Thursday, November 28, 2019

ناروے کا واقعہ


ناروے کا واقعہ
جنوبی ناروے کے شہر کرسچین سینڈ (Kristiansand)میں قرآن جلانے کے واقعے نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو مغموم و مشتعل کردیا ہے۔ناروے اور ڈنمارک میں اسلام ومسلمانوں کے خلاف تحریک ایک عرصے سے جاری ہے۔ شمالی یورپ کے اس علاقے میں جسے Scandinaviaکہتے ہیں اسلاموفوبیا کی منظم تحریک کا آغاز ڈنمارک کے ایک ناکام سیاستدان راسمس پالڈن Rasmus Paldonنے کیا۔ راسمس مسلمانوں کو وحشی و اجڈ اور اسلام کو پتھروں کے دور کا مذہب سمجھتے ہیں۔ انکے خیال میں مسلم دنیا کی اس وحشت کا منبع نعوذباللہ قرآن اور نبی مہربان کی تعلیمات ہیں۔ جہاد کے نام پر قرآن دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور مسلم دنیا سے یورپ آنے والے مسلمان جہاد یعنی دہشت گردی کے ذریعے ہماری تہذیب کو پتھروں کے دور میں واپس لے جانا چاہتے ہیں۔ راسمس کو شامی و صومالی پناہ گزینوں کی یورپ آنے پر سخت تشویش ہے اور وہ اسے جرمنی پر نازی حملوں سے تشبیہ دیتے ہیں۔اس کار خیر میں موصوف کو ایک عراقی نژاد صحافی اور ادیب ولید کوبیسی کی نصرت حاصل تھی۔ ولید جامعہ بغداد سے انجنیرنگ کرنے کے بعد 1981 میں ناروے آگئے اور یہاں صحافت و فلم سازی شروع کردی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ایک راسخ العقیدہ سیکیولر مسلمان اور قرآن کے عالم ہیں۔ ولید کے خیال میں حجاب انتہا پسندوں  کی شناختی وردی ہے۔ اپنی دقیق و عمیق  تحقیق وجستجو کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ حجاب کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ آئت اللہ خمینی کی ایجاد ہے۔ یورپ میں آباد مشہور مسلمانوں خاص طور سے طارق رمضان، ممتاز نارویجین صحافی عثمان رانا، نارویجین لبرل پارٹی کے رہنما عابد راجہ اور دوسرے مسلمان زعما کے بارے میں انھوں نے تحقیق سے ثابت کیا کہ یہ تمام لوگ اخوان المسلموں اور  'موددی جماعت' کے تنخواہ دار ایجنٹ ہیں جنکا کام یوپ میں اسلامی انقلاب کیلئے یورپی دہشت گردوں کی بھرتی اور تربیت ہے۔ راسمن کی اسلام فوبیاتحریک کو نظریاتی مواد ولید کوبیسی نے ہی فراہم کیاجو اس سال جولائی میں انتقال کرگئے۔
راسمن پالڈن نے ڈنمارک میں اپنے اسلام دشمن موقف کے فروغ کیلئے 2017میں  Stram Kursکے نام سے ایک سیاسی جماعت قائم کی جسکاانگریزی نام Hard Lineپارٹی ہے۔ گزشتہ انتخابات میں ہارڈ لائن پارٹی کو 2 فیصد سے بھی کم ووٹ ملے چنانچہ انکی ڈنمارک پارلیمان  میں نمائندگی صفر ہے۔راسمس ایک شعلہ بیان مقرر ہیں اور اشتعال انگیز تقاریر کی بنا پر انکے خلاف 5 سال کی پابندی لگائی گئی۔ پابندی کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے انھوں نے چند ماہ پہلے Vibrogشہر میں ایک جلسے کے دوران نبی محترم ﷺ کے خلاف انتہائی گندی زبان استعمال کی جس پر مسلمانوں کے ساتھ عام ڈینش شہری میں مشتعل ہوئے۔ ہاتھا پائی کے دوران راسمس نے پولیس کو 'مسلمانوں کا کتا' کہا اور حملے کی کوشش کی۔ اس بات پر راسمس کو تو محض جرمانہ کیا گیا لیکن ہاتھا پائی اور دھکم پیل کے الزام پر ایک شامی نوجوان کو پہلے تو دو ماہ کیلئے جیل بھیجا گیااورسزا کاٹنے کے بعد اسے ملک بدر کردیا گیا۔
ناروے کے اسلام مخالفین کیلئے راسمن پالڈن ایک مربی ہیں اور مسلمانوں کو اشتعال دلانے کیلئے انکی حکمت عملی کو مسلم دشمن حلقوں میں پزیرائی حاصل ہے۔ ناروے میں اسلام دشمنی کا منظم آغاز 2000 میں ہوا جب اوسلو Osloکی جامع مسجد کی طرف سے لاوڈاسپیکر پر اذان  کی اجازت کیلئے درخواست دی گئی۔اسکے ردعمل میں ایکشن کمیٹی برائے انسداد اذان تشکیل دی گئی۔ اس ایکشن کمیٹی کا شروع میں تو موقف تھاکہ لاوڈاسپیکر پر اذان نہ صرف صوتی کثافت کا سبب بنے گی بلکہ اس سے سیکیولر ناروے کا ملائم چہرہ بھی داغدار ہوگا۔ لیکن جلد ہی اذان کیخلاف بننے والی ایکشن کمیٹی ایک منظم تحریک میں تبدیل ہوگئی اور چند ماہ بعد اسکا نام Forum Against Islamisation (FOM)  رکھدیا گیا جلد ہی اسکے ارکان کی تعداد 13000 ہوگئی اور سارے یورپ کے مسلم دشمن اس پرچم تلے منظم ہوگئے۔ ناروے سے باہر اسے Stop Islamisation in Europeکہا جانے لگا۔ نارویجین حکومت کی جانب سے محدود تعداد میں شامیوں کو پناہ دینے کی پیشکش نےمسلم مخالف تحریک کیلئے مہمیز کا کام دیا اور ولید کوبیسی کے 75 سالہ نظریاتی شاگرد ارنے تھومر  (Arne Thomer) نے 2008 میں STOPP ISLAMISERINGEN AV NORGE یا سیان کے نام سے ایک انتہا پسند جتھہ بنالیا۔ ارنے تھومر ایک صحافی ہیں اور خود کو ملحد کہتے ہیں۔ تاہم انکے الحاد کا ہدف صرف اسلام قرآن اور صاحب قرآں ﷺ ہیں۔  انھیں دوسرے مذاہب سے کوئی پریشانی  ہیں۔ رسمسن کی طرح انکا مقصد بھی توہین کے ذریعے مسلمانوں میں اشتعال پیدا کرنا ہے تاکہ وہ یہ ثابت کرسکیں کہ مسلمان شدت پسند ہیں جو آزاد خیال مغربی معاشرے کیلئے کسی طور مناسب نہیں۔
قرآن کی توہین کوئی نئی چیز نہیں اور ایک عرصے سے مغرب و امریکہ یہ میں یہ کوششیں جاری ہیں۔ قرآن پاک کی سرعام بیحرمتی کا آغاز 2010 میں امریکی ریاست فلورڈا کے شہر گینزول میں ہوا جب ایک چھوٹے سے چرچ  کے متعصب پادری ٹیری جونز نے سانحہِ نیویارک کے متاثرین کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئےگیارہ ستمبر 2010کو قران جلانے کا دن قراردیا ۔فیس بک پر اس نے تمام "اھل ایمان" کو قرآن پاک کے نسخوں کے ساتھ اپنے چرچ آنے کی دعوت  دی جسکے پارکنگ لاٹ میں  قرآن جلانے کی تقریب منعقد ہونی تھی۔ اس اعلان کی ساری دنیا میں مذمت کی گئی اور خودگینز ول شہر کی انتظامیہ  نے ٹیری جونز پر نفرت پھیلانے اور امن عامہ میں خلل ڈالنے کا الزام لگاتے ہوئے وفاقی محکمہ انصاف سے کاروائی کی درخواست کی۔ محکمہ شہری دفاع نے پادری صاحب کو متنبہ کیا کہ عوامی مقامات پر آگ جلانے پر پابندی ہے اور اگر قرآن کو آگ لگائی گئی تو تقریب کے تمام  شرکا پر آتش زنی کے مقدمات قائم کئےجائینگے۔
صدر اوباما کو خوف تھا کہ توہین قرآن سے دنیا بھر میں امریکی مفادات کو نقصان پہنچے گا چنانچہ  وزیر دفاع ڈاکٹر رابرٹ گیٹس نے پادری سے ملاقات کے دوران انھیں قرآن سوزی سے باز رہنے کی تلقین کی۔ دوسری طرف امریکہ کی مسلمان تنظیموں نے انتہائی تدبر کا مظاہرہ کیا ور اس پر مشتعل ہونے کے بجائے اس دن کو حضرت عیسیٰ سے اظہار محبت  کے دن کے طور پر منانے کا اعلان کیا۔ انکا کہنا تھا کہ قران پاک کی بیحرمتی صرف مسلمانوں کی دل آزاری کا سبب نہیں بنے گی بلکہ اس کتاب میں حضرت عیسیٰ، انکی پاکدامن والدہ، حضرت زکریا انکی عفت ماب اہلیہ  اور  حضرت یحییٰ سمیت تمام انبیاء اکرام کا ذکر اور انکے مقدس واقعات درج ہیں۔ان متبرک شخصیات اور ان سے وابستہ واقعات مسلمانوں،عیسائیوں اوریہودیوں کے لئے بنیادی عقاٰید کی حیثیت رکھتے ہیں لھذٰا قرآن کی توہین دراصل تمام الہامی مذاہب کی توہین ہے ۔ فلورڈا یونیورسٹی کی مسلم اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن نے "جلاومت ! پڑھو " کے عنوان سے ایک تحریک کا آغاز کیا اور قرآن کریم کے ھزاروں نسخے طلبہ اور اساتذہ میں تقسیم کئے گئے۔امریکی مسلمانوں کے شائستہ صبر، برداشت اور بردباری نے امریکی رائے عامہ کو بے حد متاثر کیا اور شدید عوامی دباو کے تحت ٹیری جونز نے قران کریم کو جلانے کی تقریب منسوخ کردی۔
لیکن چند ماہ بعد ٹیری جونز پر یہ خبط پھر سوار ہوا اور اس بار انھوں نے قرآن پر مقدمہ چلانے کا اعلان کیا۔ اتوار 20 مارچ 2011 کو پادری نے اپنے چرچ میں عدالت لگائی، قرآن کے نسخےکو  ملزم کے کٹہرے میں رکھا اور خود منصف کی کرسی پر براجمان ہوگئے۔ آٹھ منٹ کی عدالتی کاروائی کے بعد انھوں نے قرآن کو انسانیت دشمن، خواتین کے حقوق کا مخالف اور دہشت گردی کی کتاب قرار دیتے ہوئے سزائے موت سنائی اور ایک جلاد پادری نے قرآن کے نسخے پر مٹی کا تیل چھڑک کر آگ لگادی۔
اگرچہ کہ  ٹیری جونز کی اس حرکت کی امریکہ میں بھی سخت مذمت کی گئی، مسیحی قیادت نے اسے انسانیت دشمن قدم گردانااور مسیحی پاردیوں نے ٹیری جونز کو "اینٹی کرائسٹ" قراردیالیکن سوا ارب مسلمانوں کی دل آزاری پر پادری کے خلاف کوئی تادیبی کاروائی نہ ہوئی۔
پچھلے ہفتے ارنے تھومیر نے اعلان کیا کہ ہم کرسچین سینڈ شہر کے چوک میں دہشت گردی کے منشور یعنی قران کو جلائیں گے۔ 85 ہزار آبادی والے کرسچین سینڈ میں 3 ہزار کے قریب مسلمان آباد ہیں جنکی اکثریت صومالیہ، شام، فلسطین و عراق کے مہاجرین پر مشتمل ہے۔ٰیہاں پاکستانی، عرب، بنگلہ دیشی اور افریقی مسلمان بھی آباد ہیں۔
تھومیر کے اعلان کے ساتھ ہی مسلم قائدین نے مقامی انتظامیہ سے رابطہ کیا اور پولیس نے یقین دلایا کہ وہ قرآن کریم ی بیحرمتی نہیں ہونے دیگی۔ اس واقعے کی زبردست تشہیر کی گئی چنانچہ مسلمانوں کی بڑی تعداد بھی اپنے جذبات کے اظہار کیلئے وہاں موجود تھی۔ پولیس نے رکاوٹیں کھڑی کرکے دونوں گروپوں کو علیحدہ کردیا۔ اس دوران پولیس  افسران نے مسلمانوں کو یقین دلایا کہ وہ آزادی اظہار رائے کے تحت سیان کے لیڈروں کو تقریر سے تو نہیں روک سکتے لیکن فائر اینڈ آرمز قانون کے تحت پبلک مقامات پر آگ جلانا منع ہے اسلئے وہ قران کو جلنے نہیں دینگے۔
جلسے کے آغاز پر ارنے اور اسکے ساتھی اشتعال انگیز تقریریں کرتے رہے اس دوران نبی مہربان ﷺ کے بارے میں جو استعمال ہوئی اسےسوچ کر ہی ابکائی آتی ہے۔ تاہم مسلمانوں نے وعدے کے مطابق تحمل سے برداشت کیااور نعروں اور درود کے ذریعے اپنے جذبات کا اظہار کرتے رہے۔ اس دوران آتشزدگی کیلئے قرآن کریم کا ایک نسخہ باربی کیو گرل پر رکھا تھا جسے پولیس نے مبینہ طور پر اپنے قبضہ میں لے لیا۔ جس پر سیان کے دوسرے رہنما لارس تھورسن نے اپنی جیب سے قران کریم کے دوسرے نسخے کو نکال کر ٓآگ لگادی۔ پولیس نے لارس کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ پولیس کی بے حسی دیکھ کر ایک شامی نوجوان قرآن کو بچانے کیلئے دوڑا تووہی پولیس جو قرآن جلتا دیکھ کر خاموش تھی برقی رفتار سے  جھپٹی اور حملہ آور نوجوان کو گرفتار کرکے قرآن جلانے والے کو بچالیا۔اس شامی پناہ گزین کا نام عمر دھابہ ہے جو بطور باروچی (شیف) کام کرتا ہے۔ کچھ مسلمان نوجوانوں نے عمر کو پولیس کی مارپیٹ سے بچانے کی کوشش کی اور ا ن سب پر پولیس کو تشدد کا نشانہ بنانے کے مقدمات قائم کردئے گئے۔
شہر کی سنجیدہ مسلم قیادت کا خیال ہے کہ عمر کی جانب سے قانون ہاتھ میں لینے کی کوشش غیر ضروری تھی۔ انکا کہنا ہے کہ تشدد مناسب بات نہیں کہ شرپسند یہی چاہتے تھے۔ اس واقعے کی ویڈیو سارے یورپ میں پھیلاکر شامی، عراقی اور صومالی مہاجرین کی ملک بدری کا مطالبہ کیا جارہاہے۔ انتہاپسندوں کی جانب سے واقعے کی تصویروں پر جو عنوانات ٹانکے گئے ہیں اسکا ترجمہ کچھ اسطرح ہے کہ 'خونخوار کتوں کواپنا پٰیٹ کاٹ کر کھلاو تاکہ یہ خود تمہیں ہی پھاڑ کھائیں'
 کرسچین سینڈ کی مسلم قیادت کی جانب سے برداشت کے بھاشن اپنی جگہ لیکن مسلم امت کی اٹھان کچھ اس نہج پر ہوئی ہے کہ ہمارے جوانوں سے قرآن اور صاحب قرآن ﷺ کی توہین برداشت نہیں ہوتی۔ کسی مسلم دانشور نے کیا خوب کہا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کرنے والے مسلمانوں کی تعداد شائد دنیا میں ایک فیصد سے بھی کم ہو لیکن آپ ﷺ کے نام پر ہر مسلمان اپنی جان قربان کرنے کو ہروقت تیار ہے۔مغربی تہذیب کا تقاضہ ہے کہ مسلمان اپنے عقائد کی توہین کو برداشت کرنے کی عادت ڈال لیں اورمغربی ممالک میں آباد متعدل مسلمان بھی یہی چاہتے ہیں لیکن عام مسلمان ابھی اتنا 'مہذب' نہیں ہوا کہ قرآن یا اپنے آقا ﷺکی توہین برداشت کرسکے۔ یہ'جذباتیت' ہی امت کی سب سے بڑی قوت ہے اور فرقہ بندیوں و افتراق کے باوجود عشق رسول نے امت کو  ایک رکھا ہوا ہے کہ سرکار ﷺ سے عشق کے معاملے میں سیکیولر و لبرل اور مولوی سب ایک جیسے انتہا پسند ہیں۔
اسلام مخالفین کو اس 'کمزوری' کا اچھی طرح اندازہ ہے چنانچہ توہین قرآن کو ابوغریب، گوانتا نامو بے، بگرام اور دوسری جگہ بہت ہی موثر انداز یں استعمال کیا گیاہے یعنی جب روائتی تشدد سے بات نہ بنے تو لب کشائی کیلئے  توہین قرآن کا حربہ استعمال کیا گیا۔ 'ملزم' سے کہا جاتاتھا کہ اگر اس نے صحیح بات نہ بتائی تو قرآن کے نسخے اسکے پیروں پر ڈالدئے جائینگے یا اسکے سامنے قرآن کو سور کی چربی میں لپیٹ دیا جائیگا۔ قرآن کو فلش میں ڈالنے کی دھمکی بھی دی گئی جسے سن کر وہی قیدی جو واٹر بورڈنگ، ناخن کھینچنے، کرنٹ لگانے اور تشدد کی دوسری اذیتوں خندہ پیشانی کے ساتھ سہہ رہا تھا فوراًہی  اپنے تمام کردہ و ناکردہ گناہوں کا اعتراف کرلیتا ہے۔ کہتے ہیں کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو ایسے ہی ذہنی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
کرسچین سینڈ کے واقعے میں مسلم نوجوانوں نے کمال تحمل و برداشت کا مظاہرہ کیا ہے لیکن ان سے قرآن کی توہین برداشت کرلینے کی توقع غیر حقیقت پسندانہ ہے۔اس واقعے کی تمام تر ذمہ داری شہری پولیس پر ہے جس نے وعدے و یقین دہانی کے باوجود قرآن کی بیحرمتی سے پہلے ملزم کو  گرفتار  نہیں کیا۔ میڈیا پر اٹھنے والے طوفان کے نتیجے میں بہت سے سابقین سمیت ناروے کی مسلم قیادت شدید دباو میں  ہے اور انکا خیال ہے کہ عمر دابہ کی 'جذباتیت' نے  مسلمانوں کامقدمہ کمزور کردیا ہے۔
کرسچین سینڈ کے مسلم رہنماوں کی فکر و تحفظات بہت حقیقت پسندانہ ہیں جسے بزدلی کہہ کر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ زمینی حقائق ان کے حق میں نہیں۔ حملے کے مرتکب نوجوانوں کے سرپر اب جلاوطنی کی تلوار لہرا رہی ہے جس سے انکے خاندانوں کا معاشی مستقبل سخت خطرے میں ہے۔ اسوقت معاملے کو درست کرنے کی ذمہ داری مسلم حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے۔ تمام مسلم دارالحکومتوں میں نارویجین سفرا کو طلب کرکے ویڈیو کی مدد سے پولیس کی مجرمانہ غفلت کی نشاندہی کی ضرورت ہے۔ عمران خان نے اقوام متحدہ میں اپنے خطاب کے دوران بہت ہی مدلل انداز میں سمجھانے کی کوشش کی تھی کی مسیحی دنیا کے مقابلے میں مسلمانوں کی مذہبی اقدار مختلف ہیں۔ محمد  ﷺ مسلمانوں کو اپنی جان سے زیادہ عزیز ہیں جنکی ہلکی سی توہین بھی ناقابل برداشت ہے۔ناروے کی حکومت کو یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ عیسائی بائیبل کومحض ایک مقدس کتاب سمجھتے ہیں جبکہ مسلمان کیلئے قرآن اللہ کا کلام بلکہ وہ رسی ہے کہ جسکا دوسرا سرا اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
مغرب اگر پرامن بقائے باہمی اور مذہبی رواداری پر یقین رکھتا ہے تو اسے مسلمانوں کے عقائد ہی نہیں بلکہ مسلم اقدار و روایات کے احترام کو بھی یقینی بنانا ہوگا۔ یہاں اس غلط فہمی کا ازالہ بھی ضروری ہے کہ تحٖفظ اظہار رائے کا یورپی فلسفہ انسداد توہین مذہب کی راہ ٓیں رکاوٹ ہے۔ یورپ وامریکہ میں کسی بھی جگہ جرمن یہودیوں کے مبینہ قتل عام یا ہولوکاسٹ کے بارے میں منفی بات کرنا خلاف قانون ہے۔ جامعات میں ہولوکاسٹ کی صحت پر تحقیق بھی قابل سزا جرم ہے۔ خود ناروے ایک آئینی بادشاہت ہے اور وہاں سلطان معظم ہیرالڈ چہارم پر تنقید کی اجازت نہیں۔ اسی نوعیت کی سرخ لکیر کھینچ کر انبیا اکرام، الہامی کتب اور شخصیات کی حرمت و توقیر کو یقینی کیوں نہیں بنایا جاسکتا؟
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 29 نومبر 2019

No comments:

Post a Comment