Thursday, January 14, 2021

اسی خاطر تو قتلِ عاشقاں سے منع کرتے تھے

شیطان کی آنت کی طرح طویل اور پیچ دیر پیچ امریکہ کے صدارتی انتخابات آخرِ کار 7 جنوری کو صبح چار بجے اختتام کوپہنچے۔ قارئین یقیناً حیران ہونگے کہ پچاس ریاستوں اور امریکی دارالحکومت سے آنے والے  انتخابی ووٹوں کے 51 لفافوں کی جانچ پڑتال میں 17 گھنٹے کیوں لگے؟ ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا۔ تاخیر کا باعث بننے والا تماشہ ساری دنیا نے دیکھا۔ اس ناٹک پر گفتگو سے پہلے حتمی نتائج کی تفصیل

سرکاری اور حتمی نتائج کے مطابق ڈیموکریٹک پارٹی کے جو بائیڈن 316 انتخابی ووٹ لیکر امریکہ کے 46 ویں صدر منتخب ہوگئے۔ انکے حریف صدر ڈانلڈ ٹرمپ نے 232 انتخابی ووٹ حاصل کئے۔ اسی کیساتھ شریمتی کملا دیوی ہیرس امریکہ کی 49 ویں نائب صدر چن لی گئیں۔ 78 سالہ جو بائیڈن امریکی تاریخ کے معمر ترین نومنتخب صدر ہیں تو ہیرس صاحبہ کو  امریکہ کی پہلی سیاہ فام ہند نژاد خاتون نائب صدر ہونے کا اعزاز حاصل ہوگیا

عام یا پاپولر ووٹوں کو گنا جائے تو صدر ٹرمپ کے 7 کروڑ 42 لاکھ (47 فیصد) ووٹوں کے مقابلے میں آٹھ کروڑ 13 لاکھ (51فیصد) امریکیوں نے جو بائیڈن کے حق میں رائے دی۔ ووٹ ڈالنے کا تناسب 66.7فیصد رہا جو گزشتہ ایک سو سال کے دوران ہونے والے انتخابات میں سب سے زیادہ ہے۔اس اعتبار سے 1996 کے انتخابات انتہائی مایوس کن تھے جب صرف 49 فیصد ووٹروں نے پولنگ بوتھ تک جانے کی زحمت گوارہ کی۔ ان انتخابات میں بل کلنٹن نے دوسری مدت کیلئے کامیابی حاصل کی تھی۔

تین نومبر 2020 کو صدارت کے ساتھ امریکی ایوان نمائندگان (قومی اسمبلی) اور ایوان بالا یعنی سینٹ کی ایک تہائی نشستوں کے انتخابات بھی منعقد ہوئے۔قصر مرمریں (وہائٹ ہاوس) کی کنجیاں کھودینےکے باوجود ایوان نمائندگان کے انتخابات میں ریپبلکن پارٹی کی کارکردگی بہت اچھی رہی اور 2018 کے مقابلے میں صدر ٹرمپ کی پارٹی نے اپنے پارلیمانی حجم کو 197 سے بڑھا کر 212 کرلیا۔اب 435 رکنی ایوان نمائندگان کی 222 نشستیں جو بائیڈن کی ڈیموکریٹک پارٹی کے پاس ہیں۔ گزشتہ انتخابات میں ڈیموکریٹس نے 232 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔واضح اکثریت کیلئے 218 نشستیں درکار ہیں یعنی برسراقتدار جماعت کو صرف 4 سیٹوں کی برتری حاصل ہے۔

سینیٹ کی 50 نشستیں ریپبلکن پارٹی کے پاس ہیں تو بقیہ 50 پر ڈیموکریٹس اور انکے دوآزاد اتحادی تشریف فرما ہیں۔ تاہم بربنائے عہدہ سینیٹ کی صدارت امریکی نائب صدر کے پاس ہے چنانچہ کملا ہیرس صاحبہ پچاس پچاس سے مقابلہ برابر ہوجانے کی صورت میں 'فیصلہ کن' (Tie-Breaker)ووٹ ڈال کر اپنی پارٹی کی نیّا پار لگاسکتی ہیں۔ اسطرح سینیٹ میں حکمراں جماعت کو'تکنیکی' برتری حاصل ہوگئی ہے۔حتمی نتائج کے بعد آتے ہیں 6 جنوری کو پیش آنے والے واقعے کی طرف جس نے امریکہ کے سیاسی کلچر بلکہ اسکے بنیادی جمہوری اقدار کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کردئے ہیں۔

 امریکی دارالحکومت اس سے پہلے بھی  حملوں کا نشانہ بن چکا ہے۔ واشنگٹن 1814 میں بڑی تباہی کا ہدف بناتھا جب   میجر جنرل رابرٹ راس (Robert Ross) کی قیادت میں حملہ آور برطانوی فوج نے شہرکی اینٹ سے اینٹ بجادی، امریکی صدر جیمز میڈیسن اپنے رفقا کے ہمراہ وہاں سے پہلے ہی فرار ہوچکے تھے۔ فرنگی افواج نے امریکی ایوان صدر اور دوسری  سرکاری عمارات کیساتھ امریکی  کانگریس (پارلیمان)  المعروف  Capitolکو بھی نذرآتش کردیا جو صرف چند سال پہلے ہی مکمل ہوا تھا۔

گیارہ ستمبر 2001 المعروف نائن الیون کو بھی امریکی دارالحکومت حملے کا ہدف تھا، جب امریکن ائر لائنز کی پرواز 77 واشنگٹن کے ہوائی اڈے سے اڑان بھرتے  ہی اغوا کرلی گئی۔ اغواکاروں نے اس جہاز کو امریکی وزارت دفاع (Pentagon)پر گرادیا جس سے جہاز پر سوار مسافروں اور عملے کے 64 افراد ہلاک ہوئے جبکہ زمین پر فوجی افسروں سمیت امریکی وزارت دفاع کے 125 اہلکار مارے گئے۔کہا جاتا ہے کہ اسی دن اغوا ہونے والی یونائیٹیڈ ائر لائز کی پرواز UA-93کا ہدف Capitolتھا لیکن مسافروں کی مبینہ مزاحمت کے باعث یہ جہاز پنسلونیہ میں گر کر تباہ ہوگیا۔ دروغ بر گردن راوی، کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ بدنصیب طیارے کو امریکی فضائیہ کے فضا سے فضا میں مار کرنےوالے میزائل سے گرایاگیا

برطانوی حملے کے تقریباً 206 سال بعد بدھ  6 جنوری  کو ایک بار پھر  Capitolیر غمال بن گیا۔ اس بار غیر ملکی فوج  نہیں بلکہ خود امریکی صدر کے اکسانے پرہزاروں قدامت پسند و قوم پرست  مظاہرین کانگریس  کی عمارت  میں گھس گئے۔ اسوقت 2020 کے صدارتی انتخاب کے نتائج کی توثیق و تصدیق کیلئے دونوں ایوانوں یعنی ایوان نمائندگان اور سینیٹ کامشترکہ اجلاس ہورہا تھا۔ امریکی نائب صدر بھی وہاں موجود تھے۔

یہ واقعہ ٖغیر متوقع نہیں تھا۔صدرٹرمپ نے امریکی صدارتی انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف کانگریس کے سامنے احتجاجی دھرنے کا اعلان کئی دنوں سے کررکھا تھے اور مظاہرے میں شرکت کیلئے دوسرے شہروں سے ہزاروں لوگ دو دن پہلے سے واشنگٹن پہنچنا شروع ہوگئے تھے۔ اس سے ایک دن قبل ریاست جارجیا میں سینیٹ کی دو نشستوں پر ضمنی انتخاب تھا اور کشیدگی کا آغاز پیر 4 جنوری سے ہوا جب صدر ٹرمپ اور نومنتخب صدر جو بائیڈن دونوں اپنے امیدواروں کے حق میں جلسے کرنے وہاں پہنچے۔صدر ٹرمپ نے جارجیا کے دیہی علاقے کے طوفانی دورے میں کئی مقامات پر عوام کے بڑے بڑے ہجوم سے خطاب کیا۔ہر جگہ انھوں نے اپنے حامیوں کو 'سوشلسٹوں' کے قبضے سے ڈرایا۔ اپنی تقریروں میں صدرنے عوامی مینڈیٹ کے تحفظ اور غداروں سے ملک بچانے کیلئے جارجیا کے ہر شخص کو واشنگٹن آنے کی دعوت دی۔ انھوں نے اپنے کارکنوں سے کہا کہ وہ ضمنی انتخابات کے دوران پولنگ اسٹیشنوں پر کھڑے رہیں،اسلئے کہ 'غدار گورنر' اور جارجیا کے نااہل سکریٹری آف اسٹیٹ عوامی منیڈیٹ کی چوری روکنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ جارجیا کے گورنر اور سکریٹری آف اسٹیٹ دونوں کا تعلق ریپبلکن پارٹی سے ہے اور گورنر برائن کیمپ نے بھرپورانداز میں صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم بھی چلائی تھی۔ لیکن صدر ان دونوں پر سخت برہم ہیں۔ سکریٹری آف اسٹیٹ نے نتائج میں کسی بھی قسم کے ابہام کو دور کرنے کیلئے ووٹوں کی تین بار گنتی کروائی لیکن نتیجہ تبدیل نہ ہوا۔ صدر ٹرمپ کا اصرار تھا کہ سکریٹری آف اسٹیٹ انتخابی نتائج کی تصدیق نہ کریں۔ صدر کی گورنر سے ہونے والی ایک بات چیت بھی منظر عام پر آئی جس میں جناب ٹرمپ سخت غصے سے کہہ رہے تھے  کہ 'میرے لاکھوں ووٹ چوری ہوئے ہیں، مجھے بس 11780 ووٹ مزید دلوادو'۔ جارجیا میں جو بائیڈن نے صدر ٹرمپ سے 11789ووٹ زیادہ لئے ہیں۔

جارجیا کے انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی نے دونوں نشستوں پر ٹرمپ کی ریپبلکن پارٹی کو ہرادایا، جس پر موصوف مزید اشتعال میں آگئے اور اپنے کارکنوں کے نام پیغام میں کہا کہ کمزوروں کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا اور اگر ان دھاندلیوں کو خاموشی سے برداشت کرلیا گیا تو پھر 'تمہاری  داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں'

مزے کی بات کہ مبینہ بدعنوانیوں اور انتخابی بے قاعدگیوں کے خلاف صدر ٹرمپ نے امریکی عدالتوں میں 50 سے زیادہ درخواستیں دائر کیں لیکن بلا استثنا انکی تمام انتخابی  عذرداریاں پہلی ہی  سماعت میں خارج کردی گئیں۔ انکی درخواستوں کو ناقابل سماعت قرار دینے والوں میں  سپریم کورٹ کے وہ تین جج بھی شامل ہیں جنکی تقرری خود صدر ٹرمپ نے کی تھی۔

اس سے پہلے ایک نشست میں ہم عرض کرچکے ہیں کہ امریکہ میں صدر کا انتخاب ایک انتخابی کالج کے ذریعے ہوتا ہے۔ انتخابی کالج کے ارکان یا الیکٹرز Electorsکا چناو عام انتخابات کے نتائج کے مطابق کیا جاتا ہے۔ دسمبر کی 14 تاریخ کو امریکی دارالحکومت اور تمام کی تمام 50 ریاستوں میں الیکٹرل کالج کے انتخابات ہوئے تھےجنکی تصدیق کیلئے 6جنوری کو نائب صدر کی سربراہی میں کانگریس کا مشترکہ اجلاس ہوا۔صدرٹرمپ چاہتے تھے کہ نائب صدر مائک پینس عوامی مینڈیٹ پر ڈاکے کو ناکام بنانے کیلئے پنسلوانیہ، مشیگن، وسکونسن اور ایریزوناسے آنے والے انتخابی کالج کے نتائج کو مسترد کردیں۔

نائب صدر نے یہ کہہ کر صدر ٹرمپ کا دباو مسترد کردیاکہ وہ کانگریس کا مشترکہ اجلاس قواعد و ضوابط کے مطابق چلائینگے۔ لیکن قدامت پسندوں کے زبردست دباو کی بناپر صدر کے حامی ارکانِ کانگریس نے توثیقی مرحلے کو روکنے کیلئے بھرپور مزاحمت کا عزم ظاہر کیا۔ ریپبلکن پارٹی کے تیرہ  سینیٹروں اور ایوان نمائندگان کے 140 سے زیادہ ارکان نے مختلف ریاستوں کے انتخابی نتائج کو کالعدم کرنے کی قرارداد سینیٹ سیکریٹیریٹ کو جمع کرادی۔اس مہم میں پیش پیش ٹیکسس کے سینٹر ٹیڈ کروز اور مزوری (Missouri)کے سینٹر جاش ہالی تھے۔ یہ دونوں حضرات 2024 کے صدارتی انتخابات میں قسمت آزمائی کرنا چاہتے ہیں۔

انتخابی ووٹوں کی تصدیق کے لئے کانگریس کا اجلاس ایک بجے دوپہر کو ہونا تھا۔ صدرٹرمپ کی اپیل پرسخت سردی کے باجود ہزاروں افراد کیپیٹل کے سامنے جمع ہوگئے جہاں فرزند اول ڈانلڈ ٹرمپ جونیر نے ارکان کانگریس کو متنبہ کیا کہ وہ قومی امنگوں کا خون کرنے کی سازش میں شریک ہوکر عوام کے غیض و غضب کا نشانہ نہ بنیں کہ امریکی قوم دھاندلی کے مجرموں کیساتھ جرم میں شریک ہر فرد کو نشان عبرت بنادیگی۔ ساڑھےگیارہ بجے جب صدر ٹرمپ جلسہ گاہ میں داخل ہوئے تو عوامی اشتعال عروج پر تھا۔ STOP THE STEELیعنی چوری روکو کے فلگ شگاف نعروں سے سارا دارالحکومت گونج اٹھا۔ڈیڑھ گھنٹہ طویل آتشیں خطاب میں امریکی صدر نےانتخابی  دھاندلی کو ملک پر سوشلسٹوں کے قبضے کا نقطہ آغاز قراردیا۔ انکا کہنا تھا کہ اگر مینڈیٹ کی چوری کو اس بار ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرلیا گیا تو ریپبلکن پارٹی قیامت تک کامیاب نہیں ہوسکے گی۔ ساتھ ہی انھوں نے اعلان کیا کہ جلسے کے بعد ہم کانگریس کی طر ف مارچ کرینگے تاکہ ارکان کو عوامی جذبات سے آگاہ کیا جاسکے۔ مزید جوش دلانے کیلئے انھوں نے کہا کہ میں بھی آپکے شانہ بشانہ رہونگا۔تاہم جلسے کے بعد امریکی صدر وہائٹ ہاوس واپس چلے گئے

جلسہ ختم ہوتے ہی 30 ہزار سے زیادہ کا مجمع USA, USA کے نعرےلگاتا CAPITOLکی طرف رونہ ہوا۔ عمارت کی سیڑھیوں سےسینیٹر جاش ہالی نے مُکّہ بناکر ہجوم کو مزید اشتعال دلایا۔ جاش ہالی صاحب ایک تجربہ وکیل اور اپنی ریاست کے اٹارنی جنرل رہ چکے ہیں۔

عمارت کے دروازوں پر معمور پولیس دھکم پیل میں پیچھے ہٹ گئی اور مشتعل ہجوم کئی دروازوں سےاندر داخل ہوگیا۔ بہت سے جیالے دیوار کے ذریعے چھت پر چڑھ گئے۔ اسوقت ایوان کا ماحول کشیدہ تھا اور ایریزونا کے انتخاب کو کالعدم کرنے کیلئے دھواں دھار بحث ہورہی تھی۔ سیکیورٹی اہلکاروں کیلئے ارکان کانگریس کی حفاظت پہلی ترجیح تھی چنانچہ دروازے پر تعینات نفری بھی اندر بلالی گئی  جنھوں نے قانون سازوں کو  حفاظتی حصار میں لے کر تہہ خانے پہنچادیا۔ داخلی راستہ صاٖف ہونے پر مزید مظاہرین اندر گھس آئے اور دفاتر میں توڑ پھوڑشروع کردی۔ بے قابو ہجوم کے ساتھ مغربی ورجنیا کی ریاستی اسمبلی کے رکن ڈیرک ایونز (Derrick Evans)بھی عمارت میں داخل ہوئے اور فاضل قانون ساز یہ تمام مناظرسوشل میڈیا پر براہ راست دکھاتے رہے۔حساس مقامات پر بلااجازت داخلے، ہجوم کو تشدد پر اکسانے اور کارِ سرکار میں مداخلت پر موصوف کو پولیس نے گرفتار کرلیا۔ایک وفاقی جج نے انھیں ذاتی ضمانت پر رہا کرتے ہوئے استغاثہ کو حکم دیا کہ جناب ایون کیخلاف جلد از جلد فردجرم ترتیب دیجائے۔

اس دوران پولیس کے ایک افسر کو مظاہرین نے دروازے کے دو پٹ کے درمیان پھنسا دیا، ویڈیو پر اس افسر کی دردناک چیخیں اب بھی ہمارے کانوں میں گونج رہی ہیں۔ دوسرے پولیس افسر کو زمین پر گراکر بری طرح پیٹا گیا۔ پولیس نے بلوے کے دوران ایک پولیس افسر کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔ معلوم نہیں یہ وہ بدنصیب تھا جسے دروازے میں پھنسایا گیا یا لاٹھی، مکوں اور لاتوں کا نشانہ بننے والا افسر ہلاک ہوا۔ پولیس کی فائرنگ، چھت سے گر کر، دل کے دورے اور بھگڈر میں کچل جانے سے دو خواتین سمیت چار مظاہرین اپنی جان سے گئے۔ صورتحال قابو سے باہر ہوتے دیکھ کر نیم فوجی دستے طلب کرلئے گئے۔ دوسری طرف دارالحکومت کی رئیسہِ شہر نے 24 گھنٹے کا کرفیو لگادیا۔مظاہرین کے منتشر ہونے کے بعد جب صورتحال قابو میں آئی تو  تصدیق کی کاروائی دوبارہ شروع ہوئی اور صبح چار بجے تمام ریاستوں کے انتخابی ووٹوں کی جانچ پڑتال کے بعد انتخابات کے سرکاری نتائج کا اعلان کردیا جسکے فوراً صدر ٹرمپ نے اپنے ایک بیان میں دھاندلی اور بے ایمانی کے شکوہ شکائت کے بعد پرامن انتقال اقتدار کی یاددہانی کرادی۔ امریکی تاریخ کی کامیاب ترین پہلی صدارتی مدت کی تکمیل پر بیس جنوری کو اقتدار نئی انتظامیہ کو منتقل کردیا جائیگ۔انتخابات میں بدترین دھاندلی کی گئی۔اقتدار سے سبکدوشی کے بعد بھی امریکہ کو عظیم ترین بنانے کی تحریک المعروف MAGAجاری رہیگی

یہ تو اس واقعے کی روداد ہے لیکن اس پوری کاروائی کے دوران قانون نافذ کرنے والے ادارے کے روئے نے امریکہ کے نظام انصاف کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کردئے ہیں۔ اس ضمن میں خفیہ ایجنیسیوں نے انکشاف کیا ہے کہ نیویارک اور کئی دوسرے شہروں کے پولیس افسر بھی مظاہرین میں شامل تھے جنھوں نے اپنے سرکاری بیج اور شناختی علامات کو کئی حساس دفاتر کے دروازے کھولنے کیلئے اسےاستعمال کئے۔

گزشتہ برس مئی کے مہینے  میں ایک نہتے سیاہ فام جارج فلائیڈ کے بہیمانہ قتل کے خلاف واشنگٹن میں ہفتوں مظاہرے ہوئے لیکن عمارت کے اندر جانا تو دور کی بات مظاہریں کو بیرونی جالیوں سے بھی دوسو گز کے فاصلے پر رکھا گیا۔ جب صدر ٹرمپ نے قریب واقع گرجا جانے کی خواہش کا اظہار کیا تو پولیس نے پرامن مظاہرین پر وحشیانہ تشدد کرکے انکے لئے راستہ بنایا۔ ان عمارات کے معاملے میں  پولیس کتنی حساس ہے اسکا اندازہ بات سے لگائیں کہ اکتوبر 2013 میں ایک 34 سالہ سیاہ فام Dental Hygienist مریم کیسی قریبی ریاست کنیٹی کٹ سے گھومنے کیلئے واشنگٹن آئی، گاڑی کی پچھلی نشست پر اسکی 13 ماہ کی بچی اپنے گہوارے میں تھی۔ غلطی سے مریم اس لین میں چلی گئی جو وائٹ ہاوس کو جاتی ہے۔ داخلے کا گیٹ سامنے آجانے پر مریم کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ اسوقت تک اسکے لئے لین بدلنا ممکن نہ تھاچنانچہ اس نے اپنی گاڑی کو واپس موڑا جسے ٹریفک کی اصطلاح میں تھری پوائنٹ یو ٹرن کہتے ہیں۔ اسے رکنے کا حکم دیا گیا جو وہ غالباً نہ سن سکی اور موڑ کاٹ کرمرکزی شاہراہ کی طرف رونہ ہوئی۔ اسکا پیچھا کرنے والی مسلح پولیس نے بلا تنبیہ اس پر فائرنگ کی۔ مریم کو سر کے پچھلے حصے اور گردن پر آٹھ گولیاں لگیں۔ کیپٹل کے پاس اسکی گاڑی بےقابوہوکر پولیس ناکے پر کھڑی رکاوٹ سے ٹکراگئی۔ جواں سال سال لڑکی موقع پر ہی ہلاک ہوگئی تاہم بچی معجزانہ طور پر محفوظ رہی۔ مریم کی گاڑی پر بچے کی موجودگی کا نشان بھی لگاتھا۔ انتطامیہ نے واقعے کی ذمہ داری مریم پر عائد کرتے ہوئےفائرنگ کرنے والے تمام افسران کو بے قصور قراردیدیا۔

کیپیٹل کے اندر جانے والے ہرفرد کو کو جسم و اسباب کی تلاشی دینی ہوتی ہے اور اس عمل سے ارکان کانگریس بھی مستثنیٰ نہیں لیکن تصویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ مظاہرین نے اپنی پشت پر بیگ (back pack)اٹھائے ہوئے تھے۔ پولیس کے مطابق بہت سے مظاہرین مسلح تھے۔ پلاسٹک کی سینکڑوں ہتھکڑیاں بھی انکے پاس تھیں جس  سے اندازہ ہوتا ہے وہ 'باغی' ارکان کانگریس کو یرغمال بنانے کی نیت سے آئے تھے۔ عمارت کے دروازے پر کھڑی گاڑیوں میں پیٹرول اور پائپ بموں کا ذخیرہ تھا۔ سوال یہ ہے کہ امریکی دارالحکومت جہاں ہر آنے والے پر جدید ترین آلات اور اسکینرز کی مدد سے نظر رکھی جاتی ہے، بموں سے لدی گاڑیاں کیپیٹل تک کیسے پہنچیں۔ امریکی کانگریس نے اس پورے واقعے کی تحقیقات کا عندیہ دیا ہے

یہ واقع اچانک نہیں ہوا۔ صدر ٹرمپ کئی دنوں سے اپنے حامیوں کو واشنگٹن آنے کی دعوت دے رہے تھے اور اس مقصد کیلئے مخلتف شہروں سے خصوصی بسیں چلائی گئیں۔  دارالحکومت  واشنگٹں ڈی سی کی رئیسہ شہر (Mayor)محترمہ میوریل  باوزر Muriel Bowserنے بتایا کیا کہ انھوں نے دھرنے کے پیش نظر وفاقی حکومت سے نیم فوجی دستے تعینات کرنے کی درخواست کی تھی۔ قریبی ریاست میری لینڈ کے گورنر نے انکشاف کیا کہ جیسے ہی صدر ٹرمپ کا جلسہ شروع ہوا رئیسہ شہر نے ان سے صوبائی پولیس اور نیشنل گارڈ (نیم فوجی دستہ)بھیجنے کی درخواست کی جس پر انھوں نے فوری طور پر اپنی ریاست کے گارڈز کو دارالحکومت جانے کا حکم دیا لیکن کمانڈر نے بتایا کہ انھیں امریکی فوج کی طرف سے کوچ کی اجازت نہیں ملی۔ دس جنوری کو صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے محترمہ موریل نے  دارالحکومت کو ریاست کا درجہ دینے  اور وفاقی نیشنل گارڈ کی کمان  فوری طور پر شہری قیادت کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا۔انھوں نے صدرٹرمپ کو 6 جنوری کے ہنگامے کا براہ راست ذمہ دار قرار دیا۔ پولیس کی نااہلی پر شدیدرد عمل کا اظہار کرتے ہوئے موریل صاحبہ نے واشنگٹن کے  پولیس سربراہ اسٹیون سنڈ (Steven Sund) سے استعفی بھی لے لیا۔

امریکہ کی سیاسی قیادت مئیر صاحبہ کے تجزئے سے متفق ہے اورسینیٹ کے نئے قائد ایوان چک شومر نے صدر ٹرمپ کے روئے کو دماغی خلل قرار دیتے ہوئے انکی معزولی کی تجویز پیش کی ہے۔ انھوں نے نائب صدر سے کہا ہے کہ وہ 25 ویں آئینی ترمیم کی روشنی میں اختیارات سنبھال کر صدر ٹرمپ کو گھر بھیج دیں۔ سینیٹر شومر نے دھمکی دی ہے کہ اگر وفاقی کابینہ اورنائب  صدر نے اپنی ذمہ داریاں پوری نہ کٰیں تو وہ معزولی کی قرارداد سینیٹ میں پیش کرینگے، اب صدر ٹرمپ کے کئی قریبی رفقا بھی ان سے لاتعلقی کا اعلان کررہے ہیں۔وزیر مواصلات  (Transportation)محترمہ  ایلین چاو  مستعفی ہوگئیں۔ایلین چاو صاحبہ سینیٹ کے قائد ایوان  مچ مک کانل کی اہلیہ ہیں۔اسکے دوسرے دن وفاقی وزیر تعلیم  بیٹسی ڈیوس نے استعفی دیدیا۔محترمہ ڈیوس بدنام زمانہ بلیک  واٹر  کے بانی ایرک پرنس کی ہمشیرہ اور صدر ٹرمپ کی نظریاتی حلیف ہیں۔

امریکی کانگریس کی اسپیکر نینسی پلوسی نے جوائنٹ چیف آف اسٹاف  جنرل مارک ملی سے بات کرکے  جنرل کو بتادیا کہ صدر ٹرمپ کا دماغی توازن درست نہیں اور انھیں ڈر ہے کہ کہیں  فوج کے کماندار اعلی کی حیثیت سے وہ  غیر ذمہ دارانہ عسکری مہم جوئی نہ کر بیٹھیں۔اسپیکر صاحبہ کا کہنا تھا کہ انھیں جوہری ہتھیار کے حوالے سے شدید تحفظات ہیں ۔

ابلاغ عامہ نے صدر ٹرمپ کے دھرنے کا بائیکاٹ کیا اور فاکس نیوز کے علاوہ کسی چینل نے صدر کی تقریر براہ راست نہیں دکھائی۔ ٹویٹر اور فیس بک نے صدرکے کھاتے (اکاونٹ) معطل کردئے ہیں۔

واشنگٹن کے ہنگامے پر ردعمل یقیناً فطری ہےلیکن ہمارے خیال میں بعد ازخرابی بسیار یہ قدم اٹھایا گیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز ہی نفرت کی شاہراہ سے کیا تھا۔ وہ انتخابی مہم کے دوران مسلمانوں کو دہشت گردکہتے رہے اور صاٖف صاٖف کہا کہ برسر اقتدار آتے ہی وہ مسلمانوں کا امریکہ میں داخلہ بند کردینگے۔ وعدے کی تکمیل میں انھوں نے 6 مسلم ممالک کے ویزوں پر پابندی لگادی۔ اس متعصبانہ قدم کو سپریم کورٹ نے توثیق سے سرفراز کیا۔ صدر ٹرمپ ہسپانوی تارکین وطن کو rapist، غنڈے، جرائم پیشہ، قاتل اور منشیات فروش قراردیتے رہے لیکن نہ تو ٹویٹر نے کوئی کاروائی کی نہ فیس بک نے انھیں کوئی تنبیہ جاری کی۔ اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ سوشل میڈیا مرے کو سو درے لگارہا ہے۔ انھیں معلوم ہے کہ جناب ٹرمپ کا باب اب بند ہوچکااور وہ صدارتی فرمان کے ذریعے ان اداروں کے خلاف کوئی تادیبی کاروائی نہیں کرسکتے تو اب فیس بک اور ٹویٹر کیساتھ یوٹیوب کے 'ضمیر کی خلش' بھی اب ناقابل برداشت ہوگئی ہے۔

بلیک لائیوز میٹر (BLACK LIVES MATTER)کے رہنماوں نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر چھ جنوری کو قوم پرست گوروں کے بجائےسیاہ فاموں کا ہجوم کانگریس کی عمارت میں گھسنے کی کوشش کرتا تو روکنے کیلئے گولیاں نہیں انکے خلاف بم اور  میزائیل استعمال ہوتے اور پینٹاگون جو نیشنل گارڈ بھیجنے سے ہچکچا رہا تھا، ٹینک، بکتر بند  اورتوپخانہ طلب کرلیتا۔

نسلی تعصب کے ذمہ دار صرف صدر ٹرمپ نہیں۔ رنگداروں، مسلمانوں اور دوسری لسانی و سماجی اقلیتوں سے امتیازی سلوک امریکی معاشرے کے رگ  وپئے میں سمایا ہوا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذہنی تربیت کچھ اس انداز میں کی گئی ہے کہ وہ ہر خرابی کا منبع صرف سیاہ فاموں کو سمجھتے ہیں۔ ستم ظریفی کہ ہندوپاک سے آئے ہوئے پلاسٹک امریکیوں کی بڑی تعداد  بھی اسی خیال کی حامی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کانگریس کی حفاظت پر تعینات پولیس نے سفید فام ہجوم کی راہ میں کوئی خاص مزاحمت نہیں کی کہ انھیں 'مہذب' گوروں سے کسی شرپسندی کی توقع نہ تھی۔ اسکے بعد جو ہوا وہ بس 'خود کردہ را علاج نیست 'والی بات ہے۔

ہفت روزہ دعوت دہلی 15 جنوری 2021

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 15 جنوری 2021

روزنامہ امت کراچی 15 جنوری 2021

ہفت روزہ رہبر سرینگر 15 جنوری


2021

 

No comments:

Post a Comment