Tuesday, January 19, 2021

جوبائیڈن کی تقریب حلف برادری، زبردست حفاظتی اقدامات، پشت سے خنجر زنی کا خوف

جوبائیڈن کی تقریب حلف برادری، زبردست حفاظتی اقدامات، پشت سے خنجر زنی کا خوف

آج نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن 46 ویں امریکی صدر کی حیثیت سے حلف اٹھارہے ہیں۔عجیب اتفاق کہ 1973 میں جب  جوبائیڈن سینیٹر منتخب ہوئے تو وہ امریکی تاریخ کے چھٹے کم عمر سینیٹر تھے اور آج 78 سالہ بائیڈن امریکی تاریخ کے معمر  ترین صدر ہیں۔ اس تقریب کاایک اور تاریخی پہلو یہ بھی ہے کہ سبکدوش ہونے والے صدر وہاں موجود نہیں ہونگے۔ ڈیڑھ سو سال پہلے 1869 میں بھی ایسا ہی ہوا تھا جب صدر اینڈریو جانسن اپنے جانشیں صدر یولیسس گرانٹ کی تقریب حلف برادری میں شریک نہیں ہوئے تھے۔ اول الذکر چاہتے تھے نومنتخب صدر حلف اٹھانے کے لئے انکی صدارتی بگھی میں پنڈال تشریف لے چلیں جبکہ جناب گرانٹ علیحدہ جانے پر مصر تھے چنانچہ صدر جانسن روٹھ کر اپنے دفتر میں بیٹھے رہے۔    

صدر کی تقریب حلف برداری امریکیوں کیلئے مسرت و انبساط اور پرچہ انتخاب کے ذریعے پر امن انتقالِ اقتدار،  قومی افتخار کا سبب ہے لیکن اس بار کرونا کی وبا اور دہشت گردی کے خوف سے تقریب روکھی پھیکی اور مجلس ویران رہیگی۔

اس موقع پرامریکی دارالحکومت فوجی قلعے کا منظر پیش کررہاہے۔ راستے بند، پلوں، سڑکوں پر رکاوٹیں اور نیم فوجی دستوں کے 25 ہزار مسلح جوان تعینات ہیں۔فضا میں ہیلی کاپٹر منڈلا رہے ہیں اور قریب بہنے والے دریائے پٹامک میں امریکی بحریہ کی کشتیاں گشت کررہی ہیں۔  عوام  کے بجائے وسیع و عریض پنڈال میں 2 لاکھ امریکی جھنڈے نصب کئے گئے ہیں۔ سفیروں اور غیر ملکی مہمانوں کیلئے مختص جگہ پر بھی کرسیاں بچھانے کے بجائےغیر ملکی پرچم لہرادئے گئے ہیں۔

ان بھرپور تیاریوں کے باوجودارباب حل و عقد ایک انجانے سے خوف میں مبتلا ہیں۔ یہی ڈر امریکہ کے فوجی سورماوں کو گزشتہ 20 سال  سے افغانستان میں پریشان کئے ہوئے ہے۔ امریکیوں کو سامنے سے آنے والے طالبان سے اتنا ڈر نہیں لگتا جتنا  انھیں افغان فوج کی صفوں میں چھپے ہوئے طالبان ہمدردوں سے خوف ہے، جسکے لئے Green on Blueکی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ افغانستان کی سرکاری فوج کے سپاہی سبز وردی پہنتے ہیں جبکہ امریکیوں کی پہچان نیلی ٹوپی ہے۔

پاکستان کے دانشورتو طالبان کو جاہل و اجڈ اور گنوار جنگجو سمجھتے ہیں لیکن یہ ملا بقول  صدر ٹرمپ 'بہت تیز اور ہوشیارہیں' ۔ مہلک اندرونی حملوں کی وجہ ملاوں کی تیزی سے زیادہ تحریک طالبان کا نظریاتی اثرورسوخ ہے جو دشمن کی صفوں میں بھی سرائت کرجاتا ہے۔ لسانی و قومی جتھوں کے مقابلے میں نظریاتی تحریکیں مخالفین کی صفوں   سے حامی حاصل کرلیتی ہیں جنکا شب خون دشمن کی کمر توڑدیتا ہے۔  

کئی بار ایسا ہوا کہ نیٹو سپاہ پر افغان فوج کے انھیں سپاہیوں نے حملہ کردیا جو امریکی چوکیوں کی حفاظت پر معمور تھے، ایسے ہی ایک حملے میں امریکی فوج کے میجر جنرل  ڈاکٹر ہیرولڈ  گرین مارے گئے تھے۔ گرین صاحب کو انکی حفاظت پر تعینات ایک افغان فوجی نے اسوقت گولی مارکر ہلاک کردیا جب یہ دانشور جنرل کابل کی جامعہ برائے قومی دفاع یا NDUمیں سبق (lecture)دینےآئے تھے۔یہ افغان سپاہی مبینہ طور پر طالبان فکر سے متاثرتھا۔ اس قسم کے حملوں میں درجنوں امریکی سپاہی ہلاک ہوچکے ہیں۔

ایسا ہی خوف ان سپاہیوں کے بارے میں بھی  ہے جو نئے امریکی صدر کی تقریب حلف برداری کی حفاظت کیلئےامریکی دارالحکومت بھیجے گئے ہیں۔ نیشنل گارڈ باقاعدہ امریکی فوج نہیں بلکہ یہ مختلف ریاستوں کے نیم فوج دستے ہیں جو ہنگامی صورتحال میں شہری انتظامیہ کی مدد کرتے ہیں۔ واشنگٹن میں یہ لوگ ہیں تو فوج کی کمان میں لیکن زیادہ تر سپاہی جارجیا، شمالی کیرولینا، الاباما، ٹیکسس اور جنوب کی ان دوسری ریاستوں سے آئے ہیں جہاں قدامت پسندوں کا زور ہے اور صدر ٹرمپ خاصے مقبول ہیں۔امریکی محکمہ دفاع کوخوف ہے کہ بہت سے سپاہی صدر ٹرمپ  کے حامی اور انکے ' عزمِ ترقیِ امریکہ ' یا MAGAتحریک کے نظریاتی کارکن ہیں۔ 6 جنوری کے ہنگامے میں بھی  مبینہ طورپر کئی پولیس افسروں، فائربریگیڈ کے کارکنوں اور امریکی فوج کے چند سابق سپاہیوں نے حصہ لیا تھا۔

امریکہ کے Army Secretaryجناب رائن مک کارتھی نے  اس بات کی تصدیق کی ہے کہ امریکہ کا وفاقی تحقیقاتی ادارہ FBI واشنگٹن بھیجے جانیوالے  سپاہیوں کے 'پس منظر'  کی چھان بین کررہا ہے۔ اس ضمن میں سپاہیوں کی سوشل میڈیا پر سرگرمیوں، سیاسی خیالات اور گزشتہ انتخابات میں دھاندلی کے حوالے سے انکے نقطہ نظر کی جانچ پڑتال کی جارہی ہے۔ تادم تحریر مشکوک اندازِ فکر کی بنا پرنیشنل گارڈز کے 10 سپاہیوں کو ڈیوٹی سے ہٹایا جاچکا ہے۔

یادش بخیر  سانحہ ستمبر یا نائن الیون کے بعد ایف بی آئی کے ایجنٹوں نے مساجد میں ڈیرے ڈالدئے تھے۔ زیادہ تر مخبر مسلمان نوجوان تھے جو فلسطین و افغانستان میں مسلمانوں پرمظالم کا قصہ چھیڑ کر نوخیز مسلمان بچوں کو مشتعل کرتے اور انکی گفتگو ٹیپ کرکے آگے بڑھادیتے۔ زیادہ جذباتی نوجوانوں کو دہشت گردی کی طرف مائل کیا جاتا تاکہ گرفتاری کا جواز پیدا ہو۔ پیسے اور گرین کارڈ کی لالچ میں ان ضمیر فروشوں نے سینکڑوں معصوم بچوں کو پھنسایا جو امریکی کی مختلف جیلوں میں جرم بیگناہی کی سزا بھگت رہے ہیں۔

بیس سال بعد یہ ہتھکنڈے امریکی قدامت پسندوں کے خلاف استعمال ہورہے ہیں۔ مزے کی بات کہ یہی قوم پرست و قدامت پسندطبقہ مسلم نوجوانو ں کی نگرانی و جاسوسی کا پرجوش حامی تھا ۔ انکے خیال میں مساجد ومدراس   دہشت گردی کی نرسریاں ہیں۔


 

No comments:

Post a Comment