Thursday, September 2, 2021

نیا جال لائے پُرانے شکاری

نیا جال لائے پُرانے شکاری

بیالیس سال سے جاری خود کش دھماکوں اور فضائی حملے سے افغانوں کو جو نجات ملی تھی اسکا دورانیہ 11 دن بھی نہ رہ سکا اور حسین خواب کے نقطہ عروج پر 26 اگست کو بد نصیب افغانوں کی آنکھ کابل ایر پورٹ کے قریب خوفناک خود کش دھماکے اور فائرنگ  سےکھل گئی۔افغانستان 1979 سے  بمباری، اندھا دھند فائرنگ اور ڈرون کے ڈراونے حملوں کا نشانہ بنا ہواہے۔ گزشتہ جمعرات کو ہونے والے دھماکے کی ذمہ داری دولت اسلامیہ عراق والشام یا داعش نے قبول کی ہے۔ انگریزی میں اسکا مخفف ISISہے۔القاعدہ کی طرح داعش کی ولادت اور پرورش کے بارے میں بھی  سوالیہ نشانات ہیں۔

اس حوالے سے امریکہ کے ایک سیاسی و عسکری مبصر اور امریکی فوج کے سابق افسر کینتھ او کیف  Kenneth O’Keefeنے ستمبر2014 میں انکشاف کیا  تھا کہ 'داعش کی پنیری سی آئی اے کی نرسری میں اُگائی گئی ہے'۔ روسی ٹیلیویژن پر اپنے  سنسنی خیز انٹرویو میں کین اوکیف نے کہا کہ داعش امریکی سی آئی اے نے تشکیل دی ہے۔ جناب اوکیف کا کہنا تھاکہ اس دہشت گرد تنظیم کوشامی صدر بشارالاسد کے خلاف کھڑا کیا گیا تھا۔ امریکہ کا خیال تھا کہ شامی فوج جدید اسلحے سے لیس اور انتہائی تربیت یافتہ ہے جسے ایران اور روس کی بھرپور حمائت حاصل ہے جبکہ لبنانی حز ب اللہ بھی اسکی پشت پر ہے اور اس منظم فوج کا مقابلہ عوامی مظاہروں اور محدود چھاپہ مار کاروائیوں سے ممکن نہیں۔ کین اوکیف نے الزام لگایا کہ خلیجی ممالک نے اسلحے کی خریداری اور بھرتی کیلئے داعش کو وسائل فراہم کئے تھے۔ داعش کے سپاہیوں کو اردن کے فوجی اڈوں پر بھاری اسلحے یعنی بکتر بند گاڑیوں، توپخانوں اور ٹینکوں کے استعمال کی تربیت دی گئی کہ یہ جنگجو چھاپہ مار جنگ کے ماہر ہیں اور بھاری ہتھیاروں کے استعمال کا انھیں کوئی تجربہ نہیں۔ کین اوکیف کا کہنا ہے کہ ابلاغ عامہ کے نمائندوں سے گفتگو، حساس و ہیجان انگیز تصویر کشی، انٹرنیٹ و یو ٹیوب اور سوشل میڈیا پر تشہیر کیلئے بھی داعش کے کارکنوں کو خصوصی تربیت دی گئی ہے۔

کین اوکیف کے علاوہ ایک اور امریکی صحافی ایرن کلائن نے انکشاف کیاتھا کہ داعش کے منتخب جنگجووں کو ایلپاسو El Pasoکے امریکی فوجی اڈے پر ٹینک چلانے اور ہیلی کاپٹر اڑانے کی مشق کرائی گئی۔ایلپاسو امریکی ریاست ٹیکساس میں واقع ہے جو اپنے گرم موسم اور ریت کے طوفانوں کی بنا پر عراق سے مماثلت رکھتا ہے۔

کسی غیر جابندار ذریعہ سے مسٹر اوکیف یا ایرن کلائن کے ان خدشات و انکشافات کی تصدیق یا تردید نہ ہوسکی لیکن داعش کے اچانک ظہور ، عراق و شام میں انکی برق رفتار پیشقدمی اور پھر تھوڑے ہی عرصے بعد اس علاقے سے انکا قلع قمع نادیدہ سرپرستی کا پتہ دیتی ہے۔ ٹینک، بکتر بند گاڑیاں، تاریکی میں استعمال ہونے والی عینک، گن شپ ہیلی کاپٹر اور دوسرے قیمتی اسلحے کیلئے خطیر رقم کی فراہمی ایک سوالیہ نشان ہے۔ ایک وقت میں ISIS  کے مالی وسائل کا تخمینہ دوارب ڈالر سے زیادہ تھا۔ آخر داعش کو یہ وسائل کس نے فراہم کئے؟؟ کینتھ اوکیف کا کہنا ہے کہ امریکہ نے داعش کی تشکیل و تربیت اور اسلحے کی فروخت کی مد میں اربوں ڈالر کمائے اور اب اسکے خاتمے کی مہم واشنگٹن اور اسکے حواریوں کیلئے اضافی آمدنی کا سبب بنے گی۔

داعش کے ظہور کے بارے میں مسٹر اوکیف نے بالی ووڈ اورہالی ووڈ کے حوالے سے امریکہ کے عسکری فلسفے پر بڑے لطیف انداز میں گفتگو کی تھی۔ کینتھ کا کہناتھا کہ بالی ووڈ اور ہالی ووڈ دنیا میں فلمسازی کے دو بڑے مراکز ہیں۔ امریکی تہذیب کی جارحانہ پیشقدمی کے اثرات بالی ووڈ کی فلموں پر  مغربی  دھنوں اور ہالی ووڈ اسٹائل رقص کی صورت میں نظر آتےہیں لیکن ان دونوں مراکز پر تخلیق کی جانیوالی کہانیوں میں اب بھی بڑا واضح  فرق ہے۔ ہندوستانی فلم ڈھائی سے ساڑھے تین گھنٹے میں مہرو محبت کے کلمات، مارکٹائی، گیت و رقص، ظالم سماج کا ماتم ، بزرگوں کی نصیحت، رقیب کی بڑھکوں اور مزاحیہ کلمات کے تڑکوں کے بعد وصال کے حسین لمحات یا ابدی فراق کے ہیبتناک مناظر کے ساتھ ختم ہو جاتی ہے۔ اسکے برعکس ہالی ووڈ کی فلموں میں کہانی کے اختتام پر تشنگی کا عنصر شامل کردیا جاتا ہے جسکی بناپر اسی کہانی پر فلم کے بہت سے اضافی  ایڈیشن جاری کرنے کی گنجائش باقی رہتی ہے مثلاً EXORCIST کے بعد EXORCIST 1,2,3جاری کی گئی۔ سلوراسٹالون کی مشہور زمانہ راکی کے پانچ ایڈیشن کے بعد ریمبو 1,2,3,4کا سلسلہ شروع ہوااور ریمبو کے اختتام پر راکی ریمبو کے امتزاج نے ایک نئی سیریز کو جنم دیا۔ مسٹر اوکیف کا کہنا ہے کہ واشنگٹن اپنی عسکری پالیسی بھی اسی انداز میں تشکیل دیتا ہے یعنی فوجی مہم کو منطقی انجام تک پہنچانے سے پہلے ایک نیا ہدف تراش کر کشور کشائی  کا سلسلہ جاری رکھاجاتا ہے۔ چنانچہ داعش دراصل القاعدہ کا تسلسل ہے۔

چارسال پہلے امریکہ کے سرکاری ریڈیو VOA پر اپنے ایک انٹرویو میں سابق افغان صدر حامد کرزئی نے داعش کو امریکہ کا آلہ کار قرار دیا تھا۔اپریل 2013میں جب امریکہ نے داعش کیخلاف انسانی تاریخ کا سب سے بڑا غیر جوہری بم یعنی 43GBU- المعروف بموں کی ماں یا MOAB استعمال کیااسوقت افغانستان کے سیاسی حلقوں میں سخت بے چینی پھیلی تھی۔موایب سے ہونے والے دھماکے کی شدت  11 ٹن TNT کے مساوی ہے جبکہ ہیروشیماپر گرائے جانیوالے ایٹم بم کی تاثیر 15 ٹن TNTکے برابر تھی۔ بمباری کی تفصیل بیان کرتے ہوئے پینٹاگون ( امریکی وزارت دفاع )کے ترجمان نے کہا تھا کہ اس خوفناک بم کا ہدف آچی کاگاوں مہمند درہ تھا جہاں مبینہ طور پر داعش نے زیرزمین سرنگوں کا ایک مربوط سلسلہ تعمیر کر رکھا تھا۔اس زیرزمین قلعے کو خراسان کمپلیکس کہا جاتا تھا۔ امریکہ میں افغانستان کے سفیر حمداللہ محب نے اسوقت دعویٰ کیا تھاکہ اس حملے سے ایک بھی شہری متاثر نہیں ہوا اور 'بموں کی ماں' نے خراسان کمپلیکس کو  ریت کے تودے میں تبدیل کردیا ہے۔ یہاں تعینات سارے کے سارے داعش چھاپہ مار اپنے کمانداروں  سمیت زندہ دفن ہوگئے۔

لیکن جب گرد بیٹھی تو پتہ چلا کہ داعش کا بال بیکا تک نہ ہوا اور بموں کی ماں نے معصوم شہریوں کو جلا کر خاک کردیا۔اسی پس منظر میں  VOAنے حامد کرزئی سے جب گفتگو کی تو سابق افغان صدر پھٹ پڑے اور انھوں نے صاف صاف کہا کہ  داعش اورامریکی فوج میں کوئی فرق نہیں۔سابق امریکی صٖدر تو یہاں تک کہہ گئے کہ امریکہ کے فوجی ہیلی کاپٹروں پر داعش کو اسلحہ فراہم کیا جارہا ہے۔

کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد سے امریکی سیاستدان داعش کا راگ الاپ رہے ہیں۔ عسکری تجزیہ نگار اور دوسرے ماہرین دعوٰی کررہے ہیں کہ امریکی فوج کی واپسی اور افغان فوج کی تحلیل سے پیدا ہونے والے خلا کو داعش تیزی سے پُرکررہی ہے اور ایک نیا نائن الیون بس مہینوں کی بات ہے۔اسی مصرعہ طرح پر غزلخوانی کرتے ہوئے پاکستان کے مشیر سلامتی ڈاکٹر معید یوسف نے  فرمایا کہ اگر افغانستان کو تنہا چھوڑ دیا گیا تو ایک اور نائن الیون جنم لے سکتا ہے۔یہ اور بات کہ 20 سال گزرجانے کے بعد اس سانحے کے حقیقی ذمہ داروں کے بارے میں خود امریکی ماہرین بھی یکسو نہیں۔ 

کابل ائرپورٹ پر حملے سے دودن پہلے امریکی صدر بائیڈن نے کہا تھا کہ خفیہ اداروں کی اطلاعات کے مطابق دہشت گرد کسی بھی وقت حملہ کرنے والے ہیں اور آخر کار یہ حملہ ہوگیا جس میں 13 امریکی سپاہیوں سمیت 100 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے جسکے جواب میں  امریکی ڈرون نے ننگر ہار صوبے میں تقریباً اسی جگہ داعش کے مبینہ دہشت گردوں پر حملہ کیا جہاں 4 سال پہلے بموں کی ماں نے قیامت  ڈھائی تھی۔

اس حملے کے دودن بعد 29 اگست کو امریکی ڈرون نے شمالی کابل کے گنجان علاقے میں ایک کارکو نشانہ بنایا۔ امریکیوں کا دعویٰ ہے کہ آتشگیر مواد سے بھری اس کار کاہدف کابل ایرپورٹ کے باہر انخلا کے انتظار میں  کھڑے  ہزاروں شہری تھے۔اس حملے سے چند گھنٹہ پہلے کابل کے امریکی سفارتخانے نے اپنے شہریوں سے کہا تھا کہ وہ ایرپورٹ کے قرب وجوار سے ہٹ جائیں۔ابتدائی تحقیقات کے مطابق اس حملے میں  شیر خوار سمیت ایک ہی خاندان کے 9 افراد مارے گئے۔داعش کا کیا نقصان ہوا اسکے بارے میں خود چچاسام  کو بھی کچھ خبر نہیں۔امریکی مرکزی کمان (سینٹرل کمانڈ) کے ترجمان نے خالی اتنا کہا کہ اس پیش بندی کے نتیجے میں دہشت گردی کی ایک بڑی کاروائی ناکام بنادی گئی۔

انخلا کے دن قریب آتے ہی داعش کے حملوں اور امریکہ کی جوابی کاروائیوں سے ایک طرف افغانوں میں خاصی بیچینی ہے تو  دوسری طرف واشنگٹن کے ذرایع ابلاغ افغانستان سے فوج کی واپسی کو امریکہ کی شکست قرار دے رہے ہیں جسکی وجہ سے صدر بائیڈن شدید دباو میں ہیں۔امریکی ماہرین کو اس بات پر سخت تشویش ہے کہ افغان فوجوں نے اسلحے کے ذخائر طالبان کے حوالے کردئے ہیں جن میں ہزاروں بکتر بند گاڑیاں، مہلک مشین گنیں، جنگی جہاز اور جدید ترین ہیلی کاپٹر شامل ہیں۔ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے تاریکی میں دیکھنے والی خصوصی عینکوں کے علاوہ جاسوسی کے حساس ترین آلات کی ایک بہت بڑی کھیپ بھی ملاوں کے ہاتھ لگی ہے۔

امریکی ماہرین کا خیال ہے کہ  طالبان  ہیلی کاپٹر سمیت جدید اسلحہ استعمال کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے لیکن بقول صدر ٹرمپ یہ'تیزملا' جلد ہی تربیت حاصل کرلینگے۔ بعض امریکی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ  روس اور چین کو  'مال، غنیمت' کے اس ڈھیر سے دلچسپی ہے اور وہ افغانوں کو تربیت کی آڑ میں جدید ترین امریکی اسلحے تک رسائی حاصل کر لینگے جس سے اسلحہ سازی کے باب میں امریکہ کی کلیدی پیش رفت دشمن کے سامنے  بے نقاب ہوسکتی ہے۔ کئی سابق جرنیل چھینے گئے امریکی اسلحے کو بمباری کے ذریعے تباہ کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ ان ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ کام جلداز جلد ہوجانا چاہئے کہ طالبان نے قیمتی اسلحے کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنا شروع کردیا ہے۔

طالب رہنما خطرہ ظاہر کررہے ہیں کہ داعش کی سرکوبی کے نام پر امریکہ فضائی حملوں کا سلسلہ جاری رکھے گا جسکی وجہ سے افغانستان کے طول و عرض میں بےچینی و بے یقینی پھیلی رہیگی اور اقتصادیات کی تعمیر نو کا کام شروع نہیں  ہوپائیگا جو نئی حکومت کی کامیابی کیلئے ضروری ہے۔طالبان نے بہت زور دیکر کہا ہے کہ 31 اگست کو انخلا کی تکمیل کے بعد افغان سرزمین پر داعش یاامریکہ کسی بھی قوت کی کاروائی سنگین جارحیت تصور ہوگی جسکی ذمہ داروں کو بھاری قیمت ادا کرنی ہوگی۔

دوسری طرف واشنگٹن کی تیاریوں سے صاف ظاہر  ہے کہ امریکہ افغانستان پر فضا ئی حملے جاری رکھے گا جسکے لئے پینٹاگون ماورائے افق over the horizonمہم کی اصطلاح استعمال کررہا ہے۔ جب کابل ایرپورٹ خالی کرنےکے بعد امریکہ کے پاس افغانستان میں کوئی بھی فوجی یا ہوائی اڈا نہیں رہیگا تو ماورائے افق حملے کیسے ہونگے؟ افغانستان خشکی سے گھرا ملک ہے اور اسکی فضائی حدود میں داخلہ پاکستان، ایران، ترکمنستان، ازبکستان اور تاجکستان سے ہی ممکن ہے۔ کیا یہ ممالک امریکی بمباروں اور ڈرون کو اپنی فضائی حدود سے گزرکر افغانستان جانے کی اجازت دینگے؟؟ اعلان کی حد تک تو یہ تمام ممالک غیر مبہم انداز میں کہہ چکے ہیں کہ وہ اپنی سرزمین افغانستان پر حملے کیلئے استعمال نہیں ہونے دینگے لیکن گزشتہ دو حملوں کیلئے ڈرون طیارے کسی نہ کسی ملک کی سرحد عبور کرکے افغانستان میں داخل ہوئے ہیں۔

اسی کیساتھ افغانستان میں مداخلت اورغیر ملکی موجودگی کو قانونی تحفظ دینے کیلئے اقوام متحدہ کی سطح پر کوششوں کا آغاز ہوچکاہے۔رائٹرز کے مطابق فرانس کے صدر ایمیونیل میخواں نے کہا ہے کہ انکا ملک برطانیہ کے تعاون سے اقوام متحدہ میں ایک قرارداد پیش کریگا جسکے تحت کابل میں اقوام متحدہ کی زیرنگرانی ایک محفوظ یا سیف زون Safe Zoneقائم کیا جائیگا۔

سیف زون کے نام سے اس “سیاسی جزیرے” کے قیام کا مقصد افغانستان چھوڑنے کے خواہشمند لوگوں کیلئے ملک سے روانگی کو محفوظ اور یقینی بنانا ہوگا۔ سادہ الفاظ میں یہ کابل ائرپورٹ اور اس سے متصل بڑے علاقے پر قبضے کا منصوبہ ہے۔کابل ائر پورٹ سمیت پورا دارالحکومت افغانستان کا اٹوٹ انگ ہے جس پر قبضے کو افغان عوام کبھی برداشت نہیں کرینگے۔ ملاوں کو توقع ہے کہ چین اور روس اس قرارداد کوویٹو کرکے غیر موثر کردینگے۔

برطانیہ، فرانس، جرمنی اور امریکی دارالحکومتوں میں ہونے والی سرگرمیوں سے اندازہ ہوتا ہے مغرب افغانستان کا پیچھا چھوڑنے کو تیار نہیں، یا یوں کہئے کہ غیر ملکی قبضہ ختم ہوئے ابھی تین ہفتے بھی نہیں گزرے کہ کہ زرغونہ جان کے کشورِ حسین کو نئی زنجیر پہنانے کی کوششیں شروع ہوگئیں ہیں۔بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ابکی بار داعش کی گوشمالی کے نام پر افغانستان کو فضاسے نشانہ بنانے کے علاوہ اقتصادی پابندیوں کے ذریعے دنیا کے اس غریب ترین ملک کو فقروفاقہ میں مبتلا کرکے مخصو ص ایجنڈے پر چلنے کیلئے مجبور کیا جائیگا۔ اسی کیساتھ سفارتی تنہائی میں مبتلا کرکے عالمی اداروں تک کابل کی رسائی مسدود کردی جائیگی۔

طالبان کو ان مشکلات کا اچھی طرح اندازہ ہے جن سے نمٹنے کیلئے نئی افغان قیادت ملک میں سیاسی یکجہتی اور مفاہمت کے ایک نکاتی ایجنڈے پر لسانی اکائیوں اور سیاسی طبقات سے بات چیت میں مصروف ہے۔ غیر مشروط عام معافی سے ہیجان میں کمی آئی ہے۔گزشتہ ہفتے خانہ بدوش کوچی قبیلے کے سربراہ اور سابق صدر ڈاکٹر اشرف غنی کے بھائی حشمت غنی نے خود کو نئی انتظامیہ کے حوالے کردیا۔ انکا کہنا تھا میرا جینا مرنا افغانستان میں ہے۔ نہ میں روپوش رہونگا اور نہ ملک چھوڑونگا۔ جواب میں طالبان نے انکی سرداری تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ مشران (سردار اور معززین) کا احترام افغان اقدار کا حصہ ہے۔

گفتگو و مذاکرات کے نتیجے میں پنجشیر کا معاملہ بھی بات چیت کے ذریعے حل ہوتا نظر آرہا ہے۔ معاملہ صرف پنجشیر تک محدود نہیں، بلخ کے سابق گورنر استاد عطا محمد نور کے صاحبزادے خالد نور نے مُلّا مخالف شمالی اتحاد سے طالبان کے رابطے کی تصدیق کی ہے۔  ترکی کی کوششوں سے عبدالرشید دوستم اور طالبان کے درمیان ثالثی شروع ہوچکی ہے۔عبوری وزیر اطلاعات ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ دوستم ،  احمد مسعود اور سابق نائب صدر امراللہ صالح سمیت ہم تمام افغان رہنماوں کا احترام کرتے ہیں اور کسی کے خلاف انتقامی کارروائی کے بارے سوچا بھی نہیں جاسکتا

افغان سیاست پر نظر رکھنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ پابندیوں اور فضائی حملوں کا مقابلہ قومی اتفاق رائے اور مفاہمت ہی سے کیا جاسکتا ہے۔ دنیا کو افغان قوم کے آہنی عزم کا اندازہ ہوچکا ہے چنانچہ براہ راست حملے کے بجائے اندرونی خلفشار دشمن کی ترجیح ہے جسے بے لاگ و جرات مندانہ مکالمے سے ناکام بنایا جاسکتا ہے اور ملا اسی سمت میں کام کرتے نظر آرہے ہیں۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 3 ستمبر 2021

روزنامہ امت کراچی 3 ستمبر 2021

ہفت روزہ دعوت دہلی 3 ستمبر 2021

ہفت روزہ رہبرسرینگر 3 ستمبر



2021

 

No comments:

Post a Comment