امریکی نائب وزیرخارجہ کا دورہ پاکستان ۔۔ کچھ تو پیغام زبانی اور ہے
امریکہ کی نائب وزیرخارجہ محترمہ وینڈی شرمن دوروزہ دورے پر آج پاکستان پہنچ رہی ہیں۔ یہ بائیڈن انتظامیہ کے کسی بھی اعلیٰ افسر کا پہلا دورہ ِپاکستان ہے۔ وینڈی صاحبہ گزشتہ دودنوں سے ہندوستان میں تھیں۔ ملاقاتوں میں کیا بات چیت ہوگی اسکے بارے میں کسی بھی جانب سے کوئی اعلامیہ جاری نہیں ہوا لیکن خیال ہے کہ مرکزی موضوع افغانستان ہوگا۔
افغانستان کے حوالے سے ایک بات تو اب طئے ہے کہ واشنگٹن نے وہاں اپنے مفادات کی نگرانی کا 'ٹھیکہ' ہندوستان کو دیدیا ہے۔ بدھ کی شب دلی میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے وینڈی صاحبہ نے بہت ہی غیر مبہم انداز میں کہا
'افغانستان کے معاملے پر ہم ہندوستان سے رابطے میں ہیں، امریکہ کو افغانستان سے ممکنہ دہشت گردی کے بارے میں ہندوستان کے خدشات کا اچھی طرح اندازہ ہے۔ اس دہشت گردی سے ہندوستان اور سارا جنوبی ایشیا متاثر ہوسکتا ہے۔' فاضل وزیرخارجہ نے صحافیوں کو بتایا کہ 'امریکہ ہندوستان مشترکہ ورکنگ گروپ برائے انسداد دہشت گردی کا اعلیٰ سطحی اجلاس 26 تا 28 اکتوبر منعقد ہوگا۔ اسکے بعد امریکہ کی وزارت اندرونی سلامتی (Homeland Security)، ہندوستانی وزارت داخلہ اور دونوں ملکوں کے سراغرساں اداروں کا مشترکہ اجلاس بھی ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ افغانستان کے معاملے میں ہند وامریکہ 'ایک سوچ اور ایک اپروچ' پر گامزن ہیں۔ امریکی نائب وزیرخارجہ نے انکشاف کیا کہ امریکہ، ہندوستان اور دوسرے 'ہمخیال' ممالک افغانستان سے غیر ملکی شہریوں اور امریکی سہولت کاروں کے بحفاظت انخلا پر غوروفکر کیلئے ہر ہفتے تفصیلی اجلاس منعقد کررہے ہیں۔
بہتر(72) سالہ وینڈی شرمین ایک سماجی کارکن ، جامعہ ہارورڈ کی پروفیسراور جو بائیڈن کی کلیدی ٹیم کا حصہ ہیں۔ محترمہ وینڈی کو سابق صدر اوباما نے 2011 میں نائب وزیرخارجہ برائے سیاسی امور مقرر کیا تھا۔ اس منصب پر اس سے پہلے جناب ولیم برنس تعینات تھے جو اب سی آئی اے کے سربراہ ہیں۔ جب 2015 میں پروفیسر سبکدوش ہوئی تو یہ کرسی انٹونی بلنکن نے سنبھال لی جو اب وزیرخارجہ ہیں۔ جناب بلینکن، جناب برنس اور محترمہ گزشتہ دودہائیوں سے جو بائیڈن کیساتھ کام کررہے ہیں۔
پروفیسر صاحبہ اور دوسرے دو صاحبان کے پس منظر سے احباب اس دورے کی اہمیت کا اندازہ کرسکتے ہیں۔ اس دورے کو حال ہی میں پیش کئے جانیوالے انسداد دہشت گردی، نگرانی اور احتساب برائے (سقوطِ) افغانستان یا Afghanistan Counterterrorism, Oversight and Accountability مسودہ قانون یا بِل کے تناظر میں بھی دیکھنا چاہئے جس میں بہت وضاحت سے کہا گیا ہے کہ
- ریاستی اور غیر ریاستی عناصر بشمول پاکستان کی طرف سے طالبان کو ملنے والی مبینہ مالی مدد، محفوظ پناہ گاہیں اور سازو سامان اور تربیت کی مبینہ فراہمی کا جائزہ لیا جائے اور ایسے ممالک اور افراد جو 2001 سے 2021 تک طالبان کی حمایت کرتے رہے ہیں ان پر پابندیاں عائد کی جائیں
- اس بات کا تعین بھی ضروری ہے کہ گزشتہ 20 برسوں کے دوران اور 15 اگست کو کابل کا کنٹرول حاصل کرنے لیے کس نے طالبان کی مدد کی
- امریکی حکومت، پاکستان، طالبان اور چین کے مقابلے میں ہندوستان کے دفاع، معیشت اور سفارتکاری کے شعبوں میں مدد کی پابند ہوگی
گزشتہ دنوں یہ خبر بھی آئی تھی کہ امریکہ افغانستان پر بمباری اور ڈرون حملوں کیلئے پاکستان کی فضائی حدود استعمال کرنے کا خواہشمند ہے اور اس سلسلے میں ایک درخواست بھی اسلام آباد کو بھیجی گئی ہے۔
دلی میں گفتگو کے دوران ہندوستانی زعما نے اسلام آباد کی اسٹوڈنٹس سے بڑھتی ہوئی قربت پر تشویش کا اظہار کیا۔ ہند کے وزیرخارجہ جے شنکر اور سکریٹری خارجہ شری ہرش وردھن نے افغانستان میں ہونے والی حالیہ تبدیلیوں کو ہندوستان کی سلامتی اور علاقے کے استحکام کیلئے سخت خطرہ قراردیا۔ وزیراعظم کے مشیرِ قومی سلامتی اجیت دوال نے نقشوں کی مدد سے افغانستان میں طالبان کے کے مضبوط گڑھ اور وہاں سے دوسرے ممالک میں مداخلت کے راستوں اور راہداریوں کی باریک بینی سے وضاحت کی۔ اس ضمن میں آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل فیض حمید کے حالیہ دورہ افغانستان کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔
اتفاق سے جسوقت دلی میں یہ اجلاس ہورہا تھا عین اسی وقت طالب رہنما انس حقانی ، محمود غزنوی کے مقبرے کی زیارت کررہے تھے اور وہاں اپنے ساتھیوں سے خطاب کرتے ہوئے حقانی صاحب نے کہا کہ محمود غزنوی تاریخ کا حصہ تو ہیں لیکن قصہ پارینہ نہیں ہوئے۔ انکی اولاد دورِ حاضر کے ہر سومنات کو مسمار کرنے کیلئے اپنے باپ کی طرح پرعزم ہے۔ اجیت دوال نے انس حقانی کے خطاب کے اس حصے کا انگریزی ترجمہ وینڈی صاحبہ کو سنایا۔
اس پس منظر میں لگتا ہے کہ نائب وزیرخارجہ کچھ سخت پیغام لے کر آرہی ہیں لیکن افغانستان میں شرمناک شکست کے اثرات ابھی ختم نہیں ہوئے۔ اس حوالے سے بائیڈن انتظامیہ کو خود امریکہ میں بدترین تنقید کا سامنا ہے۔ نیٹو اتحادی بھی کسی نئی مہم جوئی پر آمادہ نہیں۔ چنانچہ عمران خان پر اس نوعیت کا دباو نہیں جسکا سامنا پرویز مشرف کو 2001 میں تھا۔ تاہم معاشی بحران کی وجہ سے چچا سام پابندیوں کی لاٹھی, اور مراعاتFATF) , (IMF کی گاجر دکھاکر بات منوانے کی کوشش کرسکتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment