طالبان امریکہ معاہدہ۔ شکوک وشبہات
کا شجر ِ زقوم
گزشتہ کئی ماہ سے
جاری افغان امن مذاکرات کے نویں اعصاب شکن
دور کے بعد امریکہ اور طالبان امن معاہدے کے مسودے پر متفق ہوگئے تھے۔ اجلاس کے
بعد امریکی وفد کے سربراہ زلمے خلیل زاد نے نوید سنائی کہ ایک ایسے معاہدے پر اصولی
اتفاق ہوگیا ہے جس سے افغانستان میں
پائدار امن کا راستہ ہموار ہوجائیگا۔ تاہم
انھوں نے وضاحت کی کہ جب تک صدر ٹرمپ
مسودے کو منظور نہ کرلیں کوئی بات حتمی نہیں۔ دوسری طرف طالبان کے ترجمان ملا سہیل شاہین نے
بھی امن معاہدے پر اتفاق کی تصدیق کردی۔
کابل کے سیاسی و
صحافتی حلقوں کےمطابق جب زلمے خلیل زاد نے متفقہ مسودے کی ایک نقل افغان صدر کو پیش کی تو ڈاکٹر اشرف غنی نے اس معاہدے میں
موجود کئی سنگین سقم کی طرف نشاندہی فرمائی
۔ افغان کے حکومتی حلقوں کے خیال میں معاہدہ کی بنیاد توقعات، حسن ظن اور امیدوں پر
رکھی گئی ہے جبکہ طالبان پر اعتماد اور ان
سے وفا کی امید رکھنا ہی فضول ہے۔ افغان
حکام کا خیال ہے کہ مذکرات میں طالبان نے امریکہ کو بری طرح بیوقوف بنایا ہے۔ زلمے خلیل زاد نے کابل انتظامیہ کے ان خدشات کو
بےبنیاد قراردیتے ہوئے کہا کہ بات چیت کے دوران طالبان کو یہ باور کرادیا گیاہے کہ
اگر انھوں نے دھوکہ بازی کی تو انھیں اسکی بہت بھاری قیمت ادا کرنی ہوگی۔
آج امریکی جریدے
ٹائم نے انکشاف کیاکہ خدشات کے پیش نظر امریکی وزیرخارجہ مائک پومپیو نے افغان امن
معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کردیا ہے۔ ضابطے کے مطابق وزیرخاجہ کی جانب سے
مسودے پر نظرثانی اور توثیق کے بعد اسے صدرٹرمپ
کو حتمی منظوری کیلئے پیش کیا جانا تھا۔ ٹائم نے یہ نہیں بتایا کہ فایل وزیرخارجہ کی میز پر رک گئی
ہے یا جناب پومپیو نے اپنے تحفظات کے ساتھ اسے صدرٹرمپ کو بھجوادیا ہے۔ واشنگٹن کے
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ امریکی وزارت خارجہ کی مخالفت کے باوجود صدرٹرمپ افغان
کمبل سے جان چھڑانا چاہتے ہیں جہاں امریکہ کا سالانہ خرچ 70 ارب ڈالر کے قریب ہے۔
No comments:
Post a Comment