیادت کرینگے۔
مذاکرات کا پانچواں دور اس سال 25 فروری کو شروع ہوا۔ جس میں ملا عبدالغنی برادر نے یقین دلایا کہ امریکی فوج کے انخلا کے بعد افغان سرزمین کو امریکہ یا کس اور ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیا جائیگا۔ طالبان نے امن معاہدے کے بعد کابل انتظامیہ سے مذاکرات پر حامی بھرلی۔ 16 دن جاری رہنے والا یہ اجلاس  نتیجہ خیز رہا جسکے بعد بعد ایک طویل ٹویٹ میں سربراہ زلمے خلیل زاد نے کہا کہ ' طویل ملاقات  کے اس مرحلے میں قیام امن کے حوالے سے مثبت پیش رفت ہوئی ہے۔ امریکہ اور طالبان دونوں جنگ کے خاتمے اور امن کے قیام کیلئے پرعزم ہیں اور بات چیت کے دوران مختلف امور پر شدید اختلاف کے باوجود ہم  درست سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں'۔ جناب خلیل زاد کا کہنا تھا کہ اگرچہ یہ مرحلہ بے نتیجہ ختم ہوگیا ہےلیکن ترجیحات اور ایجنڈے پر اتفاق ہوچکا ہے۔ جو کچھ اسطرح ہے:
·        بعدازامن انسدادِ دہشت گردی کے موثر و وقابل اعتماد اقدامات
·        افغانستان سے غیر ملکی فوج کا انخلا
·        افغان گروہوں کے درمیان بات چیت
·        جنگ بندی
مذاکرات کا نواں دور 22 اگست کو  شروع ہوا جو فیصلہ کن ثابت ہوا اورگفتگو کے اختتام پر جناب زلمے خلیل زاد نے وہ تاریخی اعلان کیا جسکا ذکر ہم ابتدا میں کرچکے ہیں یعنی افغانستان میں پائیدار امن کیلئے دونوں فریق میں اصولی اتفاق ہوچکاہے۔
اسی کے ساتھ امریکہ میں اس معاہدے کے خلاف زبردست مہم کا آغاز ہوا۔سینیٹ میں رپبلکن پارٹی کے رہنما سینیر لنڈسے گراہم کا ایک مقالہ واشنگٹن پوسٹ میں شایع ہوا جس میں انھوں نے متنبہ کیا کہ جلدبازی میں افغانستان سے واپسی 9/11جیسے ایک اور سانحے کا سبب بن سکتی ہے۔
چند ماہ پہلے سینیٹر لنڈسے گراہم کی تحریک پر امریکی سینیٹ فوری انخلا کے خلاف تحریک 28 کے مقابلے میں 68 ووٹوں سے منظور کرچکی ہے۔ قرارداد میں کہا گیا کہ داعش اور القاعدہ کی یقینی شکست سے پہلے شام اور افغانستان سے امریکی فوج واپس نہ بلائی جائے۔ صدر ٹرمپ نے قرارداد کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے کہا تھاکہ 18 سال میں پہلی بار اس جانب شاندار پیش رفت ہوتی نظر آرہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ داعش کو شکست ہوچکی ہے اور افغانستان میں بچی کچھی داعش کو طالبان ٹھکانے لگادینگے۔ امریکی صدر دوٹوک لہجے میں کہا کہ امن کیلئے طالبان کے اخلاص پر شک کی کوئی وجہ نہیں اور ہم محض ممکنات اور انجانے خوف کی بنا پر اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو ہمیشہ کیلئے میدان جنگ میں نہیں چھوڑسکتے۔
صدر ٹرمپ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ  ایک بار جب وہ فیصلہ کرلیں تو کسی مشیر یا وزیر کو خاطر میں نہیں لاتے لیکن افغان امن کے معاملے میں شدید دباو کی بناپرکچھ عرصے سے انکے لہجے میں تذبذب بڑاواضح تھا۔  فرانس میں G-7سربراہ کانفرنس کے دوران صدر ٹرمپ نے کہا کہ انھیں افغانستان سے واپسی کی کوئی جلدی نہیں۔ ساتھ ہی  انھوں نے اپنی یہ دھمکی بھی دہرائی کہ انکے لئے افغانستان پر قبضہ کچھ مشکل نہیں بس اسکے لئے  1 کروڑ افغانوں کو ہلاک کرنا پڑیگا۔ 29 اگست کو Foxریڈیو پر گفتگو کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا کہ امن معاہدے پر دستخط ہوتے ہی افغانستان میں امریکی فوج کی تعداد 14000 سے گھٹاکر 6800 کردی جائیگی جسکے بعد صورتحال کے مطابق بقیہ فوج کی واپسی کا فیصلہ ہوگا۔ انکا کہنا تھا کہ   داعش  یا القاعدہ کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کیلئے  افغانستان میں  سراغرسانی کا ایک موثر نظام برقرار رکھا جائیگا۔ صدر ٹرمپ نے دوٹوک انداز میں کہا کہ 'فوجی انخلا کے بعد بھی افغانستان پر نظر رکھی جائیگی معلوم نہیں طالبان اس پر تیار ہوتے ہیں یا نہیں؟'
صدر ٹرمپ کے بدلتے موقف پر طالبان نے کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔ انکا خیال تھا کہ امریکی صدر موذیوں کا منہہ بند کرنے کیلئے گل افشانیاں فرمارہے ہیں۔ ایک بار امریکی فوجیوں کا انخلا شروع ہوگیا تو خود امریکہ کی عسکری قیادت بھی مکمل انخلا پر راضی ہوجائیگی۔ دوسری طرف معاہدے کی سن گن ملتے ہی افغان فوجیوں نے طالبان سے ملاقاتیں شروع کردیں  اورخیال تھا کہ معاہدہ ہوتے ہی سرکاری فوج کا بڑا حصہ ملاوں سے آملے گا۔
اسی بنا پر سب سے زیادہ تشویش کابل انتظامیہ کو تھی جنھیں اپنے پیروں کے نیچے سے زمین سرکتی نظر آئی چنانچہ  قوت کے اظہار کیلئے کئی مقامات پر دہشت گردوں کی 'تلاش' میں مدارس و مساجد پر چھاپے کا آغاز ہوا۔ دوسری طرف جب امن معاہدے کا مسودہ امریکی وزیرخارجہ مائک پومپیو کو پیش کیا گیا تو انھوں نے اس پر دستخط سے انکارکردیا۔
طالبان نے فوجی دباو بڑھانے کیلئے صوبے قندوز کے صدر مقام کو حصار میں لے لیا اور یکم ستبمر سے طالبان نے اپنی کاروائیوں کا دائرہ بڑھاتے ہوئے قندوز کے مغرب میں بلخ،  مشرق میں تخار اور بدخشاں صوبوں کے گرد بھی گھیرا تنگ کردیا ہے۔ بغلان کے صدر مقام پل خمری کی فوجی جھاونی کو طالبان نے روند ڈالا تو ایرانی سرحد سے متصل فرح اور ہیرات صوبوں کی طرف بھی ملاوں نے پیشقدمی شروع کردی۔ جیسا کہ صدرٹرمپ نے اپنے ٹویٹ میں خدشہ ظاہر کیا کہ طالبان کی یہ  کاروائی امریکیوں کو یہ جتانے کیلئے تھی کہ امن معاہدہ انکی مجبوری نہیں اور وہ طاقت کے بل پر بھی اپنی بات منوا سکتے ہیں۔
اسی دوران طالبان نے 5 ستمبر کو کابل میں افغان اسپیشل فورس کے ایک تربیتی مرکز کونشانہ بنایا جو ششدرک کے علاقے میں ہے۔ ششدرک کابل کا انتہائی حساس علاقہ ہے جہاں امریکہ کی اہم فوجی تنصیبات اور دفاتر ہیں۔ ششدرک کے گرد 5 حفاظتی حصار ہیں جن میں سے آخری 2کی نگرانی نیٹو کے سپاہی کرتے ہیں۔ ہر حفاظتی چوکی پر گاڑیوں سے تمام افراد کو اتار کر اسباب و افراد اور گاڑی کی علیحدہ علیحدہ تلاشی لی جاتی ہے۔لیکن طالبان کا خودکش بمبار سب کو غچہ دیکر بارود سے لدی گاڑی لے کر تربیت گاہ تک پہنچ گیا۔اس حملے میں افغان فوجیوں کے ساتھ تربیت دینے والے امریکی اساتذہ بھی زد میں آگئے۔ ایک امریکی فوجی ہلاک اور کئی زخمی ہوئے۔
طالبان کے دورہ امریکہ  اور خفیہ ملاقات  کے پروگرام پر امریکہ کے قوم پرستوں نے آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے۔ ملاقات کی تاریخ اور جگہ کے انتخاب پرامریکہ کے جنگجو بے حد مشتعل ہیں۔ یہ ملاقات 8 ستمبر کو ہونی تھی جسکے 3 دن بعد 9/11حملےکی اٹھارہویں برسی ہے۔ 2001 میں امریکہ کے قلب پر کاری ضرب ہی افغانستان کے خلاف اس خوفناک فوجی کاروائی کا سبب بنی تھی جس میں انسانی حقوق کو بے دردی سے پامال کیا گیا۔ ستم ظریفی کہ خود امریکی سی آئی اے کے مطابق 9/11حملے میں اٖفغانستان کاایک بھی شہری ملوث نہیں پایاگیا۔ اس حملےکے بعد قومی لائحہ عمل طئے کرنے کیلئے ملک کی سیاسی و عسکری قیادت کا اہم ترین اجلاس بھی کیمپ ڈیوڈ ہی میں منعقد ہوا تھا۔ ریپبلکن پارٹی کے قدامت پسندوں کا کہنا ہے کہ ایسے وقت میں جب قوم 9/11کے 'شہدا' کا غم منارہی ہو ،اس بھیانک واقع کے ذمہ دار 'دہشت گردوں' کو کیمپ ڈیوڈ بلانا سوگواروں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔
ریپبلکن پارٹی کے قدامت پسندون کے ساتھ ملاوں کے امریکہ آنے کی خبر سن کر ڈیموکریٹک پارٹی کے لبرل و آزاد خیال عناصر بھی حب الوطنی کے بخار میں مبتلا ہیں اور برنی سینڈرز کے علاوہ امریکی صدارت کے خواہشمند سارے ہی امیدواروں نے افغانستان کے معاملے پر صدر ٹرمپ کی 'ٹویٹ ڈپلومیسی' کی شدید مذمت کی۔
امریکی ایوان ِ نمائندگان  (قومی اسمبلی) کی کمیٹی برائے  خارجہ امور کے سربراہ  ایلیٹ اینجل Eliot Engelنے زلمے خلیل زاد کو سماعت کیلئے طلب کرلیا ہے۔ وزارت خارجہ کے نام اپنے ایک خط میں جناب اینجل  نے کہا کہ  تاخیری حربےیا stonewallingکے بجائے مسٹر  خلیل زاد کو وضاحت کیلئے کمیٹی کے سامنے پیش کیا جائے تاکہ  کانگریس اور امریکی  کانگریس کو ان مذاکرت کی حدود وقیود، خدشات  و اندیشے اور (امن و بہتری کے)  مواقع کا  ادراک ہوسکے۔ خط میں چیئر مین صاحب نے شکوہ کیا کہ زلمے خلیل زاد اس سے پہلے کمیٹی کی جانب سے دو خطوط  کونظر انداز کرچکے ہیں۔
امریکی صدر کی جانب سے مذاکرات کی معطلی پر طالبان نے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ انکے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے متبنہ کیا کہ اسکے نتیجے میں امریکیوں کو مزید جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑیگا تاہم انھوں نے کہا کہ طالبان اب بھی تمام تنازعات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں۔
ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ صدر ٹرمپ امن مذاکرات کا دروازہ مستقلاًبند کرچکے ہیں یا یہ وقتی اشتعال کا نتیجہ ہے۔ صدر ٹرمپ ایک سریع لاشتعال شخصیت کے مالک ہیں جنھیں اپنے غصے پر قابو نہیں۔ وہ شمالی کوریا کے سربراہ سے ویتنام میں ملاقات کے دوران اسی طرح اچانک اٹھ کر چلےگئے  تھے لیکن کچھ ہی عرصہ بعد جنوبی کوریا کے دورے میں وہ کم جونگ انھ سے ملنے خود چل کر شمالی کوریا کی سرحد تک آئے۔
 افغانستان سے واپسی انکے انتخابی منشور کا اہم نکتہ تھا۔ صدر ٹرمپ کو یہ بھی معلوم ہےکہ وقت طالبان کے ساتھ ہے ۔سیاہ پگڑی والے اپنےگھروں میں بیٹھے ہیں اور انھیں لڑائی ختم کرنے کی کو ئی جلدی نہیں۔ جبکہ افغانستان میں قیام کا ایک ایک دن امریکی ٹیکس دہندگان کے خون پسینے کی کمائی نچؤر رہا ہے۔ امریکی عوام نہ صرف اپنی فوج کا خرچہ اٹھارہے ہیں بلکہ کابل انتظامیہ کا نان نفقہ بھی غریب امریکیوں کے سر ہے۔ ایک اندازے کے مطابق افغانستان میں بے ضرورت امریکی پڑاو کا خرچہ 19 کروڑ اٹھارہ لاکھ ڈالر یومیہ یا 70 ارب سالانہ ہے۔
امریکی وزیرخارجہ نے صاف صاف کہا ہے کہ جب تک طالبان ہتھیار رکھ کر کابل انتظامیہ سے مذاکرات پر راضی نہیں ہوتے ملاوں سے مزید بات چیت نہیں ہوگی۔ اگر یہ امریکہ کا سرکاری موقف ہے تو پھر بات چیت کے دروازے مقفل نظر آرہے ہیں کہ طالبان کیلئے یہ ناقابل قبول ہے۔ تاہم مختلف پیرائے میں اس قسم کی باتیں خود زلمے خلیل زاد اس سے پہلے کئی بار کرچکے ہیں۔ اسکے باوجود مذاکرات اختتامی مرحلے تک پہنچ گئے۔
تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ صدر کے ٹویٹ سے امن مذاکرات منسوخ نہیں بلکہ معطل ہوئے ہیں یا یوں کہئے کہ بات چیت میں تعطل آیا ہے اور گفتگو کے دوبارہ شروع ہونے کے امکانات ابھی باقی ہیں۔اس ضمن میں ایک مشکل مرحلہ 30 ستمبر کو ہونے والے اٖفغان صدارت کے انتخابات ہیں۔ ڈاکٹر غنی نے فوج کی مدد سے یہ انتخاب جیتنے کی تیاری کررکھی ہے جسکے بعد وہ افغان عوام کے منتخب نمائندے کی حیثیت سے سامنے آئینگے اور طالبان سے مذاکرات کیلئے انکے اصرار کو اخلاقی سند حاصل ہوجائیگی۔ اسی بنا پر صدر ٹرمپ اورطالبان دونوں چاہتے تھے کہ 30 ستمبر سے پہلے ہی  امن معاہدے پر دستخط ہوجائیں۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ اگلے 2 تین ہفتوں میں بات چیت دوبارہ شروع ہوسکے گی یا نہیں۔ اگر اس سمت کوئی مثبت پیشرفت نہ ہوئی تو پھر خطرہ ہے کہ طالبان ان انتخابات کو ناکام بنانے کی کوشش کرینگے جسکے نتیجے میں شدید خونریزی کا امکان ہے۔
ہفت روزہ فرائڈے اسپیشل کراچی 31 ستمبر 2019

No comments:

Post a Comment