صدر ایردوان کا درہ امریکہ
ترک صدر طیب رجب
ایردوان کے حالیہ دورہ امریکہ کے بارے میں مغرب کے سفارتی و صحافتی حلقوں کی آرا
میں تضاد پایا جاتا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ترک صدر نے اپنے موقف کے دوٹوک
اظہار کے ساتھ مخالفین کو دلائل کے ذریعے قائل کرنے کی کامیاب کوشش کی جبکہ کچھ لوگ
اس دورے کو ناکام قراردے رہے ہیں۔
جس وقت صدر ٹرمپ اپنے
ترک ہم منصب سے ملاقات کررہے تھے کانگریس میں انکے مواخذے کی کاروائی جاری تھی اور
گواہوں کے بیانات ٹیلی ویژن پر براہ راست نشر ہورہے تھے۔ ملاقات کے بعد صدر
ایردوان کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس میں جب ایک صحافی نے امریکی صدر سے انکے
مواخذے کے بارے میں پوچھا تو صدر ٹرمپ نے کہاکہ وہ اس 'فضول کاروائی' کے دوران ترک
صدر سے قومی امور پر بات چیت کررہے تھے جو انکے لئے زیادہ اہم تھی۔
صدر ٹرمپ کی باتوں سے
اندازہ ہوا کہ دونوں ملکوں کے درمیان کلیدی نکات پر شدید اختلافات کے باوجود
صدر ٹرمپ ترک امریکہ تجارتی حجم کو 100 ارب
ڈالر تک لے جانے کیلئے سنجیدہ و پرعزم ہیں۔ ترکی اعلیٰ معیار کا فولاد پر کشش
شرائط پر امریکہ کو فراہم کرتا ہے۔ صدر ٹرمپ اعتراف کرچکے ہیں کہ امریکی F-35طیاروں کا ڈھانچہ ترک
فولاد سے بنایا جاتا ہے۔ دشمن کی نظر سے پوشیدہ (Stealth)رکھنے کیلئے طیارے کی بیرونی سطح پر دھاتی پرت (coating)کے بجائے خصوصی fiber matکی تہہ جمائی جاتی
ہے۔ طیارے بنانے والے ادارے Lockheed Martinکے مطابق یہ ریشہ دارمواد ترک ساختہ فولاد پر آسانی سے جمتا
ہے۔
امریکہ ہے تو ایک
سیکیولر، آزاد خیال اور لبرل معاشرہ جہاں لاکھوں افراد مذہب کے خانے میں خود کو
لادین لکھتے ہیں لیکن یہاں کے انداز فکر پر
مسیحی تاریخ، ثقافت اور اقدار کی چھاپ بہت گہری ہے۔ امریکہ بلکہ مغرب و
ترکی کے درمیان کشیدگی صدیوں پرانی ہے اور مسیحی دنیا کیلئے ترکی تاریخی اہمیت کا حامل ہے
استنبول جو پہلے
قسطنطنیہ کہلاتا تھا 330 سے 1453 تک مختلف مسیحی سلطنتوں کا پایہ تخت رہا۔ 330سے 395 تک رومن ایمپائر اور 395 سے 1453 تک مشرقی
رومن یا Byzantineسلطنت کا دارالحکومت رہا۔ کچھ عرصہ یعنی 1204 سے 1261 تک کروسیڈرز
یا لاطینی مسیحی سلطنت نے اسے اپنا دارالحکومت قراردیا۔ اسی بنا پر ایک زمانے تک استنبول
کو Byzantiumکہا جاتا تھا جبکہ
لاطینی سلطنت نے اسکا نام نیا روم رکھا۔ مسیحی
دنیا رومن یا بزنٹین سلطنت کے حوالے سے
ترکی کو ویسے ہی یاد کرتی ہے جیسے پاکستانی مسلمان لال قلعہ، دلی کی جامع مسجد اور
قطب مینار کا ذکر کرتے ہیں۔
مذہبی پس منظر کے
علاوہ ترکی کا محل وقوع بھی کچھ ایسا ہے کہ مشرقی یورپ کیلئے ترکی سے گزرے بغیر
کھلے سمندروں تک پہنچنے کا اور کوئی راستہ ہی نہیں۔ بحر اسود کے کنارے واقع
یوکرین، مالدودا، رومانیہ اور بلغاریہ کی کھلے سمندر تک رسائی صرف ترکی ہی کے
ذریعے ممکن ہے۔روسی بحریہ کا سب سے مضبوط اور جوہری ہتھیار سے لیس بلیک سی فلیٹ (Black Sea Fleet)بھی بحر اسود میں
تعینات ہے۔ روس کے اکثر سیاحتی مراکز بحر اسود کے کناروں پر ہیں جن میں سب سے مشہور سوچی ہے جہاں ہرسال لاکھوں
سیاح آتے ہیں۔
یہاں سے نکلنے کا ایک
ہی راستہ ہےیعنی تنگ سی تیس کلومیٹر طویل آبنائے باسفورس (Strait of
Bosporus) جواسے بحیرہ مرمرا سے ملاتی ہے۔
مرمرا بھی خشکی سے گھرا ایک سمندر ہے جسکی اوسط گہرائی پانچ سو میٹر سے بھی کم ہے۔
بعض ماہرینِ بحریات(Oceanographers) اسے نہر قرار دیتے ہیں اور جغرافیہ کی قدیم کتابوں میں اسے نہر
استنبول کہا گیا ہے۔ ساٹھ کلومیٹر لمبی اور سوا کلو میٹر چوڑی آبنائے ڈارڈینیلس (Dardanelles) بحیرہ
مرمرا کو خلیج یونان سے ملاتی ہے جو بحر
روم کا حصہ ہے۔ اہل ترکی آبنائےڈارڈ نیلس کو آبنائے چناکلے کہتے ہیں۔
بحر اسود سے آنے والے جہاز باسفورس سے گزر
کر بحیرہ مرمرہ میں داخل ہوتے ہیں اور پھر آبنائے چنا کلے یا ڈارڈینیلس سے گزر کربحر روم آتے ہیں۔ بحر روم سے
بحراقیانوس کا راستہ مل جاتا ہے جبکہ جنوب ایشیا کی طرف محو سفر جہاز نہر سوئز سے
گزرکر بحر احمر سے ہوتے ہوئے آبنائے باب المندب کے راستے بحر عرب اوربحر ہند
جاسکتے ہیں۔ باسفورس، بحیرہ مرمرا اور ڈارڈینیلس
تینوں ہی ترکی کی حدود میں واقع ہیں۔ یہاں سے راہداری و چنگی محصولات کی صورت میں ترک
حکومت کو معقول آمدنی حاصل ہوتی ہے جسکا
بڑا حصہ بلدیہ استنبول کیلئے مختص ہے
اس ابی راستے پر ترکوں
کی گرفت ختم کرنے کیلئے برطانیہ، فرانس اور روس 1915 میں زبردست حملہ بھی کرچکے
ہیں جسے جنگ چناکلے یا گیلی پولی وار Gallipoli Warکہتے ہیں۔ گیلی پولی جنگ کو معرکے کے بجائے ایک مکارانہ شب خون کہنا زیادہ مناسب
ہوگا جب جزیرہ نمائے چنا کلے پر پانچ سمت سےحملہ ہوا۔ اس لشکر کشی کا مقصد
قسطنطنیہ پر قبضہ کرکے عثمانی سلطنت کا خاتمہ تھا۔ حملہ آور فوج میں ہندوستان کے
گورکھا اور سرزمین فلسطین کے یہودی سپاہی بھی شامل تھے جن سے وعدہ کیا گیا تھا کہ
عثمانی سلطنت کے خاتمے پر آزاد اسرائیلی ریاست قائم کردی جائیگی۔ اس جنگ میں
ہزاروں میل کا فاصلہ طئے کرکے آسٹریلیا
اور نیوزی لینڈ کے فوجی دستے بھی آئے جو ان دو اقوام کی پہلی بڑی بین الاقوامی
کاروائی تھی۔ اسی بنا پر حملے کی تاریخ یعنی 25اپریل کو آسٹریلیا نیوزی لینڈ آرمڈ کور (ANZAC) ڈےبھی کہا جاتاہے جبکہ ترک اسے آخری صلیبی حملے
کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ 10 مہینہ جاری رہنے والی اس جنگ میں دونوں جانب کے 5 لاکھ
سپاہی مارے گئے اور چناکلے اتحادی جہازوں
کا قبرستان بن گیا
1923 میں جب اتاترک
نے ملک سے اسلامی خلافت ختم کرکے ترکی کو سیکیولر ریاست بنادیا تو کشیدگی کچھ کم
ہوئی لیکن اتاترک کی کوششوں اور زبردست پابندیوں کے باوجود اسلام پسند ترک سیاست
پر غالب رہے اور جماعت سازی کا حق حاصل ہوتے ہی اسلام پسندوں نے انتخابات میں اتاترک
کی ریپبلکن پارٹی کا تعقب شروع کردیا
گزشتہ صدی کی ساتویں دہائی (70s)میں پرفیسر نجم الدین اربکان کی ملی
سلامت پارٹی بڑی جماعت بن کر ابھری۔ 1974 میں اتاترک کی جماعت حکومت سازی کیلئے
ملی سلامت پارٹی سے اتحاد پر مجبور ہوئی اور پروفیسر نجم الدین اربکان مخلوط حکومت
کے نائب وزیراعظم اور وزیر دفاع مقرر ہوئے۔ ترکی کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ
سیکیولر ازم کی محافظ ترک افواج ایک 'مولوی' کی زیرنگرانی آگئیں۔ صدر ایردوان پروفیسر
اربکان کو اپنا سیاسی استاد کہتےہیں
اسی دوران یونان کی
مدد سے قبرص میں فوجی انقلاب برپا ہوا اور یونانی فوج نے ترک قبرصیوں کا محاصرہ
کرلیا۔ وزیر دفاع اربکان نے اپنے ہنگامی
اختیارات کا بھرپور استعمال کیا اور پارلیمنٹ سے منظوری کے تکلف میں پڑے بغیر ترک
فوج کو قبرص پر حملے کا حکم دے دیا۔ ترک فوج کا حملہ اتنااچانک اور غیر متوقع تھا
کہ یونانی فوج انکا مقابلہ نہ کرسکی اور ترک قبرص کے نام سے جزیرے پر ایک آزادوخودمختار
ریاست قائم ہوگئی۔ اہل پاکستان کی دلچسپی کیلئے عرض ہے ترک قبرص کو سب سے پہلے
پاکستان نے تسلیم کیا۔ یونان اور ترکی دونوں ہی نیٹو کے رکن تھے لیکن نیٹو نے کھل
کر یونان کا ساتھ دیا۔ باشبہ جنگ قبرص نے ترکی اور مغرب کے تعلقات میں جو دراڑ
ڈالی وہ آج تک برقرار ہے۔
جہاں تک امریکہ اور ترکی کے تعلقات کا تعلق ہے تو یہ
معاملات ایک عرصے سے عدم استحکام کا شکار ہیں۔ مسیحی دنیا ور ترکی کی تاریخی چپقلش
اور سیاسی آویزش کی بناپر امریکی مقنہ یا کانگریس یا جسے یہاں Capitol کہا جاتاہےترکی کے
بارے میں اچھی رائے نہیں پائی جاتی اور صدر طیب رجب ایردوان کی جانب سے فلسطینیوں
کی پرجوش حمائت نے اس خلیج کو مزید گہرا
کردیا ہے۔
2010میں ترکی نے امدادی سامان میں لدے بحری جہازوں کا ایک قافلہ
یا Flotilla غزہ
بھیجا۔قافلے پر اسرائیلی بحریہ نے حملہ کیا جس میں کئی ترک رضاکار مارے گئے۔اس
کارواں میں پاکستانی صحافی سید طلعت حسین بھی شامل تھے۔ صدر اردوان مقبوضہ بیت
المقدس میں کئی خیراتی اداروں کی سرپرستی کرتے ہیں ۔ ترک حکومت نے زیارت بیت
المقدس کے نام سے ایک پروگرام شروع کیاہے جسکے تحت مسجد اقصیٰ جانے والے ترک
شہریوں کو حکومت کی جانب سے اعانت دی جارہی ہے۔ یہ سہولت ان ترک مسیحیوں کیلئے بھی
ہے جو بیت اللحم اور یروشلم میں اپنے مقامات مقدسہ کی زیارت کو جانا چاہتے۔جناب
ایردوان کاکہنا ہے کہ اس سے بیت المقدس کے ارد گرد معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہوگا۔ترک
محکمہ اوقاف نے بیت المقدس میں کئی خیراتی منصوبے بھی شروع کررکھے ہیں۔اقوام متحدہ
کے حالیہ اجلاس میں انھوں نقشے کی مدد سے
فلسطینیوں کے معاملات کا تفصیلی تجزیہ پیش کیا جس پر اسرائیلی حکومت سخت
مشتعل ہے۔
امریکہ ترک تعلقات کی
حالیہ بدمزگی کی بڑی وجہ شمالی شام میں ترکی کی فوجی کاروائی اور روس سے فضائی S-400 نظام کی
خریداری ہے۔
شمالی شام کے حوالے
سے معاملہ یہ ہے کہ امریکہ شامی کردوں کو اپنا وفادار حلیف سمجھتا ہے جس نے داعش
کی سرکوبی کیلئے بہت اہم کردار اد کیا ہے۔ دوسری طرف ترکی کا کہنا ہے کہ امریکہ کی
وفادار ملیشیاSyrian Democratic Force (SDF) دراصل کردش
ڈیموکریٹک پارٹی (PKK)اور اسکے عسکری ونگ YPGکا نیا نام ہے۔ ترک عدالت نے PKK کو دہشت گرد
تنظیم قراردیا ہے اور کئی مغربی ممالک بھی PKKکو دہشت گرد سمھتے ہیں۔ خود صدر ٹرمپ دہشت گردی کے حوالے
سے PKKکو داعش سے بدتر قرار دے چکے ہیں لیکن امریکی فوج کے خیال میں SDFکا PKKسے کوئی تعلق نہیں اور یہ ملیشیا امریکہ کی انتہائی وفادار
حلیف ہے
ترکی کی جانب سے روس
کے S-400نظام کی خریدرای
امریکہ کیلئے بے حد اہم ہے کہ ترکی نیٹو کا اہم رکن ہے اور امریکہ کی دفاعی
ٹیکنالوجی استعمال کررہا ہے۔امریکہ چاہتا ہے کہ ترکی اپنے فضائی دفاع کیلئے
پیٹریاٹ میزائل شلن نظام استعمال کرے۔ امریکی وزارت دفاع کے کچھ حلقے خدشہ ظاہر
کررہے ہیں کہ روس ترک قریبی دفاعی تعلقات سے امریکہ کی حساس ٹیکنالوجی تک روس کو
رسائی مل سکتی ہے۔اسی بنا پر F-35طیاروں کی پیداواروترقی کے مشترکہ منصوبے سے ترکی کو ہٹادیا
گیا ہے۔
روس سے دفاعی نظام کی
خریداری پر ترکی کا موقف بہت واضح ہے۔ صدر ایردوان کا کہنا ہے کہ منفرد محل وقوع
کی وجہ سے ترکی کیلئے ناقابل تسخیر دفاعی
نظام ضروری ہے اور انقرہ اپنی دفاعی ضرورت
کیلئے صرف ایک ملک پر بھروسہ نہیں کرسکتا۔ انھوں نے امریکی صدر سے ملاقات میں کہا
کہ وہ امریکہ سے پیٹریاٹ میزائیل کی خریداری میں دلچسپی رکھتے ہیں لیکن S-400 بھی ترکی کے دفاع
کیلئے بہت ضروری ہے۔ترکوں کو کانگریس کے معاندانہ روئے کی بنا پرامریکی اسلحے اور
تیکنیکی مدد کی فراہمی کسی بھی وقت منجمد یا منسوخ کئے جانے کا خدشہ بھی ہےاور
انکے خیال میں ایسی صورتحال کیلئے متبادل بندوبست ضروری ہے۔ روس S-400کی تیاری ترکی میں
کرنے پر رضامند ہے جسکی وجہ سے نہ صرف ملک میں روزگار کے اضافی مواقع پیدا ہونگے
بلکہ مشترکہ منصوبے کے تحت تیار ہونے والےطیارہ شکن میزائیل باہمی رضامندی سے
دوسرے ملکوں کو بھی فروخت کئے جاسکیں گے
ایک اور بڑامسئلہ
امریکہ کی وفاقی عدالت میں ترک سرکاری بینک HALK BANKASIالمعروف ہالک (عوامی)بینک کے خلاف منی لانڈرنگ کا مقدمہ ہے۔
بینک پر الزام ہے کہ اس نے ایران کے خلاف پابندیوں کو ناکام بنانے کیلئے جو
اقدامات کئے وہ منی لانڈرنگ کی تعریف میں آتے ہیں۔اسی طرح صدر ایردوان کویقین ہے
کہ 2016 کی ناکام فوجی کی پشت پر امریکہ بہادر اور انکے یورپی حلیف تھے۔ترکی نے
جناب فتح اللہ گولن کو اس کا سرغنہ قراردیا ہے جو امریکہ میں ہیں۔
روس کے دفاعی نظام کی
خریداری اور شمالی شام میں فوج کشی کے خلاف امریکی کانگریس میں پابندیوں کی
قرارداد منظور کرچکی ہے لیکن صدر ٹرمپ ان پر عملدرآمد روکے ہوئے ہیں۔ان اقدامات کی
بنا پر ایک ہفتہ پہلے تک یہ افواہ گردش کر رہی تھی کہ شائد یہ دورہ منسوخ ہوجائے۔لیکن
صدر ٹرمپ کے اصرار پر صدر ایردوان امریکہ آنے پر آمادہ ہوئے۔
ملاقات کے دوران روس
سے اسلحے کی خریداری اور شمالی شام میں فوجی کاروائی کے علاوہ جن موضوعات پر صدر
ایردوان نے زور دیا ان میں شامی مہاجرین کی دیکھ بھال اور سب سے بڑھ کر داعش کے
یورپی نژاد قیدیوں کی انکے ملکوں کو واپسی کا معاملہ شامل ہے۔ صدر ٹرمپ کی جانب سے
ساتھ باہمی تجارت کے حجم کو100 ارب ڈالر تک بڑھانے کی خواہش پر جناب ایردوان
مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران زور دے کر کہا کہ 'یہ اسی وقت ممکن ہے جب امریکی
کانگریس کی جانب سے ترکی پر لٹکتی پابندیوں کی تلوار کو ہٹالیا جائے' جس پر صدر
ٹرمپ نے اس معاملے پر مل کر کام کرنے کا یقین دلایا۔
صدر ٹرمپ کی تجویز پر
صدر ٹرمپ نے سینیٹ میں ریپبلکن پارٹی کے ان لیڈروں سے ملاقات کی جو ترکی کے سخت
خلاف ہیں۔ جناب ایردوان نے سینیٹ کی مجلس قائمہ برائے انصاف کے سربراہ لنڈسے گراہم،
خارجہ کمیٹی کے سربراہ سینیٹر جم رش Jim Risch،مسلم مخالف سینٹر ٹیڈ کروز، سینیٹ میں ریپبلکن پارٹی کی نائب
پارلیمانی قائد سینٹر جونی ارنسٹ اور ریپبلکن پارٹی کے واحد سیاہ فام سینیٹر ٹم اسکاٹ سے خصوصی ملاقات
کی۔ اس دوران ترک صدر نے Ipodپر ان سینٹروں کو PKKاور SDFکی دہشت گردی کے دستاویزی ثبوت پیش کئے۔ وہائٹ ہاوس سے
وابستہ صحافتی حلقوں کا خیال ہے کہ صدر ٹرمپ اپنے 'ترک دوست' کو مخالف لابی کے تحفظات کے بارے میں آگاہ کرچکے
تھے۔ چنانچہ صدر ایردوان پوری تیاری کے ساتھ آئےاور انھوں نےجہاں غلط فہمیوں کو دور کرنے
کی کوشش کی وہیں امریکہ سے اچھے تعلقات کیلئے اپنی دلچسپی، اخلاص اور عزم کااظہار بھی
کیا۔ ملاقات کے بعد سینیٹروں کا کہنا تھا کہ شمالی شام میں انسداد دہشت گردی
اقدامات اور روسی اسلحے کے بارے میں صدر ایردوان کا موقف بہت واضح اور دوٹوک
تھا۔ریپبلکن پارٹی کے یہ قدامت پسند رہنماملاقات کے بعد بھی ترکی سے موقف سے پوری
طرح متفق نہیں لیکن اب ان پر انقرہ کا نقطہ نظر پوری طرح واضح ہوچکا ہے۔
Halkbankکے معاملے میں صدر ٹرمپ کیلئے کچھ کرنا ممکن نہیں کہ معاملہ
عدالت میں ہے اور ناکام فوجی بغاوت کے بارے میں صدر ٹرمپ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ
اسوقت صدر اوباما کی حکومت تھی اور انکے خیال میں سابق امریکی صدر کی ناکام و
نامراد خارجہ پالیسی نے امریکہ کو شدید نقصاں پہنچایا یے۔
یعنی روسی دفاعی نظام
کی خریداری اور شمالی شام میں فوجی کاروائی کے معاملے پربات چیت نشستند گفتند
برخواستند سے آگے نہ بڑھ سکی کہ دونوں ملکوں کا موقف بڑا دوٹوک ہے تاہم موقف کی
مدلل وضاحت، متنازعہ امور پرمکالمہ جاری رکھنے اور مل کر کام کرنے کے خوشگوار عزم کے ساتھ صدر
ایردوان وطن واپس چلے گئے۔
ہفت روزہ فرائیڈےے اسپیش کراچی 22 نومبر
2019
No comments:
Post a Comment