Thursday, September 23, 2021

آنکُس اتحاد، فرانس کی برہمی اور جوہری ہتھیاروں کا پھیلاو

 

آنکُس اتحاد، فرانس کی برہمی اور جوہری ہتھیاروں کا پھیلاو

فرانس نے امریکہ اور آسٹریلیا سے اپنے سفیروں کو واپس بلالیا ہے۔ یہ ان ممالک کی سفارتی تاریخ کا پہلا واقعہ ہے۔ابتدا میں کہا گیا تھا کہ فاضل سفراضروری مشورے کیلئے پیرس طلب کئے گئے ہیں لیکن 17 ستمبر کو فرانسیسی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ مستقبل قریب میں ان سفیروں کی واپسی کا کوئی امکان نہیں۔

اس سفارتی جنگ کا آغاز 16 ستمبر کو امریکہ، آسٹریلیا اور برطانیہ کے مابین سہہ فریقی اتحاد آکس (AUKUS)کے اعلان سے ہوا۔ آگے بڑھنے  سے پہلے یہ وضاحت ضروری ہے کہ اس اتحاد کا تلفظ آکُس ہے لیکن یہ تینوں ممالک جس انداز میں دنیا کو ہانکنا چاہتے ہیں اس مناسبت سے ازراہ تفنن ہم نے اپنے سرنامہِ کلام میں اسے آنکُس لکھدیا ہے جو اپنے ہاتھیوں کو قابو میں رکھنے کیلئے فیل بان استعمال کرتے ہیں۔

اتحاد کا اعلان کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا تھا کہ یہ کسی ایک ملک سے متعلق نہیں۔  مزید وضاحت کرتے ہوئے قصرِ مرمریں کی ترجمان محترمہ  جین ساکی نے فرمایا کہ یہ شراکت داری امریکہ کے دفاعی مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے ہے جس میں ہند و  بحرالکاہل (Indo-Pacific) علاقے میں امن اور استحکام کے فروغ کے لیے بین الاقوامی اصولوں کو ملحوظِ خاطر رکھا گیا ہے۔آسٹریلیاکے دارالحکومت کینبرا کے عسکری حلقوں نے اسکی جو تفصیلات بیان کی ہیں  ان کے مطابق معاہدے کے تحت تینوں ممالک مصنوعی ذہانت (AI)، سائبر ٹیکنالوجی، دنیائے طبعیات کی کوانٹم ٹیکنالوجی اور زیر آب نظام سمیت مختلف حساس شعبوں میں معلومات اور مہارت کے تبادلے کو محفوظ اور  آسان بنائینگے۔

جہت اور گنجائش مختلف سہی لیکن ہئیت و ہدف کے اعتبار سے آکُس، معاہدہِ اربعہ یا QUADاتحاد کی شرطیہ نئی کاپی ہے۔ آسٹریلیا، ہندوستان، جاپان اور امریکہ پر مشتمل معاہدہ اربعہ کا بنیادی ہدف بحر جنوبی چین سے بحر ہند کی طرف آنے والے بحری ٹریفک پر نظر رکھنا ہے۔ امریکیوں کا کہنا ہے کہ بحرجنوبی چین کو جہاز رانی کیلئے کھلا رکھنا اور بحرالکاہل سے بحرہند تک آبی شاہراہ کو پابندیوں، رکاوٹوں اور خطرات سے پاک رکھنا کواڈ اتحادیوں کی ترجیح ہے۔اس بنا پر سیاسی و عسکری تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ آکس معاہدے کا بنیادی مقصد عسکری میدان  خاص طور سے بحری اور  زیر آب ٹیکنالوجی کے شعبوں میں چین کی بڑھتی ہوئی قوت کو لگام دینا ہے ۔

چین کو خطرے کا احساس ہوگیا ہے اور وزارتِ خارجہ کے ترجمان ژاو لیجان (Zhao Lijian) نے بیجنگ میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ تینوں ملک یعنی  آسٹریلیا، برطانیہ اور امریکہ انتہائی غیر ذمہ دارانہ رویے کے مرتکب ہو رہے ہیں۔انکا کہنا تھا کہ چین کے دشمنوں کو   سرد جنگ کی ذہنیت ترک کرکے بات چیت کا راستہ اختیار کرنا چاہئے۔

دلچسپ بات کہ معاہدے کو آخری شکل دینے کیلئے 18 ماہ تک مشاورت تجویز کی گئی ہے، یعنی 16 ستمبر کو ہونے والا اعلان ایک اصولی اتفاق ہے لیکن بیک جنبش قلم صدر بائیڈن  نے آسٹریلیاکو 8 جوہری آبدوزیں فروخت کا اعلان کردیا۔یہ آبدوزیں جوہری ہتھیاروں سے لیس نہیں، بس انکے انجن جوہری ایندھن استعمال کرتے ہیں جسکی وجہ سے یہ زیادہ گہرائی تک جاکر  لمبے عرصے وہاں رہ سکتی ہیں۔ڈیزل سے چلنے والی آبدوزوں کو ایندھن لینے کیلئے ہر کچھ عرصے بعد سطح سمندر پر نمودار ہونا پڑتا ہے اور ایک خاص گہرائی سے نیچے جانا ممکن مہیں۔ تادم تحریر دنیا کے پانچ بڑوں کے  علاوہ صرف ہندوستان کے پاس ایک جوہری آبدوز ہے اور اس لحاظ سے اب آسٹریلیا جوہری آبدوزوں کا حامل ساتواں ملک ہوجائیگا۔اسوقت امریکہ 68 جوہری آبدوزوں کیساتھ پہلے نمبر پر ہے جبکہ ہندوستان کا چھٹا نمبر ہے کہ ہندناو سینا کے پاس صرف ایک جوہری آبدوز ہے۔  چچا سام کی اسی پیشکش پر فرانس سخت مشتعل ہے۔

اس اشتعال کا پس منظر کچھ اسطرح ہے کہ 2016 میں آسٹریلوی بحریہ نے آبی ہتھیار بنانے والے مشہور فرانسیسی ادارے DCNS سے 12 جدید ترین آبدوز خریدنے کامعاہدہ کیا جسکی مجموعی مالیت 38ارب ڈالر کے قریب ہے۔ چار سال قبل ایک اور ادارے سے ادغام کے بعد  DCNS کا نام نیول گروپ (NAVAL Group)رکھدیا گیا ہے۔ امریکہ سے جوہری آبدوز کی پیشکش پر آسٹریلیا نے نیول گروپ سے معاہدہ منسوخ کردیا۔ آسٹریلوی وزیراعظم اسکاٹ موریسن کا کہنا ہے کہ انکے ملک نے 2016 میں جب یہ معاہدہ کیا اسوقت کسی اور ملک نے جوہری آبدوز فروخت کرنے کی پیشکش نہیں کی تھی لیکن اب جبکہ ہمارے امریکی دوست جوہری آبدوز فروخت کرنے کو تیار ہیں تو ہم کیوں نہ اس موقع سے فائدہ اٹھائیں؟ وزیرِ اعظم موریسن نے کہا کہ وہ فرانس کی مایوسی کو سمجھتے ہیں، لیکن انھیں ہماری سلامتی کو لاحق خطرات کا ادراک ہونا چاہئے۔

آسٹریلوی وزیردفاع پیٹر ڈٹن کا کہنا ہے کہ موثر دفاع کیلئے انکی آبدوزوں کو زیادہ سے زیادہ گہرائی تک اترنے کے علاوہ دیر تک اور دور تک گشت کرنے کی ضرورت ہے جو روائتی ایندھن سے چلنے والی آبدوزوں کیلئے ممکن نہیں۔ اسی وجہ سے ہم نے امریکی پیشکش کو قبول کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ صدر بائیڈن کا موقف ہے کہ آسٹریلیا کو آبدوزوں کی فراہمی کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ہمارا ہر اتحادی خود کو لاحق  خطرات کے خلاف اپنے دفاع کے قابل ہو۔

فرانس، آسٹریلیا کی اس وضاحت سے مطمٗن نہیں۔فرانسیسی وزیرِ دفاع نے سودے کی منسوخی کو فرانسیسی ملت کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف قراردیاہے۔ انھوں نے کہا کہ آسٹریلیا سے ہماری دوستی کی بنیاد اعتماد و بھروسے پر تھی لیکن اب یہ اعتماد ختم ہوگیا ہے۔ انھوں نےصدر جو بائیڈن پر بھی شدید تنقید کی اور کہا کہ  'اس سنگ دلانہ، یکطرفہ اور غیر متوقع فیصلے سے  صدرٹرمپ کی یاد تازہ ہوگئی ہے جو مخلص اتحادیوں سے ایسا ہی سلوک کرتے تھے'

اپنی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے فرانسیسی حکومت نے جمعرات کو واشنگٹن میں منعقدہ اس تقریب کو بھی احتجاجاً منسوخ کر دیا جسے وہ امریکہ کے ساتھ مل کر منعقد کر رہی تھی۔ستمبر 1781امریکی ریاست ورجینیا اور ڈیلوئر (Delaware) کےدرمیان حائل خلیج چیساپیک (Chesapeake Bay)پر قبضے کیلئے فرانس اور برطانوی بحریہ کے درمیان خونریز جنگ ہوئی تھی جس میں برطانوی بحریہ کی شرمناک شکست نے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی  آزادی کی راہ ہموار کی۔ خلیج چیساپیک کے ساحل پر یہ دن ہر سال بہت تزک و احتشام سے منایا جاتا ہے۔

امریکہ کو فرانس کی جانب سے اس شدید ردعمل کی توقع نہ تھی۔ فرانس کو اعتماد میں لئے بغیر اس فیصلے پر بائیڈن انتظامیہ کو ملک کے اندر بھی تنقید کا سامنا ہے اور اب تعلقات میں پڑی سلوٹ کو ہموار کرنے کیلئے پیرس کی جانب ہرکارے دوڑائے جارہے ہیں۔ قصر مرمریں کی ترجمان نے کہا کہ فرانس امریکہ کا اہم اور مخلص اتحادی ہے۔ عالمی برادری کو درپیش مسائل کے حل میں واشنگٹن، فرانس کے ساتھ اپنی شراکت داری کو اہمیت دیتاہے اور پیرس کی یہ اہمیت کبھی ختم نہیں ہوسکتی ۔ محترمہ ساکی کہنا تھا کہ فرانس سے ہمارے تعلقات دہائی نہیں صدیوں پر محیط ہیں اور اسے کسی قیمت پر ٹھیس نہیں لگنے دی جائیگی۔ایک سوال کے جواب میں ترجمان بولیں کہ آسٹریلیا کو جوہری ٹیکنالوجی کی ضرورت کیوں پیش آئی یہ بات کینبرا سے پوچھیں۔

جوہری آبدوزوں  کے معاملے پر امریکہ، آسٹریلیا اور فرانس کے مابین کشیدگی خالص تجارتی معاملہ ہے۔ فرانسیسی حکام نے اسے اپنی پشت میں چھرا قراردیاہے، ہمارے خیال میں اسے پیٹ پر لات کہنا زیادہ مناسب ہے کہ آجکل جبکہ کرونا کی وجہ سے ساری دنیا کی طرح فرانس کی معیشت بھی دباو میں ہے 38 ارب ڈالر کا سودا منسوخ ہوجانا کوئی معمولی بات نہیں۔

لیکن جوہری پھیلاو کے تناظر میں مہذب دنیاکو اس معاملے پر سخت تشویش ہے۔ امریکیوں کا کہنا ہے کہ یہ آبدوزیں جوہری ہتھیار سے لیس نہیں۔ صرف انکے انجن ایٹمی ایندھن استعمال کرتے ہیں جو ماحولیاتی کثافت کے معاملے میں ڈیزل اورپیٹرول سے کہیں بہتر ہیں۔ برطانیہ اورآسٹریلیا کے رہنماوں سے باتیں کرتے ہوئے انھوں اپنا یہ عزم دہرایا کہ وہ جوہری عدم پھیلاؤ سے متعلق اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے رہیں گے۔ٓآسٹریلیا کے وزیرِ اعظم اسکاٹ موریسن نے بھی کہا ہے کہ اُن کا ملک جوہری ہتھیاروں کا خواہش مند نہیں اور نہ ہی غیر فوجی جوہری استعداد چاہتا ہے۔ لیکن معاہدے کے تحت جوہری آبدوزیں آسٹریلیا کے شہر ایڈیلیڈ میں تیار کی جائینگی۔ یعنی یہ محض جوہری آبدوزوں کا سودا نہیں بلکہ امریکہ اور برطانیہ آسٹریلیا کو جوہری ٹیکنالوجی اور معاونت فراہم کرینگے بلکہ یوں کہئے کہ یہNuclear Technology Transferکا معاہدہ ہے۔

وزیراعظم موریسن کی یقین دہانی اور صدر بائیڈن کے بودے موقف کو کوئی بھی سائینسدان قبول نہیں کریگا۔ یہ سیدھا سادہا یٹمی پھیلاو کا معاملہ ہے۔ ماضی میں جوہری آبدوزیں حادثات کا شکار ہوچکی ہیں جن میں سب اہم واقعہ  ایک سال قبل روس اور ناروے کے درمیان واقع بحر بیرینٹس (Barents Sea)میں روسی آبدوز کرسکKURSK کی تباہی کا ہے۔  بارہ اگست 2000کو ایک بحری مشق کے دوران  ہائیڈروجن پر آکسائیڈ (Hydrogen Peroxide)کے حادثاتی اخراج سے ایک تارپیڈو پھٹ پڑا اور آن کی آن میں یہ جدید ترین آبدوز تباہ ہوگئی۔ اسکے نتیجے میں جوہری ایندھن کے تابکاری ذرات زیر آب پھیل گئے جسکی وجہ سےامدادی سرگرمیاں بروقت شروع نہ ہوسکیں اور عملے کے تمام کے تمام 118 افراد ہلاک ہوگئے۔ تباہ شدہ آبدوز کی باقیات بھی تلاش نہیں کی گئیں اور ماہرین کا خیال ہے کہ سمندر کے اس حصے میں تابکاری اثرات اب بھی موجود ہیں۔

جوہری پھیلاؤ روکنے کے نام پر عراقی تنصبات کو جب اسرائیل نے نشانہ بنایا تو ساری مغربی دنیا نے اسکی حمائت کی حالانکہ یہ ایک صریح جارحیت تھی۔لیبیا کو جوہری توانائی کے استعمال سے روکنے کیلئے اتنی سخت پابندیاں عائد کی گئیں کہ کرنل قذافی نے نہ صرف جوہری پروگرام سے توبہ کرلی بلکہ کفارہ ادا کرتے ہوئے تمام تنصیبات تحلیل کرکے مشینیں لیبیا کے خرچ پرامریکہ بھیج دیں۔ آجکل شمالی کوریا اور ایران کیخلاف جو پابندیاں عائد کی گئی ہیں وہ نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم کے ہم پلہ ہیں۔ اسی بنا پر پاکستان نے ایک عرصے تک پابندیوں کا عذاب جھیلا  اور اب بھی  “اسلامی ایٹم بم” کے  شگوفے  وقتاً فوقتاً پھوٹتےرہتے ہیں۔

لیکن  جب معاملہ اپنوں کا ہو تو چچا سام معیار تبدیل کرنے میں ذرا دیر نہیں لگاتے۔ آسٹریلیا کو جوہری آبدوزوں کی فراہمی ایٹمی پھیلاو کے عالمی قوانین کی سخت خلاف ورزی ہےلیکن کس میں ہمت ہے کہ وہ اس معاہدے پر اعتراض کرے۔ عالمی جوہری توانائی کمیشن IAEAبھی جوہری عدم پھیلاؤ معاہدے کی اس سنگین خلاف ورزی پر خاموش ہے۔

جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیاآسٹریلیا پر اس مہربانی کا سبب چین ہے جس کے گھیراو اور بحر جنوبی چین پر نظر رکھنےکیلیے امریکہ، جاپان، ہندوستان اور آسٹریلیا پر مشتمل معاہدہ اربعہ یا QUAD اتحاد  تشکیل دیا گیا ہے۔بحر جنوبی چین سے بحر ہند میں داخلہ آبنائے ملا کا سے ہوتا ہے۔ ساڑھے آٹھ سو میل لمبی یہ آبنائے جزیرہ نمائے ملائیشیا اور انڈونیشی جزیرے سماترا کے درمیان سے گزرتی ہے۔آبنائے ملا کا کے شمال مشرقی حصے کی نگرانی آسٹریلوی بحریہ کو سونپی گئی ہے جبکہ بحر ہند میں کھلنے والے دہانے پر ہند ناو سینا  تعینات ہے۔بحر جنوبی چین میں گشت کرتے آسٹریلیا کے جہازوں کو چونکہ براہ راست چینی بحریہ کا سامنا ہے اسلئے  وہاں  جوہری آبدوزیں بھیجی جارہی ہیں۔

اگر امریکہ کی اس دلیل کو درست مانتے ہوئے کہ جوہری آبدوزوں کی فروخت کا ایٹمی پھیلاو سے کوئی تعلق نہیں، چین، بحرِ جاپان کی نگرانی کیلیے شمالی کوریا کو ایٹمی آبدوز دیدے تو واشنگٹن کا رد عمل کیاہوگا؟ امریکہ کے اس فیصلے پر صرف چین ہی معترض نہیں۔آسٹریلیا کے پڑوسی نیوزی لینڈ کو بھی اس پر تشویش ہے اور کیوی وزیراعظم محترمہ جسندا آرڈرن نے اعلان کیا ہے کہ آسٹریلیا کی جوہری آبدوزوں کو نیوزی لینڈ کے پانیوں سے گزرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 24 ستمبر 2021

ہفت روزہ دعوت دہلی 24 ستمبر 2021

روزنامہ امت کراچی 24ستمبر 2021

ہفت روزہ رہبر سرینگر 26 ستمبر 2021

روزنامہ قومی صحافت لکھنو


No comments:

Post a Comment