Friday, October 29, 2021

ترکی مغرب کشیدگی ۔ تلخ کلامی کے بعد مفاہمت کے اشارے

ترکی مغرب کشیدگی ۔ تلخ کلامی کے بعد مفاہمت کے اشارے

ترکی اور مغرب کے درمیان کشیدگی ایک بار پھر اپنے عروج کو چھو رہی ہے۔انقرہ سے برسلز اور واشنگٹن کی کشمکش و کشیدگی 18 سال پرانی ہے۔ اسکا آغاز 2002 میں ہوا جب طیب رجب ایردوان کی انصاف و ترقی پارٹی (AKP) نے 550 کے ایوان میں 363نشستیں جیت لیں۔ یہ 33 سال میں پہلا انتخاب تھا جب کسی جماعت نے واضح اکثریت حاصل کی ورنہ 1969 سے 1997تک مخلوط حکومتیں تشکیل پائیں جنھیں فوجی جرنیل اپنے بوٹوں کی نوک پر رکّھے رہے۔ اے کے پی کی بھاری اکثریت سے کامیابی کے باوجود اسلام کے حق میں ایک تقریر کے باعث سزایافتہ ایردوان کسی بھی منتخب عہدے کیلئے نااہل تھے۔ چنانچہ انکے دستِ راست عبداللہ گل وزیراعظم منتخب کرلئے گئے۔ اتفاق سے انتخابی بدعنوانی کی بناپر ترک عدالت نے شمال مشرقی صوبے سعرد (Siirt)کے انتخابات کالعدم قراردے دئے اوراگلے برس فروری میں وہاں دوبارہ انتخابات منعقد ہوئے۔ اسوقت تک جناب ایردوان کی نااہلی ختم ہوچکی تھی چنانچہ انھوں نے ضمنی انتخاب میں حصہ لیا اور انکی کامیابی پر  عبداللہ گل مستعفی ہوگئے جسکے بعد جناب ایردوان کو وزیراعظم منتخب کرلیا گیا۔

جناب ایردوان نے اپنی مقبولیت اور دو تہائی کے قریب پارلیمانی حجم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تیزی سے اصلاحات شروع کیں، جس میں سب سے اہم قدم آئی ایم ایف پروگرام کا اختتام تھا۔ اسی کے ساتھ پارلیمان کی بالادستی کیلئے قانون سازی کی گئی۔ ساتھ ہی دینی مدارس پر سے پابندیاں ہٹا لی گئیں۔ امتناع شراب کے حوالے سے جناب ایردوان نے لاجواب تدبر کا مظاہرہ کیا۔مسودہ قانون میں کہا گیا ہےکہ کسی بھی تعلیمی ادارے یاعبادت گاہ سے پانچ سو میٹر کے اندر شراب خانے کی اجازت نہیں۔ اس بِل  کی مخالفت کسی کیلئے بھی ممکن نہ تھی اور قانون نافذ ہوتے ہی میکدے آبادی سے کافی فاصلے تک محدود ہوگئے۔

مغرب کو ترکی میں اسلام پسندوں کی کامیابی پر تشویش تو پہلے دن سے تھی لیکن انقرہ واشنگٹن کشیدگی کا کھلا آغاز اسوقت ہوا جب 2003 میں ترک وزارت دفاع نے عراق پر حملے کے لئے انسرلیک سے  امریکی جنگی جہازوں کے اڑنے پر پابندی لگادی۔ صدر بش خاصے ناراض ہوئے۔ وزیراعظم  ایر دوان کا موقف تھا کہ جنگ اقوام متحدہ یا نیٹو کی اجازت کے بغیر چھیڑی جاری ہے لہٰذا ترک  سرزمین عراق پر حملے کیلئے استعمال نہیں ہوگی۔ اس وقت جارج بش کو 2004 کی انتخابی مہم کا سامنا بھی تھا اسلئے انھوں نے بات  بڑھانے سے گریز کیا۔

دوسری جانب ایردوان حکومت نے  معاشی اصلاحات جاری رکھیں جس سے خوشحالی میں اضافہ ہوا اور 2007 کے انتخابات بھی اے کے پی نے جیت لئے۔شفاف طرزِ حکمرانی  کے نتیجے میں ایردوان کی مقبولیت اور بڑھ گئی۔ یہیں سے سازشوں کے نئے دور کا آغاز ہوا۔ ارب پتی دانشور، جمہوریت کے چمپئین اور سیکیولر ازم کے علمبردار  جارج سورو (George Soros)میدان میں آئے۔ امریکی شہریت کے حامل ہنگری نژاد 91سالہ جارج سورو ایک  تنگ نظر یہودی ہیں جنکے خیال میں دنیا کی تمام خرابیوں کی جڑ مذہبی سیاست ہے۔ وہ سیاست میں مذہب کی آمیزش کو جمہوریت کیلئے زہرِ قاتل سمجھتے ہیں۔ اسی لئے انکا خیال ہے کہ دنیا بھر کی جمہوری قوتوں کو مل کر مشرق وسطیٰ میں اخوان المسلمون کا راستہ روکنا چاہئے۔ اپنے فلسفے کی ترویج و اشاعت کیلئے انھوں نے Open Society Foundations OSFکے نام سے ایک 'خیراتی' ادارہ قائم کیا ہے۔ فاونڈیشن بنانے کا فائدہ یہ ہے کہ ایجنڈے کی تکمیل کیلئے مخلتف ممالک میں ذیلی تنظیموں کو رقومات 'امداد' کی شکل میں بھیجی جاتی ہے اور ان 'عطیات پر وہ ٹیکس میں چھوٹ بھی حاصل کرلیتے ہیں۔

صدر مورسی کا تختہ الٹنے میں بھی OSFنے مبینہ طور پر کلیدی کرداراداکیااور اس 'کارِ خیر' میں جناب سورو کو مصری عرب پتی نجیب ساویرس کی حمائت حاصل تھی۔ جناب نجیب مشہور ٹیلی کمیونیکشن کمپنی اورسکوم (ORASCOM)کے بانی و مالک ہیں۔ پاکستان میں موبائل فون کی خدمات فراہم کرنے والا ادارہ موبی لنک کمیونیکشنز اورسکوم کی ملکیت ہے۔ اخوان کی حکومت ختم کرنے کیلئے نجیب ساویرس اور جارج سورو سے پانی کی طرح پیسہ بہایا۔

مزے کی بات کہ مذہب کو سیاست اور جمہوریت کیلئے انتہائی خطرناک سمجھنے والے سورو صاحب کو اسرائیل میں مذہبی جماعتوں کی موجودگی پر کوئی اعتراض نہیں جہاں ربائیوں (یہودی علما) کی جماعتیں ایک عرصے تک اسرائیل حکومتی اتحاد کا حصہ رہیں ہیں۔ اسی طرح یورپ میں کرسچین ڈیموکریٹک پارٹی بھی  بے حد مقبول ہے۔

جیسے ہی AKP نے دوسری مدت کا انتخاب جیتا، سارے ترکی میں زبردست مظاہرے شروع ہوگئے۔ حزب اختلاف اور سورو کی OSFنے الزام لگایا کہ جناب ایردوان صدر بننا چاہتے ہیں اوراگر ایسا ہوا تو مقننہ اور ایوان صدارت دونوں پر اتاترک مخالفین کا قبضہ ہوجائیگا جس سے ترکی کے سیکیولر تشخص بری طرح متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ یہ اعتراض بذات خود غیر جمہوری تھا کہ اسوقت کے ترک آئین کی روسے صدر کا انتخاب پارلیمنٹ سے ہوتا تھا اور اگر ترک قومی اسمبلی آزادانہ انتخاب کے ذریعے ایردوان کو صدر چُن لے تو اس پر اعتراض کی کیا گنجائش ہے۔ تاہم جناب ایردوان نے حزب اختلاف کی طرف مصالحت ومفاہمت کا ہاتھ بڑھاتے ہوئے اپنی جماعت کی جانب سے صدر کیلئے نامزدگی کی پیشکش مسترد کردی اورجناب عبداللہ گل صدرمنتخب کرلئے گئے۔

اسی دوران مئی 2010 میں ترکی سے امدادی سامان کے ساتھ کشتیوں کا ایک قافلہ غزہ روانہ ہوا۔ ایک کشتی پر پاکستانی صحافی طلعت حسین بھی سوار تھے۔اس قافلے پر اسرائیلی بحریہ نے حملہ کیا جس میں 9 سماجی کارکن مارے گئے۔ اپنے مذمتی بیان میں جناب ایردوان نے صاف صاف کہا کہ 'سپرطاقت' کی شہہ کے بغیر اسرائیل اس خونریزی کی ہمت نہیں کرسکتا تھا۔ترکی کے اس دوٹوک موقف سے ترکی و امریکہ کے ساتھ اسرائیل کے مغربی اتحادی بھی سخت برہم ہوئے اور ایردوان مغرب کیلئے ایک ناپسندیدہ شخصیت بن گئے۔ 

لیکن اس دبنگ موقف سے ترکی میں جناب ایردوان کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوااور 2011 میں تیسر ی بار انتخاب جیت کر AKPنے اپنی ہیٹ ترک مکمل کرلی۔ آئین میں ترمیم کرکے ملک میں صدارتی نظام رائج کردیاگیا اور AKPنےجناب ایردوان کو 2018 کے انتخابات کیلئے اپنی جماعت کا صدراتی امیدوار نامزد کردیا۔ اس اعلان کے ساتھ ہی ایک بار پھر مظاہرے شروع ہوگئے۔ اس دوران تشدد کے واقعات بھی ہوئے اور سارا ترکی ہفتوں مفلوج رہا۔ ترک حکومت نے الزام لگایا کہ اس بدامنی کے پیچھے سول سوسائیٹی کے رہنما عثمان کوالہ Osman Kavala’yaکا ہاتھ تھا اوراس تحریک کو جارج سورو مالی مدد فراہم کررہے تھے۔ مظاہروں اور بد امنی سے اے کے پی کی مقبولیت متاثر ہوئی اور 2015  انتخابات میں اے کے پی واضح اکثریت نہ حاصل کرسکی لیکن اس نے قوم پرست جماعت MHPسے مل کر حکومت بنالی۔

امریکہ اور ترکی کے درمیان سخت کشیدگی اسوقت پیدا ہوئی جب  جولائی 2016 میں ایردوان کے خلاف ناکام فوجی کاروائی  کے دوران باغی طیاروں نے انسر لیک کے امریکی اڈے سے اڑان بھری۔ جس پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے ترک وزارت دفاع نے انسرلیک اڈے کا انتظام سنبھال لیا اور اب اس اڈے کی نگرانی ترک فضائیہ کے ہاتھ میں ہے۔

ترک حکام کے مطابق اس ناکام بغاوت میں بھی عثمان کوالہ ملوث تھے چنانچہ انھیں 18 اکتوبر 2017 کو گرفتار کرلیا گیا۔ استغاثہ نے فوجی بغاوت کے ساتھ عثمان پر 2013 میں ملک گیر ہنگاموں میں ملوث ہونے کا الزام بھی لگایا۔ واضح ثبوت نہ ہونے کی بناپر انھیں مظاہروں کے الزام سے بری کردیاگیا لیکن فوجی بغاوت کے جرم میں وہ ابھی تک قید ہیں۔جناب جارج سورو، عثمان کوالہ کی رہائی کیلئے مہم چلارہے ہیں بلکہ یوں کہیےکہ  انھوں نے اس مہم پر اپنے خزانے کے منہہ کھولدئے ہیں۔

فلسطینیوں کی حمائت، فرانس میں مسلم دشمن قوانین کی مخالفت، بحر روم کے مشرقی حصے پر ترکی کے معدنی و تجارتی حقوق کے تحفظ کا عزم اور مغرب نواز حفتر دہشت گردوں کے خلاف لیبیا کی عسکری مدد کی بنا پر ترکی کے امریکہ، یورپ اور اسرائیل سے تعلقات پہلے ہی کشیدہ ہیں۔ روس سے فضائی دفاعی نظام کی خریداری پر امریکہ نے انقرہ پر سخت معاشی پابندیاں عائد کررکھی ہیں۔ روس، امریکہ اور یورپ کی جانب سے بھرپور فوجی حمائت کے باوجود آذربائیجان کے ہاتھوں آرمینیا کی شکست نے ترکی کی فوجی استعداد کے بارے میں مغرب کو تشویش میں مبتلا کردیاہے کہ اس جنگ میں ترک ڈرون اور میزائیلوں نے کلیدی اورفیصلہ کن کردار اداکیاہے۔

جارج سورو کی کوششوں سے سارا یورپ عثمان کورالہ کی پشت پر ہے۔ وہ اس معاملےکو یورپی عدالت برائے انسانی حقوق تک بھی لے گئے جس نے 2019 میں عثمان کورالہ کی رہائی کا حکم جاری کیا۔ فیصلے میں کہا گیا ہے اس بات کے کوئی 'معقول' شواہد نہیں کہ عثمان نے جرم کیا ہے لہٰذا ان کی قید انہیں خاموش کرنے کی ایک کوشش ہے۔ اس فیصلے کو بنیاد  بناکر  یورپ میں انسانی حقوق کے مرکزی ادارے کونسل آف یورپ نے ترکی کو دھمکی دی ہے کہ اگر یورپی عدالت برائے انسانی حقوق کے حکم کی تعمیل نہ کی گئی تو انقرہ پر سخت پابندیاں لگ سکتی ہیں۔

حالیہ کشدیدگی اسوقت عروج کو پہنچی جب عثمان کی گرفتاری کے چار سال مکمل ہونے پر18 اکتوبر کو انقرہ کے  امریکی سفارتخانے نے ایک بیان جاری کیا جسکا متن کچھ اسطرح ہے
'عثمان کوالا کی نظربندی کو آج چار سال مکمل ہو گئے۔ انکے مقدمے کی سماعت میں مسلسل تاخیر، مختلف مقدمات کو یکجا کرنے اور  ​​بریت کے بعد نئے مقدمات کے اندراج سے ترک عدلیہ، جمہوریت، قانون کی حکمرانی اور شفافیت کے احترام پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔چنانچہ کینیڈا، فرانس، فن لینڈ، ڈنمارک، جرمنی، نیدرلینڈ، نیوزی لینڈ، ناروے، سویڈن اور ریاستہائے متحدہ امریکہ کے سفارتخانوں کا خیال ہے کہ ترکی کی بین الاقوامی ذمہ داریوں اور قانون کے مطابق اس مقدمے کا منصفانہ اور فوری حل ضروری ہے۔ اس معاملے پر  یورپی عدالت برائے انسانی حقوق کے فیصلوں کے تناظر میں ہم ترکی سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ عثمان کوالا کی  فوری رہائی کو یقینی بنائے'

 گویا یہ دس ملکو ں کی مشترکہ قرارداد ہے۔ ترکی یورپی عدالت کا فیصلہ یہ کہہ کر پہلے ہی مسترد کرچکا ہے کہ انقرہ یورپی یونین کارکن نہیں اسلئے ترکی اس عدالت کے دائرہ اختیار سے باہر اور اسکے فیصلوں پر عملدرآ مد کا پابند نہیں۔ دہرے معیار کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہوگی کہ امریکہ اسرائیل کے مبینہ جنگی جرائم کے خلاف عالمی عدالت انصاف ICJکو تحقیقات کی اجازت دینے کو تیار نہیں نہ وہ ICJکا یہ حق تسلیم کرتا ہے کہ افغانستان میں امریکی فوج کی جانب سے انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کی تفتیش کیجائے، لیکن واشنگٹن کا اصرار ہے کہ ترکی یورپی عدالت کا فیصلہ من و عن تسلیم کرلے۔

صدر ایردوان نے اس قرارداد کا جواب 23 اکتوبر کو شمال مغربی ترکی کے صدر مقام اسکشہر (Eskisehir)میں ایک بہت بڑے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہو دیا۔ ترک صدر نے کہاکہ ان غیر ملکی سفیروں کو یہ کہنے کی جرات کیسے ہوئی کہ آپ لوگ ترکی کو سبق سکھائیں گے۔ آپ خود کو سمجھتے کیا ہیں؟  سفیرو! ترکی کو سمجھو یا ترکی چھوڑدو۔ عوام کے پرجوش نعروں میں انھوں نے کہا کہ میں نے اپنے وزیرِ خارجہ کو ضروری حکم دے دیا ہے کہ اب انھیں کیا کرنا ہے۔ ہم ان  10 سفیروں کو ناپسنیدہ شخص یعنیPersona non grataقرار دے رہے ہیں۔ ہم ان لوگوں کی اپنے ملک میں میزبانی نہیں کر سکتے۔

سفیروں کو ناپسندیدہ قرار دئے جانے کے اعلان پر امریکہ اور اور جرمنی کے علاوہ کسی مغربی ملک کا ملک کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا۔جرمن وزارتِ خارجہ نے کہا کہ ہم آپس میں 'گہری مشاورت' کر رہے ہیں۔ ترک روزنامہ صباح کے مطابق امریکہ نے ترک حکومت کو یقین دلایا ہے کہ واشنگٹن  عثمان کوالہ کے معاملے میں ترکی کی  خودمختاری کا مکمل احترام کرتا ہے۔ پیر، 25 اکتوبر کو انقرہ کے امریکی سفارتخانے نے  اپنے ایک بیان میں اس عزم کا اعادہ کیا کہ انکا ملک سفارتی تعلقات کے حوالے سے ویانا کنونشن کے ضابطہ 41کا پابند ہے۔ اس ضابطے کے تحت سفیر وں کیلئے میزبان ملک کے قوانین کے احترام اور اندرونی معاملات میں عدم مداخلت لازمی ہے۔ ترک وزارت خارجہ نے  اب تک سفیر بدری کے باضابطہ احکامات جاری نہیں کئے۔

ترکی ایسے وقت میں یورپ اور امریکہ سے سفارتی تصادم کا خطرہ مول لے رہا ہے جب کرونا کی تباہ کاریوں سے اسکی معیشت شدید دباو میں ہے۔ ایک سال کے دوران ترک لیرا کی قدر میں 20 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ امریکہ کی جانب سے تجارتی پابندیوں کی بناپر اسکی برآمدات بھی متاثر ہیں۔ ترکی میں مہنگائی عروج پر  ہے جسکی وجہ عام لوگ بہت پریشان ہیں۔ان دس ممالک سے ترک تجارت کا بڑا حصہ وابستہ ہے۔

سفارتی نامہ نگاروں کا خیال ہے کہ ان ممالک کو ترکی کی جانب سے ایسے سخت ردعمل کی توقع نہیں تھی۔ اب ایک طرف جواب الجواب میں  مغرب کی جانب  سے خاموشی ہے تو دوسری طرف ترک حکومت نے بھی ان سفیروں کو ملک چھوڑنے کے سرکاری احکامات جاری نہیں کئے۔جہاں تک اقتصادی مشکلات کا معاملہ ہے تو وہ یکطرفہ نہیں۔ ترکی یقیناً سخت مشکل میں ہے لیکن یورپ کا حال بھی خاصہ پتلاہے، لہذا کشیدگی بڑھانا کسی کے  مفاد میں نہیں اور  خیال ہے کہ بات چیت کے ذریعے اس دلدل سے نکلنے کا باعزت راستہ تلاش کرلیا جائیگا۔اس ضمن میں امریکہ کا سجدہ سہو خوش آئند ہے  

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 29 اکتوبر 2021

ہفت روزہ امت کراچی 29 اکتوبر 2021

ہفت روزہ دعوت دہلی 29 اکتوبر 2021

ہفت روزہ سرینگر 31 اکتوبر 2021

روزنامہ قومی صحافت لکھنو


 

 

Saturday, October 23, 2021

شہر کا نوحہ ۔۔۔ کہنے والے کہتے ہیں کھاگئی نظر تنہا

شہر کا نوحہ ۔۔۔ کہنے والے کہتے ہیں کھاگئی نظر تنہا

ہماری تاریخ میں دو سانحے ایسے گزرے ہیں جن سے پاکستان کیلئے بدنصیبی کے دروازے چوپٹ کھل گئے لیکن قوم کو اسکا احساس تک نہ ہوا یعنی

حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا

لوگ ٹہرے نہیں حادثہ دیکھ کر

پہلا واقعہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی تھی۔ وطن عزیر کے مشرقی حصے کو قیام پاکستان کے وقت سے ہی ملک کی معیشت پر بوجھ قراردیا گیا۔ پہلے وزیرخارجہ ظفراللہ خان سے لیکر پہلے آمر مطلق ایوب خان تک مغربی پاکستان کے اکثر زعمامشرقی پاکستان کے بارے میں منفی خیالات رکھتے تھے۔ مشرقی پاکستان کی پہلی منتخب صوبائی اسمبلی کو صرف چند ماہ بعد برطرف کرکے بنگالیوں کو انکی 'حیثیت' سمجھا دی گئی۔ایوب خان کے مشیر منصوبہ بندی ایم ایم احمد نے  اعدادوشمار سے یہ ثابت کردیا کہ بار بار کے سیلاب اور مشرقی پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی پاکستانی معیشت کی کمزوری کی بنیادی وجہ ہے۔ اسی زمانے میں 'بھوکے بنگالی' کی شرمناک پھبتی عام ہوئی۔  

مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا معیشت سے زیادہ مقتدرہ کی معاشرت اور اقدار سے تعلق تھا۔ بنگالی سادہ مزاج اور صاف گو تھے اور یہی انداز انکی سیاست میں بھی بہت واضح تھا۔ مشرقی پاکستان فرقہ واریت سے محفوظ تھا اور لسانی مسئلہ بھی نہ تھا کہ سب ہی بنگالی زبان بولنے والے تھے۔وہاں چودھری اور وڈیرے بھی نہ تھے۔اسلام، جمہویت و شہری آزادی کے بارے میں بنگالیوں کا عزم بڑا واضح تھا جسکا اظہار تحریک پاکستان کے وقت ہوالیکن ملک کی مقتدرہ نے بہت ہی چالاکی سے سنار بنگلہ میں تعصب کا زہر گھولدیا۔

دوسرا المیہ کراچی کی قومی دھارے سے علیحدگی تھی۔ مشرقی پاکستان اور کراچی دونوں جگہ منظم اقتصادی کرپشن کے ذریعے زمین ہموار کی گئی اور پھر نفرت و تعصب کی بیج بوکر آگ و خون کی بارش سے آبیاری کی گئی۔ اسکے نتیجے میں پروان چڑھنے والے شجر زقوم نے پوری قوم کو جھلسا کر رکھدیا۔ ان سانحات کے ذکر کیلئے پوری کتاب درکار ہے، مختصراً یوں سمجھئے کہ جب تک سنار بنگلہ، مشرقی پاکستان اور کراچی، شہرِ قائد رہا،  قوتِ قاہرہ اور اقتدار کے باوجود سیاسی مسخروں کو کھل کھیلنے کا موقع نہ مل سکا۔

قیام پاکستان کے آغاز ہی سے کراچی کے قائدین نے شہر کی تعمیرو ترقی  کیلئے حکومتی وسائل پر بھروسہ کرنے کے بجائے اپنی مدد آپ تعمیر و ترقی کا آغاز کیا۔ مولانا عبدالقدوس بہاری اور پیرالہی بخش نے مہاجروں کی باعزت آبادکاری کا اہتمام کیا۔پیر صاحب نے اپنی آبائی زمین پر آسان اقساط رہائشی اسکیم شروع کردی۔ یہ علاقہ پیر الٰہی بخش کالونی کے نام سے آج بھی شادوآباد ہے۔ فروغِ تعلیم کے میدان میں ایک بڑا کارنامہ عبدالرحمان محمد قریشی المعروف  اے ایم قریشی نے انجام دیا۔ قریشی صاحب ایک ان پڑھ مزدور تھے اور خود ہی کہا کرتے تھے کہ 'میں جاہل ہوں مگر میری خواہش ہے کہ ہمارے بچے جاہل نہ رہیں' قریشی صاحب نے کرائے کا مکان لیکر ایک درسگاہ قائم کردی جو آج اسلامیہ کالج کے نام سے مشہور ہے۔

 اس دورا ن جماعت اسلامی کی سماجی سرگرمیاں بھی جاری رہیں۔ اس سلسے میں مٹھی آٹا اسکیم اور گشتی شفاخانوں کو زبردست پزیرائی نصیب ہوئی۔ مٹھی آٹا اسکیم کے تحت ہر گھر کے باوچی خانے میں ایک ڈبہ رکھدیا جاتا اور خاتونِ خانہ یا لڑکی بالیاں جب بھی روٹی پکانے کو آٹا نکالتیں تو ایک مٹھی آٹا اس ڈبے میں ڈالدیا جاتا، ہرہفتے جماعت کے کارکنان گھروں سے یہ آٹا جمع کرکے ضرورت مندوں تک پہنچادیتے۔ ایک مٹھی سے کسی گھر پر بار بھی نہ پڑتا لیکن قطرہ قطرہ دریا بن کر شہر بھر سے منوں آٹا جمع ہوجاتا اور سب سے بڑھ کر ہر خاتون خانہ کو اس نیک کام میں شمولیت ایک خاص قسم کی طمانیت محسوس ہوتی۔ ہماری والدہ مرحومہ کہتی تھیں کہ جب سے مٹھی آٹا اسکیم کا یہ ڈبہ گھر آیا ہے آٹے میں برکت ہوگئی ہے۔

قربانی کی کھالیں جمع کرنے کا آغاز بھی کراچی سے ہوا جب (غالباً) حکیم سلطان مرحوم کے دورِ امارت میں مصارفِ خدمت خلق کیلئے کھالیں جمع کرنے کی مہم چلائی گئی۔اس سے پہلے قربانی کی کھالیں قصاب لے جایا کرتے تھے۔ چرمِ قربانی مہم سے کراچی میں ٹینری کی صنعت کو بھی فروغ ملااور قربانی کے بعد کھال اتارنے میں احتیاط پر زور دیا جانے لگا۔ کراچی کے اس تجربے سے نہ صرف دوسرے شہروں کی جماعتوں نے فائدہ اٹھایا بلکہ مدارس اور دوسرے رفاہی اداروں نے بھی چرمِ قربانی مہم کو اپنی سرگرمیوں کا حصہ بنالیا۔

کراچی میں پہلا خونریز واقعہ 8 جنوری 1953 کو پیش آیا جب بائیں بازو کی طلبہ تنظیم ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن نے فیسوں اور درسی کتب کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف جلوس نکالا، طلبہ وزیرتعلیم فضل الرحمان کے دفتر پر مظاہرہ کرنا چاہتے تھے۔ پولیس نے جلوس کو روکا، لاٹھی چارج اور آنسو گیس کے جواب میں پتھراو ہوا، اسی دوران کچھ مشتعل مظاہرین نے وزیر داخلہ مشتاق گورمانی کی مرسڈیز کار کو آگ لگادی۔ اس 'جسارت' پر انتظامیہ مشتعل ہوگئی اور فائرنگ سے 30 کے قریب طلبہ اور راہگیر مارے گئے۔ وزیراعظم خواجہ ناظم الدین نے طاقت کے استعمال پر وزیرداخلہ کی گوشمالی کی تاہم مقتدرہ کی شہہ پر گورمانی صاحب نے انتقامی کاروائی جاری رکھی۔

کراچی کے خلاف معتصبانہ کاروائی کا سرکاری آغاز 1958 کے مارشل لا کیساتھ ہوا اور فیلڈ مارشل نے فرمایا'کراچی کی آب و ہوا مرطوب ہونے کے باعث سرکاری اہلکاروں کی صلاحیتیں متاثر ہورہی ہیں'۔ اسی کیساتھ کوہ مری کے دامن میں ایک نئے دارالحکومت کی  تعمیر شروع ہوئی۔ یہ وہ دور تھا جب سرکاری دفاتر میں ضروری فرنیچر خریدنے کے بھی پیسے بھی  تھے اور دفاتر میں 'چھوٹی چٹھیوں' کیلئےسگریٹ کے پیکٹوں کے اندرونی حصے کو استعمال کیاجاتاتھا۔ مشرقی پاکستان نے اس فیصلے کی شدید مخالفت کی اور حسین شہید سہروردی نے کہا ' ایوب خان!! تم اپنا شوق پورا کرلو، ہم دارالحکومت کراچی واپس لے آئینگے'۔ دارالحکومت کی کراچی سے منتقلی نے بنگالیوں کے احساس محرومی کو مزید بڑھادیا۔

کراچی میں پشتونوں اور مہاجروں کے درمیان نفرت کی آگ 1965کی انتخابی مہم  کے دوران بھڑکائی گئی جب صدرا یوب کے صاحبزادے اور وفاقی وزیر عمر ایوب کے والد گوہر ایوب نے غنڈوں کے لشکر ترتیب دیکر لیاقت آباد (اسوقت کا لالوکھیت)پر حملے کئے۔ بدقسمتی سے گوہر ایوب کے پالتو غنڈوں کی اکثریت پشتونوں کی تھی جسکی وجہ سے لسانی عصبیت نے جنم لیا ورنہ کراچی میں مہاجر، سندھی، پشتوں، ہزارہ، بنگالی اور پنجابی دہائیوں سے ساتھ رہ رہے تھے۔ اس وقت کراچی کی قیادت بردبار ہاتھوں میں تھی اسلئے جھڑپیں بھرپور جنگ نہ بن سکیں اور جلد ہی صورتحال معمول پر آگئی

کراچی کیلئے ضیاالحق کا اقتدار ایک دورِ نامسعود ثابت ہوا۔ ضیاالحق کے بارے میں دینی حلقے اچھی رائے رکھتے ہیں لیکن طلبہ یونین پر پابندی اور ایم کیو ایم کا قیام انکی ایسی غلطیاں ہیں کہ جنکا عذاب پاکستانیوں کی کئی نسلیں بھگتیں گی۔ طلبہ یونین کے خاتمے سے سرکاری تعلیمی اداروں کا زوال شروع ہوا اور چند ہی سالوں میں ڈی جے سائنس، آدمجی، سپریر سائنس، کراچی کامرس  کالج جیسےا دارے جو اپنے میعار کے حوالے سے سارے ملک میں مشہور تھے ویران ہوکر رہ گئے۔ مہنگے نجی تعلیمی ادارے خوردرو گھانس کی طرح اُگ آئے اور عام لوگوں کیلئے بچوں کو اسکول وکالج بھیجنا مشکل ہوگیا

ساتھ ہی ایم کیو ایم کی بنیاد رکھدی گئی۔جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا۔ مشرقی پاکستان کی طرح کراچی کی سیاست بھی عام لوگوں کے ہاتھ میں تھی۔  پروفیسر غفور ہوں، شاہ احمدنورانی یا بائیں بازو کے معراج محمد خان اور سید سعید حسن و کمال اظفر سب مڈل کلاس کے تعلیمیافتہ سفید پوش تھے۔ دوسری طرف  اندرون سندھ، پنجاب اور بلوچستان میں وڈیروں، چودھریوں، نوابوں اور خانوں کا راج تھا۔ قرضے معاف کرکے اور زمین و پرمٹ کے ذریعے انھیں خریدنا بہت آسان تھا جبکہ کراچی کی قیادت کو اصول اور اقدار پر اصرار تھا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے مقتدرہ کے گلے میں اٹکا کانٹا نکل چکا تھالیکن پاکستان کی محبت سے معمور کراچی مقتدرہ کے سینے پر بوجھ بناہواتھا۔دسمبر 1986 کے قصبہ علیگڑھ قتل عام نے الطاف حسین کو کراچی کا مالک بنادیا۔ اس خونی کھیل نے 500 سے زیادہ افراد کی جان لے لی لیکن شاہ کو بچانے کیلئے پیادوں کی قربانی شطرنجی سیاست کا عام اصول ہے۔

شائد قارئین کو ہماری بات سازشی تھیوری محسوس ہو لیکن کراچی میں ایم کیویم کی ولادت، قتل عام اور اسکے بعد مسلسل فسادات کے ذریعے نومولود کو تقویت دینے کا عمل ایسے وقت شروع ہوا جب مشرق وسطٰی کا تجارتی جغرافیہ کروٹ لے رہا تھا۔ بیروت کو  بحر روم کی دلہن کہا جاتا تھاجو کئی دہائیوں سے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کا تجارتی مرکز تھا۔ اس شہر نگاراں کو اسرائیل کی توسیع پسندی چاٹ گئی اور 1975 سے 1982تک جاری خانہ جنگی اور پھر اسرائیل کی بمباری نے ملکہِ مشرق وسطیٰ کو کھنڈر بنادیا۔

اس دوران وہاں سرگرم تاجر بیروت کا متبادل تلاش کررہے تھے۔ سعودی عرب کانظام قبائلی انداز کا تھاجہاں غیر ملکیوں کا داخلہ زائرین اور خدمت گزار کے طور پر ہی ممکن تھا۔ دوحہ (قطر)، بحرین اورمسقط کی آبادی کم ہونے کیساتھ بندرگاہیں، ہوائی اڈے اور بنیادی ڈھانچہ (انفراسٹرکچر) مناسب نہ تھا۔

بہت سے تجارتی اداروں نے کراچی کی طرف دیکھنا شروع کیا۔ جسکی آبادی بڑی اور پڑھی لکھی  تھی۔ کراچی بندرگاہ کا شمار جنوبی ایشیا کی چند سب سے بڑی بندرگاہوں میں ہوتاتھا، 1857 سے قائم یہ بندرگاہ جدید ترین سہولتوں سے لیس ہے۔ اسی کے قریب  پورٹ قاسم بھی ہے۔ یہ نئی نویلی بندرگاہ 1979میں چالو ہوئی ہے۔ برآمدات میں سہولت کیلئے ایکسپورٹ  پروسیسسنگ زون (EPZA)بھی فعال ہے۔ کراچی ائرپورٹ اسوقت جنوبی ایشیا کا دروازہ کہلاتا تھا اور مغرب سے سنگاپور، بنکاک، کھٹمنڈو، رنگون، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ آنے اور جانے والی پروازیں یہیں سے ہوکر گزرتی تھیں، نئے ٹرمینل پر کام کا آغاز بھی ہوچکا تھا۔

عجیب اتفاق کہ انھیں دنوں جہاں کراچی میں بدامنی کا آغاز ہوا، دبئی نے کروٹ لینی شروع کی اور جبل علی فری پورٹ کی توسیع کا تعمیر کام ایکدم تیز کردیا گیا۔ یہ بندرگاہ 1979 میں قائم ہوئی تھی لیکن 1984 تک اسکی گودیوں کی حالت خستہ تھی۔مرمت و تزئین کا کام تیزی سے مکمل کرکے 1985 میں اسےجبل علی فری پورٹ کا نام دے دیا گیا۔اسی کیساتھ دبئی ائر پورٹ کے نئے رن وے  اور ٹرمینلز کی تعمیر کاکام شروع ہوا جو اپریل 1984 میں تکمیل کو پہنچا۔

چند برسوں کی بے مثال ترقی نے دبئی کو  خلیج کی سہاگن  بنا دیا اور اسی عرصے میں بدترین فسادات و خونریزی سے بے جان و بے حال  عروس البلاد کراچی نے بیوگی کی چادراوڑھ لی۔

اعتراف: مضمون کی تیاری میں جناب ایم سلمان یونس کی تازہ کتاب 'باتیں پاکستان کی' سے استفادہ کیا گیا ہے

فرائیڈے اسپیشل کراچی نمبر اکتوبر


2021

 

Thursday, October 21, 2021

اور زنجیر ٹوٹ گئی ۔۔۔۔

اور زنجیر ٹوٹ گئی ۔۔۔۔

سرنامہِ کلام سے قارئین یہ  توقع نہ فرمائیں کہ کالم کسی وحشی کے چھوٹنے یا کسی جبار کے زمیں بوس ہونے کی روداد ہے۔آج ہم اس بحران کا ذکر کرینگے کہ جسکی وجہ سے ساری دنیا میں خام تیل، پیٹرولیم مصنوعات اور اشیائے ضرورت کی قلت ہوگئی ہے۔ میلادِ حضرت مسیح یا ایامِ کرسمس کی آمد آمد نے مغرب میں اس معاملے کو اور بھی گھمبیر کردیا ہے۔ اکتوبر کے اختتام سے کرسمس کیلئے تحائف کی خریداری کا آغاز ہوتا ہے اور بازار آباد ہوجاتے ہیں کہ  دن گنے جاتے تھے اس دن کیلئے
تاہم خدشہ ہے کہ اس بار دوکانیں ویران رہیں گی۔ اسلئے نہیں کہ صارفین کے شوق یا  قوت خرید میں کوئی کمی آگئی ہے بلکہ ویرانی کا سبب گرانی سے زیادہ اشیا کی عدم دستیابی ہے۔ اسوقت بھی بقعہ نور بنے بازاروں میں جگمگ  کرتی دوکانوں کے شیلف نصف خالی ہیں کہ فراہم کنندگان کی جانب  سے مال کی رسد میں خلل آگیاہے۔ 
امریکہ میں معاملہ سب سے زیادہ خراب ہے کہ جہاں غسال وکفن بھی چین اور جاپان  سے آتے ہیں۔ مال کے کال کی کیا وجہ ہے؟ یہ بنیادی طور پر نامراد کرونا وائرس عذاب کا تسسل ہے۔ گزشتہ برس اس ستم پیشہ نے انسانی حیات کو ڈسا اور اس خون آشام بلا سے  بچ جانے والی دنیا کو اب اسبابِ حیات کی قلت کا سامنا ہے۔
جس زنجیر کا ذکر اس مضمون کا عنوان ہے وہ دراصل Supply Chain  ہے۔ صنعتی اداروں میں افرادی قوت، سرگرمیوں ، معلومات اور وسائل کے جامع نظام کے ذریعے مصنوعات کی صارف تک رسائی کو فراہمی کی زنجیر کہا جاتا ہے۔ یعنی جیسے چین Chain کی منظم و مربوط حرکت سائیکل کو آگے بڑھنے پر آمادہ کرتی ہے ویسے ہی فراہمی کی زنجیر قدرتی و انسانی وسائل، خام مال اور اجزاء کو  تیار شدہ مصنوعات میں تبدیل کرکے گاہک تک پہنچانے کیلئے لازمی ہے۔ اس زنجیر کا اگر ایک حلقہ بھی  درست انداز اور سمت میں کام نہ کرے تو صارف تک  مطلوبہ مصنوعات کی فراہمی رک جاتی ہے۔ نقل و حمل اس زنجیر کا ایک کلیدی حلقہ ہے جو کرونا سے بری طرح متاثر ہوا ہے۔
حفاظتی ٹیکوں کی تیاری سے پہلے احتیاط ہی اس مہلک مرض سے بچاو کا واحد ذریعہ تھا۔ ماہرین کی سفارشات پر دنیا بھر میں حکومتوں نے لوگوں کے بلاضرورت گھر سے نکلنے پر پابندی لگادی۔ جہاںLock Down کو ضروری نہ سمجھا گیاان معاشروں میں بھی کروڑوں افراد نے احتیاطاً خود کو گھروں تک محدود کرلیا۔امریکہ، کینیڈا اور یورپی ممالک نے  اس دوران روٹی و روزی کی ضروریات پوری کرنے کیلئے اپنے شہریوں کی فراخدلی سے مدد کی جسکی بناپر محنت کشوں نے کام پر جلد از جلد واپس کیلئے اصرار نہیں کیا۔ لاک ڈاون کے دوران لازمی خدمات کے جن اداروں کام جاری رہا وہاں بھی احتیاطی تدابیر اختیار کی گئیں جن میں سب سے اہم 'تن دوری' یا Social Distancingکا اطلاق تھا۔ 
بندرگاہوں پر چونکہ مزدوروں کا ہجوم ہوتا ہے اسلئے وہاں محنت کشوں کی تعداد کو محدود کردیا گیا اور زیادہ سے زیادہ افراد کو دہاڑی کا موقع دینے کیلئے اوقات کار کم کردئے گئے۔ امریکہ کی سب سے بڑی بندرگاہ لاس انیجلس پر چارچار گھنٹے کام کاعبوری نظام قائم ہوا اور ہر نئی شفٹ کے آنے سے پہلے، دفاتر، کرینوں ، لفٹر اور دوسری مشینوں اور آلات کی خصوصی صفائی کا اہتمام کیا گیا۔ 
عام حالات میں یہاں پیر سے جمعہ روزانہ 16 گھنٹے کام ہوتا تھا۔ کرونا کے دوران چار چار گھنٹوں کے شفٹ عملاًتین  گھنٹےرہ گئی کہ ہر چار گھنٹے بعد صفائی اور جراثیم کش اسپرے میں ایک سے ڈیڑھ گھنٹہ صرف ہورہا تھا۔کام کے دوران احتیاطی اقدامات کی وجہ سے جہازوں سے سامان کے اتار چڑھاو کے کام میں مزید سستی آئی، مثال کے طور پر کنٹینراٹھانے کیلئے مزدور کرین کے کانٹے کو  جب کنٹینر کے حلقوں میں پُروتے  ہیں تو اسکے درست اور ٹھیک ہونے کو یقینی بنانا سپروائزر کی ذمہ داری ہے۔ عام حالات میں یہ کام ساتھ ساتھ  ہورہا ہوتا ہے لیکن تن دوری کے اطلاق کیلئے  کانٹوں کو حلقوں میں پرونے کے بعد جب مزدور دور ہٹ جاتے ہیں تب معائنہ کار وہاں آکر اسکا مشاہدہ کرتے ہیں جسکے بعد کرین آپریٹر کو سامان اٹھانے کا اشارہ کیا جاتا ہے۔ان احتیاطی اقدامات کی وجہ سے بندرگاہوں کی کارکردگی بری طرح متاثر ہوئی۔ 
یہی حال امریکہ کی دوسری بندرگاہوں کے ساتھ یورپ کی مصروف ترین بندرگاہ روٹرڈیم Rotterdamاور چینی بندرگاہوں کا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 100 سے زیادہ جہاز  لاس اینجلس کے قریب گہرے پانیوں میں چکر لگاتے ہوئے ایندھن پھونک رہے ہیں۔ اسلئے کہ بندرگاہ کے قریب ایک بھی لنگر خالی نہیں جہاں وہ پڑاو ڈال سکیں۔ روٹرڈیم میں 20 اور چینی بندرگاہوں کے گرد منڈلاتے کنٹینر بردارجہازوں کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔کھلونوں، الیکڑانکس، فیشن ایبل ملبوسات، بھاری مشنریوں اور دوسرے مصنوعات سے لدے جہاذوں کے ساتھ بہت سے تیل بردار ٹینکر بھی ان بندرگاہوں پر پھنسے ہوئے  ہیں۔
بعد ازخرابی بسیار جو مال جہاز سے اتار لیا جائے اسکی منزل مقصود پر فوری روانگی بھی آسان نہیں کہ ٹرک ڈرائیوروں کی شدید کمی ہے۔ کرونا کے دوران نقل وحمل کاشعبہ  بری طرح متاثر تھا جسکی وجہ سے ہزاروں ڈرائیور گھر بیٹھ رہے۔ اس دوران  بہت سے ڈرائیوروں نے تنگ آکر ریٹائرمنٹ لے لی اور کچھ Amazon، ڈی ایچ ایل اور فیڈیکس Fedex جیسےاداروں سے وابستہ ہوگئے۔ یہ کام بین الصوبائی ٹرک ڈرائیوری کے مقابلے میں آسان ہے۔ نہ ہفتوں گھر سے دور رہنے کی آزمائش اور  نہ دن رات بھاری ٹرک چلانے کی مشقت۔ صبح سے شام دیہاڑی لگائی اور رات کو گھر واپسی۔ ایمیزون اور فیڈیکس کی تنخواہیں اور مراعات بھی بہتر ہیں۔
اس غیر معمولی 'بحری ٹریفک جام' سے امریکہ اور یورپ کو جن مشکلات کا سامنا ہے وہ اپنی جگہ لیکن اس کے نتیجے میں ساری دنیا متاثر ہورہی ہے۔ اسوقت دنیا کی مختلف بندرگاہوں پر پھنسے جہازوں میں1000 سے زیادہ کنٹینر لدے ہوئے ہیں جسکی وجہ سے ہرجگہ کنٹینر کی شدید قلت ہے۔ کارخانوں میں تیارمال کا ڈھیر لگا ہے لیکن انکو اٹھانے کیلئے کنٹینر دستیاب نہیں۔ چالیس فٹ کے کنٹینر جو کبھی ڈھائی ہزار ڈالر میں مل جاتے تھے اب  دس ہزار میں بھی دستیاب نہیں۔ نقل و حمل کے اخراجات میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے۔

تیل ٹینکروں اور پیٹرولیم مصنوعات سے لدے جہازوں کے پھنس جانے سے دنیا بھر میں تیل اور پیٹرول کی نقل و حمل بری طرح متاثر ہے۔ ایک ماہ کے دوران تیل کی قیمت 72 سے 83 ڈالر فی بیرل ہوگئی جبکہ LNG  کی قیمت 10 ڈالر فی mBtuسے بڑھ کر 100ڈالر mBtuہوچکی ہے۔ حالانکہ تیل کی مجموعی طلب یعنی 9کرؤر 49 لاکھ بیرل یومیہ کے مقابلے میں پیداوار 9 کروڑ 30 لاکھ بیرل کے قریب ہے اور اوپیک ممالک  اپنی یومیہ پیداوار میں ہر ماہ چار لاکھ بیرل کا اضافہ کررہے ہیں۔ یعنی قیمتیں بڑھنے کا سبب طلب میں اضافہ نہیں بلکہ فراہمی کی زنجیر ٹوٹ جانے کے سبب رسد میں خلل واقع ہوگیاہے۔

گیس کا حال اس سے بھی براہے۔ گزشتہ دنوں جب پاکستان ایل این جی لمیٹیڈ نے LNG کیلئے ٹینڈر جاری کئے تو ایک بھی پیشکش موصول نہیں ہوئی۔صاف ستھرے ایندھن کے طور پر آجکل LNGبہت مقبول ہے چنانچہ قارئین کی دلچسپی کیلئے اسکی ہئیت کے بارے میں چند سطور

ایل این جی یا Liquefied Natural Gas  کشید کرنے کیلئے قدرتی گیس سے پانی، بو جھل و کثیف ذرات(heavy Hydrocarbons)، ہائیڈروجن سلفائیڈ اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کو نکال لیا جاتا ہے اور پھر دباو  ڈال کو اسے رقیق حالت میں تبدیل کردیا جاتاہے۔اس عمل کا بنیادی مقصد نقل و حمل میں آسانی پیدا کرنا ہے تاکہ LNGکو ٹینکروں اور بحری جہازوں کے ذریعے پیداواری مقام سے دوردراز علاقوں یا بیرونی ممالک  کو بھیجا جاسکے۔ LNG بنانے کے عمل میں قدرتی گیس کا حجم 600 واں حصہ رہ جاتا ہے۔مقام مقصود پر پہنچنے کے بعد اسے دوبارہ  گیس کی شکل دیدی جاتی ہے تاکہ اس سیلینڈروں یا پائپ لائن کے ذریعے آگے تقسیم کیا جاسکے۔ اس عمل سے حاصل ہونے والی گیس کو Re-Gasified Liquefied Natural Gas (RLNG) کہا جاتا ہے۔

نقل و حمل میں دِقّت دراصل زنجیرِ فراہمی کے ایک کلیدی حلقے یعنی افرادی قوت میں خلل کا نتیجہ ہے۔چین اور یورپی ممالک کے اعدادوشمار ہمارے پاس نہیں لیکن امریکہ کے مختلف نجی اداروں میں 20 لاکھ اسامیاں خالی ہیں جنکے لئے افراد میسر نہیں۔ یہاں اوسطاً 130 نوکریوں کیلیے صرف 100افراد درخواستیں دے رہے ہیں۔ قحط الرجال” کی وجہ پر بھی ماہرین کے درمیان اختلاف ہے۔قدامت پسند سیاست دانوں کا کہنا ہے کہ کرونا لاک ڈاؤن کے دوران سرکار کی جانب سے دیا جانیوالابیروزگاری الاؤنس تنخواہ سے زیادہ تھا اور جب اچھی خاصی رقم گھر بیٹھے مل رہی ہو تو آدمی کاہے کو خون پسینہ بہائے، لیکن حال ہی میں جو جائزے شایع ہوئے ہیں انکے مطابق بات اتنی سادہ نہیں۔

عمرانیات کے علما کہہ رہے ہیں کہ خواتین کارکنوں کے نئے رجحان نے صورتحال کو مزید خراب کردیا ہے۔لاک ڈاؤن کے دوران ملازمت پیشہ خواتین کو اندازہ ہواکہ انکی ساری کی ساری تنخواہ، بچوں کی دیکھ بھال (Child Care)دفتر کے لباس، میک اپ، بازار کے کھانوں اور ٹیکس کی نذر ہوجاتی ہے۔اگر میاں بیوی میں سے کوئی ایک گھر بیٹھ کرامورخانہ داری سنبھال لے تو گھریلو اخراجات میں کمی کیساتھ بچے خوش اور گھر کا کم قیمت و غذائیت سے بھرپور صحت بخش کھانا ایک اضافی نعمت۔دن کو فراغت کی وجہ سے ضعیف والدین کی دیکھ بھال اور پیرخانوں (senior living) کے دورے بھی آسان ہیں۔ ایک جائزے کے مطابق پندرہ فیصد نوکری پیشہ خواتین نے ملازمتوں کو خیر باد کہہ کر گھر کا محاذ سنبھال لیا ہے جہاں محنت تو ملازمت سے کہیں زیادہ کرنی پڑتی ہے لیکن “فردوس بروئے زمیں استکا اپنا ہی لطف ہے۔ ان خواتین کی تعداد تیس لاکھ کے قریب ہے۔ خواتین میں یہ جملہ بڑا عام ہو گیا ہے کہ You earn living and  we will make your life worth living  یعنی میاں جی ! آپ جینے کا سامان فراہم کیجئے، ہم آپکو جینے کی امنگ فراہم کرینگی۔

یہ نیا اور فطری اندازِ فکر جہاں صحت مندوخوش وخرم خانگی ماحول کا نقطہ آغاز ہے وہیں افرادی قوت میں کمی نوخیز نوجوانوں کیلئے بے حد خوش آئند ہے کہ آجر عمدہ پیشکشیں لئے کھلی بانہوں سے انکے استقبال کو موجود ہیں۔ کم سے کم اجرت میں اضافہ بھی ہوگیا ہے۔ دوسری طرف مزدور یونینوں نے اپنے حقوق کی جدوجہد تیز کردی ہے۔ گزشتہ صدی کی آٹھویں دہائی میں صدر ریگن کی بھاری اکثریت سے کامیابی کے بعد سے مزدور تحریک کمزورہوتے ہوتے گزشتہ چند برس پہلے تک کچھ نعروں اور علامتوں تک محدود نظر آرہی تھی۔لیکن بدلتی صورتحال کا قائدہ اٹھاتے ہوئے مزدور تنظیموں نے بھی قوت کا مظاہرہ شروع کردیا ہے۔ گزشتہ ہفتے سے زرعی مشینیں، ٹریکٹر، ڈیزل انجن اور انجننرنگ کے دوسرے سامان بنانے والے ادارے جان ڈیر John Deereکے ملازمین نے تنخواہ اور مراعات میں اضافے کیلئے ہڑتال کررکھی ہے جو امریکہ میں کئی دہائیوں کے بعد پہلی کامیاب ہڑتال ہے۔ کئی دوسرے اداروں کی مزدور یونینوں نے بھی اپنی انتظامیہ کو اسی نوعیت کے انتباہی پیغامات دئے ہیں۔

مہنگائی اور قلت سے پیدا ہونے والی مشکلات کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ امریکی خواتین اور مزدوروں میں اپنے حقوق کا شعور پیدا ہورہا ہے لیکن فراہمی کی زنجیر میں خلل سے امریکہ کے ساتھ ساری دنیا ایک بحران کی طرف بڑھ رہی ہے۔امریکی قیادت کو اسکا احساس ہے۔ گزشتہ ہفتے صدر بائیڈں نے بندرگاہوں کے حکام، تاجروں، پورٹ مزدوروں کی تنظیم International Longshore and Warehouse Union(ILWU)کا مشترکہ اجلاس طلب کیا جس میں اور باتوں کے علاوہ یہ بھی طئے کیا گیا کہ امریکی بندرگاہیں 24 گھنٹہ کام کرینگی۔یونین نے اس پر آمادگی تو ظاہر کی لیکن ILWUکا کہنا ہے کہ اوورٹائم کی نئے شرح کے تعین کے بغیر یہ ممکن نہیں۔

امریکی کے وزیرمواصلات پیٹ بیوٹیجیج (Pete Buttigieg) کا خیال ہے کہ بندرگاہوں کی صورتحال اگلے سال کے وسط سے پہلے معمول پر آنا مشکل ہے۔ریپبلکن پارٹی الزام لگارہی ہے کہ حکومت اپنے بنیادی ڈھانچے پیکیج کو منظور کرانے کیلئے بندرگاہوں اور بین الریاستی ٹرانسپورٹ کی صورتحال کو خراب کررہی ہے۔ بائیڈن انتظامیہ نے بندرگاہوں، ہوائی اڈوں ، پلوں، ریلوے لائینوں اورشاہراہوں سمیت امریکہ کے بنیادی ڈھانچےکی مرمت وتعمیر نوِ کیلئے کانگریس سے 35 کھرب ڈالر طلب کئے ہیں۔ ریپبلکن پارٹی کا موقف ہے کہ مقروض ملک اس بھاری خرچ کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ بندرگاہوں پر بحری ٹریفک جام کے نتیجے میں لوگ کرسمس خریداری کے حوالے سے پریشان ہیں۔ صدر بائیڈن حالیہ مشکلات کی وجہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار بندرگاہوں اور فرسودہ تنصیبات کو قرار دے رہے ہیں۔

مسائل و بحران کی من مانی تشریح اور مشکلات کا اپنے سیاسی عزائم کیلئے استعمال کوئی نئی بات نہیں لیکن اگر فراہمی کی یہ زنجیر جلد درست نہ ہوئی تو  ساری دنیا کو شدید مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے۔پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش سمیت تیل درآمد کرنے ممالک اس سے بری طرح متاثر ہونگے

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل ، 22 اکتونر 2021

ہفت روزہ دعوت ، 22 اکتوبر 2021

روزنامہ امت کراچی 22 اکتوبر 2021

ہفت روزہ رہبر سرینگر ، 24 اکتوبر 2021

روزنامہ قومی صحافت ، لکھنو