Tuesday, October 12, 2021

جی 20 کی خصوصی سربراہ کانفرنس برائے افغانستان

جی  20 کی خصوصی سربراہ کانفرنس برائے افغانستان

گروپ 20 دنیا کی 20 بڑی معیشتوں کی انجمن ہے جسکا مقصد باہمی تعاون کے ذریعے عالمی معیشت کو نشو ونما دیناہے۔دنیا کی مجموعی عالمی پیداوار یا GWPکا 90 فیصد ،  دوتہائی آبادی اور 75 سے 80 فیصد عالمی تجارت   ان 20 ممالک   سے وابستہ ہے۔ سلامتی کونسل کے پانچوں مستقل ارکان کے علاوہ ہمارا پڑوسی ہندوستان بھی G-20کا حصہ ہے۔ مسلم ممالک میں انڈونیشیا، سعودی عرب اور ترکی  G-20 کے رکن ہیں۔

جی 20 کے موجودہ سرابرہ اور اٹلی کے وزیراعظم ماریو دریگی (Mario Draghi)نے افغانستان کے مسئلے پر  انجمن کا خصوصی سربراہی اجلاس   طلب کیا۔  ہندوستان  اور فرانس نے  اجلاس کی مخالفت کی تھی۔ ان دونوں ممالک کاخیال  ہے کہ ملاوں سے مذاکرات نہیں بلکہ انکی مرمت کی ضرورت ہے۔  تاہم  ماریو دریگی  اور ترک صدر  کے اصرارپر ا صدر بائیڈن  نے اجلاس بلانے کی حمائت  کردی اور جب چچا سام ہاں کہدیں تو پھر مودی ہو ں یا ایمیونل میخواں ، کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ

چوہتر سا لہ ماریو دریگی  عالمی شہرت یافتہ ماہر معاشیات، اقتصادیات کے استاد اور تجربہ کار بینکار  ہیں۔اٹلی کی وزارت عظمیٰ سبنھالنے سے پہلےوہ  8 سال تک  یورپین سینٹرل (اسٹیٹ) بینک کے گورنر رہ چکے ہیں اور اس دوران انکی امریکی صدر ڈانلڈ ٹرمپ سے خوب نونک جھونک رہی۔ ماریو افغانستان میں فوجی مداخلت  کے ہمیشہ سے  خلاف تھے۔ جب جارج بش نے افغانستان  پر حملہ کیا اسوقت موصوف جامعہ ہارورڈ کے  اسکول برائے نظمِ حکومت  سے وابستہ تھے۔ اس دوران اپنے مقالوں اور خطابات میں ماریو دریگی نے طاقت کے استعمال کو سب کیلئے خطرناک قراردیا۔

جب سے  طلبہ نے افغانستان کا انتظام سنبھالا ہے ماریو صاحب، ملاوں سے   رابطے پر زور دے رہے ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ سفارتی تعلقات قائم کرنا یا نہ کرنا اتنااہم نہیں لیکن 'نئی حقیقت ' سے منہہ چرانا اور کابل کے حکمرانوں کو دیوار سے لگانا عالمی امن کیلئے سخت خطرہ بن سکتا ہے،  خاص طور سے جب مالِ غنیمت  میں ملنے والے  جدیداسلحے کے بعد اسٹوڈنٹس دنیا کی  ایک قابل ذکر فوجی طاقت بن چکے ہیں۔

منگل کو مجازی یا Virtual سربراہی اجلاس  منعقد ہوا جس میں اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بھی شریک ہوئے جبکہ قطر کے حکمراں کو خصوصی طور پر مدعو کیا گیا۔ روس اور چین  کے سرابراہان نے اجلاس میں شرکت نہیں کی۔  چین کا اصرار تھا کہ  اگر امریکہ اورانکے اتحادی افغان عوام سے واقعی مخلص ہیں تو  زبان چلانے سے پہلے افغانستان پر عائد اقتصادی پابندیاں ختم کریں اور افغان اسٹیٹ بینک کے جواربوں  ڈالرمنجمد کئے گئے ہیں وہ افغان عوام کو واپس کئے جائیں۔

اجلاس میں کلیدی خطاب  ماریو دریگی کا تھا جنھوں نے کہا  کہ  طالبان ایک حقیقت ہیں،سارے ملک پر انکی گرفت مضبوط ہے اور تمام ریاستی اداروں نے ملاوں سے وفاداری کااعلان کردیا ہے لہذا  اصلاح احوال کیلئے طلبہ سے رابطہ ضروری ہے۔ انھوں نے کہا کہ سفارتی تعلقات  قائم کرنے کا فیصلہ تمام ملک اپنی ترجیحات کے مطابق کرینگے لیکن  20 سالہ جنگ سے تباہ حال افغانستان  کی تعمیرنو عالمی برادری کی ذمہ داری ہے اور اس کام کیلئے طالبان سے براہ راست  رابطے کے سواکوئی چارہ نہیں۔

فرانسیسی صدر نے خواتین کے حقوق کا راگ الاپا جسکے جواب میں جناب  دریگی نے افغان حکومت کے ترجمان کا یہ بیان نقل کیا جسمں کہا گیا ہے کہ   خواتین کے تعلیمی اداروں کی بحالی کے اقدامات کئے جارہے ہیں۔ بہت سے صوبوں میں سیکنڈری اسکول تک تعلیم شروع ہوچکی ہے ۔ نجی کالجوں اور جامعات کی طالبات بھی تعلیم حاصل کررہی ہیں۔ عنقریب سرکاری جامعات اور کالج بھی کھل جائینگے۔  ترک  صدر اور قطر کے فرمانروا نے بھی  اسٹوڈنٹس سے رابطے اور ملکی کی تعمیر نو میں افغانستان کی مدد پر زور دیا۔ جناب اردوان کا کہنا تھا کہ افغانوں کی اپنی تہذیب اور معاشرتی اقدار ہیں اور اس ضمن میں یورپ کو اپنے معیار پر اصرار سے گریز کرنا چاہئے۔

 امریکی صدر نے ماریودریگی  کے موقف کی حمائت کی اور انکا لہجہ بڑا نرم تھا۔دودن پہلے ملاوں نے  مالی امداد کے عوض داعش کے خلاف مشترکہ کاروائی کی پیشکش کو جس حقارت سے مسترد کیا ہے اس پربائیڈن انتظامیہ سبکی محسوس کررہی ہے۔


 

No comments:

Post a Comment