امریکی جمہوریت اور شکوک و شبہات کی گرداب
ہم جیسے کم علم خامہ بگوش، جنکی ساری 'قابلیت' بلکہ لن ترانی حالات حاضرہ تک محدود ہے ہفتہ وار کالم لکھتے ہوئے کئی بار مشکل اور آزمائش میں مبتلا ہوجاتےہیں کہ کہیں تجزیہ نگاری کا سارا بھرم ہی نہ کھل جائے۔ راہِ سیاست میں کئی بار ایسے مرحلے پیش آتے ہیں جب یہ اندازہ لگانا مشکل ہوجاتا ہےکہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا یا تیزی سے بدلتی زمینی حقائق کی بناپرساربان اسے بٹھانے کے بجائے ہنکانے کر آگے لے جانے کوترجیح دیگا۔کچھ ایسا ہی مرحلہ اسوقت درپیش ہے کہ یہ کالم متوقع تاریخ اشاعت یعنی 8 جنوری سے 6 دن پہلے تحریر کیاجارہا ہے اور اس میں دئے گئے تجزئے کی بنیاد ان دوعوامل پر ہیں جنکا ظہور 5 اور 6 جنوری کو ہونا ہے۔
آج کی نشست میں امریکی صدارتی انتخاب پر گفتگو ہوگی۔امریکہ کے صدارتی انتخابات اسقدر پیچ در پیچ ہیں اب تک یہ سلسلہ ختم نہیں ہوا۔ قارئین کی خدمت میں عرض ہے کہ انتظار کی گھڑیاں اب ختم ہونے کو ہیں اور 'توقع' ہے کہ جب یہ تحریر آپ تک پہنچے گی امریکی صدارتی انتخاب کے سرکاری نتائج کا اعلان ہوچکا ہوگا۔ قوسین میں توقع لکھ کر احتیاط کے اس حصار کی وجہ اس کالم کا کلیدی نکتہ ہے۔
ہم کئی بار امریکی صدارتی انتخاب کے طریقے اور انتخابی کالج کی ہئیت اور اسکے نصاب پر گفتگو کرچکے ہیں تاہم ان قارئین کیلئے چند سطور جو اس نظام سے واقف نہیں
امریکہ پچاس ریاستوں پر مشتمل وفاق ہے اور صدر کا چناو ایک کلیہ انتخاب یا Electoral Collegeسے ہوتا ہے۔ کلیہ انتخاب میں وفاق کی تمام اکائیوں یعنی ریاستوں کوانکی آبادی کے مطابق نمائندگی دی گئی ہے۔ ہر ریاست سے ایوان نمائندگان (قومی اسمبلی)اور سینیٹ کے لئے جتنے رکن منتخب کئے جاتے الیکٹرل کالج میں وہی اس ریاست کی نمائندگی کا حجم ہے۔ پاکستان کی طرح ایوان نمائندگان کی نشستیں آبادی کے مطابق ہیں جبکہ سینیٹ میں ہر ریاست کیلئے دو دو نشستیں مختص ہیں۔انتخابی کالج میں دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی کو بھی 3 نشسستیں عطا کی گئی ہیں۔ اسطرح ایوان نمائندگان کی 435، سینیٹ کی 100 اور دارالحکومت کی 3نشستیں ملا کر انتخابی کالج کے کل ووٹوں کی تعداد 538 ہے۔ کامیابی کیلئےنصف سے زیادہ یعنی انتخابی کالج کے کم ازکم 270 ووٹ درکار ہیں۔
سیاسی پارٹیاں جب اپنے صدارتی امیدواروں کے انتخاب (ٹکٹ) کیلئے سالانہ اجتماع منعقد کرتی ہیں اسوقت کلیہ انتخاب کے ارکان بھی نامزد کردئے جاتے ہیں جنھیں Electorsکہا جاتا ہے۔ عام انتخابات کے دوران ریاست میں زیادہ ووٹ لینےوالے امیدوار کے electors انتخابی کالج کے ارکان تصور ہوتے ہیں۔مثال کے طور پر ٹیکسس الیکٹرل ووٹوں کی تعداد 38ہے۔عام انتخابات میں صدر ٹرمپ نے یہ میدان مارلیا ہے چنانچہ انکے تمام کے تمام38نامزد نمائندے ریاستی الیکٹرزہیں۔
صدارتی انتخابات عملاً تین مرحلوں میں مکمل ہوتے ہیں۔
ہر چار سال بعد نومبر کے مہینے میں پہلے پیر کے بعد آنے والے منگل کو عام انتخابات ہوتے ہیں۔ اگر نومبر کا پہلا دن منگل ہو تو انتخابات دوسرے منگل کو ہونگے۔ 2016 میں یکم نومبر منگل تھا اسلئے ووٹنگ 8 نومبر کو ہوئی
دسمبر کے دوسرے بدھ کے بعد آنے والے پیر کو ریاستی دارالحکومتوں میں انتخابی کالج کا اجلاس ہوتا ہے جس میں نامزد ایلیکٹرز صدر اور نائب صدر کیلئے ووٹ ڈالتے ہیں۔ ووٹنگ کے بعد سکریٹری آف اسٹیٹ تصدیق شدہ نتیجہ سینیٹ کے سربراہ (نائب صدر)کو بھیج دیتے ہیں۔
اگلے سال کی 6 جنوری کو امریکی کانگریس کے دونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس نائب صدر کی سرابرہی میں منعقد ہوتا ہے جہاں انتخابی کالج کے ووٹوں کی گنتی ہوتی ہے۔ نائب صدر بربنائے عہدہ امریکی سینیٹ کے چئیر مین ہیں۔
اس تفصیلی پس منظر کے بعد آمدم بر سرِ مطلب
سرکاری گنتی کے دوران ارکان کانگریس کے سامنے ایک ایک ریاست کے مصدقہ نتائج پڑھ کر سنائے جاتے ہیں۔نائب صدر با اوازِ بلند Acceptedکہہ کر انھیں سند عطاکرتے ہیں اوردارالحکومت و پچاسوں ریاستوں کے نتائج کو جوڑ کر کامیاب ہونے والے امیدوار کا اعلان کردیا جاتاہے۔
روائت کے مطابق گانگریس کے مشتر کہ اجلاس میں انتخابی ووٹوں کی گنتی ایک رسمی کاروائی ہے اور یہ مرحلہ تیزی سے مکمل ہوجاتا ہے لیکن ارکان کانگریس کو اعتراض کا حق حاصل ہے۔ عام طور سے اعتراضات بہت معمولی نوعیت کے ہوتے اور زیادہ تر کا تعلق ان ووٹوں سے ہوتا ہے جو اس ریاست سے جیتے ہوئے امیدوار کے علاوہ کسی اور کو دیا گیا ہو۔ یعنی اگر کسی الیکٹر نے بے وفائی کرتے ہوئے کسی دوسرے شخص کے حق میں رائے دی ہے تو اس ووٹ کو حذف کردینے کا مطالبہ ہوتا ہے۔ بے وفائی کرنے والے الیکٹرز کو faithlessکہا جاتا ہے۔ ایسے الیکٹرز کی تعداد دو چار سے زیادہ نہیں ہوتی لہٰذا نتائج پر فرق نہیں پڑتا۔ وعدہ خلافی کے اعتبار سے 2016 کا صدارتی انتخاب بدترین چناو تھا جب ہیلری کلنٹن کے 8 اور ڈونالڈ ٹرمپ کے 2 الیکٹرز نے بے وفائی کا مظاہرہ کیا۔اس پر شور شرابا تو ہوا لیکن نتیجے پر کوئی فرق نہیں پڑا چنانچہ رائے شماری کی نوبت ہی نہیں آئی۔
چھ جنوری کے لئے ریپبلکن پارٹی کے ارادے مشکوک نظر آرہے ہیں۔ ایوان نمائندگان کے 144 ارکان اور ایک درجن سے زیادہ سینیٹرز نے اجلاس کے دوران پنسلوانیہ، جارجیا، وسکونس،مشیگن اور ایریزونا ریاستوں کے انتخابات کو کالعدم کرنے کی تحریک پیش کرنےکا عندیہ دیا ہے۔ پارلیمانی حجم کے اعتبار سے مشترکہ اجلاس میں ریپبلکن پارٹی کے ارکان کی کل تعداد 262 جبکہ 270 نشستوں پر ڈیموکریٹس براجمان ہونگے۔ سینیٹ کے قائد ایوان سمیت بہت سے ریپبلکن ارکان نے انتخابی عمل میں رکاوٹ ڈالنے کی مخالفت کی ہے۔ انکا کہنا ہے کہ عدالتوں سے صدر ٹرمپ کی دودرجن سے زیادہ انتخابی عذرداریاں پہلی ہی سماعت پر خارج ہوچکی ہیں یعنی عدالت نے ان درخواستوں کو سماعت کیلئے بھی منظور نہیں کیا۔ جارجیا میں ووٹوں کی تین بار اور مشیگن میں دوبارگنتی ہوچکی ہے لیکن نتائج میں کوئی تبدیلی نہیں بلکہ جو بائیڈن کے ووٹوں میں چندسو کا اضافہ ہوگیا۔
قدامت پسندوں کی سرخیل اور ریپبلکن کانفرنس (پارلیمانی پارٹی) کی قائد محترمہ لز چینی کا کہنا ہے کہ انتخابات میں دھاندلی کا کوئی ٹھوس ثبوت سامنے نہیں آیا اور کانگریس میں تماشہ کھڑا کرکے جمہوریت کو داغدار بنانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ سینیٹ کے قائد ایوان مچ مک کونل کا بھی یہی خیال ہے۔
لیکن صدر ٹرمپ اور انکے قدامت پسند حامی مزاحمت کیلئے پرعزم ہیں۔ کل صدر ٹرمپ نے جارجیا کے گورنر برائن کیمپ سے ایک گھنٹہ گفتگو کی۔امریکی صدر کا کہنا تھا کہ جارجیا میں گنتی کے دوران انکے 11780 ووٹ غائب کردئے گئے ہیں۔ دلچسپ بات کہ عام انتخابات میں جوبائیڈن کو ڈانلڈ ٹرمپ پر 11779 ووٹوں کی برتری حاصل ہے۔ریاست کے سکریٹری آف اسٹیٹ بریڈ رافینسپرگر Brad Raffenspergerکا کہنا ہے کہ انھوں نے تیسری گنتی کی بذات خود نگرانی کی ہے اور ہر ووٹ بالکل ٹھیک گنا گیا ہے۔ صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے جناب رافنسپرگر نے کہا کہ ووٹ غائب ہونے یا جعلی بیلٹ جاری ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملا اور انکے لئےنتائج کی تصدیق کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ جس پر صدر ٹرمپ نے مشتعل ہوکر کہا کہ اگر سکریٹری آف اسٹیٹ نااہل ہے تو اسے مستعفی ہوجانا چاہئے۔ اگرجارجیا کے نتائج تبدیل ہوجائیں تب بھی جوبائیڈن کو کوئی فرق نہیں پڑیگا کہ جارجیا کے انتخابی ووٹوں کی تعداد 16 ہے۔ انھیں نکال دینے کے بعد بھی باییڈن کے انتخابی ووٹ 270 کے نشان سے آگے رہینگے۔
انتخابی ووٹوں کی گنتی کے دوران قدامت پسند، کانگریس کے گھیراوکا پروگرام بنارہے ہیں جسکے لئے سارے امریکہ سے قافلے پیر کو روانہ ہونگے۔اس مظاہرے کا مقصد ریپبلکن ارکان کانگریس پر پانچ ریاستوں کے انتخاب کو کالعدم کرنے کیلئے دباو ڈالنا ہے۔
تاہم تمام کی تمام ریاستوں نے انتخابات کی تصدیق کردی ہے لہذا ان نتائج کو مسترد یا تحلیل کرنا ممکن نہیں اور پھر ضابطے کے تحت ہر اعتراض کا فیصلہ ایوان میں رائے شماری سے ہوگا۔ جیسا کہ ہم نے عرض کیا ایوان میں ڈیموکریٹک پارٹی کو واضح برتری حاصل ہے اور اس معاملے پر ریپبلکن پارٹی یکسو بھی نہیں۔
کہا جارہا ہے کہ اعتراض پر فوری رائے شماری کے بجائے سینیٹ کے چئیر مین بحث و مباحثے کی اجازت دے دینگے اور اگر یہ سلسلہ شروع ہوگیا تو اجلاس غیر معینہ مدت تک طویل ہوسکتا ہے۔تاہم معاملہ اتنا سادہ بھی نہیں۔ یہ چونکہ کانگریس کا مشترکہ اجلاس ہے اسلئے نائب صدر مائک پینس کے ساتھ کانگریس کی اسپیکر نینسی پلوسی بھی صدارت فرمارہی ہونگی جنکا تعلق ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے۔ اسکے علاوہ بیلٹ پیپر پر چونکہ مائک پینس کا نام بطور امیدوار موجود ہے اسلئے غیر جانبداری کے نام پر ڈیموکریٹک پارٹی گنتی کے عمل سے انھیں الگ رکھنے کی تحریک پیش کرسکتی ہے اور اس سلسلے میں ایک نظیر بھی موجود ہے۔ 1968 کے صدارتی انتخابات میں نائب صدر ہیوبرٹ ہیمپفرے Hubert Humphreyصدر نکسن سے شکست کھاگئے تھے چنانچہ انھوں نے اجلاس کی صدارت سے معذرت کرلی تھی لیکن دوسری طرف 2000کے انتخابات میں صدر بش سےہارجانے کے باوجود نائب صدر ایل گور نے نہ صرف اجلاس کی صدارت کی بلکہ انتخابی نتائج کا اعلان بھی کیا۔
انتخابات کالعدم کرانے میں صدر ٹرمپ کی دلچسپی کی وجہ تو سمجھ میں آتی ہے۔ لیکن اب جبکہ صدر کی شکست نوشتہ دیوار ہے، ریپبلکن پارٹی کے کچھ سینٹرز اتنے پرجوش کیوں ہیں؟ تو اسکا آسان جواب ہے کہ بنئے کا بیٹا کچھ دیکھ کر ہی گررہا ہے۔صدرٹرمپ انتخاب تو ہار گئے لیکن جارحانہ انتخابی مہم کے نتیجے میں انھوں نے سارے ملک کے قدامت پسندوں میں نئی روح پھونک دی ہے۔ Make America Great Againیا MAGAتحریک کے نام سے نوجوانوں کی ایک تنظیم قائم ہوگئی ہے۔ مہم کے دوران انھوں نے دیہی امریکہ میں بڑے بڑے جلسے اور ریلیاں کرکے ان نوجوانوں کو متحرک کردیا۔ریپبلکن پارٹی کا روائتی حلقہ اور مقتدرہ MAGAسے خوفزدہ ہے۔انکا خیال ہے کہ MAGA اب ریپبلکن پارٹی سے زیادہ مضبوط، منظم اور انتہائی پرجوش تنظیم بن چکی ہے۔ سرگرم سینٹرز کی اکثریت 2024 کے صدارتی انتخاب میں قسمت آزمائی کرنا چاہتی ہے۔ وہ خود کو ٹرمپ کا مخلص اور نرم و گرم میں انکا وفادار ثابت کرکے MAGAکی حمائت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
دوسری جانب یہ بھی کہا جارہا ہے کہ صدر ٹر مپ 2024 میں دوبارہ انتخاب لڑنے کے خوا ہشمند ہیں۔ اسی بناپر وہ شکست تسلیم کرکے میدان سے باہر نہیں جانا چاہتے۔امریکی صدر اپنے حامیوں کو تاثر دے رہے ہیں کہ انکا مینڈیٹ چرایا گیا ہے اور اس حق کو چارسال بعد ہر قیمت پر واپس لینا ہے۔اپنے خطابات میں وہ بار بار کہہ رہے کہ اس ڈکیتی کیخلاف وہ پوری قوم کو متحد کرینگے اور 2024 سے دوسال پہلے 2022کے پارلیمانی انتخاب میں کانگریس پر برتری حاصل کرکے دھاندلی روکنے کیلئےانتخابی اصلاحات کا بل منظور کرائینگے۔
اس سلسلے میں انکی پوری توجہ ریاست جارجیا پر ہے جہاں 5 جون کو سینیٹ کی دونشستوں کے نتخابات ہورہے ہیں۔ 3 نومبر کو ہونے والے ان انتخابات میں کسی بھی امیدوار نے 50فیصد ووٹ نہیں حاصل کئے اسلئے پہلے اور دوسرے نمبر پر آنے والے امیدواروں کے درمیان براہ راست مقابلہ ہورہاہے جسے RUN-OFFکہا جاتا ہے۔ یہ دونوں نشستیں 2012 سے ریپبلکن پارٹی کے پاس ہیں۔
اسوقت 100رکنی سینیٹ میں ریپبلکن پارٹی کے پاس 50 نشستیں ہیں، 46 نشستوں پر ڈیموکریٹس اور دو سیٹیں برنی سینڈرز سمیت آزاد نمائندوں کے پاس ہیں جنھوں نے خود کو ٖڈیموکریٹس پارلیمانی پارٹی سے وابستہ کررکھا ہے۔ جارجیا میں ہونے والا انتخاب نئی امریکی سینیٹ کے خدوخال واضح کردیگا۔ ڈیموکریٹس کیلئے یہ دونوں نشستیں جیتنا ضروری ہے تاکہ مقابلہ 50:50سے برابر ہوجائے اور رائے شماری کے دوران فیصلہ کن ووٹ ٖڈال کر نائب صدر پانسہ حکمراں پارٹی کےحق میں کردیں۔ ریپبلکن پارٹی اگر ایک نشست بھی جیتے میں کامیاب ہوگئی تو مستقبل کی بائیڈن انتظامیہ کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑیگا۔ امریکہ میں اٹارنی جنرل سمیت تمام وفاقی وزرا، جج، اقوام متحدہ اور مختلف ملکوں کے سفیر، فوجی سربراہ، خفیہ اداروں کے چیف اور بااختیار سرکاری کارپویشنوں کے سربراہ کا تقرر سینیٹ کی توثیق سے مشروط ہے۔ مالیاتی بل، میزانیہ اور قانون سازی کیلئے بھی دونوں ایوانوں سے منظوری ضروری ہے۔ اگر سینیٹ پر ریپبلکن کو برتری حاصل ہوگئی تو نئی قیادت پالیسی اور قانون سازی کیلئےریپبلکن پارٹی کے رحم و کرم پر ہوگی۔
صدر ٹرمپ اسی لئے جارجیا میں اپنے امیدواروں کی مہم خود چلارہے ہیں۔ اگر وہ اپنے ایک امیدوار کو بھی جتوانے کامیاب ہوگئے تو 2022میں ایوان نمائندگان کو ہدف بنائینگے جہاں حالیہ انتخابات کے بعد ڈیموکریٹس کی برتری خاصی سکڑ گئی ہے۔ 435 رکنی ایوان میں اکثریت کیلئے 218 نشستیں درکار ہیں اور بائیڈن کی جماعت کے پاس 222 نشستیں ہیں۔ اگر سینیٹ پر برتری برقرار رکھتے ہوئے وسط مدتی انتخاب میں ریپبلکن پارٹی ڈیموکریٹس سے ایوان نمائندگان کی 4 نشستیں چھین لینے میں کامیاب ہوجائے تو صدر بائیڈن کے آخری دوسال بہت سخت ہوسکتے۔ امریکہ میں عام طور سے وسط مدتی انتخابات حکمراں جماعت کیلئے بہت بھاری ہوتے ہیں۔
چنانچہ پانچ جنوری کو جارجیا میں سیینٹ کے انتخابات اورا سکے دوسرے روز واشنگٹن میں انتخابی ووٹوں کی گنتی پر سیاسی پنڈت نظریں جمائے ہوئے ہیں۔یہ دوعوامل امریکہ کے سیاسی منظر نامے پر دوررس اثرات مرتب کرینگے۔اس وقت جب آپ ہماری تحریرکوشرف نگاہ عطا فرمارہے ہیں، اونٹ کسی کروٹ بیٹھ چکا ہوگا۔ اسکے نتیجے میں پیدا ہونے والے امکانات، خدشات اور مضمرات پر گفتگو انشااللہ اگلی نشست میں۔
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 8 جنوری 2021
ہفت روزہ دعوت دہلی 8 جنوری 2021
ہفت روزہ رہبر سرینگر 10 جنوری
2021
No comments:
Post a Comment