Saturday, January 30, 2021

ایران کیلئے ایک متوازن سفارتکار کا انتخاب

ایران کیلئے ایک متوازن سفارتکار کا انتخاب

صدر جو بائیڈن نے جناب رابرٹ ملّے کو ایران کیلئے امریکہ کا خصوصی نمائندہ نامزد کیا ہے۔ اٹھاون سالہ مصری نژاد رابرٹ کا تعلق ڈیموکریٹک کے ترقی پسند دھڑے سے ہے جو خود کو جسٹس ڈیموکریٹس کہتے ہیں۔ اس دھڑے کے قائد و سرپرست تو سینیٹر برنی سینڈرز ہیں لیکن اسکی شناخت امریکی ایوان نمائندگان کی 'چارلڑکیاں' یعنی  الحان عمر، رشیدہ طلیب،  الیکزینڈریا کورٹیز المعروف AOC اور ایانا پریسلے ہیں۔اس 'چار کے ٹولے' کو صدر ٹرمپ 'اسکواڈ' کہتے تھے۔حالیہ انتخابات کے بعد اس 'ٹولے' میں ایک لڑکی کوری بُش اور ایک سرپھرے لڑکے جمال بومن کا اضافہ ہوگیا ہے۔ کیلی فورنیا کے رو کھنہ کے علاوہ تین دوسرے ارکان کے ساتھ ایوان نمائندگان میں جسٹس ڈیموکریٹس کا پارلیمانی حجم اب  10 ہے۔

رابرٹ کے والد سائمن ملے  نسلاً شامی نژاد مصری، مذہباً  یہودی اورسیاسی  اعتبار سے  بائیں بازو کے سرگرم کارکن و صحافی تھے۔ نظریاتی ہم آہنگی کی بنا پر  مصری صدر جمال ناصر سے انکی دوستی تھی اور وہ سرکاری اخبار الجمہوریہ سے وابستہ ہوگئے۔ اخوان المسلمون کے خلاف کاروائیوں کی انھوں نے مخالفت کی جسکی بنا پر جمال ناصر سے انکے تعلقات کشیدہ ہوئے اور اس سے پہلے کہ حالات زیادہ خراب ہوتے وہ نیویارک آگئے۔  جمال ناصر نے بھی دیرینہ دوستی کا پاس رکھتے ہوئے انھیں نیویارک میں الجمہویہ کا نمائندہ نامزد کردیا۔ یہاں سائمن کی ملاقات ایک امریکی خاتون صحافی باربرا سلوراسٹائن سے ہوئی جو الجزائر کی آزادی کیلئے سرگرم سیاسی جماعت نیشنل لبریشن فرنٹ (FLN) کی کارکن اور اقوام متحدہ میں FLNمبصرین  وفد کی رکن تھیں۔ جلد ہی دونوں سے شادی کرلی۔

رابرٹ ملے کی پیدائش نیویارک میں ہوئی۔ انکے والد اور والدہ کی انقلابی سرگرمیوں پر امریکی ایف بی ائی کو تشویش تھی چنانچہ والد صاحب اہلیہ اور چھ سالہ رابرٹ کو لے کر فرانس چلے گئے جہاں انھوں نے Afrique Asiaکے نام سے ایک رسالہ جاری کیا۔ کمیونسٹ خیالات کا حامل یہ جریدہ فلسطین سمیت افریقہ اور ایشیا میں آزادی کی تحریکوں کا زبردست حامی تھا۔ انقلابی سرگرمیوں کے سبب 1980 میں انھیں فرانس سے بھی نکال دیا گیا اور یہ خاندان واپس نیویارک آگیا۔

نیویارک واپس آکر رابرٹ نے جامعہ ییل (YALE) سے سیاسیات میں ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی جسکے بعد جامعہ ہارورڈ سے وکالت کا امتحان (JD)پاس کیا۔ تعلیم کے دوران اسرائیل فلسطین تنازعے پر رابرٹ کے کئی مقالے شایع ہوئے۔ انکے دور طالب علمی میں سابق امریکی صدر اوباما بھی ہارورڈ کے طالب علم تھے۔اپنی والدہ کی وجہ سے انھیں الجزایر کی سیاست سے بھی دلچسپی تھی۔ جب الجزائر میں اسلام پسندوں کی انتخابی کامیابی کو فوجی بوٹ سے کچلا گیا تو رابرٹ نے اس ظلم کے خلاف مضامین لکھے۔ سابق صدر بل کلنٹن نے انھیں قومی سلامتی کونسل میں نمائندہ برائے جمہوریت و انسانی حقوق تعینات کیا۔ 2008 کی انتخابی مہم میں انھوں نے صدراوباما کے کارکن کی حیثیت سے کام کا آغاز کیا لیکن جلد ہی خود اوباما نے انھیں کان پکڑ کر صرف اسلئے نکال دیا کہ اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی تھی کہ رابرٹ ملے حماس سے رابطے میں ہیں۔ رابرٹ کا کہنا تھا کہ وہ ایک صحافی کی حیثیت سے مشرق وسطیٰ کی تمام سیاسی قوتوں سے رابطے میں رہتے ہیں لیکن انکی ایک نہ سنی گئی۔

صدر اوباما کے دوسرے عہد صدارت میں 2012 کے وسط تک  ایران کا جوہری تنازعہ سنگین ہوگیا۔ اسرائیلی ترغیب کاروں (Lobbyists)نے اس خطرے کو اتنا بڑا بنا کر پیش کیا کہ ایرانی تنصیبات پر فوجی حملے کا مطالبہ زور پکڑ گیا۔ امریکہ اسرائیل سیاسی مجلس عمل یا IAPACنے زبردست مہم شروع کردی۔ اسوقت صدر اوباما نے رابرٹ ملے کو خلیج فارس پالیسی گروپ کا رکن نامزد کیا۔ مارچ 2014 میں جناب ملے مشرق وسطیٰ، شمالی افریقہ اور خلیجی امور پر صدر اوباما کے خصوصی مشیر مقرر ہوئے۔  اس تقرری سے جہاں اسرائیل اور انکے خلیجی اتحادیوں خاص طور سے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات شدید تشویش میں مبتلا ہوئے تو  وہیں امریکہ کے ان  یورپی اتحادیوں کو تقویت پہنچی  جو ایرانی جوہری تنازعے  کو بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہتے تھے۔ رابرٹ ملے کے آنے سےخود ایران کی جانب سے ہیجان میں کمی ہوئی۔

 رابرٹ ملے نے ایران سے رابطوں کا آغاز کیااور آخر کار جولائی 2015 میں وہ تاریخی جوہری معاہدہ ہوگیا جسے ایرانی برنامیج کہتے ہیں۔ انگریز ی میں اسکا مخٖفف JCPOAہے۔ اس معاہدے کے تحت ایران پابندیاں ختم کردینے کے عوض یورینیم کی افزودگی کو منجمد کردینے پر راضی ہوگیا۔ دوسرے مرحلے میں افزودگی کو اس سطح سے کم رکھا جانا ہے کہ جہاں یورینیم جوہری ہتھیار بنانے کیلئے استعمال نہ ہوسکے۔معاہدے پر سلامتی کونسل کے پانچوں مستقل ارکان کے علاوہ جرمنی نے بھی  دستخط کئے ہیں۔اسی لئے JCPOAکو 5پلس 1 معاہدہ بھی کہا جاتا ہے۔ اقتدار سنبھالنے کے ایک سال بعد 2018 میں صدر ٹرمپ نے امریکہ کو JCPOA سے علیحدہ کرکے ایران پر دوبار پابندیا عائد کردی تھیں۔

رابرٹ ملے کی بطور خصوصی نمائندہ  برائےایران تقرری کی سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو امریکی اسلحے کی فراہمی معطل کرنے، یمنی حوثیوں کا نام دہشت گردوں کی فہرست سے محدود مدت کیلئے ہٹانے، اسرائیل فلسطین دو قومی ریاست پر بائیڈن انتظامیہ کے اصرار اور جمال خاشقجی قتل کی تحقیقات کے تناظر میں دیکھا جائے تو مشرق وسطیٰ کے حوالے سے امر یکی حکومت کے طرز عمل میں ایک 'موہوم و مبہم' سی مثبت تبدیل کے آثار نظر آرہے ہیں۔

جناب رابرٹ ملے مشرق وسطیٰ امن کے حوالے سے کھل کر کہہ چکے ہیں کہ فلسطین میں حماس اور علاقے میں اخوان المسلمون بہت بڑی سیاسی قوت ہیں جنھیں غریبوں میں زبردست پزیرئی حاصل ہے۔ انکا خیال ہے کہ اخوان کے بارے میں  دہشت گرد وانتہاپسند ہونے کا تاثر غیر حقیقی ہے اور ساتھ ملا کر اخوانیوں کے روئیے کو مزید بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے سابق امریکی وزیرخارجہ ہلیری کلنٹن کا حوالہ دیا جس میں محترمہ نے علاقے میں قیام امن اور  خوشحالی کیلئےمصر میں اسوقت کی اخوانی حکومت کیساتھ مل  کر کام کرنے کا عزم ظاہر کیا تھا۔

رابرٹ ملے کا تقرر ہے تو خوش آئند لیکن انھیں امریکہ کی اسرائیل نواز سیاسی قوتوں کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑیگا جنکی جڑیں بہت گہری  اور پہنچ بہت دور تک ہے۔



 

Tuesday, January 26, 2021

بائیڈن انتظامیہ اور افغانستان

 بائیڈن انتظامیہ اور افغانستان

نئی امریکی انتظامیہ سے وابستہ توقعات و اندیشےاور ترجیحات کے حوالے سے ایک بات پر تمام تجزیہ نگاروں کا اتفاق ہے کہ  جوبائیڈن کا دور اپنے پیشرو سے بالکل مختلف ہوگا۔ صدر ٹرمپ ایک غیرروائتی صدر تھے جنھیں عملی سیاست کا کوئی تجربہ نہ تھا۔ 2016 میں انھوں نے اپنی زندگی کا پہلا انتخاب لڑا اور صدر منتخب ہوگئے۔ موصوف خود کو نہ صرف عقلِ کُل سمجھتے تھے بلکہ اسکا اظہار انھوں نے 20 جنوری 2017 کو حلف اٹھانے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں یہ کہہ کر کردیاکیا کہ انکی صدارت کا اولین ہدف واشنگٹن کے دلدل (swamp)کی تحلیل ہے۔ دلدل سے انکی مراد افسرشاہی کا بنیادی ڈھانچہ تھا جسکا  ذکر وہ بار بار کرتے رہے۔

اسکے مقابلے میں جو بائیڈن ایک منجھے ہوئے سیاستدان ہیں اور امریکی سیاست پر نظر رکھنے والوں کا خیال ہے کہ جو بائیڈن روائتی سیاستدانوں کی طرح بین الاقوامی امور پر  فیصلہ کرتے وقت امریکہ کے پالیسی ساز اداروں یعنی کانگریس کی کمیٹیوں اور مراکز دانش کی سفارشات پرعمل کرینگے۔

اگر فیصلہ سازی کے باب میں یہ تجزیہ درست ہے تو اسکا مطلب ہوا کہ افغانستان کے متعلق جو بائیڈن کی حکمت عملی پر نامزد وزیرخارجہ انتھونی بلینکن، قومی سلامتی کے مشیر جیک سولیون، سی آئی اے کے ٖنامزد ڈائریکٹر ولیم برنس اور وزیر دفاع جنرل (ر)لائیڈ آسٹن اثر انداز ہونگے اور یہ چاروں حضرات طالبان کے بارے میں منفی رویہ رکھتے ہیں۔ جنرل آسٹن 2003 میں ہلکے توپخانے پر مشتمل اپنے پہاڑی ڈویژن کو لے کر اس دعوے کے ساتھ افغانستان گئے تھے کہ ہمارے زمین سے زمین پر مار کرنے والے میزائیل اور  چٹانوں کر ریزہ ریزہ کردینے والی توپوں کے گولے پہاڑوں میں قلعہ بند ملاوں کے پرخچے اڑادینگے۔ اس وحشیانہ کاروائی کے نتیجے میں لاکھوں افغان شہری مارے گئے لیکن خون کی یہ ہولی طالبان کو بہت زیادہ نقصان نہ پہنچاسکی اور چار سال کی سرتوڑ کوششوں میں ناکامی کے بعد مزیدخونریزی کیلئےجنرل صاحب کو عراق بھیجدیا گیا۔ امریکہ کے تقریباً سارے جرنیل افغانستان میں ملاوں سے پنجہ آزمائی کرچکے ہیں اور بلااستثنا سب ہی کو کا ناکامی کا منہہ دیکھنا پڑا۔

انتھونی بلینکن اوباما حکومت میں نائب وزیر خارجہ، نائب مشیر سلامتی اور نائب صدر جوبائیڈن کے مشیر قومی سلامتی رہ چکے ہیں۔ انھیں اوباما کی افغان پالیسی کا معمار سمجھا جاتا ہے۔ افغانستان اور شمالی وزیرستان میں وحشیانہ ڈرون حملے انھیں کی تجویز تھی۔ مئی 2011 میں ایبٹ آپریشن المعروف 'اسامہ۔اوباماانتخابی ڈرامے کے مبینہ مصنف بھی موصوف ہی تھے۔ انکی معاونت وزارت خارجہ و قومی سلامتی کے اعلیٰ افسر اور معروف سفارتکار ولیم برنس کررہے تھے جنھیں صدر بائیڈن نے سی آئی کا سربراہ نامزد کیا ہے۔ ولیم برنس اور انتونی بلینکن دونوں کئی برسوں سے جو بائیڈن کے بہت قریب ہیں اور صدراوباما کے دور میں انھیں خاصہ عروج ملا۔ سیاہ فام ہونے کی وجہ سے صدر اوبامااس احساس کمتری میں مبتلا تھے کہ ملک کاسواداعظم انھیں اصلی اور مخلص امریکی نہیں سمجھتا۔مسلمان باپ اور درمیانی نام حسین کی وجہ سے قدامت پسند انھیں مسلمان ہونے کا طعنہ دیتے تھے چنانچہ صدراوباما نے افغانستان، عراق اور صومالیہ میں خونریز کاروائی کرکے خود کو دبنگ امریکی صدر ثابت کیا۔ اس کار خیر میں بلیکنن اور برنس صاحبان نے صدر اوباما کو بھرپور مدد فراہم کی۔

صدر بائیڈن کے حلف اٹھانے کے بعد اخباری نمائندوں سے اپنی پہلی ملاقات میں وہائٹ ہاوس کی ترجمان محترمہ جین پساکی نے نئی افغان پالیسی کےخدوخال بیان کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ قطر امن معاہدے پر نظر ثانی کرکے اس بات کو یقینی بنانا چاہتا ہے کہ افغان طالبان ملک میں تشدد میں کمی اور دہشت گرد عناصر سے اپنے تعلقات ختم کرنے سمیت اس معاہدے کے تحت کئے گئے  وعدوں کی پاسداری کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی انھوں نے یہ انکشاف بھی کیا کہ امریکی صدر کے مشیر برائے قومی سلامتی جیک سولیون نے اس معاملے کی  'تصدیق' کے لیے افغان حکام سے بات کی ہے۔ تصدیق کیلئے کابل سرکار سے  رابطہ انتہائی مہمل بات ہے کہ افغان حکومت نے قطر معاہدے کو پہلے دن سے تسلیم نہیں کیا۔ کابل کا موقف ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے انھیں امن مذاکرات سے الگ رکھا تھالہٰذاانکے لئے یہ معاہدہ  ناقابل قبول ہے۔

قطر معاہدے کی منسوخی پر کابل انتظامیہ کا اصرار اپنی جگہ لیکن امریکیو ں سمیت تمام عسکری تجزیہ نگار اس بات پر متفق ہیں کہ غیر ملکی فوجی مدد کے بغیر کابل انتظامیہ کیلئے طالبان کا مقابلہ آسان نہیں۔جزوی انخلا کے بعد افغانستان میں امریکی فوج کی تعداد اب صرف 2500 رہ گئی ہے۔ گزشتہ دنوں طالبان نے متنبہ کیا ہے کہ اگر قطر معاہدے کے تحت اس سال موسم گرما کے آغاز تک غیر ملکی فوج کا انخلا مکمل ہوا تو وہ قابض سپاہ پر حملے دوبارہ شروع کردینگے۔

امراللہ صالح اور جنرل عبدالرشید دوستم کے بلند و بانگ دعووں کے باوجود زمینی حقیقت یہ ہے کہ ملااسوقت سارے افغانستان میں سرکاری فوج کا تعقب کررہے ہیں اورطالبان سے جھڑپوں میں درجنوں سرکاری سپاہی ہر روز مارے جارہے ہیں۔ پشتون آبادیوں کے ساتھ فارسی بان علاقے بھی اب سرکاری فوج کیلئے محفوظ نہیں۔امریکہ کو بدترین معاشی بحران کا سامنا ہے اور اسکے لئے اضافی فوج افغانستان بھیجنا بہت مشکل ہے جبکہ  طالبان کیلئے بھی بذریعہ طاقت کابل پر قبضہ آسان نہیں۔ بہتر یہی ہوگا کہ جو بائیڈن دباو ڈال کر کابل انتظامیہ کو معقولیت پر مجبور کرے۔امریکی وزارت خارجہ کے ذرایع کہہ رہے ہیں کہ بائیڈن انتظامیہ امریکی مذاکراتی وفد کے قائد زلمے خلیل زاد کی مدت ملازمت میں توسیع پر رضامند ہوگئی ہے جو طالبان کا مطالبہ تھا۔

 ڈاکٹر اشرف غنی اور انکے احباب خاص طور حمداللہ محب اور امراللہ صالح اس امید پر کشیدگی کو ہوادے رہے ہیں کہ اگر طالبان اور امریکی فوج میں براہ راست جھڑپ شروع ہوگئی تو واشنگٹن اپنے جوانوں کے تحفظ کیلئے مزید فوج افغانستان بھیجنے پر مجبور ہوجائیگا جسکے نتیجے میں افغانستان کی مزید تباہی تو یقینی ہے لیکن اس طرح کابل حکومت کے تسلسل کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔


 

Thursday, January 21, 2021

برما، فلسطین اور سنکیانک۔۔ بربادی کی داستان

برما، فلسطین اور سنکیانک۔۔ بربادی کی داستان  

امریکی پارلیمان کے ایگزیکیوٹیو کمیشن برائے چین (CECC)نے مسلم اکثریتی صوبےسنکیانک (مقامی تلفظ شنجاک) سے ملنے والے نئے شواہد کی بناپر ترک نژاد چینی مسلمانوں یا ویغوروں (Uighurs)کی نسل کشی کاخدشہ ظاہر کیا ہے۔ جب 20 سال پہلے سابق صدر بش نے بیجنگ سے آزاد تجارت کا معاہدہ کیا، اسوقت امریکی پارلیمان نے چین میں مذہبی اقلیتوں سے بدسلوکی اور امتیازی قوانین یا قوانین کے متعصبانہ استعمال پر نظر رکھنے کیلئے CECCتشکیل دیا تھا۔ کمیشن کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی تحقیقات کا اختیار دیاگیا ہے۔ کمیشن اپنے ذرایع کے علاوہ انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کی مدد سے رپورٹ مرتب کرکے امریکی وزارت خارجہ، خزانہ اور بین القوامی تجارت کے شعبہ جات کو بروقت مطلع کرتا ہے۔  ہرسال ایک تفصیلی سالانہ رپورٹ بھی امریکی کانگریس کو فراہم کی جاتی ہے۔ امریکی وزارت تجارت، وزارت خارجہ اور وزارت محنت کے ایک ایک سینئر رکن کے علاوہ امریکی ایوان نمائندگان (قومی اسمبلی) کے نو ارکان اور 9سینیٹرز اس ادارے کا حصہ ہیں۔ اسوقت ڈیموکریٹک پارٹی کے جم مگ گورن CECCکے سربراہ اور ریپبلکن پارٹی کے سینیٹر مارکو روبیو انکی نیابت کررہے ہیں۔

جمعرات (14 جنوری) کو جاری ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سنکیانک کے یغور باشندوں کو ہراساں کرنے،قید وبند، بہیمانہ تشدد کے جو نئے شواہد ملے ہیں وہ انسانیت کے خلاف جرائم اور نسل کشی کی تعریف میں آتے ہیں۔ رپورٹ میں اقوام متحدہ کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ دس لاکھ سے زیادہ ویغور مسلمان بیگار کیمپوں میں بند ہیں جنھیں چین، فنی تربیت کے ادارے قرار دیتا ہے۔ کمیشن کے سربراہ جم مگ گورن نے کہا کہ انسانی حقوق کی ایسی خلاف وزریوں کی مہذب دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی اور اسے سن کی دل دہل جاتا ہے۔ جناب مگ گورن کا کہنا ہے کہ امریکہ کو ویغورعوام سے یکجہتی اور انکی پشت پناہی کیلئے عملی قدم اٹھانا چاہئے۔

ویغور ترکی النسل مسلمان ہیں جوچین کے شمال مغربی صوبے سنکیانک میں آباد ہیں۔ لسانی و مذہبی تنوع کی بناپر سنکیانک ویغور خودمختار علاقہ یا Xinjiang Uyghur Autonomous Region (XUAR)کہلاتا ہے۔رقبے کے اعتبار سے یہ چین کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ اسکی سرحدیں منگولیا، روس، قازقستان، کرغستان، تاجکستان ، افغانستان اور پاکستان سے ملتی ہیں۔ سی پیک CPECکے تحت شاہراہ قراقرم کا آغاز سنکیانگ کے دارالحکومت اڑمچی سے ہوتا ہے۔ اڑمچی سے درہ خنجراب تک اسکا نام شاہراہِ گنسو یا G-314 ہے۔سنکیانک کی کل آبادی سوا دوکروڑ کے لگ بھگ ہے جسکا 45 فیصد ویغوروں پر مشتمل ہے۔ نعمتیں بخشنے میں قدرت نے حد درجہ فیاضی سے کام لیا ہے۔ سنکیانک کا بڑا حصہ غیر آباد صحرا پر مشتمل ہے جسکی تہہ میں تیل و گیس کے چشمے ابل رہے ہیں۔ ارضیات کے طلبہ نے ٹیرِم میدان یا Tarim Basin کا نام ضرورسنا ہوگا۔ تیل وگیس کا یہ عظیم میدان سنکیانک کا حصہ ہے۔ ویغور زبان میں ٹیرم کو التی شہر کہا جاتاہے کہ یہ قریب قریب آبادچھ شہروں کامجموعہ ہے۔ ویغور زبان میں چھ کو التی کہتے ہیں۔مزےکی بات کہ جہاں سنکیانک کا بڑاحصہ گرم و خشک ہے تو کچھ علاقوں میں درجہ حرارت منفی 4 بھی رہتا ہے۔ایک طرف ہمارے رب نے اہل سنکیانک کو تیل و گیس کی دولت بخشی ہے تو دوسری طرف اس زرخیز سر زمین کاساڑھے چھ لاکھ مربع کلومیٹر علاقہ زیر کاشت ہے۔ سنکیانک کپاس کی پیداوار کے اعتبار سے دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔ دنیا کا ایک چوتھائی سے زیادہ اور چین کا 84 فیصد کپاس سنکیانک سے حاصل ہوتا ہے۔ اسکے علاوہ گندم، مکئی اور چاول کی فصل بھی بہت عمدہ ہے۔ عجیب اتفاق کہ ساری خوشحالی سنکیانک کے شمال اور مغربی علاقے میں ہے جہاں یغور آباد ہیں جبکہ چینی ہن کے علاقے انتہائی پسماندہ ہیں۔

معاشی خوشحالی کے ساتھ ویغور تعلیمی میدان میں بھی آگے ہیں۔ ارضیات، انجنیرنگ اور زرعی تحقیق کے ویغور ادارے سارے چین میں انتہائی موقر سمجھے جاتے ہیں۔ امریکہ کی تیل کمپنیوں میں درجنوں ویغور اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔ ویغور زرعی ماہرین سے چین کے دوسرے صوبے بھی مستفید ہوتے ہیں۔چین کے دوسرے علاقوں کے مقابلے میں سنکیانک زبان و تہذیب کے حوالے سے بہت متنوع ہے۔ اکثر لوگ چینی کے علاوہ ترکی، قازق، فارسی اور روسی زبان پر عبور رکھتے ہیں۔ 2012 میں جب افغانستان کے شمالی علاقوں میں تیل و گیس کی تلاش کا کام نئے سلسلے سے شروع ہوا تو اسوقت ہماراکابل اور شبر غن جانا ہوا جہاں چین کی سرکاری تیل کمپنی CNPCکو تلاش کا ٹھیکہ ملاتھا۔افغانستان میں تیل و گیس کی تلاش کا زیادہ تر کام قبضے کے دوران روسیوں نے کیا ہے اسلئے افغانستان میں تیل و گیس کے میدان کی زبان روسی ہے۔ جامعہ کابل میں شعبہ ارضیات کے اکثر سینئر اساتذہ روسی زبان پر عبور رکھتے ہیں اور ارضیات کے لیکچر فارسی، پشتو، روسی اور انگریزی کا ملغوبہ ہوتے ہیں۔ ہماری ملاقات کے دوران CNPCکے منیجر اور دوسرے افسران روسی ہی بول رہے تھےاور ایک پاکستانی مترجم انتہائی مہارت سے فارسی اور انگریزی میں منیجر صاحب کی گفتگو کا ترجمہ کررہے تھے۔ بات چیت کے بعد جب کھانے کادور چلا تو معلوم ہوا کہ موصوف اڑمچی سے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ سنکیانک میں تیل و گیس کے میدانوں کی سرکاری زبان روسی ہے۔

بدقسمتی سے سنکیانک کے یغور علاقوں کی خوشحالی ہی نے بیچاروں کو یہ دن دکھائے ہیں۔صوبے میں آباد ہن نسل کے چینی ویغوروں کی خوشحالی سے حسد میں مبتلا ہیں اور ماضی میں کئی بار فسادات ہوئے۔ کہنے کو تو سنکیانک خودمختار علاقہ ہے لیکن نظم و نسق، عدالت، پولیس اور سب سے بڑھ کر سراغرساں ادارے چینیوں کے قابومیں ہیں۔ وفاقی حکومت نے سرکاری سرپرستی میں ہن چینیوں کو شمال مغرب کے ویغور علاقوں میں آباد کرنے کا سلسلہ شروع کررکھا ہے۔ ویغوروں کو شروع میں اس بات پر اعتراض نہ تھاکہ اقتصادی ترقی کیلئے اضافی افرادی قوت کی ضرورت تھی اور ہن آبادکاروں کی شکل میں تیل کے میدانوں اور کپاس کی کاشت کیلئے مطلوبہ کارکن میسر آگئے۔کچھ عرصے بعد تیزی سے بڑھتی ہن آبادی پر مقامی یغوروں نے تشویش کا اظہار کیا اور  مقامی چینی کمیونسٹ پارٹی کو بھی شکائت کی گئی، لیکن وفاقی حکومت کا موقف تھا کہ  دیہی علاقوں سے غریب ہن افراد کی نقل  مکانی کا مقصد ان غریبوں کیلئے روزگار کے مواقع کو بہتر بنانا ہے۔

 کچھ ہی عرصے بعد ہن اور ویغوروں کے درمیان چپقلش شروع ہوگئی۔ ہن کارکنوں کا اعتراض تھا کہ ویغوروں کی گفتگو میں ترکی اورعربی کی آمیزش ہے جسکی وجہ سے انھیں بات چیت میں مشکل ہوتی ہے۔ کچھ کاکہنا تھا کہ صبح سویرے لاوڈاسپیکر پر فجر کی اذان سے انکی نیند میں خلل پڑتا ہے۔

اسی دوران کئی ہن لڑکیوں نے یغوروں سے شادی کرلی۔ چینیوں کے زردی مائل چہروں کے مقابلے میں ترکی الانسل یغور نسبتًا سرخ و سفید ہونے کے ساتھ ستواں ناک کی وجہ سے ہن خواتین کو زیادہ وجیہہ محسوس ہوتے ہیں۔ ایک اور بڑی شکائت مسلمانوں کا دعوتی انداز ہے جسکی وجہ سے بہت سی خواتین مسلمان ہوگئیں۔ سری لنکا اور ہندوستان کے مسلمان بھی اسی وجہ سے آزمائش میں ہیں بلکہ اسکے لئے اب جہادی عشق یا Love Jehadکی پھبتی کسی جارہی ہے۔ 

زبانی چھیڑ چھاڑ، ہلکی پھلکی مارپیٹ سے بڑھ کر مسلح تصادم کی شکل اختیار کرگئی۔ کئی جگہ اتشیں اسلحہ بھی استعمال ہوا۔ دور حاضر میں دہشت گردی کا نام پر سب کچھ جائز ہے چنانچہ 2014 کے وسط میں چینی فوج نے انسداد دہشت گردی کا علم اٹھاکر یغوروں کے خلاف بھرپور مہم کا آغازکیا۔ اسرائیلی فوج کی طرح 'دہشت گردوں' کے مکانوں بلکہ پوری کی پوری آبادیوں کو منہدم کردیا گیا۔ بعد میں خالی کرائی گئی ان زمینوں پر ہن بستیاں بس گئیں۔ لاتعداد نوجوان گرفتار کرکے بیگار کیمپ نما عقوبت کدوں میں پہنچادئے گئے۔

یہاں چینیوں نے جدت اختیار کی اور جیل خانوں کو 'ہنر سکھانے والے پیشہ ورانہ تعلیمی ادارے یا ’ووکیشنل ٹریننگ سینٹرز‘ کا نام دیاگیا۔ چینی وزرات ثقافت نے بہت فخر سے کہا کہ ہم دوسرے ممالک کی طرح شدت پسندوں کو قتل یا انکے خلاف طاقت استعمال نہیں کرینگے بلکہ پیارو محبت اور تعلیم کے ذریعے بیرونی دشمنوں کے جھانسے میں آنے والے ان  'معصوم بچوں' کی منفی سوچ کو تبدیل کیاجائیگا۔ تاہم حقوقِ انسانی کے لیے سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ ان کیمپوں میں صدر شی پنگ سے حلف، وفاداری کے ساتھ یہاں نظر بند افراد کو اپنے عقیدے پر تنقیداور اسے ترک کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ایک اندازے کے مطابق اس وقت دس لاکھ سے زیادہ ویغور افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔ چینی حکومت نظربند لوگوں کی تعداد کے بارے میں دس لاکھ کے عدد کو مبالغہ آمیز قراردے رہی ہے لیکن انسانی حقوق سے متعلق ایک اجلاس میں چینی سفیر نے یہ اعتراف کیا ہے کہ مذہبی شدت پسندی کی وجہ سے گمراہ ہوجانے والے ویغوروں کو معاشرے میں دوبارہ ضم ہونے کے قابل بنایاجارہا ہے۔ سعودی عرب اور پاکستان سمیت دنیا کے 18 مسلم ممالک نے چین کے اس موقف کی بھرپور حمائت اور ذہنی تربیت کے ذریعے شدت پسندی کے علاج کو قابل تحسین قراردیا ہے۔  

اسلام کے نام پر شدت پسندی اور اسکی آڑ میں علیحدگی کی تحریک کو کچلنے کیلئے اب باقاعدہ قانون سازی کیجارہی ہے۔ اس قانون کے مطابق حلال چیزوں کے تصور کو پھیلانا، سرکاری ٹی وی دیکھنے، ریڈیو سننے اور بچوں کو سرکاری تعلیم دلوانے سے انکار قابل دخل اندازی پولیس جرم ہوگا جس کے مرتکب افراد کو اصلاح اور ذہنی تربیت کیلئے 'ووکیشنل مراکز' منتقل کردیا جائیگا۔ان مراکز پر Mandarin(چینی زبان) کے علاوہ چینی ثقافت کی تعلیم دی جائیگی۔ انسانی حقوق پر نظر ر کھنے والے ادارے ہیومن رائٹس واچ (HRW)کی ڈائریکٹر برائے چین محترمہ صوفی رچرڈسن کا کہنا ہے کہ ظلم و جبر کے ایسے ہتھکنڈے جو انسان سے اسکے عقیدے کے مطابق عمل کرنے کا حق چھین لیں انھیں قانون نہیں کہا جاسکتا۔ قانون کے ابتدائیہ میں ایک مثال دی گئی ہے کہ دوکانو ں میں ٹوتھ پیسٹ خریدتے وقت اسکےحلال وحرام اجزا پر گفتگو سے عوام کی ذہنیت متاثر ہورہی ہے اور نوجوان  مذہبی شدت پسندی کا شکار ہو رہے ہیں۔ چینی حکومت حلال و حرام کی بحث کو ملک کی سیکیولر شناخت کیلئے نقصان دہ سمجھتی ہے۔ گزشتہ ماہ کمیونسٹ پارٹی کے سینئر رہنماوں نے سنکیانگ کے دارالحکومت اڑمچی میں لوگوں سے حلال وحرام کی بحث ختم کرنے کا وعدہ لیا۔ نئے قانون کے تحت اسکولوں میں مسلم طلبہ کوگھر سے کھانا لانے کی اجازت نہیں اور انکے لئے انتظامیہ کی جانب سے فراہم کیا جانیوالاکھانا نوش جان کرنا ضروری ہے اور لحم خنزیر کی صورت میں وہ کھانے سے انکاربھی نہیں کرسکتے۔ چینی کمیونسٹ پارٹی کا کہنا ہے کہ مذہبی بنیادوں پرکھانے کی تقسیم سے ملک کی قومی یکجہتی متاثر ہوتی ہے۔ رمضان میں بھی مسلمان طلبہ کے لئے اسکول میں لنچ کرنا ضروری ہے۔نئے قانون کے تحت خواتین کو اسکارف اوڑھنےکی اجازت نہیں کہ اس سے معاشرے میں ثقافتی دورنگی پیدا ہوتی ہے اور تو اور عوامی مقامات اور تقریبات میں تہنیت کیلئے سلام کے بجائے چینی زبان میں نیخاو (Ni Hao)کہنے پر اصرار کیا جارہا ہے۔ اس جبر کو ثقافتی تطہیر و تجدید کا نام دیاگیاہے۔

بی بی سی کے مطابق ووکیشنل سینٹر سے فرار ہوکر قازقستان پہنچنے والے ایک پروفیسرنے عدالت کے روبرو بیان حلفی میں کہا کہ وہ سیاسی تربیت کے کیمپ نہیں بلکہ پہاڑوں میں بنی ایک جیل تھی۔ وہ اسی حد تک ایک تربیت گاہ ہے کہ ہر صبح قیدیوں کو  ایک ترانہ سکھایا جاتا ہے ہے جسکا پہلا مصرعہ کچھ اسطرح ہے کہ ’کمیونسٹ پارٹی کے بغیر چین کا وجود ہی نہ ہوگا‘ دوسرے دن جو طالب عالم 'آموختہ' نہ سناسکے اسکو ناشتہ نہیں ملتا۔ایک اور سابق قیدی نے کہاکہ وہاں کلیدی سبق بس ایک ہی ہے یعنی 'چینی کمیونسٹ پارٹی کی عظمت، ویغور ثقافت کی پسماندگی اور چینی ثقافت کی جدت'

انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہناہے کہ ڈیڑھ کروڑ ویغور  ڈر کے سائے میں زندگی گزار رہے ہیں۔'ہرگام پہ چند آنکھیں نگراں ہرموڑ پہ اک لائیسنس طلب' یعنی ہرطرف سرکاری جاسوس جھانکتے اور سونگھتے پھر رہےہیں۔ جن مردوں کو گرفتار کیا گیا ہے ان کے گھروں کی حفاظت کیلئے فوجی تعینات کئے گئے ہیں جو سادہ کپڑوں میں گھروں کے اندر رہتے تاکہ بچوں پر خوف نہ طاری ہو۔ غیر مردوں کے گھر کے اندر رہنے سے خواتینِ خانہ اور انکی بچیاں جس ذہنی اذیت و کراہیت سے دوچار ہیں اسکا تصور بھی محال ہے۔

جبر وپابندی کے ساتھ زیرحراست قیدیوں سے جبری مشقت بھی لی جارہی ہے۔ہزاروں ویغور قیدی کپاس کی چُنائی کرتے ہیں۔ یہ دراصل انھیں کے کھیت ہیں جن پر حکومت نے قبضہ کرلیا اور یہ بدنصیب اپنی ہی مقبوضہ کھیتوں سےکپاس چُن کر سرکار کے حوالے کررہے ہیں۔تعمیراتی منصوبوں پر کام کرنے کیلئے ہزاروں قیدی مزدور کی حیثیت سے دوسرے صوبوں کو بھیج دئے گئےہیں اوریہ قیدی پارچہ جات یعنی  ٹیکسٹائل فیکٹریوں میں بھی بیگار کررہے ہیں۔

ویغور کبھی بھی شدت پسند نہیں  رہے۔ بنیادی طور پر یہ کاشتکار، کارخانہ دار اور تیل و گیس کی صنعت سے وابستہ مہندسین و ماہرین ہیں۔ یہ کئی دہائیوں سے چین کا خوشحال ترین علاقہ تھا۔ عوامی جمہوریہ چین کے بانی ماوزے تنگ نے سنکیانک کی  منفرد ثقافتی شناخت کا اعتراف کرتے ہوئے اسے 1955میں آزادوخودمختار علاقے کی حیثیت دی تھی۔یہاں ہن چینی بھی خوش و خرم رہ رہے تھے اور 2010 سے پہلے کسی قسم کی لسانی یا مذہبی کشیدگی کانام نشان تک نہ تھا۔

معلوم نہیں ترمیم پسند کمیونسٹ پارٹی پر یکسانیت کا خبط کیوں اور کیسے سوار ہوگیا۔ ڈیڑھ ارب آبادی والا ملک بالکل یک رنگا کیسے ہوسکتاہے؟ مغربی یورپ کے چھوٹے سے لکسمبرک میں بھی کہ جسکی آبادی چین کے ایک بڑے محلے سے بھی کم ہے پانچ سے زیادہ ثقافتی اکائیاں اور 7 مذاہب کے ماننے والے آباد ہیں۔ مساجد، گرجے، کنیسہ، مندر اور گوروارے سب شاد وآباد اورحلال، کوشر، ویجیٹیرین ہر نوع کے ریستوران اپنے شائقین سے بھرے ہوئے ہیں۔ شاہراہوں پر مقامی زبان کے ساتھ، فرانسیسی، پرتگالی، انگریزی اور جرمنی زبان کے کتبے اور نشانات ملک کی شان بڑھارہے ہیں۔

چین میں جنم لینے والا یہ انسانی المیہ تاریخ عالم کا پہلا واقعہ نہیں۔ چند برس پہلے برما کو اراکان مسلمانوں سے 'پاک' کردیا گیا۔ لاکھوں تہہ تیغ ہوگئے جو سخت جان تھے وہ جانوروں کی طرح بنگلہ دیش کی طرف ہانک دئے گئے کہ یہ 'خونِ خاک نشیناں تھا رزقِ خاک ہوا'۔ ایساہی کچھ فلسطین میں بھی ہورہا ہے۔

سارے مظالم کے دفاع میں چین کے سرکاری اخبار گلوبل ٹائمز لکھتا ہے کہ 'کچھ اقدامات تکلیف دہ ضرور ہیں لیکن ان سخت اقدامات ہی کی وجہ سے  یہ خطہ ’ شام‘ یا 'لیبیا‘ بننے سے محفوظ رہا ہے۔ ستم ظریفی کہ بہت سے مسلم ممالک کے فوجی حکمراں اور پس پردہ ڈور ہلانے والی مقتدرہ بھی جبر کے دفاع میں یہی دلیل دے رہی ہے۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 22 جنوری 2021

ہفت روزہ دعوت دہلی 22 جنوری 2021

روزنامہ امت کراچی 22 جنوری 2021

ہفت روزہ رہبر سرینگر 24 جنوری


2021