Friday, November 29, 2019

سعودی سرمایہ کاروں میں ارامکو کی زبردست پزیرائی


سعودی سرمایہ کاروں میں ارامکو کی زبردست پزیرائی
سعودی ارامکو کی نجکاری کے پہلے مرحلے کا باقائدہ آغاز ہوگیا ہے اور کمپنی کے 1.5 فیصد حصص اکتتاب  یا IPOکی شکل میں سعودی بازارحصص تداول پر فروخت کیلئے پیش کردئے گئے۔ 3 ارب حصص کیلئے 30 سے 32 ریال فی حصہ قیمت تجویز کی گئی ہے۔
جمعرات کو کمپنی کے ایجنٹ سامبا کیپیٹل Samba Capitalکی جانب سے جاری ہونے والے اعلامئے کے مطابق پہلے 12 دنوں میں ڈیڑھ ارب حصص کیلئے مجموعی طور پر 31.70ارب ڈالر کی بولی لگائی گئی ہے۔
سامبا کا خیال ہے کہ ارامکو کے IPOs اسکی پیشکردہ قیمت سے کم ازکم1.48گنا مہنگےفروخت (Oversubscribed)ہونگے۔ سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان کی ہدائت ہر 0.5فیصد حصص انفرادی سرمایہ کاروں کیلئے مختص کئے گئے ہیں تاکہ عام سعودی شہری بھی اپنی قومی کمپنی کی ملکیت حاصل کرسکیں۔
سعودی حکومت کے خیال میں کمپنی کی قدر 2 ہزار ارب ڈالر ہے اور  پہلے مرحلے میں5 فیصدIPOsکی  فروخت سے 100 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری متوقع  ہے۔
سرمایہ کاری کے عالمی اداروں اور ساہوکاروں کا کہناخیال تھا کہ 5 فیصد حصص کیلئے 100 ارب کا ہدف  غیر حقیقت پسندانہ ہے۔ حالیہ دنوں میں IPOsکی فروخت سے سب سے زیادہ رقم  الیکٹرانک تجارت  یا e-commerce کے چینی ادارے علی بابا نے حاصل کی جب 2014 میں اسکے IPOs نے  بازار حصص سے 25 ارب ڈالر کا سرمایہ سمیٹا۔ اسٹاک مارکیٹ کے پنڈتوں نے ارامکو   IPOsکیلئے 40 ارب ڈالر کا تخمینہ لگایا ہے۔
تاہم ابتدائی فروخت سے ایسا لگ رہا کہ 100 ارب ڈالر کا ہدف بہت زیادہ مشکل نہیں


Thursday, November 28, 2019

ناروے کا واقعہ


ناروے کا واقعہ
جنوبی ناروے کے شہر کرسچین سینڈ (Kristiansand)میں قرآن جلانے کے واقعے نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو مغموم و مشتعل کردیا ہے۔ناروے اور ڈنمارک میں اسلام ومسلمانوں کے خلاف تحریک ایک عرصے سے جاری ہے۔ شمالی یورپ کے اس علاقے میں جسے Scandinaviaکہتے ہیں اسلاموفوبیا کی منظم تحریک کا آغاز ڈنمارک کے ایک ناکام سیاستدان راسمس پالڈن Rasmus Paldonنے کیا۔ راسمس مسلمانوں کو وحشی و اجڈ اور اسلام کو پتھروں کے دور کا مذہب سمجھتے ہیں۔ انکے خیال میں مسلم دنیا کی اس وحشت کا منبع نعوذباللہ قرآن اور نبی مہربان کی تعلیمات ہیں۔ جہاد کے نام پر قرآن دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور مسلم دنیا سے یورپ آنے والے مسلمان جہاد یعنی دہشت گردی کے ذریعے ہماری تہذیب کو پتھروں کے دور میں واپس لے جانا چاہتے ہیں۔ راسمس کو شامی و صومالی پناہ گزینوں کی یورپ آنے پر سخت تشویش ہے اور وہ اسے جرمنی پر نازی حملوں سے تشبیہ دیتے ہیں۔اس کار خیر میں موصوف کو ایک عراقی نژاد صحافی اور ادیب ولید کوبیسی کی نصرت حاصل تھی۔ ولید جامعہ بغداد سے انجنیرنگ کرنے کے بعد 1981 میں ناروے آگئے اور یہاں صحافت و فلم سازی شروع کردی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ایک راسخ العقیدہ سیکیولر مسلمان اور قرآن کے عالم ہیں۔ ولید کے خیال میں حجاب انتہا پسندوں  کی شناختی وردی ہے۔ اپنی دقیق و عمیق  تحقیق وجستجو کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ حجاب کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ آئت اللہ خمینی کی ایجاد ہے۔ یورپ میں آباد مشہور مسلمانوں خاص طور سے طارق رمضان، ممتاز نارویجین صحافی عثمان رانا، نارویجین لبرل پارٹی کے رہنما عابد راجہ اور دوسرے مسلمان زعما کے بارے میں انھوں نے تحقیق سے ثابت کیا کہ یہ تمام لوگ اخوان المسلموں اور  'موددی جماعت' کے تنخواہ دار ایجنٹ ہیں جنکا کام یوپ میں اسلامی انقلاب کیلئے یورپی دہشت گردوں کی بھرتی اور تربیت ہے۔ راسمن کی اسلام فوبیاتحریک کو نظریاتی مواد ولید کوبیسی نے ہی فراہم کیاجو اس سال جولائی میں انتقال کرگئے۔
راسمن پالڈن نے ڈنمارک میں اپنے اسلام دشمن موقف کے فروغ کیلئے 2017میں  Stram Kursکے نام سے ایک سیاسی جماعت قائم کی جسکاانگریزی نام Hard Lineپارٹی ہے۔ گزشتہ انتخابات میں ہارڈ لائن پارٹی کو 2 فیصد سے بھی کم ووٹ ملے چنانچہ انکی ڈنمارک پارلیمان  میں نمائندگی صفر ہے۔راسمس ایک شعلہ بیان مقرر ہیں اور اشتعال انگیز تقاریر کی بنا پر انکے خلاف 5 سال کی پابندی لگائی گئی۔ پابندی کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے انھوں نے چند ماہ پہلے Vibrogشہر میں ایک جلسے کے دوران نبی محترم ﷺ کے خلاف انتہائی گندی زبان استعمال کی جس پر مسلمانوں کے ساتھ عام ڈینش شہری میں مشتعل ہوئے۔ ہاتھا پائی کے دوران راسمس نے پولیس کو 'مسلمانوں کا کتا' کہا اور حملے کی کوشش کی۔ اس بات پر راسمس کو تو محض جرمانہ کیا گیا لیکن ہاتھا پائی اور دھکم پیل کے الزام پر ایک شامی نوجوان کو پہلے تو دو ماہ کیلئے جیل بھیجا گیااورسزا کاٹنے کے بعد اسے ملک بدر کردیا گیا۔
ناروے کے اسلام مخالفین کیلئے راسمن پالڈن ایک مربی ہیں اور مسلمانوں کو اشتعال دلانے کیلئے انکی حکمت عملی کو مسلم دشمن حلقوں میں پزیرائی حاصل ہے۔ ناروے میں اسلام دشمنی کا منظم آغاز 2000 میں ہوا جب اوسلو Osloکی جامع مسجد کی طرف سے لاوڈاسپیکر پر اذان  کی اجازت کیلئے درخواست دی گئی۔اسکے ردعمل میں ایکشن کمیٹی برائے انسداد اذان تشکیل دی گئی۔ اس ایکشن کمیٹی کا شروع میں تو موقف تھاکہ لاوڈاسپیکر پر اذان نہ صرف صوتی کثافت کا سبب بنے گی بلکہ اس سے سیکیولر ناروے کا ملائم چہرہ بھی داغدار ہوگا۔ لیکن جلد ہی اذان کیخلاف بننے والی ایکشن کمیٹی ایک منظم تحریک میں تبدیل ہوگئی اور چند ماہ بعد اسکا نام Forum Against Islamisation (FOM)  رکھدیا گیا جلد ہی اسکے ارکان کی تعداد 13000 ہوگئی اور سارے یورپ کے مسلم دشمن اس پرچم تلے منظم ہوگئے۔ ناروے سے باہر اسے Stop Islamisation in Europeکہا جانے لگا۔ نارویجین حکومت کی جانب سے محدود تعداد میں شامیوں کو پناہ دینے کی پیشکش نےمسلم مخالف تحریک کیلئے مہمیز کا کام دیا اور ولید کوبیسی کے 75 سالہ نظریاتی شاگرد ارنے تھومر  (Arne Thomer) نے 2008 میں STOPP ISLAMISERINGEN AV NORGE یا سیان کے نام سے ایک انتہا پسند جتھہ بنالیا۔ ارنے تھومر ایک صحافی ہیں اور خود کو ملحد کہتے ہیں۔ تاہم انکے الحاد کا ہدف صرف اسلام قرآن اور صاحب قرآں ﷺ ہیں۔  انھیں دوسرے مذاہب سے کوئی پریشانی  ہیں۔ رسمسن کی طرح انکا مقصد بھی توہین کے ذریعے مسلمانوں میں اشتعال پیدا کرنا ہے تاکہ وہ یہ ثابت کرسکیں کہ مسلمان شدت پسند ہیں جو آزاد خیال مغربی معاشرے کیلئے کسی طور مناسب نہیں۔
قرآن کی توہین کوئی نئی چیز نہیں اور ایک عرصے سے مغرب و امریکہ یہ میں یہ کوششیں جاری ہیں۔ قرآن پاک کی سرعام بیحرمتی کا آغاز 2010 میں امریکی ریاست فلورڈا کے شہر گینزول میں ہوا جب ایک چھوٹے سے چرچ  کے متعصب پادری ٹیری جونز نے سانحہِ نیویارک کے متاثرین کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئےگیارہ ستمبر 2010کو قران جلانے کا دن قراردیا ۔فیس بک پر اس نے تمام "اھل ایمان" کو قرآن پاک کے نسخوں کے ساتھ اپنے چرچ آنے کی دعوت  دی جسکے پارکنگ لاٹ میں  قرآن جلانے کی تقریب منعقد ہونی تھی۔ اس اعلان کی ساری دنیا میں مذمت کی گئی اور خودگینز ول شہر کی انتظامیہ  نے ٹیری جونز پر نفرت پھیلانے اور امن عامہ میں خلل ڈالنے کا الزام لگاتے ہوئے وفاقی محکمہ انصاف سے کاروائی کی درخواست کی۔ محکمہ شہری دفاع نے پادری صاحب کو متنبہ کیا کہ عوامی مقامات پر آگ جلانے پر پابندی ہے اور اگر قرآن کو آگ لگائی گئی تو تقریب کے تمام  شرکا پر آتش زنی کے مقدمات قائم کئےجائینگے۔
صدر اوباما کو خوف تھا کہ توہین قرآن سے دنیا بھر میں امریکی مفادات کو نقصان پہنچے گا چنانچہ  وزیر دفاع ڈاکٹر رابرٹ گیٹس نے پادری سے ملاقات کے دوران انھیں قرآن سوزی سے باز رہنے کی تلقین کی۔ دوسری طرف امریکہ کی مسلمان تنظیموں نے انتہائی تدبر کا مظاہرہ کیا ور اس پر مشتعل ہونے کے بجائے اس دن کو حضرت عیسیٰ سے اظہار محبت  کے دن کے طور پر منانے کا اعلان کیا۔ انکا کہنا تھا کہ قران پاک کی بیحرمتی صرف مسلمانوں کی دل آزاری کا سبب نہیں بنے گی بلکہ اس کتاب میں حضرت عیسیٰ، انکی پاکدامن والدہ، حضرت زکریا انکی عفت ماب اہلیہ  اور  حضرت یحییٰ سمیت تمام انبیاء اکرام کا ذکر اور انکے مقدس واقعات درج ہیں۔ان متبرک شخصیات اور ان سے وابستہ واقعات مسلمانوں،عیسائیوں اوریہودیوں کے لئے بنیادی عقاٰید کی حیثیت رکھتے ہیں لھذٰا قرآن کی توہین دراصل تمام الہامی مذاہب کی توہین ہے ۔ فلورڈا یونیورسٹی کی مسلم اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن نے "جلاومت ! پڑھو " کے عنوان سے ایک تحریک کا آغاز کیا اور قرآن کریم کے ھزاروں نسخے طلبہ اور اساتذہ میں تقسیم کئے گئے۔امریکی مسلمانوں کے شائستہ صبر، برداشت اور بردباری نے امریکی رائے عامہ کو بے حد متاثر کیا اور شدید عوامی دباو کے تحت ٹیری جونز نے قران کریم کو جلانے کی تقریب منسوخ کردی۔
لیکن چند ماہ بعد ٹیری جونز پر یہ خبط پھر سوار ہوا اور اس بار انھوں نے قرآن پر مقدمہ چلانے کا اعلان کیا۔ اتوار 20 مارچ 2011 کو پادری نے اپنے چرچ میں عدالت لگائی، قرآن کے نسخےکو  ملزم کے کٹہرے میں رکھا اور خود منصف کی کرسی پر براجمان ہوگئے۔ آٹھ منٹ کی عدالتی کاروائی کے بعد انھوں نے قرآن کو انسانیت دشمن، خواتین کے حقوق کا مخالف اور دہشت گردی کی کتاب قرار دیتے ہوئے سزائے موت سنائی اور ایک جلاد پادری نے قرآن کے نسخے پر مٹی کا تیل چھڑک کر آگ لگادی۔
اگرچہ کہ  ٹیری جونز کی اس حرکت کی امریکہ میں بھی سخت مذمت کی گئی، مسیحی قیادت نے اسے انسانیت دشمن قدم گردانااور مسیحی پاردیوں نے ٹیری جونز کو "اینٹی کرائسٹ" قراردیالیکن سوا ارب مسلمانوں کی دل آزاری پر پادری کے خلاف کوئی تادیبی کاروائی نہ ہوئی۔
پچھلے ہفتے ارنے تھومیر نے اعلان کیا کہ ہم کرسچین سینڈ شہر کے چوک میں دہشت گردی کے منشور یعنی قران کو جلائیں گے۔ 85 ہزار آبادی والے کرسچین سینڈ میں 3 ہزار کے قریب مسلمان آباد ہیں جنکی اکثریت صومالیہ، شام، فلسطین و عراق کے مہاجرین پر مشتمل ہے۔ٰیہاں پاکستانی، عرب، بنگلہ دیشی اور افریقی مسلمان بھی آباد ہیں۔
تھومیر کے اعلان کے ساتھ ہی مسلم قائدین نے مقامی انتظامیہ سے رابطہ کیا اور پولیس نے یقین دلایا کہ وہ قرآن کریم ی بیحرمتی نہیں ہونے دیگی۔ اس واقعے کی زبردست تشہیر کی گئی چنانچہ مسلمانوں کی بڑی تعداد بھی اپنے جذبات کے اظہار کیلئے وہاں موجود تھی۔ پولیس نے رکاوٹیں کھڑی کرکے دونوں گروپوں کو علیحدہ کردیا۔ اس دوران پولیس  افسران نے مسلمانوں کو یقین دلایا کہ وہ آزادی اظہار رائے کے تحت سیان کے لیڈروں کو تقریر سے تو نہیں روک سکتے لیکن فائر اینڈ آرمز قانون کے تحت پبلک مقامات پر آگ جلانا منع ہے اسلئے وہ قران کو جلنے نہیں دینگے۔
جلسے کے آغاز پر ارنے اور اسکے ساتھی اشتعال انگیز تقریریں کرتے رہے اس دوران نبی مہربان ﷺ کے بارے میں جو استعمال ہوئی اسےسوچ کر ہی ابکائی آتی ہے۔ تاہم مسلمانوں نے وعدے کے مطابق تحمل سے برداشت کیااور نعروں اور درود کے ذریعے اپنے جذبات کا اظہار کرتے رہے۔ اس دوران آتشزدگی کیلئے قرآن کریم کا ایک نسخہ باربی کیو گرل پر رکھا تھا جسے پولیس نے مبینہ طور پر اپنے قبضہ میں لے لیا۔ جس پر سیان کے دوسرے رہنما لارس تھورسن نے اپنی جیب سے قران کریم کے دوسرے نسخے کو نکال کر ٓآگ لگادی۔ پولیس نے لارس کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ پولیس کی بے حسی دیکھ کر ایک شامی نوجوان قرآن کو بچانے کیلئے دوڑا تووہی پولیس جو قرآن جلتا دیکھ کر خاموش تھی برقی رفتار سے  جھپٹی اور حملہ آور نوجوان کو گرفتار کرکے قرآن جلانے والے کو بچالیا۔اس شامی پناہ گزین کا نام عمر دھابہ ہے جو بطور باروچی (شیف) کام کرتا ہے۔ کچھ مسلمان نوجوانوں نے عمر کو پولیس کی مارپیٹ سے بچانے کی کوشش کی اور ا ن سب پر پولیس کو تشدد کا نشانہ بنانے کے مقدمات قائم کردئے گئے۔
شہر کی سنجیدہ مسلم قیادت کا خیال ہے کہ عمر کی جانب سے قانون ہاتھ میں لینے کی کوشش غیر ضروری تھی۔ انکا کہنا ہے کہ تشدد مناسب بات نہیں کہ شرپسند یہی چاہتے تھے۔ اس واقعے کی ویڈیو سارے یورپ میں پھیلاکر شامی، عراقی اور صومالی مہاجرین کی ملک بدری کا مطالبہ کیا جارہاہے۔ انتہاپسندوں کی جانب سے واقعے کی تصویروں پر جو عنوانات ٹانکے گئے ہیں اسکا ترجمہ کچھ اسطرح ہے کہ 'خونخوار کتوں کواپنا پٰیٹ کاٹ کر کھلاو تاکہ یہ خود تمہیں ہی پھاڑ کھائیں'
 کرسچین سینڈ کی مسلم قیادت کی جانب سے برداشت کے بھاشن اپنی جگہ لیکن مسلم امت کی اٹھان کچھ اس نہج پر ہوئی ہے کہ ہمارے جوانوں سے قرآن اور صاحب قرآن ﷺ کی توہین برداشت نہیں ہوتی۔ کسی مسلم دانشور نے کیا خوب کہا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کرنے والے مسلمانوں کی تعداد شائد دنیا میں ایک فیصد سے بھی کم ہو لیکن آپ ﷺ کے نام پر ہر مسلمان اپنی جان قربان کرنے کو ہروقت تیار ہے۔مغربی تہذیب کا تقاضہ ہے کہ مسلمان اپنے عقائد کی توہین کو برداشت کرنے کی عادت ڈال لیں اورمغربی ممالک میں آباد متعدل مسلمان بھی یہی چاہتے ہیں لیکن عام مسلمان ابھی اتنا 'مہذب' نہیں ہوا کہ قرآن یا اپنے آقا ﷺکی توہین برداشت کرسکے۔ یہ'جذباتیت' ہی امت کی سب سے بڑی قوت ہے اور فرقہ بندیوں و افتراق کے باوجود عشق رسول نے امت کو  ایک رکھا ہوا ہے کہ سرکار ﷺ سے عشق کے معاملے میں سیکیولر و لبرل اور مولوی سب ایک جیسے انتہا پسند ہیں۔
اسلام مخالفین کو اس 'کمزوری' کا اچھی طرح اندازہ ہے چنانچہ توہین قرآن کو ابوغریب، گوانتا نامو بے، بگرام اور دوسری جگہ بہت ہی موثر انداز یں استعمال کیا گیاہے یعنی جب روائتی تشدد سے بات نہ بنے تو لب کشائی کیلئے  توہین قرآن کا حربہ استعمال کیا گیا۔ 'ملزم' سے کہا جاتاتھا کہ اگر اس نے صحیح بات نہ بتائی تو قرآن کے نسخے اسکے پیروں پر ڈالدئے جائینگے یا اسکے سامنے قرآن کو سور کی چربی میں لپیٹ دیا جائیگا۔ قرآن کو فلش میں ڈالنے کی دھمکی بھی دی گئی جسے سن کر وہی قیدی جو واٹر بورڈنگ، ناخن کھینچنے، کرنٹ لگانے اور تشدد کی دوسری اذیتوں خندہ پیشانی کے ساتھ سہہ رہا تھا فوراًہی  اپنے تمام کردہ و ناکردہ گناہوں کا اعتراف کرلیتا ہے۔ کہتے ہیں کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو ایسے ہی ذہنی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
کرسچین سینڈ کے واقعے میں مسلم نوجوانوں نے کمال تحمل و برداشت کا مظاہرہ کیا ہے لیکن ان سے قرآن کی توہین برداشت کرلینے کی توقع غیر حقیقت پسندانہ ہے۔اس واقعے کی تمام تر ذمہ داری شہری پولیس پر ہے جس نے وعدے و یقین دہانی کے باوجود قرآن کی بیحرمتی سے پہلے ملزم کو  گرفتار  نہیں کیا۔ میڈیا پر اٹھنے والے طوفان کے نتیجے میں بہت سے سابقین سمیت ناروے کی مسلم قیادت شدید دباو میں  ہے اور انکا خیال ہے کہ عمر دابہ کی 'جذباتیت' نے  مسلمانوں کامقدمہ کمزور کردیا ہے۔
کرسچین سینڈ کے مسلم رہنماوں کی فکر و تحفظات بہت حقیقت پسندانہ ہیں جسے بزدلی کہہ کر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ زمینی حقائق ان کے حق میں نہیں۔ حملے کے مرتکب نوجوانوں کے سرپر اب جلاوطنی کی تلوار لہرا رہی ہے جس سے انکے خاندانوں کا معاشی مستقبل سخت خطرے میں ہے۔ اسوقت معاملے کو درست کرنے کی ذمہ داری مسلم حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے۔ تمام مسلم دارالحکومتوں میں نارویجین سفرا کو طلب کرکے ویڈیو کی مدد سے پولیس کی مجرمانہ غفلت کی نشاندہی کی ضرورت ہے۔ عمران خان نے اقوام متحدہ میں اپنے خطاب کے دوران بہت ہی مدلل انداز میں سمجھانے کی کوشش کی تھی کی مسیحی دنیا کے مقابلے میں مسلمانوں کی مذہبی اقدار مختلف ہیں۔ محمد  ﷺ مسلمانوں کو اپنی جان سے زیادہ عزیز ہیں جنکی ہلکی سی توہین بھی ناقابل برداشت ہے۔ناروے کی حکومت کو یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ عیسائی بائیبل کومحض ایک مقدس کتاب سمجھتے ہیں جبکہ مسلمان کیلئے قرآن اللہ کا کلام بلکہ وہ رسی ہے کہ جسکا دوسرا سرا اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
مغرب اگر پرامن بقائے باہمی اور مذہبی رواداری پر یقین رکھتا ہے تو اسے مسلمانوں کے عقائد ہی نہیں بلکہ مسلم اقدار و روایات کے احترام کو بھی یقینی بنانا ہوگا۔ یہاں اس غلط فہمی کا ازالہ بھی ضروری ہے کہ تحٖفظ اظہار رائے کا یورپی فلسفہ انسداد توہین مذہب کی راہ ٓیں رکاوٹ ہے۔ یورپ وامریکہ میں کسی بھی جگہ جرمن یہودیوں کے مبینہ قتل عام یا ہولوکاسٹ کے بارے میں منفی بات کرنا خلاف قانون ہے۔ جامعات میں ہولوکاسٹ کی صحت پر تحقیق بھی قابل سزا جرم ہے۔ خود ناروے ایک آئینی بادشاہت ہے اور وہاں سلطان معظم ہیرالڈ چہارم پر تنقید کی اجازت نہیں۔ اسی نوعیت کی سرخ لکیر کھینچ کر انبیا اکرام، الہامی کتب اور شخصیات کی حرمت و توقیر کو یقینی کیوں نہیں بنایا جاسکتا؟
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 29 نومبر 2019

Thursday, November 21, 2019

صدر ایردوان کا درہ امریکہ


صدر ایردوان کا درہ امریکہ

ترک صدر طیب رجب ایردوان کے حالیہ دورہ امریکہ کے بارے میں مغرب کے سفارتی و صحافتی حلقوں کی آرا میں تضاد پایا جاتا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ترک صدر نے اپنے موقف کے دوٹوک اظہار کے ساتھ مخالفین کو دلائل کے ذریعے قائل کرنے کی کامیاب کوشش کی جبکہ کچھ لوگ اس دورے کو ناکام قراردے رہے ہیں۔
جس وقت صدر ٹرمپ اپنے ترک ہم منصب سے ملاقات کررہے تھے کانگریس میں انکے مواخذے کی کاروائی جاری تھی اور گواہوں کے بیانات ٹیلی ویژن پر براہ راست نشر ہورہے تھے۔ ملاقات کے بعد صدر ایردوان کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس میں جب ایک صحافی نے امریکی صدر سے انکے مواخذے کے بارے میں پوچھا تو صدر ٹرمپ نے کہاکہ وہ اس 'فضول کاروائی' کے دوران ترک صدر سے قومی امور پر بات چیت کررہے تھے جو انکے لئے زیادہ اہم تھی۔
صدر ٹرمپ کی باتوں سے اندازہ ہوا کہ دونوں ملکوں کے درمیان کلیدی نکات پر شدید اختلافات کے باوجود صدر  ٹرمپ ترک امریکہ تجارتی حجم کو 100 ارب ڈالر تک لے جانے کیلئے سنجیدہ و پرعزم ہیں۔ ترکی اعلیٰ معیار کا فولاد پر کشش شرائط پر امریکہ کو فراہم کرتا ہے۔ صدر ٹرمپ اعتراف کرچکے ہیں کہ امریکی F-35طیاروں کا ڈھانچہ ترک فولاد سے بنایا جاتا ہے۔ دشمن کی نظر سے پوشیدہ (Stealth)رکھنے کیلئے طیارے کی بیرونی سطح پر دھاتی پرت (coating)کے بجائے خصوصی fiber matکی تہہ جمائی جاتی ہے۔ طیارے بنانے والے ادارے Lockheed Martinکے مطابق یہ ریشہ دارمواد ترک ساختہ فولاد پر آسانی سے جمتا ہے۔
امریکہ ہے تو ایک سیکیولر، آزاد خیال اور لبرل معاشرہ جہاں لاکھوں افراد مذہب کے خانے میں خود کو لادین لکھتے ہیں لیکن یہاں کے انداز فکر پر  مسیحی تاریخ، ثقافت اور اقدار کی چھاپ بہت گہری ہے۔ امریکہ بلکہ مغرب و ترکی کے درمیان کشیدگی صدیوں پرانی ہے اور مسیحی دنیا کیلئے  ترکی تاریخی اہمیت کا حامل ہے
استنبول جو پہلے قسطنطنیہ کہلاتا تھا 330 سے 1453 تک مختلف مسیحی سلطنتوں کا پایہ تخت رہا۔ 330سے  395 تک رومن ایمپائر اور 395 سے 1453 تک مشرقی رومن  یا Byzantineسلطنت کا دارالحکومت رہا۔ کچھ عرصہ یعنی 1204 سے 1261 تک کروسیڈرز یا لاطینی مسیحی سلطنت نے اسے اپنا دارالحکومت قراردیا۔ اسی بنا پر ایک زمانے تک استنبول کو Byzantiumکہا جاتا تھا جبکہ لاطینی سلطنت نے اسکا نام نیا روم  رکھا۔ مسیحی دنیا رومن  یا بزنٹین سلطنت کے حوالے سے ترکی کو ویسے ہی یاد کرتی ہے جیسے پاکستانی مسلمان لال قلعہ، دلی کی جامع مسجد اور قطب مینار کا ذکر کرتے ہیں۔
مذہبی پس منظر کے علاوہ ترکی کا محل وقوع بھی کچھ ایسا ہے کہ مشرقی یورپ کیلئے ترکی سے گزرے بغیر کھلے سمندروں تک پہنچنے کا اور کوئی راستہ ہی نہیں۔ بحر اسود کے کنارے واقع یوکرین، مالدودا، رومانیہ اور بلغاریہ کی کھلے سمندر تک رسائی صرف ترکی ہی کے ذریعے ممکن ہے۔روسی بحریہ کا سب سے مضبوط اور جوہری ہتھیار سے لیس بلیک سی فلیٹ (Black Sea Fleet)بھی بحر اسود میں تعینات ہے۔ روس کے اکثر سیاحتی مراکز بحر اسود کے کناروں پر ہیں جن  میں سب سے مشہور سوچی ہے جہاں ہرسال لاکھوں سیاح آتے ہیں۔
یہاں سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہےیعنی تنگ سی تیس کلومیٹر طویل آبنائے باسفورس (Strait of Bosporus) جواسے بحیرہ مرمرا سے ملاتی ہے۔ مرمرا بھی خشکی سے گھرا ایک سمندر ہے جسکی اوسط گہرائی پانچ سو میٹر سے بھی کم ہے۔ بعض ماہرینِ بحریات(Oceanographers) اسے نہر قرار دیتے ہیں اور جغرافیہ کی قدیم کتابوں میں اسے نہر استنبول کہا گیا ہے۔ ساٹھ کلومیٹر لمبی اور سوا کلو میٹر چوڑی آبنائے ڈارڈینیلس (Dardanelles) بحیرہ مرمرا کو  خلیج یونان سے ملاتی ہے جو بحر روم کا حصہ ہے۔ اہل ترکی آبنائےڈارڈ نیلس کو آبنائے چناکلے کہتے ہیں۔
بحر اسود سے آنے والے جہاز باسفورس سے گزر کر بحیرہ مرمرہ میں داخل ہوتے ہیں اور پھر آبنائے چنا کلے یا ڈارڈینیلس سے گزر کربحر روم آتے ہیں۔ بحر روم سے بحراقیانوس کا راستہ مل جاتا ہے جبکہ جنوب ایشیا کی طرف محو سفر جہاز نہر سوئز سے گزرکر بحر احمر سے ہوتے ہوئے آبنائے باب المندب کے راستے بحر عرب اوربحر ہند جاسکتے ہیں۔ باسفورس، بحیرہ مرمرا اور ڈارڈینیلس تینوں ہی ترکی کی حدود میں واقع ہیں۔ یہاں سے راہداری و چنگی محصولات کی صورت میں ترک حکومت کو معقول  آمدنی حاصل ہوتی ہے جسکا بڑا حصہ بلدیہ استنبول کیلئے مختص ہے
اس ابی راستے پر ترکوں کی گرفت ختم کرنے کیلئے برطانیہ، فرانس اور روس 1915 میں زبردست حملہ بھی کرچکے ہیں جسے جنگ چناکلے یا گیلی پولی وار Gallipoli Warکہتے ہیں۔ گیلی پولی جنگ کو معرکے  کے بجائے ایک مکارانہ شب خون کہنا زیادہ مناسب ہوگا جب جزیرہ نمائے چنا کلے پر پانچ سمت سےحملہ ہوا۔ اس لشکر کشی کا مقصد قسطنطنیہ پر قبضہ کرکے عثمانی سلطنت کا خاتمہ تھا۔ حملہ آور فوج میں ہندوستان کے گورکھا اور سرزمین فلسطین کے یہودی سپاہی بھی شامل تھے جن سے وعدہ کیا گیا تھا کہ عثمانی سلطنت کے خاتمے پر آزاد اسرائیلی ریاست قائم کردی جائیگی۔ اس جنگ میں ہزاروں میل کا فاصلہ طئے کرکے  آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے فوجی دستے بھی آئے جو ان دو اقوام کی پہلی بڑی بین الاقوامی کاروائی تھی۔ اسی بنا پر حملے کی تاریخ یعنی 25اپریل کو آسٹریلیا نیوزی لینڈ آرمڈ کور (ANZAC)  ڈےبھی کہا جاتاہے جبکہ ترک اسے آخری صلیبی حملے کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ 10 مہینہ جاری رہنے والی اس جنگ میں دونوں جانب کے 5 لاکھ سپاہی مارے گئے اور  چناکلے اتحادی جہازوں کا قبرستان بن گیا
1923 میں جب اتاترک نے ملک سے اسلامی خلافت ختم کرکے ترکی کو سیکیولر ریاست بنادیا تو کشیدگی کچھ کم ہوئی لیکن اتاترک کی کوششوں اور زبردست پابندیوں کے باوجود اسلام پسند ترک سیاست پر غالب رہے اور جماعت سازی کا حق حاصل ہوتے ہی اسلام پسندوں نے انتخابات میں اتاترک کی ریپبلکن پارٹی کا تعقب شروع کردیا
 گزشتہ صدی کی ساتویں دہائی (70s)میں پرفیسر نجم الدین اربکان کی ملی سلامت پارٹی بڑی جماعت بن کر ابھری۔ 1974 میں اتاترک کی جماعت حکومت سازی کیلئے ملی سلامت پارٹی سے اتحاد پر مجبور ہوئی اور پروفیسر نجم الدین اربکان مخلوط حکومت کے نائب وزیراعظم اور وزیر دفاع مقرر ہوئے۔ ترکی کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ سیکیولر ازم کی محافظ ترک افواج ایک 'مولوی' کی زیرنگرانی آگئیں۔ صدر ایردوان پروفیسر اربکان کو اپنا سیاسی استاد کہتےہیں
اسی دوران یونان کی مدد سے قبرص میں فوجی انقلاب برپا ہوا اور یونانی فوج نے ترک قبرصیوں کا محاصرہ کرلیا۔ وزیر دفاع  اربکان نے اپنے ہنگامی اختیارات کا بھرپور استعمال کیا اور پارلیمنٹ سے منظوری کے تکلف میں پڑے بغیر ترک فوج کو قبرص پر حملے کا حکم دے دیا۔ ترک فوج کا حملہ اتنااچانک اور غیر متوقع تھا کہ یونانی فوج انکا مقابلہ نہ کرسکی اور ترک قبرص کے نام سے جزیرے پر ایک آزادوخودمختار ریاست قائم ہوگئی۔ اہل پاکستان کی دلچسپی کیلئے عرض ہے ترک قبرص کو سب سے پہلے پاکستان نے تسلیم کیا۔ یونان اور ترکی دونوں ہی نیٹو کے رکن تھے لیکن نیٹو نے کھل کر یونان کا ساتھ دیا۔ باشبہ جنگ قبرص نے ترکی اور مغرب کے تعلقات میں جو دراڑ ڈالی وہ آج تک برقرار ہے۔
جہاں  تک امریکہ اور ترکی کے تعلقات کا تعلق ہے تو یہ معاملات ایک عرصے سے عدم استحکام کا شکار ہیں۔ مسیحی دنیا ور ترکی کی تاریخی چپقلش اور سیاسی آویزش کی بناپر امریکی مقنہ یا کانگریس یا جسے یہاں Capitol کہا جاتاہےترکی کے بارے میں اچھی رائے نہیں پائی جاتی اور صدر طیب رجب ایردوان کی جانب سے فلسطینیوں کی پرجوش حمائت  نے اس خلیج کو مزید گہرا کردیا ہے۔
2010میں ترکی نے امدادی سامان میں لدے بحری جہازوں کا ایک قافلہ یا Flotilla غزہ بھیجا۔قافلے پر اسرائیلی بحریہ نے حملہ کیا جس میں کئی ترک رضاکار مارے گئے۔اس کارواں میں پاکستانی صحافی سید طلعت حسین بھی شامل تھے۔ صدر اردوان مقبوضہ بیت المقدس میں کئی خیراتی اداروں کی سرپرستی کرتے ہیں ۔ ترک حکومت نے زیارت بیت المقدس کے نام سے ایک پروگرام شروع کیاہے جسکے تحت مسجد اقصیٰ جانے والے ترک شہریوں کو حکومت کی جانب سے اعانت دی جارہی ہے۔ یہ سہولت ان ترک مسیحیوں کیلئے بھی ہے جو بیت اللحم اور یروشلم میں اپنے مقامات مقدسہ کی زیارت کو جانا چاہتے۔جناب ایردوان کاکہنا ہے کہ اس سے بیت المقدس کے ارد گرد معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہوگا۔ترک محکمہ اوقاف نے بیت المقدس میں کئی خیراتی منصوبے بھی شروع کررکھے ہیں۔اقوام متحدہ کے حالیہ اجلاس میں انھوں نقشے کی مدد سے  فلسطینیوں کے معاملات کا تفصیلی تجزیہ پیش کیا جس پر اسرائیلی حکومت سخت مشتعل ہے۔
امریکہ ترک تعلقات کی حالیہ بدمزگی کی بڑی وجہ شمالی شام میں ترکی کی فوجی کاروائی اور روس سے فضائی S-400 نظام کی خریداری ہے۔
شمالی شام کے حوالے سے معاملہ یہ ہے کہ امریکہ شامی کردوں کو اپنا وفادار حلیف سمجھتا ہے جس نے داعش کی سرکوبی کیلئے بہت اہم کردار اد کیا ہے۔ دوسری طرف ترکی کا کہنا ہے کہ امریکہ کی وفادار ملیشیاSyrian Democratic Force (SDF) دراصل کردش ڈیموکریٹک پارٹی (PKK)اور اسکے عسکری ونگ YPGکا نیا نام  ہے۔ ترک عدالت نے PKK کو دہشت گرد تنظیم قراردیا ہے اور کئی مغربی ممالک بھی PKKکو دہشت گرد سمھتے ہیں۔ خود صدر ٹرمپ دہشت گردی کے حوالے سے  PKKکو داعش سے بدتر قرار دے چکے ہیں لیکن  امریکی فوج کے خیال میں SDFکا PKKسے کوئی تعلق نہیں اور یہ ملیشیا امریکہ کی انتہائی وفادار حلیف ہے
ترکی کی جانب سے روس کے S-400نظام کی خریدرای امریکہ کیلئے بے حد اہم ہے کہ ترکی نیٹو کا اہم رکن ہے اور امریکہ کی دفاعی ٹیکنالوجی استعمال کررہا ہے۔امریکہ چاہتا ہے کہ ترکی اپنے فضائی دفاع کیلئے پیٹریاٹ میزائل شلن نظام استعمال کرے۔ امریکی وزارت دفاع کے کچھ حلقے خدشہ ظاہر کررہے ہیں کہ روس ترک قریبی دفاعی تعلقات سے امریکہ کی حساس ٹیکنالوجی تک روس کو رسائی مل سکتی ہے۔اسی بنا پر F-35طیاروں کی پیداواروترقی کے مشترکہ منصوبے سے ترکی کو ہٹادیا گیا ہے۔
روس سے دفاعی نظام کی خریداری پر ترکی کا موقف بہت واضح ہے۔ صدر ایردوان کا کہنا ہے کہ منفرد محل وقوع کی وجہ  سے ترکی کیلئے ناقابل تسخیر دفاعی نظام  ضروری ہے اور انقرہ اپنی دفاعی ضرورت کیلئے صرف ایک ملک پر بھروسہ نہیں کرسکتا۔ انھوں نے امریکی صدر سے ملاقات میں کہا کہ وہ امریکہ سے پیٹریاٹ میزائیل کی خریداری میں دلچسپی رکھتے ہیں لیکن S-400 بھی ترکی کے دفاع کیلئے بہت ضروری ہے۔ترکوں کو کانگریس کے معاندانہ روئے کی بنا پرامریکی اسلحے اور تیکنیکی مدد کی فراہمی کسی بھی وقت منجمد یا منسوخ کئے جانے کا خدشہ بھی ہےاور انکے خیال میں ایسی صورتحال کیلئے متبادل بندوبست ضروری ہے۔ روس S-400کی تیاری ترکی میں کرنے پر رضامند ہے جسکی وجہ سے نہ صرف ملک میں روزگار کے اضافی مواقع پیدا ہونگے بلکہ مشترکہ منصوبے کے تحت تیار ہونے والےطیارہ شکن میزائیل باہمی رضامندی سے دوسرے ملکوں کو بھی فروخت کئے جاسکیں گے   
ایک اور بڑامسئلہ امریکہ کی وفاقی عدالت میں ترک سرکاری بینک HALK BANKASIالمعروف ہالک (عوامی)بینک کے خلاف منی لانڈرنگ کا مقدمہ ہے۔ بینک پر الزام ہے کہ اس نے ایران کے خلاف پابندیوں کو ناکام بنانے کیلئے جو اقدامات کئے وہ منی لانڈرنگ کی تعریف میں آتے ہیں۔اسی طرح صدر ایردوان کویقین ہے کہ 2016 کی ناکام فوجی کی پشت پر امریکہ بہادر اور انکے یورپی حلیف تھے۔ترکی نے جناب فتح اللہ گولن کو اس کا سرغنہ قراردیا ہے جو امریکہ میں ہیں۔
روس کے دفاعی نظام کی خریداری اور شمالی شام میں فوج کشی کے خلاف امریکی کانگریس میں پابندیوں کی قرارداد منظور کرچکی ہے لیکن صدر ٹرمپ ان پر عملدرآمد روکے ہوئے ہیں۔ان اقدامات کی بنا پر ایک ہفتہ پہلے تک یہ افواہ گردش کر رہی تھی کہ شائد یہ دورہ منسوخ ہوجائے۔لیکن صدر ٹرمپ کے اصرار پر صدر ایردوان امریکہ آنے پر آمادہ ہوئے۔
ملاقات کے دوران روس سے اسلحے کی خریداری اور شمالی شام میں فوجی کاروائی کے علاوہ جن موضوعات پر صدر ایردوان نے زور دیا ان میں شامی مہاجرین کی دیکھ بھال اور سب سے بڑھ کر داعش کے یورپی نژاد قیدیوں کی انکے ملکوں کو واپسی کا معاملہ شامل ہے۔ صدر ٹرمپ کی جانب سے ساتھ باہمی تجارت کے حجم کو100 ارب ڈالر تک بڑھانے کی خواہش پر جناب ایردوان مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران زور دے کر کہا کہ 'یہ اسی وقت ممکن ہے جب امریکی کانگریس کی جانب سے ترکی پر لٹکتی پابندیوں کی تلوار کو ہٹالیا جائے' جس پر صدر ٹرمپ نے اس معاملے پر مل کر کام کرنے کا یقین دلایا۔
صدر ٹرمپ کی تجویز پر صدر ٹرمپ نے سینیٹ میں ریپبلکن پارٹی کے ان لیڈروں سے ملاقات کی جو ترکی کے سخت خلاف ہیں۔ جناب ایردوان نے سینیٹ کی مجلس قائمہ برائے انصاف کے سربراہ لنڈسے گراہم، خارجہ کمیٹی کے سربراہ سینیٹر جم رش Jim Risch،مسلم مخالف سینٹر ٹیڈ کروز، سینیٹ میں ریپبلکن پارٹی کی نائب پارلیمانی قائد سینٹر جونی ارنسٹ اور ریپبلکن پارٹی کے  واحد سیاہ فام سینیٹر ٹم اسکاٹ سے خصوصی ملاقات کی۔ اس دوران ترک صدر نے Ipodپر ان سینٹروں کو PKKاور SDFکی دہشت گردی کے دستاویزی ثبوت پیش کئے۔ وہائٹ ہاوس سے وابستہ صحافتی حلقوں کا خیال ہے کہ صدر ٹرمپ اپنے 'ترک دوست' کو  مخالف لابی کے تحفظات کے بارے میں آگاہ کرچکے تھے۔ چنانچہ صدر ایردوان پوری تیاری کے ساتھ آئےاور انھوں نےجہاں غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کی وہیں امریکہ سے اچھے تعلقات کیلئے اپنی دلچسپی، اخلاص اور عزم کااظہار بھی کیا۔ ملاقات کے بعد سینیٹروں کا کہنا تھا کہ شمالی شام میں انسداد دہشت گردی اقدامات اور روسی اسلحے کے بارے میں صدر ایردوان کا موقف بہت واضح اور دوٹوک تھا۔ریپبلکن پارٹی کے یہ قدامت پسند رہنماملاقات کے بعد بھی ترکی سے موقف سے پوری طرح متفق نہیں لیکن اب ان پر انقرہ کا نقطہ نظر پوری طرح واضح ہوچکا ہے۔
Halkbankکے معاملے میں صدر ٹرمپ کیلئے کچھ کرنا ممکن نہیں کہ معاملہ عدالت میں ہے اور ناکام فوجی بغاوت کے بارے میں صدر ٹرمپ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اسوقت صدر اوباما کی حکومت تھی اور انکے خیال میں سابق امریکی صدر کی ناکام و نامراد خارجہ پالیسی نے امریکہ کو شدید نقصاں پہنچایا یے۔
یعنی روسی دفاعی نظام کی خریداری اور شمالی شام میں فوجی کاروائی کے معاملے پربات چیت نشستند گفتند برخواستند سے آگے نہ بڑھ سکی کہ دونوں ملکوں کا موقف بڑا دوٹوک ہے تاہم موقف کی مدلل وضاحت، متنازعہ امور پرمکالمہ جاری رکھنے اور  مل کر کام کرنے کے خوشگوار عزم کے ساتھ صدر ایردوان وطن واپس چلے گئے۔
ہفت روزہ فرائیڈےے اسپیش کراچی 22 نومبر

2019