Thursday, October 7, 2021

امریکی سینیٹ میں افغان مخالف بل ۔۔۔ سارے علاقے کو غیر مستحکم کرنے کی ایک کوشس

امریکی سینیٹ میں افغان مخالف بل

سارے علاقے کو غیر مستحکم کرنے کی ایک کوشس

امریکی سینیٹ کی مجلس قائمہ برائے خارجہ تعلقات کے نائب سربراہ (Ranking Member)سینیٹر جم رِش نے انسداد دہشت گردی، نگرانی اور احتساب برائے (سقوطِ) افغانستان یا Afghanistan Counterterrorism, Oversight and Accountabilityکے عنوان سے ایک مسودہ قانون یا بِل پیش کیا ہے۔ پیر 27 ستمبر کو جمع کرائے جانے والے اس بل پر محرک سمیت 22 سینیٹروں نے دستخط کئے ہیں۔ بلا استثنا تمام کے تمام دستخط کنندگان کا تعلق ریپبلکن پارٹی کے قدامت پسند، مسلم مخالف دھڑے سے ہے۔ مسودے کے مندرجات پر گفتگو سے پہلے بِل پیش کرنے والے بعض فاضل ارکانِ سینیٹ کے بارے میں چند سطور تاکہ قارئیں اس مسودہِ قانون کے اصل محرکات کا اندازہ کرسکیں۔

ریاست آئیڈاہو (Idaho)کے سینیٹر جم رِش اسرائیل کے نہ صرف پرجوش حامی ہیں بلکہ وہ صیہونی ریاست کی حمائت کو اپنے مسیحی عقیدے کی بنیاد قراردہتے ہیں۔ پندرہ سال پہلے کچھ سلیم الفطرت امریکی اساتذہ، وکلا، سماجی کارکنوں اور طلبہ نے اسرائیل پر معقولیت اختیار کرنے کیلئے دباو کی غرض سے اسرائیل کے اقتصادی بائیکاٹ کی مہم شروع کی جسے اقتصادی بائیکاٹ، عدم سرمایہ کاری اور پابندی (Boycott, Disinvestment and Sanctions) المعروف BDSکا نام دیاگیا۔ اس مہم کو جامعات میں پزیرائی نصیب ہوئی۔ اکثر جامعات اپنی وقف دولت کو  سرمایہ کاری کیلئے استعمال کرتی ہیں تاکہ انکی دولت میں اضافہ ہو۔ بی ڈی ایس نے تحریک چلائی کہ ان رقومات سے اسرائیلی اداروں میں سرمایہ کاری نہ کی جائے۔ اس سلسلے امریکہ کی موقر ترین جامعہ کیلی فورنیا برکلے میں BDSکو زبردست کامیابی نصیب ہوئی اور طلبہ یونین نے  اسرائیلی بائیکاٹ کی قرارداد منظور کرلی۔ کچھ دن بعد جامعہ کی سینیٹ اور بورڈ آف ڈائریکٹرز نے بھی طلبہ کی تجوزیر کو سندِ توثیق بخش دی ۔

یہ خبر سامنے آتے ہی امریکی کانگریس میں اسرائیلی ترغیب کاروں (Lobbyist) نے زبردست مہم چلائی اور جان رش نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر Israeli Anti-Boycott Actمنظور کرالیا جسکے تحت BDSکی حمائت کو یہوددشمن یا Anti-Semitic  گردانتے ہوئے اسرائیل کے بائیکاٹ کو قابل سزا جرم قرار دے دیا گیا۔ اس قانون کے مطابق اسرائیل کا بائیکاٹ کرنے والے تعلیمی اداروں کو وفاقی حکومت کی مدد اور گرانٹ نہیں دی جاسکتی۔

وسکونسن کے سینیٹر ران جانسن نے جارج فلائیڈ کے پولیس کے ہاتھوں بہیمانہ قتل پر ہونے والے مظاہروں کو کمیونسٹ زیرزمین دہشت گرد تنظیم Antifaکی تحریک قراردیتے ہوئے مظاہرین کے خلاف فوج کے استعمال کا مطالبہ کیا۔ موصوف نے اس سال جنوری میں صدارتی انتخاب کے بعد الیکٹرل کالج کے ووٹوں کی گنتی کے دوران کانگریس کی عمارت پر دائیں بازو کے دہشت گرد حملے کی دبے الفاظ میں حمائت کی۔

ریاست اوہایو کے راب پورٹ مین سینیٹ کی مجلس قائمہ برائے اندرون سلامتی کے نائب سربراہ اور اسرائیل کے پرجوش حامی ہیں

ریاست مس سپپی(Mississippi) کی محترمہ سینڈی ہائیڈ اسمتھ نے  ووٹنگ رائٹ بل کی مخالفت کی۔ اس قانون کا مقصد سیاہ فام اور رنگدار افراد کے ووٹ ڈالنے میں رکاوٹ کو سنگین جرم قراردینا ہے۔

ریاست ٹینیسی Tennesseeکی محترمہ مارشا بلیک برن  نے صدر اوباما کے انتخابات کے بعد برتھ سرٹیفیکیٹ بل پیش کیا تھا جسکے مطابق صدارتی انتخاب لڑنے والے افراد کیلئے امریکہ میں اپنی پیدائش ثابت کرنے کیلئے صداقت نامہ جمع کرانا ضروری قراردیا گیا تھا۔ امریکہ کے نسل پرستوں کا موقف تھا کہ صدر اوباما ایک افریقی کے بیٹے ہیں جنکی ولادت کینیا میں ہوئی تھی۔

فلورڈا کے سینیٹر مارکو روبیو نے چند برس پہلے   Combating BDS ACTکے عنوان سے ایک مسودہ قانون پیش کیا جس میں اسرائیل کے بائیکاٹ پر جرمانہ دگنا کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔ روبیو صاحب کے والدِ بزرگوار کیوبا سے ہجرت کرکے فلورڈا تشریف لائے تھے لیکن ایک مہاجر کے چشم و چراغ روبیو کوغیر ملکیوں کا امریکہ آنا پسند نہیں۔

اس بل کے دوسرے اہم حمائتیوں میں ریپبلکن پارٹی کے وہپ جان تو ن (John Thune)، سابق صدارتی امیدوار مٹ رامنی، محترمہ سوزن کالنز، رچرڈ بَر اور جان ارنسٹ شامل ہیں۔ یہ تمام کے تمام افراد اپنی فکر کے اعتبار سے قدامت پسند، اسرائیل کے حامی اور مسلم مخالف سمجھے جاتے ہیں۔

مجوزہ بل میں افغانستان سے امریکی انخلا کی جامع تحقیقات کا مطالبہ کیا گیاہے۔ بل میں تجویز کیاگیاہے کہ:

  • معاملے کا جائزہ لینے کیلئے امریکی وزارت خارجہ ایک ٹاسک فورس تشکیل دے جو افغانستان میں اب بھی موجود امریکی شہریوں، حاملینِ گرین کارڈ اور امریکی فوج کے سہولت کاروں کے وہاں سے باعزت و باحفاظت انخلا کی حکمت عملی مرتب کرے۔ وہاں سے خصوصی امیگریشن ویزا(SIV)اور بطور پناہ گزین امریکہ آنے والوں کیلئے ایک جامع طریق کار متعین کیا جائے
  • افغانستان میں انسداد دہشت گردی اور بطورِ مالِ غنیمت طالبان کے ہاتھ آنے والے امریکی اسلحے کو ٹھکانے لگانے (disposition) کی حکمت عملی تیار کی جائے
  • طالبان اور دوسرے دہشت گردوں کیساتھ منشیات فروشوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف پابندیاں عائد کی جائیں
  • ریاستی اور غیر ریاستی عناصر بشمول پاکستان کی طرف سے طالبان کو ملنے والی مبینہ مالی مدد، محفوظ پناہ گاہیں اور سازو سامان اور تربیت کی مبینہ فراہمی کا جائزہ لیا جائے
  • ایسے ممالک اور افراد جو 2001 سے 2021 تک طالبان کی حمایت کرتے رہے ہیں ان پر پابندیاں عائد کی جائیں
  • مسودے کے مطابق رپورٹ میں اس بات کا تعین کیا جائے گا کہ گزشتہ 20 برسوں کے دوران اور 15 اگست کو کابل کا کنٹرول حاصل کرنے لیے کس نے طالبان کی مدد کی
  • مجوزہ بل میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ محکمہ خارجہ، دفاع اور  سراغرساں اداروں کے حکام یہ رپورٹ بل منظور ہونے کے 180 روز کے اندر کانگریس کو جمع کرائیں

بادی النظر میں یہ بل صدر بائیڈن کے خلاف فرد جرم نظر آرہی ہے۔ سینیٹ میں سماعت کے دوران امریکی جرنیلوں سے کئے جانیوالے ریپبلکن ارکان کے تیکھے سوالات سے اندازہ ہوتا ہے امریکی حزب اختلاف افغانستان میں اپنی شکست کا ملبہ صدر بائیڈن پر ڈالنا چاہتی ہے۔

اب سے تیرہ ماہ بعد امریکہ میں وسط مدت کے انتخابات ہونے ہیں اور جائزوں کے مطابق صدر بائیڈن کی مقبولیت تیزی سے کم ہورہی ہے۔ امریکی سینیٹ میں اسوقت برسراقتدار ڈیموکریٹک پارٹی اور ریپبلکن پارٹی کی پارلیمانی قوت بالکل برابر ہے، یعنی 100 رکنی ایوان میں دونوں پچاس پچاس نشستوں پر براجمان ہیں۔ چونکہ بر بنائے عہدہ، سینیٹ کی سربراہی نائب صدر کے ہاتھ میں ہے اسلئے کملا دیوی ہیرس صاحبہ اہم رائے شماری کے دوران اپنا فیصلہ کن ووٹ ڈال کر صدر بائیڈن کی نیّا پار لگادیتی ہیں۔ ایوان زیریں میں بھی صدر بائیڈن کی جماعت کو معمولی سے برتری حاصل ہے اور 435 کے ایوان میں انکے 220 ارکان ہیں، یعنی واضح اکثریت سے صرف دو زیادہ۔ ریپبلکن پارٹی نے کانگریس سے ڈیموکریٹک پارٹی کی برتری ختم کرنے کیلئے انتخابی مہم کا آغاز کردیا ہے۔ امریکی حزب اختلاف اپنا ہدف حاصل کرنے کیلئے خاصی پرامید ہے کہ اگر ایوان زیریں کی صرف تین نشستیں ڈیموکریٹک پارٹی سے  چھین لی جائیں تو بائیڈن اقتدار کا آخری دوسال امریکی صدر کیلئے عذاب بن سکتا ہے۔

اگلے سال سینیٹ کی جن 34 نشستوں پر انتخابات ہورہے ہیں ان میں قرارداد پر دستخط کرنے والے9 ارکان بھی شامل ہیں جنھیں مدت پوری ہونے پر ووٹروں کا سامنا ہے۔ اسکے علاوہ اس بل کے کئی دستخط کنندگان کی نظریں 2024 کے صدارتی انتخابات پر ہیں۔پاکستان اور ہندوستان کے تجزیہ نگار اس قرارداد کو پاکستان کے خلاف پابندیوں کے نئے سلسلے کا نقظہ آغاز دے رہے ہیں جبکہ  امریکی سیاست کے ماہرین کا خیال ہے کہ تحریک کا بنیادی محرک 2022 کے وسط مدتی پارلیمانی اور 2024 کے صدارتی انتخابات ہیں۔

ریپبلکن پارٹی افغانستان میں شکست کا ذمہ داری  صدر بائیڈن کے سرڈال رہی ہے حالانکہ اس بےمقصد خونریزی کا آغاز  اکتوبر 2001 میں ریپبلکن صدر بش نے کیا اور  جب 29 فروری 2020 کو'ہتھیار ڈالنے' کی تقریب قطر میں منعقد ہوئی تب بھی ایک  ریپبلکن صدر ٹرمپ برسر اقتدار تھے۔ قطر معاہدے میں بہت صراحت سے درج تھاکہ امریکی فوج کا انخلا یکم مئی 2021 تک مکمل کرلیا جائیگا اور کرونا کی وجہ سے عسکری نقل و حرکت پر پابندی کے باوجود افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا جاری رہا جسکے لئے فوج کے کمانڈر انچیف کی حیثیت سے صدر ٹرمپ نے استثنا جاری کیا۔ صدر بائیڈن کا موقف بھی یہی ہے کہ انھوں نے صدر ٹرمپ کے دور میں طئے پانے والے معاہدے کی پاسداری کرتے ہوئے طالبان کی رضامندی سے انخلا کو اگست تک موخر کیا۔ 

افغانستان سے فوجی انخلا پر تو ساری امریکی قوم یکسو تھی اور طالبان کی برتری بھی امریکیوں نے تسلیم کرلی تھی۔ واشنگٹن کا خیال تھا کہ طالبان اپنے وعدے کے مطابق پسپا ہوتی انکی فوج کو تحفظ فراہم کرینگے اور امریکہ افغانستان کا انتطام اشرف غنی انتظامیہ کو منتقل کرکے باعزت انداز میں وہاں سے نکل آئینگے۔ امریکیوں کو یہ خدشہ تو تھا کہ  نیٹو انخلا کے بعد افغان فوج کیلئے طالبان کا مقابلہ آسان نہ ہوگا لیکن انھیں ملک کی قبائلی ترکیبب کی بنا پر 'امید' تھی کہ ملک خانہ جنگی کا شکار ہوجائیگا اور پھر اقوام عالم کیساتھ مل کر امریکہ افغانستان میں 'اصلاحِ احوال' کی کوشش کریگا جس سے شکست اور پسپائی کا تاثر ختم ہوجائیگا۔

لیکن تین اگست کو نمزور کے دارالحکومت میں افغان فوج نے اپنااسلحہ طالبان کے حوالے کردیا جسکے دوسرے دن ہیرات میں جنگجو رہنما اسماعیل خان نے ہتھیار ڈال دئے اور صرف چند ہی دنوں میں ایک بھی گولی چلائے بغیر طالبان نے اس شان سے افغانستان پر قبضہ کیاکہ امریکی فوج کا جدید ترین اسلحہ ملاوں کے قبضے میں آگیا۔ امریکی وزارت دفاع کےذرایع اس مالِ غنیمت کی مالیت 80 ارب ڈالر قراردے رہےہیں۔

سارے ملک پر قبضے کے باوجود طالبان نے کابل میں داخل ہونے سے گریز کیا کہ قطر میں ملا عبد الغنی برادر کو ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے یقین دلایا تھا کہ اگر طالبان عام معافی کا وعدہ کریں تو افغان حکومت  'باعزت انتقالِ اقتدار' کیلئے تیار ہیں۔ طالبان کے امیر ملا ہبت اللہ اس سے پہلے ہی عام معافی کا اعلان کرچکے تھے چنانچہ ڈاکٹر صاحب کی یقین دہانی اور اسکی امریکہ کی جانب سے توثیق کے بعد طالبان نے کابل کی طررف پیشقدمی روکدی۔ لیکن اسکے دوسرے ہی دن صدر اشرف غنی فرارہوگئے اور انکے نائب امراللہ صالح نے پنجشیر میں پناہ لے لی۔ اسکے بعد جو ہوا اسکی تفصیل امریکی فوج کے جوائنٹ چیف آف اسٹاف جنرل مائک ملی نے امریکی سینیٹ میں خود بیان کی ہے۔ جنرل صاحب نے سماعت کے دوران بتایا کہ  کابل کو چند درجن موٹر سائیکل سواروں نے جو اللہ اکبر کے نعرے لگارہے تھے،ایک بھی گولی چلائے بغیر فتح کرلیا۔ جنرل ملی نے افسردہ لہجے میں کہا کہ جدید ترین اسلحے سے لیس تین لاکھ سے زیادہ تربیت یافتہ فوج چند ہزار ملاوں کے سامنے گیارہ دن بھی نہ ٹھیر سکی 

افغان فوج کے دل چھوڑدینے اور اشرف غنی کے غیر متوقع فرار سے باعزت پسپائی کا امریکی منصوبہ درہم برہم ہوگیا اوراقوام عالم کے سامنے امریکہ ہزیمت اور رسوائی کا استعارہ بن گیا۔ جوکچھ وسط اگست میں ہوا اسکی بنیاد قطر معاہدہ ہے جس پر صدر ٹرمپ  کے حکم سے دستخط کئے گئے لیکن اسکے منظقی انجام کی شرمندگی بائیڈن انتظامیہ کو اٹھانی پڑی اور اب ریپبلکن پارٹی قومی شرمندگی کو  جماعتی مفاد کیلئے استعمال کررہی ہے۔

معاملہ اگر صدربائیڈن کے احتساب تک رہتا تب بھی ٹھیک تھا کہ امریکہ کی داخلی سیاست سے دنیا کو کیا سروکار لیکن اس مسودہ قانون کی منظوری افغانستان اور پورے خطے میں امریکی مداخلت کے ایک نئے سلسلے کا نقطہ آغاز ہوگی۔ طالبان کے خلاف کڑی اقتصادی پابندیوں کیساتھ نئی افغان حکومت کو تسلیم کرنے والے ممالک کو بھی چچا سام کے عتاب کا سامنا کرنا ہوگا۔ امریکی حکومت،  پاکستان، طالبان اور چین کے مقابلے میں ہندوستان کے دفاع، معیشت اور سفارتکاری کے شعبوں میں مدد کی پابند ہوگی۔ بعض سینیٹروں نے ویغور مسلمانوں کو چین کے خلاف استعمال کرنے کی حکمت عملی تجویز کی ہے جسکے لئے ترکی، ازبکستان اور تاجکستان کی مدد درکار ہوگی۔طالبان حکومت کو غیر مستحکم کرنے کیلئے تاجکستان میں پناہ گزین امراللہ صالح اور احمد شاہ مسعود کے صاحبزادے احمد مسعود کی نصرت بھی نئی امریکی حکمت عملی کا حصہ ہوگی۔ 

اس بل کے قانون بن جانے کی صورت میں وسط ایشیا کے افغانستان سے تعلقات میں تلخی کی حوصلہ افزائی کی جائیگی۔ چین اور ازبکستان و تاجکستان کے تعلقات میں کشیدگی پیدا کی جائیگی اور ہندوستان کو چین اور پاکستان کے خلاف اکسایا جائیگا۔ یہ بدنصیب علاقہ کئی دہائیوں سے تصادم اور جنگوں کا عذاب سہہ رہا ہے۔ اب صدر بائیڈن سے 2020 میں اپنی شکست کا بدلہ لینے کیلئے ان قدامت پسند و متعصب سینیٹروں نےنفرت و بداعتمادی کے بارود پر نئی چنگاری بکھیرنے کا عزم کرلیا ہے۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل،  8 اکتوبر 2021

ہفت روزہ دعوت دہلی، 8 اکتوبر 2021

روزنامہ امت 8 اکتوبر 2021

ہفت روزہ رہبر سرینگر، 10 اکتوبر 2021

روزنامہ قومی صحافت لکھنو


 

No comments:

Post a Comment