افغانستان! امریکی انخلا کے بعد
منگل 30 اگست کو کابل کے ہوائی اڈے پر کھڑے امریکی فضائیہ کے پانچ مسافر بردار C-17طیاروں میں سے ہر ایک پر 105 امریکی فوجی بیٹھے تھے لیکن پانچویں جہاز پر 104 مسافر تھے۔ اس سے پہلے ایر پورٹ پر موجودسینکڑوں جنگی جہاز، بکتر بند گاڑیاں، ہیلی کاپٹر اور دوسرا قیمتی اسلحہ قابض فوج کے سپاہیوں نے خود اپنے ہاتھوں سے تباہ کردیاتھا۔ امریکی ٹیلی ویژن CBSپر یہ روداد سنکر ہمیں بے اختیار قرآن کے وہ الفاظ یاد آگئے کہ 'اللہ ایسے رخ سے ان پر آیا جدھر انکا خیال بھی نہ گیا تھا۔ اس نے انکے دلوں میں رعب ڈالدیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ خود اپنے ہاتھوں سے اپنے گھروں کو برباد کررہے ہیں اور مومنوں کے ہاتھوں بھی برباد کروارہے ہیں۔ پس عبرت حاصل کرو ائے دیدہ بینا رکھنے والو۔ سورہ الحشر آیت2
جہازوں پر بیٹھے فوجیوں کے علاوہ انکے کمانڈنگ افیسر میجر جنرل کرس ڈانیہو Chris Donahue ایک جہاز کے قریب اپنے ہاتھ میں نیم خودکار بندوق لئے کھڑے تھے۔ سارے ایر پورٹ کا کنٹرول طالبان سنبھال چکے تھے۔ دس دس منٹ کے وقفے سے چار جہازوں نے اڑان بھری اور اب صرف ایک جہاز وہاں کھڑا تھا جس پر ایک نشست خالی تھی۔ ریڈار سمیت ایر پورٹ کا سارا مواصلاتی نطام مفلوج کیاچکا تھا چنانچہ جنرل صاحب اپنے سیٹیلائٹ فون پر امریکی مرکزی کمان (سینٹرل کمانڈ) کے سربراہ جنرل کینیتھ میکنزی کے آخری حکم کا انتظار کررہے تھے۔ تھوڑی ہی دیر میں جنرل ڈانیہو کے فون پر انکے باس کا پیغام آیا “Flush the Force”یعنی انخلا مکمل کرلو۔ پیغام پڑھتے ہی جنرل ڈانیہو نے اپنے افسر کو rogerیعنی ٹھیک ہے کا پیغام بھیجا اور دوڑتے ہوئے جہاز پر سوار ہوگئے۔ جب آخری C-17کابل ایر پورٹ سے روانہ ہوا اسوقت مقامی وقت 11:59تھا، یعنی اگست کے آخری دن کےآغاز سے ایک منٹ پہلے امریکی فوج نے انخلا مکمل کرلیا۔
عین اسی وقت کابل سے ہزاروں میل دور امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں وزارت خارجہ (پینٹاگون) کی سماعت گاہ صحافیوں سے بھری ہوئی تھی۔ جیسے ہی آخری طیارہ فضامیں بلند ہوا، وزارت خارجہ کے ترجمان جان کربی نے گُڈآفٹرنون سے گفتگو کا آغاز کیا۔ انکا کہنا تھا کہ صدر بائیڈن نے قوم سے اپنا وعدہ پورا کردیا اور اگست کے اختتام سے پہلے ہی فوجی انخلا مکمل کرلیا گیا۔ اسی کے ساتھ نشریاتی رابطے پر جنرل میکنزی نمودار ہوائے اور انھوں نے امریکی فوج کی مکمل واپسی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اب افغان سرزمین پر امریکہ یا نیٹو کا ایک بھی سپاہی، تنصیبات یا اڈاباقی نہیں، انھو ں نے بہت فخر سے کہا کہ ایر پورٹ پر موجود امریکی فوج کا تمام سامان ناکارہ کردیا گیا ہے۔
اس موقع پر جنرل صاحب نے کہا کہ کوششوں اور قربانیوں کے باوجود ہم ہر اس شخص کو افغانستان سے نہیں نکال سکے جنھیں ہم اپنے ساتھ لانا چاہتے تھے۔ اسوقت افغانستان میں ڈھائی سو امریکی شہری موجود ہیں۔ جنرل میکنزی نے اعتراف کیا کہ انخلا کے دوران طالبان کا رویہ حقیقت پسندانہ((Pragmaticاوردیانتدارانہ (Businesslike) تھا۔ملاوں نے تحفظ فراہم کرنے ذمہ داری انتہائی اخلاص سے پوری کی۔
دوسرے دن صدر بائیڈن نے اپنےخطاب میں قوم کو اعتماد میں لیا۔امریکی صدر نے کہا کہ 'جنگِ افغانستان اب ختم ہوگئی۔ میں (بش، اوبامااور ٹرمپ کے بعد)چوتھا امریکی صدر ہوں جسے یہ فیصلہ کرنا تھا کہ اس جنگ کو کب اور کیسے ختم کیا جائے۔ انتخابی مہم کے دوران ہم نے قوم سے جنگِ افغانستان ختم کرنے کا وعدہ کیا تھااور آج میں نے اپنا انتخابی وعدہ پورا کردیا۔ افغانستان سےانخلا ہی بہتر تھا اور میں انخلا میں مزید توسیع نہ کرنے کی مکمل ذمہ داری قبول کرتا ہوں، چونکہ یہی امریکہ کے بہترین مفاد میں تھا'۔ جو بائیڈن نے کہا کہ افغانستان میں جنگ امریکہ کے مفاد میں نہیں تھی اوریہ لڑائی اسی وقت ختم ہو جانی چاہیے تھی جب مئی 2011ء میں اسامہ بن لادن کو کیفر کردار تک پہنچایا گیا اور القاعدہ کا قلع قمع ہوگیا۔ اپنے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے صدر بائیڈن نے کہا کہ، جب میں نے اقتدار سنبھالا ، طالبان 2001 کے بعد سے اپنی مضبوط ترین فوجی پوزیشن میں تھے، اور وہ تقریباً آدھے ملک کو کنٹرول کر رہے تھے۔ طالبان کی تیز رفتار پیش رفت معزول افغان حکومت کی نااہلی تھی جس کی وجہ سے امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادی جلد بازی میں وہاں سے نکلنے پر مجبور ہوگئے۔کسی کو یہ توقع نہیں تھی کہ تین لاکھ افغان فوج چشمِ زدن میں تحلیل ہو جائیگی اور صدر اشرف غنی اس طرح ملک چھوڑ کر فرار ہو سکتے ہیں۔ افغان صدر کے اس بزدلانہ روئے کی بنا پرامریکوں، امریکہ کے اتحادیوں اور ساتھ دینے والے افغان باشندوں کو مشکلات جھیلنا پڑیں۔ حالیہ انخلا مشن کے دوران ایک لاکھ بیس ہزار سے زائد افراد کو کابل سے نکالا گیا اور 17 دنوں تک یہ اعصاب شکن مہم جاری رہی۔ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کا انخلا کسی بھی اور ملک نے کبھی نہیں کیا۔ اب وہاں محض ایک سو سے دو سو امریکی شہری باقی رہ گئے ہیں۔ جن میں دوہری شہریت رکھنے والوں کی اکثریت ہے۔
جنگ افغانستان کے نقصانات کا احاطہ کرتے ہوئے امریکی صدر نے فرمایا کہ اس جنگ پر 20 کھرب ڈالر خرچ ہوئے اور 2400 سے زیاد امریکی فوجیوں نے جان کا نذرانہ پیش کیا۔ شکست کاتاثر مٹانے کیلئے انھوں نے ایک نئی مہم شروع کرنے کا اعلان کیا اور بولے کہ داعش خراسان جیسے دہشت گردوں کے ساتھ لڑائی ختم نہیں ہوئی، انھیں معاف کیا جائے گا اور نہ انکا جرم بھلایا جائے گا۔ ضرورت پڑنے پر دولت اسلامیہ خراسان کےخلاف فضائی حملے کیے جائیں گے
امریکی صدر نے جارحیت سے سبق سیکھنے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ آج کے بعد امریکہ دوسرے ممالک میں فوج بھیج کر وہاں قوم سازی نہیں کرے گا۔ افغانستان میں جس طرح ہم قوم سازی اور جمہوریت لانا چاہتے تھے، ایسا وہاں صدیوں میں نہیں ہوا۔ امریکہ آنے والے افغان پناہ گزینوں کی آبادکاری میں حائل پریشانیوں کے بارے میں صدر بائیڈن نےکہا کہ اب ہزاروں افغان تارکین وطن کی امریکہ میں از سر نو آبادکاری کا چینلج بھی درپیش ہے جہنیں عارضی طور پر مختلف فوجی اڈوں میں رکھا جا رہا ہے۔
اپنے خطاب کے اختتام پر امریکی صدر نے افغان پناہ گزینوں کا ذکر بظاہر سرسری سا کیا لیکن اب یہ مسئلہ امریکی و یورپی رہنماوں کیلئے دردِ سر بنتا جارہا ہے۔ امریکہ آنے والے افغانیوں کی اکثریت فوجی کیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہی ہے۔ وہ تو بھلا ہو اکنا ریلیف ICNA Reliefاور دوسری اسلامی رفاحی تنظیموں کا جو ان لوگوں کی بحالی کیلئے سرگرم ہوگئی ہیں ورنہ امریکی حکومت کیلئے ان لوگوں کی آبادکاری بہت مشکل لگ رہی ہے۔
زیادہ تر افغانی خواتین پردے کی پابند ہیں اور مسلمانوں کی موجودگی سے پریشان یورپیوں کیلئے مزید حجابیوں کی آمد سخت پریشانی کا باعث ہے۔'افغانی نہ کھپن' کا نعرہ یورپ میں مقبول ہورہا ہے اور رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق یورپیوں کی اکثریت افغان پناہ گزینوں کو اپنے یہاں بسانے کی حامی نہیں۔ فرانسیسی صدر نے تجویز دی ہے کہ ان افغانوں کو پاکستان اور ترکی میں آباد کیا جائے لیکن یہ دونوں ملک پہلے ہی سے دباو میں ہیں۔ پاکستان چالیس لاکھ سے زیادہ افغان پناہ گزنیوں کی میزبانی کررہاہے تو ترکی نے لاکھوں شامیوں کو مہمان بنایا ہوا ہے۔اس سلسلے میٓں برطانیہ، جرمنی اور ہالینڈ کے وزرائے خارجہ نے پاکستان کا دورہ بھی کیا۔ کسی ڈچ وزیرخارجہ کا یہ پندرہ سال کے دوران پہلا دورہ اسلام آبادتھا۔ یورپی رہنماوں کے دورے پاکستان کو منانے کیلئے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان مغرب کے ان سہولت کاروں کو اپنے یہاں آباد کرلے۔ یورپی یونین انکا خرچ دینے کو تیار ہے۔ لیکن معاملہ صرف گنجائش و خرچ کا نہیں بلکہ امریکہ جانے کے خواہشمند ان افغانوں کی اکثریت مبینہ طور پر سی آئی اے کی تنخواہ دار اور انکی تربیت یافتہ ہے، جسکی وجہ سے پاکستان اور ترکی کے خفیہ اداروں کو شدید تحفظات ہیں۔
پناہ گزینوں کی آبادکاری کیساتھ امریکہ اور مغرب طالبان سے رابطہ بحال کرنے کے خواہشمند ہیں لیکن “ان” کا نام لینے میں حیا مانع ہے اسلئے براہ راست بات چیت سے گریز کا گھونگھٹ لٹکا لیا گیا ہے۔امریکی وزیرخارجہ انٹونی بلینکن نے گزشتہ ہفتے کہا کہ وہ “نئی حقیقت” سے رابطے میں ہیں اور “ان” سے گفتگو کیلئے وہ جلد قطر جاینگے۔یورپی یونین بھی ملاوں سے رابطہ بحال کرنے کے جتن کررہا ہے اور وہاں بھی شرم و حیا رکاوٹ ہے۔ یونین کے ذمہ دار برائے امور خارجہ جناب جوزف بوریل نے وزرائے خارجہ کے اجلاس سے بعد صحافیوں سے غیر رسمی باتیں کرتے ہوئے کہا کہ طالبان کے بارے میں گہرے تحفظات کے باوجود “نئی حقیقت” کو نظر انداز کردینا مناسب نہ ہوگا اور “عبوری مقتدرہ” سے باالواسطہ رابطے کیلیے ایک علاقائی پلیٹ فارم تشکیل دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔علاقائی پلیٹ فارم کامصرعہ طرح جاری ہوتے ہی مقطع میں سخن گسترانہ بات یہ آن پڑی کہ مغرب اس پلیٹ فارم پر ہندوستان کی ریل گاڑی کو بھی ٹہرانا چاہتا ہے جسکے بارے میں ملاوں کو شدید تحفظات ہیں۔
طالبان سے رابطہ بحال کرنے کیلئے گزشتہ ہفتے جرمن وزیرخارجہ ہائیکو ماس نے قطر کا دورہ کیا۔ ملاقات کے بعد مشترکہ اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے قطر ی وزیرخارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمان الثانی نے کہا ہے کہ تباہی کا شکار افغان عوام اقوام عالم کی حمائت کے مستحق ہیں۔ انکا کہنا تھا کہافغانستان کو سفارتی تنہائی کا شکارکرکے دیوار سے لگانا مناسب نہیں اور اس طرزعمل سے افغان عوام کی مشکلات میں اضافے کے ساتھ علاقے کے غیر مستحکم ہونے کے امکانات بڑھ جائینگے۔انکے مہمان ہم منصب نے قطری رہنما کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ جرمنی اور یورپی یونین طالبان سے رابطے کیلئے تیار ہیں لیکن اس ضمن میں عملی اقدامات سے پہلے ملاوں کو کچھ شرائط پوری کرنی ہونگی۔زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے مغرب کیلئے طالبان سے کُٹّی ممکن نہیں تو کھلی مہروعنایت سے انانیت کا بت مجروح ہوتا ہے۔
ماضی میں شدید کشیدگی کے باوجود ہندوستان نے بھی ملاوں سے رابطے میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔ طالبان کی جانب شاخ زیتون لہراتے ہوئے اقوام متحدہ میں ہندوستان کے مستقل نمائندے شری ٹی ایس تیرومورتی نے طالبان رہنماوں کا نام دہشت گردوں کی فہرست سے خارج کرنےکی تجویز پیش کی ہے۔ تیرومورتی صاحب نے جب یہ ارشاد فرمایا اسوقت موصوف بربنائے عہدہ پندرہ رکنی سلامتی کونسل کے سربراہ تھے۔سلامتی کونسل کی صدارت باری باری ایک مہینے کیلئے مختلف ارکان کے پاس رہتی ہے اور 31 اگست تک اس منصب پر ہندوستان فائز تھا۔ تیرومورتی صاحب کا کہناتھا کہ دنیا کو زمینی حقائق تسلیم کرکے نئے افغان حکمرانوں سے مکالمہ شروع کردینا چاہئے۔ دلی کا خیال ہے کہ سفارتی تنہائی ملاوں کو مزید انتہا پسند بنادیگی۔ تیرومورتی صاحب کی کوششوں سے گزشتہ ہفتے منظور ہونے والے قرارداد میں فرانس اور برطانیہ کے ان نکات کو شامل نہیں کیا گیا جس میں اقوام متحدہ کی زیرنگرانی کابل فری زون قائم کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔گزشتہ بیس سالوں کے دوران ہندوستان نے افغانستان میں کروڑوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے لیکن طالبان اور دہلی میں شدید کشیدگی کی بناپر دونوں فریق سلام و نمستے کے روادار بھی نہیں۔تاہم علاقائی مفادات کے پیشِ نظر امریکہ کی خواہش ہے کہ ہندوستان اور طالبان کے درمیان رسمی سا ہی سہی لیکن سلسلہ کلام شروع ضرور ہونا چاہئے۔کہا جارہا ہے کہ ہندوستان نے مُلّاوں کو رام کرنے کی ذمہ داری اپنے سینئر سفارتکار سیداکبر الدین کو سونپی ہے۔ اکسٹھ سالہ اکبرالدین اقوام متحدہ میں ہندوستان کے مستقل نمائندے رہ چکے ہیں۔ اس سے پہلے وہ مصر اور سعودی عرب میں ہندوستان کی نمائندگی کرچکے ہیں۔ موصوف عربی بہت اچھی بولتے ہیں ۔ انکے والد پروفیسر بشیرالدین جامعہ عثمانیہ حیدرآباد میں شعبہ صحافت کے سربراہ تھے اور انھیں اردو اور ہندی کے علاوہ فارسی پر بھی عبور ہے۔اپنے والد اور والدہ محترمہ زیبا بشیر کی طرح جناب اکبر الدین بھی فارسی روانی سے بولتے ہیں۔صحافتی ذرایع کا کہنا ہے کہ اکبرالدین نے کچھ عرصہ قبل قطر میں طالب رہنماوں سے ملاقات کی تھی جس میں شکوے شکایات کے خاتمے اور تعلقات استوار کرنے کی بات ہوئی۔ طالبان کو دہشت گرد فہرست سے نکالنے کیلئے ہندوستان، برطانیہ اور فرانس سے رابطے میں مصروف ہے اور اگر یہ دونوں مان گئے تو رسمی قرارداد جلد ہی پیش کردی جائیگی۔ سفارتی حلقوں کے مطابق امریکہ، چین اور روس نے اس تجویز کی حمائت کا عندیہ دیا ہے۔
ہندوستانی حکومت تو بظاہر ملاوں سے رابطے کی خواہشمند نظر آرہی ہے جو علاقائی امن کے حوالے سے خوش آئند ہے لیکن انتہاپسند ہند میڈیاکی طالبان پر 'گلپاشی' 'نئی حقیقت' کو متضاد اشارے کررہی ہے۔ عام طالب کیلئے یہ بات سخت اشتعال کا باعث ہے کہ ہندوستانی ذرایع ابلاغ لاکھوں جانوں کی قربانی دیکر حاصل کی جانیوالی فتح کا کریڈٹ پاکستانی فوج کو دے رہے ہیں۔
علاقائی ممالک سے تعلقات کو فروغ دینے کیلئے ملّا سماجی اور کھیل کود کا میدان بھی استعمال کررہے ہں گزشتہ دنوں افغانستان کی جوانسال (under-19)کرکٹ ٹیم دوستانہ کھیل کیلئے بنگلہ دیش روانہ ہوگئی۔ اور ٹیم کو رخصت کرتے ہوئے عبوری وزیر صحت و کھیل نے اعلان کیا کہ قوم کو صحت مند رکھنے کیلئے نہ صرف افغانستان میں کھیل کے میدانوں کو آباد رکھا جائیگا بلکہ علاقائی ممالک کی ٹیموں سے صحت مند مسابقت کی حوصلہ افزائی کی جائیگی۔
چین اور روس طالبان سے براہ راست رابطے میں ہیں اور دونوں نے علاقائی امن کے فروغ اور معاشی ترقی کیلئے کابل کیساتھ مل کر کام کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ دنیا کے اس غریب ترین ملک کو اللہ نے قیمتی معدنیات سے نوازا ہے۔ دوسری دھاتوں کے علاوہ اجکل کا hot itemلیتھیم ہے۔ بجلی سے چلنے والی گاڑیوں میں یہ دھات برقی ایندھن ذخیرے کرنے کا کام آتی ہےاور امریکی مساحت ارضی Geological Survey کاخیال ہے کہ امریکہ لیتھیم کا سعودی عرب ہے۔
اسی بناپر کیا امریکہ اور کیا یورپ سب ہی کابل سےبات چیت کے خواہشمند ہیں لیکن عبرتناک شکست سے انا کاخناس بری طرح مشتعل ہے۔ قومی تذلیل سے صدر بائیڈن سخت دباو میں ہیں اور رائے عامہ کے حالیہ جائزوں کے مطابق انکی مقبولیت تیزی سے کم ہورہی ہے۔ بعض ریپبلکن منچلے تو مواخذے کی بات کررہے ہیں۔ ڈر یہ ہے کہ خفت مٹانے اور خود کو دبنگ ثابت کرنے کیلئے جناب بائیڈن داعش کی سرکوبی کے نام پر کہیں نئی فضائی مہم نہ شروع کردیں۔انکے جرنیلوں نے کچھ دن پہلے ماورائے افق یا over the horizon مہم جوئی کا عندیہ تھا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ پنجشیر میں کشیدگی کے پیچھے بھی چچا سام کا ہاتھ ہے اور واشنگٹن ہی نے اصحاب الشمال کو ملاوں کیخلاف بغاوت پر اکسایا ہے۔
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 10 ستمبر 2021
ہفت روزہ دعوت دہلی ، 10 ستمبر 2021
روزنامہ امت کراچی 10 ستمبر 2021
ہفت روزہ رہبر، سرینگر 12 ستمبر
2021
No comments:
Post a Comment