وزیراعظم نریندرامودی کا دورہ امریکہ
ہندوستانی وزیراعظم نریندرا مودی کا تین روزہ دورہ امریکہ اپنے اختتام کو پہنچا۔ اس دوران مودی جی نے اتحاد اربعہ یا QUAD Allianceکے سربراہی اجلاس میں شرکت کی، امریکی صدرو نائب صدر اور ٹیکنالوجی کی پانچ بڑی کمپنیوں کے سربراہوں سے ملاقات کے علاوہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کیا۔ یہ ہندوستانی وزیراعظم کی امریکی صدر جو بائیڈن سے پہلی بالمشافہ ملاقات تھی۔ امریکی تاریخ میں پہلی بار ایک خاتون نے نائب صدر کی ذمہ داریاں سنبھالی ہیں اور شریمتی کملا دیوی ہیرس کی والدہ ڈاکٹر شیمالاگوپلان، چنائے (تامل ناڈو، ہندوستان) سے امریکہ آئی تھیں اور اس اعتبار سے کملا صاحبہ کو امریکی کی پہلی بھارت نژاد نائب صدر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔
جناب مودی نے اس دورے کی تیاری کافی عرصہ پہلے شروع کردی تھی۔ سابق امریکی صدر ٹرمپ کی طرح جناب مودی اپنے ایجنڈے، موقف اور ذاتی تشہیر کیلئے ٹویٹر استعمال کرتے ہیں۔یہ تو قارئین کو یقیناً معلوم ہوگا کہ جناب ٹرمپ کا ٹویٹر اکاونٹ انتظامیہ نے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی پر معطل کردیا ہے۔ ٹویٹر پر شری مودی کے مداحوں یا followersکی تعداد 7کروڑ 14 لاکھ سے زیادہ ہے۔ دورے سے پہلے جناب مودی نے ٹویٹر پراپنے مداحوں کو تمام تفصیلات سے آگاہ کیا اورکواڈ کے سربراہان کو انفرادی ٹوٹیس بھیجے جس میں آنے والی سربراہ کانفرنس کے بارے میں غیر معمولی جوش و خروش کا مظاہرہ کیا گیا۔
مالی معاملات کو شفاف ثابت کرنے کیلئے 18 ستمبر کو ان تمام تحائف کا نیلام کیا گیا جو بطور وزیراعظم انھیں دوسرے ممالک سے عطا ہوئے ہیں۔ نیلامی کا آغاز 17 ستمبر کو مودی جی کے جنم دن سے ہوا، فروخت کا سلسلہ اکتوبر کے پہلے ہفتے تک جاری رہیگا اور نیلام سے حاصل ہونے والی آمدنی دریائے گنگا کی صفائی اور کناروں کی آرائش پر خرچ ہوگی۔ افتتاحی تقریب میں وزیراعظم خود شریک ہوئے۔ معمول کی ایک سرگرمی کی اتنے بڑے پیمانے پر تشہیر کا مقصد قوموں کی برادری میں ایک قد آور ودیانت دار رہنما کی حیثیت سے ہندوستانی وزیراعظم کے ملائم چہرے یاsoft imageکو نمایاں کر نا تھا۔
بیس ستمبر کو سعودی وزیرخارجہ فرہان السعود کے دورہ ہندوستان کو بھی جناب مودی نے اپنے ٹویٹر پر نمایاں کیا۔ خیال ہے کہ سعودی ارامکو تیل ریفائنری اور دوسری اہم تنصیبات پرہندوستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کریگی۔ اپنے ٹویٹس میں ہندوستانی وزیراعظم نے ہندوستان کو کاروبار کیلئے انتہائی پر کشش اور سرمایہ کاروں کی جنت قراردیا۔
امریکہ روانگی سے ایک دن پہلے جناب مودی نے فرانس کے صدر ایمیونل میخواں سے فون پر گفتگو کی جس میں افغانستان کی صورتحال پر تفصیلی تبادلہ خیال کیاگیا۔ فرانسیسی ذرایع ابلاغ کے مطابق افغانستان میں متنوع (Inclusive)حکومت کے قیام اور خواتین کے حقوق کو یقینی بنانے کیلئے برقرار رکھنے پر اتفاق کیاگیا۔ ستم ظریفی کہ جس وقت افغان خواتین کی 'حالتِ زار' پر فکر مندی کا اظہار ہورہا تھا ممبئی کے مضافاتی شہر دمبیولی میں پندرہ سال کی ایک معصوم بچی پر مجرمانہ حملے کی بھیانک واردات نے سارے ہندوستان کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس بدنصیب کو 33 سے زیادہ اوباش 8 مہینے تک درندگی کا نشانہ بناتے رہے۔
بائیس ستمبر کو خصوصی طیارے کی براہ راست پرواز کے ذریعے نریندرامودی امریکہ روانہ ہوئے۔ افغانستان نے اپنی فضائی حدود کو غیر ملکی پروازوں کیلئے بند کردیا ہے اور غیر ملکی جہاز خاص اجازت کے بعد ہی افغان فضائی حدود میں داخل ہوسکتے ہیں چنانچہ پاکستان سے فضائی حدود کے استعمال کی درخواست کی گئی۔آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد سے پاکستان نے بھارتی جہازوں کو اپنی حدود سے گزرنے کیلئے خصوصی اجازت کا پابند کردیا ہے اور ماضی میں اسلام آباد نے کم از کم تین بار صدر رام ناتھ کووند اور وزیراعظم مودی کے طیاروں کو اپنی فضائی حدود سے نہیں گزرنے دیا تاہم اس بار پاکستان نے مودی جی کو اپنی فضائی راہداری استعمال کرنے کی اجازت دیدی۔سفر کے دوران ہندوستانی وزیراعظم کی جہاز پر کام کرتے کئی تصاویر ٹویٹر پر جاری کرکے یہ تاثر دیا گیاکہ جناب مودی اپنی جنتا کی خدمت میں ہمہ تن مصروف ہیں اور اپنا ایک منٹ بھی ضایع نہیں کرتے
بائیس ستمبر کو واشنگٹن آمد پر انکا امریکہ میں مقیم ہندوستانی شہریوں نے پرتپاک خیر مقدم کیا تو سیاہ پرچموں کے ساتھ بڑی تعداد میں کشمیری اور سکھ باشندے بھی وہاں موجود تھے۔ اس دوران مودی کے حامیوں اور سکھوں کے درمیان نعرے بازی کا مقابلہ بھی ہوا۔
گزشتہ بار کی طرح اس مرتبہ بھی وزیراعظم مودی نےاپنے قیام کا ایک دن کارپوریٹ امریکہ سے ملاقات کیلئے مختص رکھا اور 23 ستمبر کو وہ سارا دن بڑی امریکی کارپوریشنوں کے اعلٰی حکام سے ملاقات کرتے رہے۔ دوسال پہلے انکا ہدف توانائی، خاص طور سے LNG تھی جبکہ جمعرات کو وزیراعظم مودی نے جدید ٹیکنالوجی اور سرمایہ کاری فراہم کرنے والے اداروں کے سربراہان سے تفصیلی ملاقاتیں کیں۔
سب سے اہم نیم موصل پتری (Semi-Conductor Chip)بنانے والے ادارے کوال کام Qualcomکے سربراہ کرسٹینو امون (Cristano Amon)سے گفتگو تھی۔ اسوقت ساری دنیا میں چپس کی شدید قلت ہے حتیٰ کہ امریکہ میں گاڑیاں بنانے والی سب سے بڑی کمپنی جنرل موٹرز نے چپس کی عدم دستیابی کی بناپر اپنےکئی کارخانوں میں پیداوار روک دی ہے اورفورڈ موٹر کمپنی کی پیدوار ایک تہائی رہ گئی ہے۔ یورپ اور ایشیا میں بھی چپس کی شدید قلت ہے۔ چند ہفتہ پہلے چپس بنانے والے اداروں کی پیداوار بڑھانے کیلئے امریکی کانگریس نے اربوں ڈالر کی امدادی رقم منظورکی ہے ۔کوال کام کی خوبی یہ ہے کہ ادارہ موبائل فون کے 5-Gکیلئے چپس بناتا ہے۔ ملاقات کے بعد جناب امون نے بتایا کہ ہندوستانی وزیراعظم نے چپس کا کارخانہ ہندوستان میں لگانے کی دعوت دی جس پر کوال کوم کی قیادت سنجیدگی سے غور کررہی ہے۔
ٹیکنالوجی کمپنی اڈوبی Adobeکے قائد شنتانو نارائن جامعہ عثمانیہ حیدرآباد کے فارغ التحصیل ہیں۔ ملاقات کے دوران دونوں رہنماوں نے ہندی میں بات کی۔ اڈوبی کھیلوں کی الیکٹرانک مشینیں بھی بناتی ہے اور شنتانونارائن نے وزیراعظم سے کہا کہ انکی کمپنی ہر ہندوستانی بچے تک ان مشینوں کی رسائی یقینی بنانا چاہتی ہے۔
وزیراعظم مودی نے قابل تجدید خاص طور سے شمسی توانائی کی ٹیکنالوجی بنانے والی کمپنی سن پاور المعروف فرسٹ سولر کے سربراہ مارک ودمر کو ہندوستان میں سولر پینل بنانے کی دعوت دی
جوہری آبدوز، غیر مرئی (stealth)بحری جہاز، جنگی طیارے اور جدید ترین ہتھیار بنانے والے جنرل ڈائنامکس کے ذیلی ادارے جنرل اٹامکس General Atomicsکے سی ای او ویوک لال سے جناب مودی نے تین گھنٹے سے زیادہ دیر بات کی۔ جناب لال بھارت نژاد انڈونیشی ہیں۔ جنرل اٹامک عسکری اور شہری استعمال کے ڈرون کے علاوہ ریڈار، جوہری ایندھن استعمال کرنے والے انجن اور دوسرے حفاظتی آلات بناتا ہے۔ جناب لال نے بھی ہندوستان میں سرمایہ کاری پر دلچسپی کا اظہار کیا
دنیا بھر میں سرمایہ کاری کرنے والے ادارے بلیک اسٹون کے سربراہ اسٹیفن شوارزمین نے بھی وزیراعظم مودی ملاقات کی۔ بلیک اسٹون ہر سال مختلف اداروں میں 35 سے 40 ارب ڈالر کی سرمایہ کرتا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ ہندوستان میں سعودی ارامکو کی ریفائری کیلئے بلیک اسٹون سرمایہ کاری کریگا۔
کارپوریٹ رہنماوں سے ملاقاتوں کے بعد نریندر مودی نے اسی شام آسٹریلیا کے وزیراعظم اسکاٹ موریسن اور اپنے جاپانی ہم منصب یوشیدا سوگا سے الگ الگ ملاقاتیں کیں۔ اس دوران افغانستان کے تناظر میں ہند و بحرالکاہل Indo-Pacificکی صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔ ہندوستان کا خیال ہے کہ افغانستان میں اب چین کا کردار بہت اہم ہوگیا ہے اور بیجنگ اپنی مواصلاتی مہم المعروف BRIکاسلسلہ افغانستان کے راستے وسط ایشیا تک وسیع کرنا چاہتاہے۔
نائب صدر کملا دیوی ہیرس سے ملاقات خاصی دلچسپ رہی۔ وزیراعظم نے امریکی نائب صدر کو ہندوستان کی بیٹی قرار دیتے ہوئے انتہائی پرجوش لہجے میں 'وطن' کے دورے کی دعوت دی لیکن کملا جی کا رویہ نسبتاً سرد تھا۔ نائب صدر ڈیموکریٹک پارٹی کے لبرل و سیکیولر دھڑے سے تعلق رکھتی ہیں جسے بھارت میں مذہبی انتہاپسندی اور ہندوتواکے فروغ پر سخت تشویش ہے۔ کیلی فورنیا سے رکن کانگریس رو کھنہ اور محترمہ پرمیلا جے پال بھی اس معاملے کو اٹھاتے رہے ہیں۔
واشنگٹن کے سفارتی ذرایع کے مطابق گفتگو کے دو ران امریکی نائب صدر نے کہا کہ ساری دنیا میں جمہوریت کواندرونی خطرات کا سامنا ہے اور اسکا مقابلہ جمہوری اقدار پر سختی سے عمل کرکے ہی کیا جاسکتا ہے۔ انکا موقف تھا کہ جمہوری ممالک کو انسانی حقوق اور شرف انسانی کے حوالے سے دنیا کیلیے مثال بننا چاہئے۔امتیازی قوانین، اقلیتوں سے برا سلوک اور مذہبی اکائیوں کے درمیان کشیدگی جمہوریت کیلیے اچھا شگون نہیں۔شریمتی ہیرس صاحبہ نے شہریت کے نئے بھارتی قوانین کے مضمرات سے ہندوستانی وزیراعظم کو آگاہ کیا۔انھوں نے آرٹیکل 370کی منسوخی اور کشمیر کی نیم مختار حیثیت ختم کرنے پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔
جمعہ کی صبح ہندوستانی وزیراعظم نے قصرِ مرمریں میں صدربائیڈن سے ملاقات کی۔ جناب بائیڈن ہندوستان امریکی رفاقت کے معمار سمجھے جاتے ہیں۔ دلی اور واشنگٹن کی حالیہ قربت کا آغاز صدر اوباما کے دور سے ہوا جب 2012 میں امریکہ کی نئی فوجی حکمت عملی کا اعلان کرتے ہوئے سابق امریکی صدر نے بحرالکاہل اور بحر ہند کو اپنی توجہ کا مرکز قراردیا۔جب ایک صحافی نے اس نظر کرم کی وجہ دریافت کی تو امریکی صدر نے فرمایا کہ یہ ایک مصروف تجارتی شاہراہ ہے اور اس آبی راستے کی نگرانی ہماری سلامتی کیلئے بے حدضروری ہے۔ واشنگٹن کے عسکری حلقوں کا خیال ہے کہ روس کے زوال کے بعد دنیا کی اسلامی قوتیں امریکہ کیلئے خطرے کا باعث تھیں لیکن گزشتہ دس بارہ سالوں میں اسلامی مزاحمت کچلی جاچکی ہے۔ عرب دنیا کی اسلامی تحریکیں زبردست عوامی حمائت کے باوجود دفاعی پوزیشن پر ہیں اور شمالی افریقہ و مشرق وسطیٰ میں ابھرنے والی نئی قیادت امریکی بالادستی کو چیلینج کرنے کےموڈ میں نہیں۔ چنانچہ امریکہ کی توجہ اب چین کی جانب ہے جو معاشی دوڑ میں بہت آگے نکل چکا ہے اور بلااستثنیٰ دنیا کی چھوٹی بڑی ہر منڈی میں "میڈ ان چائنا" مصنوعات کا غلبہ نظر آتا ہے۔ صدر اوباما کا خیال تھا کہ چین کے گھیراوکیلئے بحرالکاہل سے بحر ہند کو ملانے والی آبنائے ملاکا کی نگرانی اور خلیج بنگال پر گرفت مضبوط رکھنا امریکہ کی ضروت ہےاور یہ کام ہند ناو سینا (بحریہ) کے علاوہ کسی اور کے بس کی بات نہیں۔ اس عسکری اتحاد کو بہتر، موثر اور ہمہ جہت بنانے کی ذمہ داری صدر اوباما نے اپنے نائب صدر کو سونپی تھی۔
ہندوستانی وزیراعظم کا استقبال کرتے ہوئے صدر بائیڈن نے یاد دلایا کہ 2008 کی صدارتی انتخابی مہم کے دوران انھوں نے پیشن گوئی کی تھی کہ 2020 میں ہندوستان اور امریکہ دنیا کے دو انتہائی گہرے دوست اور شراکت دار ہونگے۔ جواب میں مودی صاحب نے کہا کہ ہماری اس بے مثال دوستی کی بنیاد گاندھی جی کا فلسفہِ اعتماد ہے۔اس ملاقات میں افغانستان کے مسئلے پرتفصیلی گفتگو ہوئی اور طالبان سے سفارتی سطح پر 'نبٹنے ' کی تدبیر، ترکیب اور حکمتِ عملی پر غور کیا گیا۔ملاقات کے اختتام پرمعزز مہمان کو ہندوستانی تاریخ و ثقافت پر مبنی قیمتی نوادرات کا تحفہ پیش کیا گیاجو ہندوازم، بودھ مت اور جین مذاہب سے متعلق نادر تصاویر، ،مورتیوں، پوشاک اور دوسرے آثار پر مشتمل ہے۔ یہ نوادرات امریکہ بھر کے عجائب گھروں اور تاریخی مراکز سے جمع کئے گئے ہیں۔
اس دورے کا سب سے اہم پروگرام معاہدہ اربعہ کی کرونا وبا کے بعد پہلی براہ راست چوٹی کانفرنس تھی۔ اس سال مارچ میں سربراہ اجلاس سمعی و بصری رابطے (Virtual)پر ہوا تھا۔ امریکہ، ہندوستان، جاپان اور آسٹریلیا پر مشتمل یہ اتحاد 2007 میں قائم ہواجسکا سرکاری نام Quadrilateral Security Dialogue المعروف QUADہے۔ سرکاری مسودے کے مطابق معاہدہِ اربعہ کا مقصد بحرالکاہل اور بحر ہند میں میں بلاروک ٹوک جہاز رانی کو یقینی بنانا ہے لیکن درحقیقت چین کی بحری نقل وحرکت پر نظر رکھناکواڈ کی روح ہے۔ چین کے گرد گھیرا تنک کرنے کیلئے حال ہی میں امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا نے آکس (AUCUS) اتحاد بھی تشکیل دیا ہے جسکےتحت بحرجنوبی چین میں گشت کیلئے امریکہ آسٹریلیا کو جوہری آبدوز فراہم کررہا ہے۔آکس کی ہئیت اور اسکے نتیجے میں آسٹریلیا اور امریکہ سے فرانس کی ناراضگی پر ایک تفصیلی مضمون ہم گزشتہ ہفتے نذرِ قارئین کرچکے ہیں۔
اجلاس کے صدر جناب جو بائیڈن نے آغاز میں رسمی گفتگو کرتے ہوئے بھارت کی جانب سے ویکسین برآمد کے اعلان کو انسانیت کی عظیم خدمت قرار دیا اور اس نریندرا مودی کی قائدانہ صلاحیت کا اعتراف کرتے ہوئے سب سے پہلے انھیں خطاب کی دعوت دی۔ اپنے مختصر خطاب میں وزیراعظم مودی نے امید ظاہر کی کہ چار ملکوں کا یہ اتحاد ہندوبحرالکاہل میں امن و خوش حالی کو یقینی بنائے گا۔ اپنی اختتامی تقریر میں جو بائیڈن نےکہا کہ چاروں جمہوریتیں، کرونا اور آب و ہوا میں تبدیلی کے مشترکہ چیلنج پر قابو پانے کے لیے ایک ساتھ آئی ہیں اور مستقبل کی صورت گری کیلئے ہمارے پاس ایک مشترکہ تصور ہے۔
چوٹی اجلاس میں ہند بحرالکاہل خطے تک تمام اقوام کی آزادانہ رسائی اور آبی شاہراہوں کو پرامن تجارتی سرگرمیوں کیلئے پابندیوں سے پاک رکھنے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ اجلاس کے اختتام پر جو مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا ہے اس میں کہا گیا ہے کہ کواڈ اتحادی، قانون کی حکمرانی، آزادو بلاروک ٹوک جہاز رانی، تنازعات کے پر امن حل، جمہوری اقدار کے فروغ اور خودمختاری کے تحفظ کیلئے پرعزم ہیں۔مشترکہ اعلامئے میں چین کا نام لئے بغیر بحرالکاہل کے چھوٹے جزیروں میں آب و ہوا کی تبدیلی کے منفی اثرات پر تشویش کا اظہار کیا۔کواڈ قائدین کو بحرجنوبی چین میں عسکری مقاصد کیلئے چین کی جانب سے تعمیر کئے جانیوالے مصنوعی جزائر پر سخت تحفظات ہیں۔اعلامئے کے مطابق کواڈ کا سربراہی اجلاس اب ہر سال ہوگا۔اس اجلاس کا دورانیہ صرف دو گھنٹہ تھا جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ گفتگو چندنکات تک محدود رہی اور تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اس عرصے میں بحث و مباحثے کا محور چین و افغانستان تھے اور اس حوالے سے پاکستان، چین ، روس اور ترکی پر مشتمل ایک نئے غیر رسمی اتحاد کی سرگرمیوں اور ممکنہ عزائم پر بھی غور کیا گیا۔سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ ابھرتے ہوئے اس نئے اتحاد کا ملائیشیا، ویتنام، قطر ، عراق اور لیبیا بھی دلچسپی سے جائزہ لے رہے ہیں
کواڈ اجلاس کے دوسرے روز شری نریندرا مودی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کیا۔ دوسرے تمام رہنماوں کی طرح ہندوستانی وزیراعظم کا خطاب بھی روائتی نوعیت کا تھا اور حسب توقع انکی تقریر میں، میرا اور مجھے کے گرد گھومتی رہی جس میں خودستائی کا پہلو نمایاں تھا۔ انھوں اپنے پڑوسی کو متنبہ کیا کہ دہشت گردی کو پالیسی بنانے والے خود بھی اس مشکل کا شکار ہوسکتے ہیں۔
تجزیہ
نگاروں کا خیال ہے کہ مودی جی کے دورے اور کواڈ سربراہی اجلاس میں چین اور افغانستان
ہی کلیدی نکات تھےاور جن مقاصد کیلئےکواڈ تشکیل دیا گیا ویسا ہی ہدف اب افغانستان
کیلئے طئے کیا گیا ہے یعنی کابل حکومت کو ہر قیمت پر ناکامی سے دوچار کیا جائے۔باقی
رہی ماحولیات اور کرونا پر گفتگو تو یہ محض موذیوں کا منہہ بند کرنے کی ایک کوشش
تھی۔
کواڈ
اتحادی، افغانستان میں طالبان کی غیر
معمولی اوربرق رفتار بلکہ چشم کشا کامیابی پراب تک صدمے میں ہیں جہاں امریکہ کے 30
کھرب جاپان کے 6.8 ارب،
آسٹریلیا کے ڈیڑھ اور ہندوستان کے تین ارب
ڈالر ڈوب گئے ۔
کواڈ کو سب سے زیادہ تشویش چین کے BRI منصوبے کی وسط ایشیا تک ممکنہ توسیع پر ہے۔ ہندوستان نے ایران کی چاہ بہار بندرگاہ اور وہاں سے افغان ایران سرحد پر زارنج تک جدید ترین چاررویہ شاہراہ تعمیر کی ہے جو تمام موسم میں قابل استعمال ہوگی لیکن طالبان نے زارنج کی خشک بندرگاہ کو عملاً معطل کرکے اس سارے منصوبے پر خط تنسیخ پھیر دیا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ گوادر BRIکا جنوب میں نقطہ آغاز ہوگا۔ مودی جی نے گفتگو کے دوران بحرجنوبی چین اور آبنائے ملاکا کے ساتھ بحرعرب اور باالخصوص گوادر پر نظر رکھنے کی ضرورت پر زور دیا۔
خبر ہے کہ اس حوالے سے چاروں ملکوں کے ماہرینِ سلامتی کااجلاس بھی ہوا جس میں قومی سلامتی کے لئے وزیراعظم مودی کے مشیر اجیت دوال نے علاقائی صورتحال اور افغانستان پر مُلّاوں کے اقبال سے جنم لینے والے خدشات و خطرات کا جائزہ پیش کیا۔ ان سرگرمیوں اور پیش بندیوں سے لگتا ہے کہ مستقبل قریب میں جہاں آبنائے ملاکا، بحر انڈمان، خلیج بنگال اور بحرہندکاساتھ بحرعرب کے شمال مغربی کنارے پر بھی کشیدگی بڑھے گی تو دوسری طرف افغا نستان کو یکہ و تنہا کرکے دیوار سے لگانے کی مہم بھی علاقائی امن کو سنگین خطرات سے دوچار کرسکتی ہے۔ صاحبِ نظراِ ں!! نشّہِ طاقت ہے خطرناک
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل 30 ستمبر 2021
ہفت روزہ دعوت دہلی 30 ستمبر 2021
روزنامہ امت کراچہ 30 ستمبر 2021
ہفت روزہ رہبر سرینگر 30 ستمبر
2021
No comments:
Post a Comment