Tuesday, January 26, 2021

بائیڈن انتظامیہ اور افغانستان

 بائیڈن انتظامیہ اور افغانستان

نئی امریکی انتظامیہ سے وابستہ توقعات و اندیشےاور ترجیحات کے حوالے سے ایک بات پر تمام تجزیہ نگاروں کا اتفاق ہے کہ  جوبائیڈن کا دور اپنے پیشرو سے بالکل مختلف ہوگا۔ صدر ٹرمپ ایک غیرروائتی صدر تھے جنھیں عملی سیاست کا کوئی تجربہ نہ تھا۔ 2016 میں انھوں نے اپنی زندگی کا پہلا انتخاب لڑا اور صدر منتخب ہوگئے۔ موصوف خود کو نہ صرف عقلِ کُل سمجھتے تھے بلکہ اسکا اظہار انھوں نے 20 جنوری 2017 کو حلف اٹھانے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں یہ کہہ کر کردیاکیا کہ انکی صدارت کا اولین ہدف واشنگٹن کے دلدل (swamp)کی تحلیل ہے۔ دلدل سے انکی مراد افسرشاہی کا بنیادی ڈھانچہ تھا جسکا  ذکر وہ بار بار کرتے رہے۔

اسکے مقابلے میں جو بائیڈن ایک منجھے ہوئے سیاستدان ہیں اور امریکی سیاست پر نظر رکھنے والوں کا خیال ہے کہ جو بائیڈن روائتی سیاستدانوں کی طرح بین الاقوامی امور پر  فیصلہ کرتے وقت امریکہ کے پالیسی ساز اداروں یعنی کانگریس کی کمیٹیوں اور مراکز دانش کی سفارشات پرعمل کرینگے۔

اگر فیصلہ سازی کے باب میں یہ تجزیہ درست ہے تو اسکا مطلب ہوا کہ افغانستان کے متعلق جو بائیڈن کی حکمت عملی پر نامزد وزیرخارجہ انتھونی بلینکن، قومی سلامتی کے مشیر جیک سولیون، سی آئی اے کے ٖنامزد ڈائریکٹر ولیم برنس اور وزیر دفاع جنرل (ر)لائیڈ آسٹن اثر انداز ہونگے اور یہ چاروں حضرات طالبان کے بارے میں منفی رویہ رکھتے ہیں۔ جنرل آسٹن 2003 میں ہلکے توپخانے پر مشتمل اپنے پہاڑی ڈویژن کو لے کر اس دعوے کے ساتھ افغانستان گئے تھے کہ ہمارے زمین سے زمین پر مار کرنے والے میزائیل اور  چٹانوں کر ریزہ ریزہ کردینے والی توپوں کے گولے پہاڑوں میں قلعہ بند ملاوں کے پرخچے اڑادینگے۔ اس وحشیانہ کاروائی کے نتیجے میں لاکھوں افغان شہری مارے گئے لیکن خون کی یہ ہولی طالبان کو بہت زیادہ نقصان نہ پہنچاسکی اور چار سال کی سرتوڑ کوششوں میں ناکامی کے بعد مزیدخونریزی کیلئےجنرل صاحب کو عراق بھیجدیا گیا۔ امریکہ کے تقریباً سارے جرنیل افغانستان میں ملاوں سے پنجہ آزمائی کرچکے ہیں اور بلااستثنا سب ہی کو کا ناکامی کا منہہ دیکھنا پڑا۔

انتھونی بلینکن اوباما حکومت میں نائب وزیر خارجہ، نائب مشیر سلامتی اور نائب صدر جوبائیڈن کے مشیر قومی سلامتی رہ چکے ہیں۔ انھیں اوباما کی افغان پالیسی کا معمار سمجھا جاتا ہے۔ افغانستان اور شمالی وزیرستان میں وحشیانہ ڈرون حملے انھیں کی تجویز تھی۔ مئی 2011 میں ایبٹ آپریشن المعروف 'اسامہ۔اوباماانتخابی ڈرامے کے مبینہ مصنف بھی موصوف ہی تھے۔ انکی معاونت وزارت خارجہ و قومی سلامتی کے اعلیٰ افسر اور معروف سفارتکار ولیم برنس کررہے تھے جنھیں صدر بائیڈن نے سی آئی کا سربراہ نامزد کیا ہے۔ ولیم برنس اور انتونی بلینکن دونوں کئی برسوں سے جو بائیڈن کے بہت قریب ہیں اور صدراوباما کے دور میں انھیں خاصہ عروج ملا۔ سیاہ فام ہونے کی وجہ سے صدر اوبامااس احساس کمتری میں مبتلا تھے کہ ملک کاسواداعظم انھیں اصلی اور مخلص امریکی نہیں سمجھتا۔مسلمان باپ اور درمیانی نام حسین کی وجہ سے قدامت پسند انھیں مسلمان ہونے کا طعنہ دیتے تھے چنانچہ صدراوباما نے افغانستان، عراق اور صومالیہ میں خونریز کاروائی کرکے خود کو دبنگ امریکی صدر ثابت کیا۔ اس کار خیر میں بلیکنن اور برنس صاحبان نے صدر اوباما کو بھرپور مدد فراہم کی۔

صدر بائیڈن کے حلف اٹھانے کے بعد اخباری نمائندوں سے اپنی پہلی ملاقات میں وہائٹ ہاوس کی ترجمان محترمہ جین پساکی نے نئی افغان پالیسی کےخدوخال بیان کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ قطر امن معاہدے پر نظر ثانی کرکے اس بات کو یقینی بنانا چاہتا ہے کہ افغان طالبان ملک میں تشدد میں کمی اور دہشت گرد عناصر سے اپنے تعلقات ختم کرنے سمیت اس معاہدے کے تحت کئے گئے  وعدوں کی پاسداری کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی انھوں نے یہ انکشاف بھی کیا کہ امریکی صدر کے مشیر برائے قومی سلامتی جیک سولیون نے اس معاملے کی  'تصدیق' کے لیے افغان حکام سے بات کی ہے۔ تصدیق کیلئے کابل سرکار سے  رابطہ انتہائی مہمل بات ہے کہ افغان حکومت نے قطر معاہدے کو پہلے دن سے تسلیم نہیں کیا۔ کابل کا موقف ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے انھیں امن مذاکرات سے الگ رکھا تھالہٰذاانکے لئے یہ معاہدہ  ناقابل قبول ہے۔

قطر معاہدے کی منسوخی پر کابل انتظامیہ کا اصرار اپنی جگہ لیکن امریکیو ں سمیت تمام عسکری تجزیہ نگار اس بات پر متفق ہیں کہ غیر ملکی فوجی مدد کے بغیر کابل انتظامیہ کیلئے طالبان کا مقابلہ آسان نہیں۔جزوی انخلا کے بعد افغانستان میں امریکی فوج کی تعداد اب صرف 2500 رہ گئی ہے۔ گزشتہ دنوں طالبان نے متنبہ کیا ہے کہ اگر قطر معاہدے کے تحت اس سال موسم گرما کے آغاز تک غیر ملکی فوج کا انخلا مکمل ہوا تو وہ قابض سپاہ پر حملے دوبارہ شروع کردینگے۔

امراللہ صالح اور جنرل عبدالرشید دوستم کے بلند و بانگ دعووں کے باوجود زمینی حقیقت یہ ہے کہ ملااسوقت سارے افغانستان میں سرکاری فوج کا تعقب کررہے ہیں اورطالبان سے جھڑپوں میں درجنوں سرکاری سپاہی ہر روز مارے جارہے ہیں۔ پشتون آبادیوں کے ساتھ فارسی بان علاقے بھی اب سرکاری فوج کیلئے محفوظ نہیں۔امریکہ کو بدترین معاشی بحران کا سامنا ہے اور اسکے لئے اضافی فوج افغانستان بھیجنا بہت مشکل ہے جبکہ  طالبان کیلئے بھی بذریعہ طاقت کابل پر قبضہ آسان نہیں۔ بہتر یہی ہوگا کہ جو بائیڈن دباو ڈال کر کابل انتظامیہ کو معقولیت پر مجبور کرے۔امریکی وزارت خارجہ کے ذرایع کہہ رہے ہیں کہ بائیڈن انتظامیہ امریکی مذاکراتی وفد کے قائد زلمے خلیل زاد کی مدت ملازمت میں توسیع پر رضامند ہوگئی ہے جو طالبان کا مطالبہ تھا۔

 ڈاکٹر اشرف غنی اور انکے احباب خاص طور حمداللہ محب اور امراللہ صالح اس امید پر کشیدگی کو ہوادے رہے ہیں کہ اگر طالبان اور امریکی فوج میں براہ راست جھڑپ شروع ہوگئی تو واشنگٹن اپنے جوانوں کے تحفظ کیلئے مزید فوج افغانستان بھیجنے پر مجبور ہوجائیگا جسکے نتیجے میں افغانستان کی مزید تباہی تو یقینی ہے لیکن اس طرح کابل حکومت کے تسلسل کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔


 

No comments:

Post a Comment