Thursday, September 30, 2021

وزیراعظم نریندرامودی کا دورہ امریکہ

وزیراعظم نریندرامودی کا دورہ امریکہ

ہندوستانی وزیراعظم نریندرا مودی کا تین روزہ دورہ امریکہ اپنے اختتام کو پہنچا۔ اس دوران مودی جی نے اتحاد اربعہ یا QUAD Allianceکے سربراہی اجلاس میں شرکت کی، امریکی صدرو نائب صدر اور ٹیکنالوجی کی پانچ بڑی کمپنیوں کے سربراہوں سے ملاقات کے علاوہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کیا۔ یہ ہندوستانی وزیراعظم کی امریکی صدر جو بائیڈن سے پہلی بالمشافہ ملاقات تھی۔ امریکی تاریخ میں پہلی بار ایک خاتون نے نائب صدر کی ذمہ داریاں سنبھالی ہیں اور شریمتی کملا دیوی ہیرس کی والدہ ڈاکٹر شیمالاگوپلان، چنائے (تامل ناڈو، ہندوستان) سے امریکہ آئی تھیں اور اس اعتبار سے کملا صاحبہ کو امریکی کی پہلی بھارت نژاد نائب صدر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

جناب مودی نے اس دورے کی تیاری کافی عرصہ پہلے شروع کردی تھی۔ سابق امریکی صدر ٹرمپ کی طرح جناب مودی اپنے ایجنڈے، موقف اور ذاتی تشہیر کیلئے ٹویٹر استعمال کرتے ہیں۔یہ تو قارئین کو یقیناً معلوم ہوگا کہ جناب ٹرمپ کا ٹویٹر اکاونٹ انتظامیہ نے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی پر معطل کردیا ہے۔ ٹویٹر پر شری مودی کے مداحوں یا followersکی تعداد 7کروڑ 14 لاکھ سے زیادہ ہے۔ دورے سے پہلے جناب مودی نے ٹویٹر پراپنے مداحوں کو تمام تفصیلات سے آگاہ کیا اورکواڈ کے سربراہان کو انفرادی ٹوٹیس بھیجے جس میں آنے والی سربراہ کانفرنس کے بارے میں غیر معمولی جوش و خروش کا مظاہرہ کیا گیا۔

مالی معاملات کو شفاف ثابت کرنے کیلئے 18 ستمبر کو ان تمام تحائف کا نیلام کیا گیا جو بطور وزیراعظم انھیں دوسرے ممالک سے عطا ہوئے ہیں۔ نیلامی کا آغاز 17 ستمبر کو مودی جی کے جنم دن سے ہوا، فروخت کا سلسلہ اکتوبر کے پہلے ہفتے تک جاری رہیگا اور نیلام سے حاصل ہونے والی آمدنی دریائے گنگا کی صفائی اور کناروں کی آرائش پر خرچ ہوگی۔ افتتاحی تقریب میں  وزیراعظم خود شریک ہوئے۔ معمول کی ایک سرگرمی کی  اتنے بڑے پیمانے پر تشہیر کا مقصد قوموں کی برادری میں ایک قد آور ودیانت دار رہنما کی حیثیت سے ہندوستانی وزیراعظم کے ملائم چہرے یاsoft imageکو نمایاں کر نا تھا۔

بیس ستمبر کو سعودی وزیرخارجہ فرہان السعود کے دورہ ہندوستان کو بھی جناب مودی نے اپنے ٹویٹر پر نمایاں کیا۔ خیال ہے کہ سعودی ارامکو تیل ریفائنری اور دوسری اہم تنصیبات پرہندوستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کریگی۔ اپنے ٹویٹس میں ہندوستانی وزیراعظم نے ہندوستان کو کاروبار کیلئے انتہائی پر کشش اور سرمایہ کاروں کی جنت قراردیا۔

امریکہ روانگی سے ایک دن پہلے جناب مودی نے فرانس کے صدر ایمیونل میخواں سے فون پر گفتگو کی جس میں افغانستان کی صورتحال پر تفصیلی تبادلہ خیال کیاگیا۔ فرانسیسی ذرایع ابلاغ کے مطابق افغانستان میں  متنوع (Inclusive)حکومت کے قیام اور خواتین کے حقوق کو یقینی بنانے کیلئے  برقرار رکھنے پر اتفاق کیاگیا۔ ستم ظریفی کہ جس وقت افغان خواتین کی 'حالتِ زار' پر فکر مندی کا اظہار ہورہا تھا ممبئی کے مضافاتی شہر دمبیولی میں پندرہ سال کی ایک معصوم بچی پر مجرمانہ حملے کی بھیانک  واردات نے سارے ہندوستان کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس بدنصیب کو 33 سے زیادہ اوباش 8 مہینے تک درندگی کا نشانہ بناتے رہے۔  

بائیس ستمبر کو خصوصی طیارے کی براہ راست پرواز کے ذریعے نریندرامودی امریکہ روانہ ہوئے۔ افغانستان نے اپنی فضائی حدود کو غیر ملکی پروازوں کیلئے بند کردیا ہے اور غیر ملکی جہاز خاص اجازت کے بعد ہی افغان فضائی حدود میں داخل ہوسکتے ہیں چنانچہ پاکستان سے فضائی حدود کے استعمال کی درخواست کی گئی۔آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد سے پاکستان نے بھارتی جہازوں کو اپنی حدود سے گزرنے کیلئے خصوصی اجازت کا پابند کردیا ہے اور ماضی میں اسلام آباد نے کم از کم تین بار صدر رام ناتھ کووند اور وزیراعظم مودی کے طیاروں کو اپنی فضائی حدود سے نہیں گزرنے دیا تاہم اس بار پاکستان نے مودی جی کو اپنی فضائی راہداری استعمال کرنے کی اجازت دیدی۔سفر کے دوران ہندوستانی وزیراعظم کی جہاز پر کام کرتے  کئی تصاویر ٹویٹر پر جاری کرکے یہ تاثر دیا گیاکہ جناب مودی اپنی جنتا کی خدمت میں ہمہ تن مصروف ہیں اور اپنا ایک منٹ بھی ضایع نہیں کرتے

بائیس ستمبر کو واشنگٹن آمد پر انکا امریکہ میں مقیم ہندوستانی شہریوں نے پرتپاک خیر مقدم کیا تو سیاہ پرچموں کے ساتھ بڑی تعداد میں کشمیری اور سکھ باشندے بھی وہاں موجود تھے۔ اس دوران مودی کے حامیوں اور سکھوں کے درمیان نعرے بازی کا مقابلہ بھی  ہوا۔

گزشتہ بار کی طرح اس مرتبہ بھی وزیراعظم مودی نےاپنے قیام کا ایک دن کارپوریٹ امریکہ سے ملاقات کیلئے مختص رکھا اور 23 ستمبر کو وہ سارا دن بڑی امریکی کارپوریشنوں کے اعلٰی حکام سے ملاقات کرتے رہے۔ دوسال پہلے انکا ہدف توانائی، خاص طور سے LNG تھی جبکہ جمعرات کو  وزیراعظم مودی  نے جدید  ٹیکنالوجی اور سرمایہ کاری فراہم کرنے والے اداروں کے سربراہان سے تفصیلی ملاقاتیں کیں۔

سب سے اہم نیم موصل پتری (Semi-Conductor Chip)بنانے والے ادارے کوال کام Qualcomکے سربراہ کرسٹینو امون (Cristano Amon)سے گفتگو تھی۔ اسوقت ساری دنیا میں چپس کی شدید قلت ہے حتیٰ کہ امریکہ میں گاڑیاں بنانے والی سب سے بڑی کمپنی جنرل موٹرز نے چپس کی عدم دستیابی کی بناپر اپنےکئی کارخانوں میں پیداوار روک دی ہے اورفورڈ موٹر کمپنی کی پیدوار ایک تہائی رہ گئی ہے۔ یورپ اور ایشیا میں بھی چپس کی شدید قلت ہے۔ چند ہفتہ پہلے چپس بنانے والے اداروں کی پیداوار بڑھانے کیلئے امریکی کانگریس نے اربوں ڈالر کی امدادی رقم منظورکی ہے ۔کوال کام کی خوبی یہ ہے کہ ادارہ موبائل فون کے 5-Gکیلئے چپس بناتا ہے۔ ملاقات کے بعد جناب امون نے بتایا کہ ہندوستانی وزیراعظم نے چپس کا کارخانہ ہندوستان میں لگانے کی دعوت دی جس پر کوال کوم کی قیادت سنجیدگی سے غور کررہی ہے۔

ٹیکنالوجی کمپنی اڈوبی Adobeکے قائد شنتانو نارائن جامعہ عثمانیہ حیدرآباد کے فارغ التحصیل ہیں۔ ملاقات کے دوران دونوں رہنماوں نے ہندی میں بات کی۔ اڈوبی کھیلوں کی الیکٹرانک مشینیں بھی بناتی ہے اور شنتانونارائن نے وزیراعظم سے کہا کہ انکی کمپنی ہر ہندوستانی بچے تک ان مشینوں کی رسائی یقینی بنانا چاہتی ہے۔

وزیراعظم مودی نے قابل تجدید خاص طور سے شمسی توانائی کی ٹیکنالوجی بنانے والی کمپنی سن پاور المعروف فرسٹ سولر کے سربراہ مارک ودمر کو ہندوستان میں سولر پینل بنانے کی دعوت دی

جوہری آبدوز، غیر مرئی (stealth)بحری جہاز، جنگی طیارے اور جدید ترین ہتھیار بنانے والے جنرل ڈائنامکس کے ذیلی ادارے جنرل اٹامکس General Atomicsکے سی ای او ویوک لال سے جناب مودی نے تین گھنٹے سے زیادہ دیر بات کی۔ جناب لال بھارت نژاد انڈونیشی ہیں۔ جنرل اٹامک عسکری اور شہری استعمال کے ڈرون کے علاوہ ریڈار، جوہری ایندھن استعمال کرنے والے انجن  اور دوسرے حفاظتی آلات بناتا ہے۔ جناب لال نے بھی ہندوستان میں سرمایہ کاری پر دلچسپی کا اظہار کیا

دنیا بھر میں سرمایہ کاری کرنے والے ادارے بلیک اسٹون کے سربراہ اسٹیفن شوارزمین نے بھی وزیراعظم مودی ملاقات کی۔ بلیک اسٹون ہر سال مختلف اداروں میں 35 سے 40 ارب ڈالر کی سرمایہ کرتا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ ہندوستان میں سعودی ارامکو کی ریفائری کیلئے بلیک اسٹون سرمایہ کاری کریگا۔

کارپوریٹ رہنماوں سے ملاقاتوں کے بعد نریندر مودی نے اسی شام آسٹریلیا کے وزیراعظم اسکاٹ موریسن اور اپنے جاپانی ہم منصب یوشیدا سوگا سے الگ الگ ملاقاتیں کیں۔ اس دوران  افغانستان کے تناظر میں ہند و بحرالکاہل Indo-Pacificکی صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔ ہندوستان کا خیال ہے کہ افغانستان میں اب چین کا کردار بہت اہم ہوگیا ہے اور بیجنگ اپنی مواصلاتی مہم المعروف BRIکاسلسلہ افغانستان کے راستے   وسط ایشیا تک وسیع کرنا چاہتاہے۔

نائب صدر کملا دیوی ہیرس سے ملاقات خاصی دلچسپ رہی۔ وزیراعظم نے امریکی نائب صدر کو ہندوستان کی بیٹی قرار دیتے ہوئے انتہائی پرجوش لہجے میں 'وطن' کے دورے کی دعوت دی لیکن کملا جی کا رویہ نسبتاً سرد تھا۔ نائب صدر ڈیموکریٹک پارٹی کے لبرل و سیکیولر دھڑے سے تعلق رکھتی ہیں جسے بھارت میں مذہبی انتہاپسندی اور ہندوتواکے فروغ پر سخت تشویش ہے۔ کیلی فورنیا سے رکن کانگریس رو کھنہ اور محترمہ پرمیلا جے پال بھی اس معاملے کو اٹھاتے رہے ہیں۔

واشنگٹن کے سفارتی ذرایع کے مطابق گفتگو کے دو ران امریکی نائب صدر نے کہا کہ ساری دنیا میں جمہوریت کواندرونی خطرات کا سامنا ہے اور اسکا مقابلہ جمہوری اقدار پر سختی سے عمل کرکے ہی کیا جاسکتا ہے۔ انکا موقف تھا کہ جمہوری ممالک کو انسانی حقوق اور شرف انسانی کے حوالے سے دنیا کیلیے مثال بننا چاہئے۔امتیازی قوانین، اقلیتوں سے برا سلوک اور مذہبی اکائیوں کے درمیان کشیدگی جمہوریت کیلیے اچھا شگون نہیں۔شریمتی ہیرس صاحبہ نے شہریت کے نئے بھارتی قوانین کے مضمرات سے ہندوستانی وزیراعظم کو آگاہ کیا۔انھوں نے آرٹیکل 370کی منسوخی اور کشمیر کی نیم مختار حیثیت ختم کرنے پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔

جمعہ کی صبح ہندوستانی وزیراعظم نے قصرِ مرمریں میں صدربائیڈن سے ملاقات کی۔ جناب بائیڈن ہندوستان امریکی رفاقت کے معمار سمجھے جاتے ہیں۔ دلی اور واشنگٹن کی حالیہ قربت کا آغاز  صدر اوباما کے دور سے ہوا جب 2012 میں  امریکہ کی نئی فوجی حکمت عملی کا اعلان کرتے ہوئے سابق امریکی صدر  نے  بحرالکاہل اور بحر ہند کو اپنی توجہ کا مرکز قراردیا۔جب ایک صحافی نے اس نظر کرم کی وجہ دریافت کی تو امریکی صدر نے فرمایا کہ یہ ایک مصروف تجارتی شاہراہ ہے اور اس آبی راستے کی نگرانی ہماری سلامتی کیلئے بے حدضروری ہے۔ واشنگٹن کے عسکری حلقوں کا خیال ہے کہ روس کے زوال کے بعد دنیا کی اسلامی قوتیں امریکہ کیلئے خطرے کا باعث تھیں لیکن گزشتہ دس بارہ سالوں میں اسلامی مزاحمت کچلی جاچکی ہے۔ عرب دنیا کی اسلامی تحریکیں زبردست عوامی حمائت کے باوجود دفاعی پوزیشن پر ہیں اور شمالی افریقہ و مشرق وسطیٰ میں ابھرنے والی نئی قیادت امریکی بالادستی کو چیلینج کرنے کےموڈ میں نہیں۔ چنانچہ امریکہ کی توجہ اب چین کی جانب ہے جو معاشی دوڑ میں بہت آگے نکل چکا ہے اور بلااستثنیٰ دنیا کی چھوٹی بڑی ہر منڈی میں "میڈ ان چائنا" مصنوعات کا غلبہ نظر آتا ہے۔ صدر اوباما کا خیال تھا کہ چین کے گھیراوکیلئے  بحرالکاہل سے بحر ہند کو ملانے والی آبنائے ملاکا کی نگرانی اور خلیج بنگال پر گرفت مضبوط رکھنا امریکہ کی ضروت ہےاور یہ کام ہند ناو سینا (بحریہ) کے علاوہ کسی اور کے بس کی بات نہیں۔ اس عسکری اتحاد کو بہتر، موثر اور ہمہ جہت بنانے کی ذمہ داری صدر اوباما نے اپنے نائب صدر کو سونپی تھی۔

ہندوستانی وزیراعظم کا استقبال کرتے ہوئے صدر بائیڈن نے یاد دلایا کہ 2008 کی صدارتی انتخابی مہم کے دوران انھوں نے پیشن گوئی کی تھی کہ 2020 میں ہندوستان اور امریکہ دنیا کے دو انتہائی گہرے دوست اور شراکت دار ہونگے۔ جواب میں مودی صاحب نے کہا کہ ہماری اس بے مثال دوستی کی بنیاد گاندھی جی کا فلسفہِ اعتماد ہے۔اس ملاقات میں  افغانستان کے مسئلے پرتفصیلی گفتگو ہوئی اور طالبان سے سفارتی سطح پر 'نبٹنے ' کی تدبیر،  ترکیب اور حکمتِ عملی پر غور کیا گیا۔ملاقات کے اختتام پرمعزز مہمان کو ہندوستانی تاریخ و ثقافت پر مبنی قیمتی نوادرات کا تحفہ پیش کیا گیاجو ہندوازم، بودھ مت اور جین مذاہب سے متعلق نادر تصاویر، ،مورتیوں، پوشاک اور دوسرے آثار پر مشتمل ہے۔ یہ نوادرات امریکہ بھر کے عجائب گھروں اور تاریخی مراکز سے جمع کئے گئے ہیں۔

اس دورے کا سب سے اہم پروگرام معاہدہ اربعہ کی کرونا وبا کے بعد پہلی براہ راست چوٹی کانفرنس تھی۔ اس سال مارچ میں سربراہ اجلاس سمعی و بصری رابطے (Virtual)پر ہوا تھا۔ امریکہ، ہندوستان، جاپان اور آسٹریلیا پر مشتمل یہ اتحاد 2007 میں قائم ہواجسکا سرکاری نام Quadrilateral Security Dialogue المعروف QUADہے۔ سرکاری مسودے کے مطابق معاہدہِ اربعہ کا مقصد بحرالکاہل اور بحر ہند میں میں بلاروک ٹوک جہاز رانی کو یقینی بنانا ہے لیکن درحقیقت چین کی بحری نقل وحرکت پر نظر رکھناکواڈ کی روح ہے۔ چین کے گرد گھیرا تنک کرنے کیلئے  حال ہی میں امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا نے آکس (AUCUS) اتحاد بھی تشکیل دیا ہے جسکےتحت بحرجنوبی چین میں  گشت کیلئے امریکہ آسٹریلیا کو جوہری آبدوز فراہم کررہا ہے۔آکس کی ہئیت اور اسکے نتیجے میں آسٹریلیا اور امریکہ سے فرانس کی ناراضگی پر ایک تفصیلی مضمون ہم گزشتہ ہفتے نذرِ قارئین کرچکے ہیں۔

اجلاس کے صدر جناب جو بائیڈن نے آغاز میں رسمی گفتگو کرتے ہوئے بھارت کی جانب سے ویکسین برآمد کے اعلان کو انسانیت کی عظیم خدمت قرار دیا اور  اس نریندرا مودی کی قائدانہ صلاحیت کا اعتراف کرتے ہوئے سب سے پہلے انھیں خطاب کی دعوت دی۔ اپنے مختصر خطاب میں وزیراعظم مودی نے امید ظاہر کی کہ چار ملکوں کا یہ اتحاد ہندوبحرالکاہل میں امن و خوش حالی کو یقینی بنائے گا۔ اپنی اختتامی تقریر میں جو بائیڈن نےکہا کہ چاروں جمہوریتیں، کرونا اور آب و ہوا میں تبدیلی کے مشترکہ چیلنج پر قابو پانے کے لیے ایک ساتھ آئی ہیں اور مستقبل کی صورت گری کیلئے ہمارے پاس ایک مشترکہ تصور ہے۔

چوٹی اجلاس میں ہند بحرالکاہل خطے تک تمام اقوام کی آزادانہ رسائی اور آبی شاہراہوں کو پرامن تجارتی سرگرمیوں کیلئے پابندیوں سے پاک رکھنے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ اجلاس کے اختتام پر جو مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا ہے اس میں کہا گیا ہے کہ کواڈ اتحادی، قانون کی حکمرانی، آزادو بلاروک ٹوک جہاز رانی، تنازعات کے پر امن حل، جمہوری اقدار کے فروغ اور  خودمختاری کے تحفظ کیلئے پرعزم ہیں۔مشترکہ اعلامئے میں چین کا نام لئے بغیر بحرالکاہل کے چھوٹے جزیروں میں آب و ہوا کی تبدیلی کے منفی اثرات پر تشویش کا اظہار کیا۔کواڈ قائدین کو بحرجنوبی چین میں عسکری مقاصد کیلئے چین کی جانب سے تعمیر کئے جانیوالے مصنوعی جزائر پر سخت تحفظات ہیں۔اعلامئے کے مطابق کواڈ کا سربراہی اجلاس اب ہر سال ہوگا۔اس اجلاس کا دورانیہ صرف دو گھنٹہ تھا جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ گفتگو چندنکات تک محدود رہی اور تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اس عرصے میں بحث و مباحثے کا محور چین و افغانستان تھے اور اس حوالے سے پاکستان، چین ، روس اور ترکی پر مشتمل ایک نئے غیر رسمی اتحاد کی سرگرمیوں اور ممکنہ عزائم پر بھی غور کیا گیا۔سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ ابھرتے ہوئے اس نئے اتحاد کا ملائیشیا، ویتنام، قطر ، عراق اور لیبیا بھی دلچسپی سے جائزہ لے رہے ہیں

کواڈ اجلاس کے دوسرے روز شری نریندرا مودی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کیا۔ دوسرے تمام رہنماوں کی طرح ہندوستانی وزیراعظم کا خطاب بھی روائتی نوعیت کا تھا اور حسب توقع انکی تقریر میں، میرا اور مجھے کے گرد گھومتی رہی جس میں خودستائی کا پہلو نمایاں تھا۔ انھوں اپنے پڑوسی کو متنبہ کیا کہ دہشت گردی کو پالیسی بنانے والے خود بھی اس مشکل کا شکار ہوسکتے ہیں۔ 

تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ مودی جی کے دورے اور کواڈ سربراہی اجلاس میں چین اور افغانستان ہی کلیدی نکات تھےاور جن مقاصد کیلئےکواڈ تشکیل دیا گیا ویسا ہی ہدف اب افغانستان کیلئے طئے کیا گیا ہے یعنی کابل حکومت کو ہر قیمت پر ناکامی سے دوچار کیا جائے۔باقی رہی ماحولیات اور کرونا پر گفتگو تو یہ محض موذیوں کا منہہ بند کرنے کی ایک کوشش تھی۔
کواڈ اتحادی،  افغانستان میں طالبان کی غیر معمولی اوربرق رفتار بلکہ چشم کشا کامیابی پراب تک صدمے میں ہیں جہاں امریکہ کے 30 کھرب جاپان کے 6.8  ارب، آسٹریلیا کے  ڈیڑھ اور ہندوستان کے تین ارب ڈالر ڈوب گئے ۔

کواڈ کو سب سے زیادہ تشویش چین کے BRI منصوبے کی وسط ایشیا تک ممکنہ توسیع پر ہے۔ ہندوستان نے ایران کی چاہ بہار بندرگاہ اور وہاں سے افغان ایران سرحد پر زارنج تک جدید ترین چاررویہ شاہراہ تعمیر کی ہے جو تمام موسم میں قابل استعمال ہوگی لیکن طالبان نے زارنج کی خشک بندرگاہ کو عملاً معطل کرکے اس سارے منصوبے پر خط تنسیخ پھیر دیا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ گوادر BRIکا جنوب میں نقطہ آغاز ہوگا۔ مودی جی نے گفتگو کے دوران بحرجنوبی چین اور آبنائے ملاکا کے ساتھ بحرعرب اور باالخصوص گوادر پر نظر رکھنے کی ضرورت پر زور دیا۔

خبر ہے کہ اس حوالے سے چاروں ملکوں کے ماہرینِ سلامتی کااجلاس بھی ہوا جس میں قومی سلامتی کے لئے وزیراعظم مودی کے مشیر اجیت دوال نے علاقائی صورتحال اور افغانستان پر مُلّاوں کے اقبال سے جنم لینے والے خدشات و خطرات کا جائزہ پیش کیا۔ ان سرگرمیوں اور پیش بندیوں سے لگتا ہے کہ مستقبل قریب میں جہاں آبنائے ملاکا، بحر انڈمان، خلیج بنگال اور بحرہندکاساتھ بحرعرب کے شمال مغربی کنارے پر بھی کشیدگی بڑھے گی تو  دوسری طرف افغا نستان کو یکہ و تنہا کرکے دیوار سے لگانے کی مہم بھی علاقائی امن کو سنگین خطرات سے دوچار کرسکتی ہے۔ صاحبِ نظراِ ں!!  نشّہِ طاقت ہے خطرناک

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل 30 ستمبر 2021

ہفت روزہ دعوت دہلی 30 ستمبر 2021

روزنامہ امت کراچہ 30 ستمبر 2021

ہفت روزہ رہبر سرینگر 30 ستمبر


2021

 

Thursday, September 23, 2021

آنکُس اتحاد، فرانس کی برہمی اور جوہری ہتھیاروں کا پھیلاو

 

آنکُس اتحاد، فرانس کی برہمی اور جوہری ہتھیاروں کا پھیلاو

فرانس نے امریکہ اور آسٹریلیا سے اپنے سفیروں کو واپس بلالیا ہے۔ یہ ان ممالک کی سفارتی تاریخ کا پہلا واقعہ ہے۔ابتدا میں کہا گیا تھا کہ فاضل سفراضروری مشورے کیلئے پیرس طلب کئے گئے ہیں لیکن 17 ستمبر کو فرانسیسی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ مستقبل قریب میں ان سفیروں کی واپسی کا کوئی امکان نہیں۔

اس سفارتی جنگ کا آغاز 16 ستمبر کو امریکہ، آسٹریلیا اور برطانیہ کے مابین سہہ فریقی اتحاد آکس (AUKUS)کے اعلان سے ہوا۔ آگے بڑھنے  سے پہلے یہ وضاحت ضروری ہے کہ اس اتحاد کا تلفظ آکُس ہے لیکن یہ تینوں ممالک جس انداز میں دنیا کو ہانکنا چاہتے ہیں اس مناسبت سے ازراہ تفنن ہم نے اپنے سرنامہِ کلام میں اسے آنکُس لکھدیا ہے جو اپنے ہاتھیوں کو قابو میں رکھنے کیلئے فیل بان استعمال کرتے ہیں۔

اتحاد کا اعلان کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا تھا کہ یہ کسی ایک ملک سے متعلق نہیں۔  مزید وضاحت کرتے ہوئے قصرِ مرمریں کی ترجمان محترمہ  جین ساکی نے فرمایا کہ یہ شراکت داری امریکہ کے دفاعی مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے ہے جس میں ہند و  بحرالکاہل (Indo-Pacific) علاقے میں امن اور استحکام کے فروغ کے لیے بین الاقوامی اصولوں کو ملحوظِ خاطر رکھا گیا ہے۔آسٹریلیاکے دارالحکومت کینبرا کے عسکری حلقوں نے اسکی جو تفصیلات بیان کی ہیں  ان کے مطابق معاہدے کے تحت تینوں ممالک مصنوعی ذہانت (AI)، سائبر ٹیکنالوجی، دنیائے طبعیات کی کوانٹم ٹیکنالوجی اور زیر آب نظام سمیت مختلف حساس شعبوں میں معلومات اور مہارت کے تبادلے کو محفوظ اور  آسان بنائینگے۔

جہت اور گنجائش مختلف سہی لیکن ہئیت و ہدف کے اعتبار سے آکُس، معاہدہِ اربعہ یا QUADاتحاد کی شرطیہ نئی کاپی ہے۔ آسٹریلیا، ہندوستان، جاپان اور امریکہ پر مشتمل معاہدہ اربعہ کا بنیادی ہدف بحر جنوبی چین سے بحر ہند کی طرف آنے والے بحری ٹریفک پر نظر رکھنا ہے۔ امریکیوں کا کہنا ہے کہ بحرجنوبی چین کو جہاز رانی کیلئے کھلا رکھنا اور بحرالکاہل سے بحرہند تک آبی شاہراہ کو پابندیوں، رکاوٹوں اور خطرات سے پاک رکھنا کواڈ اتحادیوں کی ترجیح ہے۔اس بنا پر سیاسی و عسکری تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ آکس معاہدے کا بنیادی مقصد عسکری میدان  خاص طور سے بحری اور  زیر آب ٹیکنالوجی کے شعبوں میں چین کی بڑھتی ہوئی قوت کو لگام دینا ہے ۔

چین کو خطرے کا احساس ہوگیا ہے اور وزارتِ خارجہ کے ترجمان ژاو لیجان (Zhao Lijian) نے بیجنگ میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ تینوں ملک یعنی  آسٹریلیا، برطانیہ اور امریکہ انتہائی غیر ذمہ دارانہ رویے کے مرتکب ہو رہے ہیں۔انکا کہنا تھا کہ چین کے دشمنوں کو   سرد جنگ کی ذہنیت ترک کرکے بات چیت کا راستہ اختیار کرنا چاہئے۔

دلچسپ بات کہ معاہدے کو آخری شکل دینے کیلئے 18 ماہ تک مشاورت تجویز کی گئی ہے، یعنی 16 ستمبر کو ہونے والا اعلان ایک اصولی اتفاق ہے لیکن بیک جنبش قلم صدر بائیڈن  نے آسٹریلیاکو 8 جوہری آبدوزیں فروخت کا اعلان کردیا۔یہ آبدوزیں جوہری ہتھیاروں سے لیس نہیں، بس انکے انجن جوہری ایندھن استعمال کرتے ہیں جسکی وجہ سے یہ زیادہ گہرائی تک جاکر  لمبے عرصے وہاں رہ سکتی ہیں۔ڈیزل سے چلنے والی آبدوزوں کو ایندھن لینے کیلئے ہر کچھ عرصے بعد سطح سمندر پر نمودار ہونا پڑتا ہے اور ایک خاص گہرائی سے نیچے جانا ممکن مہیں۔ تادم تحریر دنیا کے پانچ بڑوں کے  علاوہ صرف ہندوستان کے پاس ایک جوہری آبدوز ہے اور اس لحاظ سے اب آسٹریلیا جوہری آبدوزوں کا حامل ساتواں ملک ہوجائیگا۔اسوقت امریکہ 68 جوہری آبدوزوں کیساتھ پہلے نمبر پر ہے جبکہ ہندوستان کا چھٹا نمبر ہے کہ ہندناو سینا کے پاس صرف ایک جوہری آبدوز ہے۔  چچا سام کی اسی پیشکش پر فرانس سخت مشتعل ہے۔

اس اشتعال کا پس منظر کچھ اسطرح ہے کہ 2016 میں آسٹریلوی بحریہ نے آبی ہتھیار بنانے والے مشہور فرانسیسی ادارے DCNS سے 12 جدید ترین آبدوز خریدنے کامعاہدہ کیا جسکی مجموعی مالیت 38ارب ڈالر کے قریب ہے۔ چار سال قبل ایک اور ادارے سے ادغام کے بعد  DCNS کا نام نیول گروپ (NAVAL Group)رکھدیا گیا ہے۔ امریکہ سے جوہری آبدوز کی پیشکش پر آسٹریلیا نے نیول گروپ سے معاہدہ منسوخ کردیا۔ آسٹریلوی وزیراعظم اسکاٹ موریسن کا کہنا ہے کہ انکے ملک نے 2016 میں جب یہ معاہدہ کیا اسوقت کسی اور ملک نے جوہری آبدوز فروخت کرنے کی پیشکش نہیں کی تھی لیکن اب جبکہ ہمارے امریکی دوست جوہری آبدوز فروخت کرنے کو تیار ہیں تو ہم کیوں نہ اس موقع سے فائدہ اٹھائیں؟ وزیرِ اعظم موریسن نے کہا کہ وہ فرانس کی مایوسی کو سمجھتے ہیں، لیکن انھیں ہماری سلامتی کو لاحق خطرات کا ادراک ہونا چاہئے۔

آسٹریلوی وزیردفاع پیٹر ڈٹن کا کہنا ہے کہ موثر دفاع کیلئے انکی آبدوزوں کو زیادہ سے زیادہ گہرائی تک اترنے کے علاوہ دیر تک اور دور تک گشت کرنے کی ضرورت ہے جو روائتی ایندھن سے چلنے والی آبدوزوں کیلئے ممکن نہیں۔ اسی وجہ سے ہم نے امریکی پیشکش کو قبول کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ صدر بائیڈن کا موقف ہے کہ آسٹریلیا کو آبدوزوں کی فراہمی کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ہمارا ہر اتحادی خود کو لاحق  خطرات کے خلاف اپنے دفاع کے قابل ہو۔

فرانس، آسٹریلیا کی اس وضاحت سے مطمٗن نہیں۔فرانسیسی وزیرِ دفاع نے سودے کی منسوخی کو فرانسیسی ملت کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف قراردیاہے۔ انھوں نے کہا کہ آسٹریلیا سے ہماری دوستی کی بنیاد اعتماد و بھروسے پر تھی لیکن اب یہ اعتماد ختم ہوگیا ہے۔ انھوں نےصدر جو بائیڈن پر بھی شدید تنقید کی اور کہا کہ  'اس سنگ دلانہ، یکطرفہ اور غیر متوقع فیصلے سے  صدرٹرمپ کی یاد تازہ ہوگئی ہے جو مخلص اتحادیوں سے ایسا ہی سلوک کرتے تھے'

اپنی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے فرانسیسی حکومت نے جمعرات کو واشنگٹن میں منعقدہ اس تقریب کو بھی احتجاجاً منسوخ کر دیا جسے وہ امریکہ کے ساتھ مل کر منعقد کر رہی تھی۔ستمبر 1781امریکی ریاست ورجینیا اور ڈیلوئر (Delaware) کےدرمیان حائل خلیج چیساپیک (Chesapeake Bay)پر قبضے کیلئے فرانس اور برطانوی بحریہ کے درمیان خونریز جنگ ہوئی تھی جس میں برطانوی بحریہ کی شرمناک شکست نے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی  آزادی کی راہ ہموار کی۔ خلیج چیساپیک کے ساحل پر یہ دن ہر سال بہت تزک و احتشام سے منایا جاتا ہے۔

امریکہ کو فرانس کی جانب سے اس شدید ردعمل کی توقع نہ تھی۔ فرانس کو اعتماد میں لئے بغیر اس فیصلے پر بائیڈن انتظامیہ کو ملک کے اندر بھی تنقید کا سامنا ہے اور اب تعلقات میں پڑی سلوٹ کو ہموار کرنے کیلئے پیرس کی جانب ہرکارے دوڑائے جارہے ہیں۔ قصر مرمریں کی ترجمان نے کہا کہ فرانس امریکہ کا اہم اور مخلص اتحادی ہے۔ عالمی برادری کو درپیش مسائل کے حل میں واشنگٹن، فرانس کے ساتھ اپنی شراکت داری کو اہمیت دیتاہے اور پیرس کی یہ اہمیت کبھی ختم نہیں ہوسکتی ۔ محترمہ ساکی کہنا تھا کہ فرانس سے ہمارے تعلقات دہائی نہیں صدیوں پر محیط ہیں اور اسے کسی قیمت پر ٹھیس نہیں لگنے دی جائیگی۔ایک سوال کے جواب میں ترجمان بولیں کہ آسٹریلیا کو جوہری ٹیکنالوجی کی ضرورت کیوں پیش آئی یہ بات کینبرا سے پوچھیں۔

جوہری آبدوزوں  کے معاملے پر امریکہ، آسٹریلیا اور فرانس کے مابین کشیدگی خالص تجارتی معاملہ ہے۔ فرانسیسی حکام نے اسے اپنی پشت میں چھرا قراردیاہے، ہمارے خیال میں اسے پیٹ پر لات کہنا زیادہ مناسب ہے کہ آجکل جبکہ کرونا کی وجہ سے ساری دنیا کی طرح فرانس کی معیشت بھی دباو میں ہے 38 ارب ڈالر کا سودا منسوخ ہوجانا کوئی معمولی بات نہیں۔

لیکن جوہری پھیلاو کے تناظر میں مہذب دنیاکو اس معاملے پر سخت تشویش ہے۔ امریکیوں کا کہنا ہے کہ یہ آبدوزیں جوہری ہتھیار سے لیس نہیں۔ صرف انکے انجن ایٹمی ایندھن استعمال کرتے ہیں جو ماحولیاتی کثافت کے معاملے میں ڈیزل اورپیٹرول سے کہیں بہتر ہیں۔ برطانیہ اورآسٹریلیا کے رہنماوں سے باتیں کرتے ہوئے انھوں اپنا یہ عزم دہرایا کہ وہ جوہری عدم پھیلاؤ سے متعلق اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے رہیں گے۔ٓآسٹریلیا کے وزیرِ اعظم اسکاٹ موریسن نے بھی کہا ہے کہ اُن کا ملک جوہری ہتھیاروں کا خواہش مند نہیں اور نہ ہی غیر فوجی جوہری استعداد چاہتا ہے۔ لیکن معاہدے کے تحت جوہری آبدوزیں آسٹریلیا کے شہر ایڈیلیڈ میں تیار کی جائینگی۔ یعنی یہ محض جوہری آبدوزوں کا سودا نہیں بلکہ امریکہ اور برطانیہ آسٹریلیا کو جوہری ٹیکنالوجی اور معاونت فراہم کرینگے بلکہ یوں کہئے کہ یہNuclear Technology Transferکا معاہدہ ہے۔

وزیراعظم موریسن کی یقین دہانی اور صدر بائیڈن کے بودے موقف کو کوئی بھی سائینسدان قبول نہیں کریگا۔ یہ سیدھا سادہا یٹمی پھیلاو کا معاملہ ہے۔ ماضی میں جوہری آبدوزیں حادثات کا شکار ہوچکی ہیں جن میں سب اہم واقعہ  ایک سال قبل روس اور ناروے کے درمیان واقع بحر بیرینٹس (Barents Sea)میں روسی آبدوز کرسکKURSK کی تباہی کا ہے۔  بارہ اگست 2000کو ایک بحری مشق کے دوران  ہائیڈروجن پر آکسائیڈ (Hydrogen Peroxide)کے حادثاتی اخراج سے ایک تارپیڈو پھٹ پڑا اور آن کی آن میں یہ جدید ترین آبدوز تباہ ہوگئی۔ اسکے نتیجے میں جوہری ایندھن کے تابکاری ذرات زیر آب پھیل گئے جسکی وجہ سےامدادی سرگرمیاں بروقت شروع نہ ہوسکیں اور عملے کے تمام کے تمام 118 افراد ہلاک ہوگئے۔ تباہ شدہ آبدوز کی باقیات بھی تلاش نہیں کی گئیں اور ماہرین کا خیال ہے کہ سمندر کے اس حصے میں تابکاری اثرات اب بھی موجود ہیں۔

جوہری پھیلاؤ روکنے کے نام پر عراقی تنصبات کو جب اسرائیل نے نشانہ بنایا تو ساری مغربی دنیا نے اسکی حمائت کی حالانکہ یہ ایک صریح جارحیت تھی۔لیبیا کو جوہری توانائی کے استعمال سے روکنے کیلئے اتنی سخت پابندیاں عائد کی گئیں کہ کرنل قذافی نے نہ صرف جوہری پروگرام سے توبہ کرلی بلکہ کفارہ ادا کرتے ہوئے تمام تنصیبات تحلیل کرکے مشینیں لیبیا کے خرچ پرامریکہ بھیج دیں۔ آجکل شمالی کوریا اور ایران کیخلاف جو پابندیاں عائد کی گئی ہیں وہ نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم کے ہم پلہ ہیں۔ اسی بنا پر پاکستان نے ایک عرصے تک پابندیوں کا عذاب جھیلا  اور اب بھی  “اسلامی ایٹم بم” کے  شگوفے  وقتاً فوقتاً پھوٹتےرہتے ہیں۔

لیکن  جب معاملہ اپنوں کا ہو تو چچا سام معیار تبدیل کرنے میں ذرا دیر نہیں لگاتے۔ آسٹریلیا کو جوہری آبدوزوں کی فراہمی ایٹمی پھیلاو کے عالمی قوانین کی سخت خلاف ورزی ہےلیکن کس میں ہمت ہے کہ وہ اس معاہدے پر اعتراض کرے۔ عالمی جوہری توانائی کمیشن IAEAبھی جوہری عدم پھیلاؤ معاہدے کی اس سنگین خلاف ورزی پر خاموش ہے۔

جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیاآسٹریلیا پر اس مہربانی کا سبب چین ہے جس کے گھیراو اور بحر جنوبی چین پر نظر رکھنےکیلیے امریکہ، جاپان، ہندوستان اور آسٹریلیا پر مشتمل معاہدہ اربعہ یا QUAD اتحاد  تشکیل دیا گیا ہے۔بحر جنوبی چین سے بحر ہند میں داخلہ آبنائے ملا کا سے ہوتا ہے۔ ساڑھے آٹھ سو میل لمبی یہ آبنائے جزیرہ نمائے ملائیشیا اور انڈونیشی جزیرے سماترا کے درمیان سے گزرتی ہے۔آبنائے ملا کا کے شمال مشرقی حصے کی نگرانی آسٹریلوی بحریہ کو سونپی گئی ہے جبکہ بحر ہند میں کھلنے والے دہانے پر ہند ناو سینا  تعینات ہے۔بحر جنوبی چین میں گشت کرتے آسٹریلیا کے جہازوں کو چونکہ براہ راست چینی بحریہ کا سامنا ہے اسلئے  وہاں  جوہری آبدوزیں بھیجی جارہی ہیں۔

اگر امریکہ کی اس دلیل کو درست مانتے ہوئے کہ جوہری آبدوزوں کی فروخت کا ایٹمی پھیلاو سے کوئی تعلق نہیں، چین، بحرِ جاپان کی نگرانی کیلیے شمالی کوریا کو ایٹمی آبدوز دیدے تو واشنگٹن کا رد عمل کیاہوگا؟ امریکہ کے اس فیصلے پر صرف چین ہی معترض نہیں۔آسٹریلیا کے پڑوسی نیوزی لینڈ کو بھی اس پر تشویش ہے اور کیوی وزیراعظم محترمہ جسندا آرڈرن نے اعلان کیا ہے کہ آسٹریلیا کی جوہری آبدوزوں کو نیوزی لینڈ کے پانیوں سے گزرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 24 ستمبر 2021

ہفت روزہ دعوت دہلی 24 ستمبر 2021

روزنامہ امت کراچی 24ستمبر 2021

ہفت روزہ رہبر سرینگر 26 ستمبر 2021

روزنامہ قومی صحافت لکھنو


Thursday, September 16, 2021

مراکش میں حکمراں جماعت کو شکست

مراکش میں حکمراں جماعت کو شکست

مراکش کے پارلیمانی انتخابات میں اخوان المسلمون کی فکر سے وابستہ حزب العدل و التنمیہ یا انصاف و ترقی پارٹی PJD(فرانسیسی  مخفف) کو بدترین شکست کا منہہ دیکھناپڑاجسے 395 رکنی ایوان میں صرف 13نشستیں مل سکیں۔گزشتہ انتخابات میں PJDنے 125نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ دائیں بازو کی احرار یا نیشنل ریلی پارٹی (RNI) نے 97 نشستیں جیت کر سادہ اکثریت حاصل کرلی۔ شاہ پرست لبرل حزب لاصلاتہ المعاصرہ (PAM)کا دوسرا نمبر ہے جس نے  87 اور بادشاہ کی حامی استقلال پارٹی 81 کیساتھ تیسری بڑی جماعت بن کر ابھری۔

ساڑھے تین کروڑ نفوس پر مشتمل مراکش، بحر روم اور بحر اوقیانوس کے سنگم پر واقع ہے۔ اس ملک کو عرب  جغرافیہ داں افریقہ کا غرب الاقصیٰ قرار دیتے تھے اس بناپر مراکش کا سرکاری نام مملکت المغربیہ ہے اور اس پورے علاقے کو مغرب کہا جاتا ہے جس میں الجزائر، تیونس، لیبیا، موریطانیہ اور مراکش واقع  ہیں۔ اسلامی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے مراکش کی ایک اہمیت یہ بھی ہے کہ ہسپانیہ پر فوج کشی کیلئے طارق بن زیاد کا لشکرمراکش کے شہر طنجہ(Tangier) سے کشتیوں میں سوار ہوکر  بحر روم  و بحر اوقیانوس کو ملانے والی آبنائے کو عبور کرکے اس چٹان پر اتراتھاجو بعد میں جبل الطارق کے نام سے مشہور ہوئی۔ افریقہ اور یورپ کو ملانے والا یہ تنگ سا آبی راستہ بھی آبناے جبل الطارق یا Strait of Gibraltar کہلاتاہے۔ آبنائے جبل الطارق علاقے کی آبی شہہ رگ ہے کہ بحر اسود و بحر روم کا سارا بحری ٹریفک اسی آبنائے سے گزر کر بحر اقیانوس میں داخل ہوتا ہے۔ بحر روم سے نکلنے کا دوسراراستہ نہر سوئز ہے جو بحر احمر میں کھلتی ہے۔

یہاں آزادی کے بعد سے مطلق العنان ملوکیت کا نظام قائم تھا۔دسمبر 2010 میں تیونس سے جنم لینے والی پرامن تحریک ساری عرب دنیا بالخصوص شمالی افریقہ میں بیداری کا نقطہِ آغاز ثابت ہوئی۔ اس سے متاثر ہوکر مراکشی عوام بھی سڑکوں پر نکل آئے اور العدل والاحسان کے عنوان سے سماجی انصاف، جمہوریت اور کرپشن کے خاتمے کیلئے مظاہرے شروع ہوئے۔ اپنے تیونسی، مصری، شامی اور یمنی ہم منصبوں کے برعکس مراکش کے فرمانروا محمد السادس (ششم) نے ان مظاہروں کو کچلنے کے بجائےعوامی خواہشات کے مطابق دستور میں ترمیم کاایک مسودہ پالیمان میں پیش کردیا جسکے مطابق حکمرانی کے تمام اختیارات منتخب وزیر اعظم کو تفویض کردئے گئے۔ نئے دستور کی رو سے پالیمنٹ کی تحلیل ، بین الا قوامی معاھدات، سزاوں کی معافی، قومی میزانئے کی ترتیب، اسٹیٹ بینک اور سرکاری کارپوریشنوں کے سربراہان کا تقرر اور انتخابات کے انعقاد سمیت تمام اختیارات وزیراعظم کو منتقل کردئے گئے۔

بائیں بازو کی کچھ جماعتوں کیلئے یہ آئینی ترامیم قابل قبول نہیں تھیں جنکی قیادت مزدور رہنما نجیب شوقی کر رہے تھے۔ جناب شوقی کا کہنا تھا کہ بادشاہت اور جمہوریت ایک دوسرے کی ضد ہیں اور بادشاہ سلامت کے زیر انتظام انتخابات اور اسکے نتیجے میں قائم ہونے والی پارلیمان محض ربڑ کی مہر ثابت ہوگی۔شوقی صاحب نے اسوقت بادشاہت کےمکمل خاتمے کی تحریک جاری رکھنے  کیلئے اخوان سے رابطہ کیا لیکن اخوانی رہنما سعد الدین عثمانی کا خیال تھا کہ اسوقت مقتدرہ سے تصادم مناسب نہیں۔ ایک بار آزادانہ انتخابات کا نظام قائم ہوجائے تو ترامیم کے ذریعے پارلیمان کو مزید بااختیار بنانا آسان ہوگا۔چنانچہ اخوان نے جولائی کے قومی استصوابِ رائے میں ترمیم کی حمائت کی۔

نومبر 2011 کو مراکش کی تاریخ کے پہلے آزادانہ انتخابات منعقد ہوئے۔ان انتخابات میں ایوان نمائندگان کے 305ارکان کا چناو ہوا۔ ایوان کی 50 نشستیں خواتین کیلئے مختص ہیں جبکہ 40نشستیں نوجوانوں کیلئے وقف ہیں جنھیں بعد میں ارکان پارلیمان منتخب کرتے ہیں۔ان  انتخاب میں PJDنے 107 نشستیں حاصل کیں، شاہ کی وفادار استقلال پارٹی 60 نشستوں کیساتھ دوسرے نمبر پر آئی جبکہ 52نشستوں پر RNIکامیاب ٹہری۔

پانچ سال بعد اکتوبر 2016کے انتخابات میں PJDنے 125 نشستیں جیت کر اپنی پوزیشن مزید مستحکم کرلی۔ شاہ کی حامی PAM نے 102 نشستوں پر کامیابی حاصل کی اور 46 نشستوں کیساتھ استقلال پارٹی ایوان نمائندگان کی تیسری بڑی جماعت بن گئی۔ تیونس کی طرح مراکش کی سیاسی جماعتوں میں بھی  برداشت اور باہمی تعاون مثالی ہے۔ اخوان کی کامیابی کو لبرل، سیکیولر اور بائیں بازو کی جماعتوں نے دل سے تسلیم کیا۔اسی باہمی اعتماد و یگانگت کا اثر تھاکہ وزیراعظم سعدالدین عثمانی نے اپنے  پڑوسیوں کے درمیان بھی مصالحانہ کردار اداکیا۔ لیبیا میں وفاقی حکومت اور حفتر ملیشیا کے درمیان معاہدہ مراکش کی مثبت سفارتی کوششوں کا نتیجہ ہے۔

اسی کیساتھ جناب سعدالدین عثمانی نے مغربی صحارا کے تنازعے کو پرامن طور پر حل کرنے کیلئے الجزائر اور آزادی کے خواہشمند پولیساریو (POLISARIO)محاذ سے بات چیت شروع کردی۔مراکش کے جنوب مغرب میں الجزائر کی سرحد سے بحراوقیانوس کے کنارے 2لاکھ 66ہزار مربع کلومیٹر پر مشتمل اس صحرا کے بڑے حصے پر مراکش کی عملداری جبکہ 20 فیصد علاقہ جمہویہ صحراویہ کے نام سے خودمختار ریاست ہے۔ ۔یہاں رہنے والوں کی اکثریت بربرنسل کے عرب مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ مشہور مسلم جرنیل طارق بن زیاد بھی بر بر تھے۔

مراکش کا خیال ہے کہ الجزائر پولیساریو کو مالی اور عسکری مدد فراہم کررہا ہے، اسی بناپر رباط اورالجزائر کے تعلقات کشیدہ ہیں۔ پولیساریو اور مراکشی فوج کے درمیان مسلح تصادم کئی دہائیوں سے جاری ہٰں۔صحارا کی قسمت کے فیصلے کیلئے کئی بار یہاں استصواب   کی تاریخ طئے ہوئے لیکن ووٹروں کی فہرست پر اب تک اتفاق نہ ہوسکا۔

صدر ٹرمپ نے اقتدار میں آتے ہی مسلم ممالک پر زور دیا کہ وہ اسرائیل سے سفارتی تعلقات استوار کریں۔ مئی 2017 میں سعودی عرب کے دورے کیساتھ مسلم اور عرب  ممالک پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے دباو بڑھادیاگیا۔ گزشتہ برس کے آغاز سے اس مہم میں شدت آگئی۔ فلسطینیوں نے اس  کی شدید مزاحمت کی چنانچہ تحریک کے روح رواں، سابق داماداول اور مشرق وسطیٰ کے امور پر صدر ٹرمپ کے مشیر جیررڈ کشنرنے اسرائیل تنازعے سے فلسطین کے معاملے کو نکال کر لاٹھی اور گاجر کی حکمت عملی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ یعنی حکم عدولی کی صورت میں کڑی سزا اور تابعداری پر مراعات کی شاندار پیشکش۔

جیرڈ کشنر کی کوششوں سے ستمبر 2020میں متحدہ عرب  امارات اور بحرین نے اسرائیل کو تسلیم کرلیا۔ اس نئی تحریک کو صدر ٹرمپ نے معاہدہ ابراہیم کا نام دیا یعنی حضرت ابراہیم سے منسوب تینوں ادیان کے ماننے والوں کے درمیان مصالحت۔ اسی دوران یورپ کے ایک مسلم اکثریتی ملک کوسووو نے بھی اسرائیل کو تسلیم کرلیا۔خلیجی ممالک کیساتھ شمالی افریقہ کے ممالک کو بھی ترغیب دی گئی کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرلیں۔ سوڈان دہشت گردوں کی اعانت   کرنے والے ملکوں کی فہرست میں شامل ہونے کی وجہ سے سخت معاشی پابندیوں کا شکار تھا۔ خرطوم کو پیشکش کی گئی کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی صورت میں اسے دہشت گرد ملکوں کی فہرست سے نکال دیا جائیگا۔

مراکش کے معاملے میں شہشاہانِ بر صغیر کے سے کروفر کا مظاہرہ کیاگیا کہ جیسے اچھے وقتوں میں ظل الٰہی خوش ہوکر لوگوں کو رقبے اور مربعے بخش دیاکرتے تھے ایسے ہی اسرائیل سے سفارتی تعلقات کے عوض شاہِ مراکش کو مغربی صحارا عطا کرنے کی نوید سنادی گئی۔ شاہ محمد پر متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کا دباو بھی تھا۔

وزیراعظم عثمانی نے معاملہ پارلیمان میں لے جانے کا عندیہ دیا، اسی کیساتھ انھوں نے تنازعہِ صحارا کے پرامن حل کیلئے سفارتی کوششیں جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا۔انکا کہنا تھا کہ جب تمام فریق استصواب کے ذریعے اس معاملے کو جمہوری انداز میں حل کرنے پر تیار ہیں تو امریکہ کا احسان لینے کی کیا ضرورت ہے؟

شاہ صاحب کو وزیراعظم کا موقف  'باغیانہ' محسوس ہوا اور انھوں نے ایک شاہی فرمان کے تحت سفارت و بین الاقوامی تعلقات کے اختیارات وزیراعظم سے واپس لے لئے۔ حکمنامے میں  کہا گیا کہ حکومت کی غیر ضروری سفارتی مہم جوئی سے مغربی صحارا کی صورتحال خراب ہوگئی ہے اور  مملکت کو لاحق خطرات کے پیش نظر یہ معاملات اب ظِل الٰہی His Excellencyخود دیکھیں گے۔ اسی کیساتھ انھوں نے دھمکی دی کہ اگر وزیراعظم نے مملکت سے تصادم کی روش برقرار رکھی تو پارلیمان تحلیل بھی کی جاسکتی ہے۔گویا مزدور رہنما نجیب شوقی کے وہ خدشات درست ثابت ہوا جنکا ذکر ہم اوپر کرچکے ہیں۔

وزیراعظم کو بے دست و پا کرنے کے بعد شاہ محمد نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اعلان کردیا۔ اس فیصلے پر شکرئے کیلئے جب صدر ٹرمپ نے بادشاہ سلامت کو فون کیا تو شاہ صاحب کو یہ بھی  باور کرادیا کہ پولیساریو فرنٹ مغربی صحارا پر رباط کے قبضے کو ٹھنڈے پیٹوں برادشت نہیں کریگا چنانچہ باغیوں کا دماغ درست کرنے کیلئے مراکش کو جدید امریکی اسلحے کی ضرورت ہے۔ امریکی وزارت دفاع کے ذرایع نے بتایا ہے کہ مراکش امریکہ سے جدید ترین ڈرون، صحرائی جنگ کیلئے ٹینک اور آبدوزیں خریدے گا جسکی مالیت ایک ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ اسی کیساتھ اسرائیل نے سیکیورٹی کے حوالے سے جاسوسی کی خدمات اور گوریلوں سے لڑنے کیلئے ہلکے ہتھیار کی پیشکش کردی جسکا حجم 20 کروڑ ٖڈالر بتایا جارہا ہے۔

شاہ صاحب کی خواہش تھی کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے شاہی فرمان کے ساتھ  امریکہ اور اسرائیل سے اسلحہ کے سودوں کی حمائت میں ایک قرارداد پارلیمان  سے منظور کرائی جائے۔ اخوانیوں کے علاوہ سوشلسٹ پاپولر فورس بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کی مخالف ہے۔ اسکے علاوہ دوسری جماعتوں کے بہت سے ارکان نے بھی اس فیصلے کی کھل کر مخالفت کی چنانچہ وزیراعظم نے شاہ صاحب کو یہ بات گوش گزار کردی کہ ایوان سے قرارداد کا منظور ہونا مشکل ہے اورناکامی کی صورت میں مقتدرہ کی سبکی ہوگی۔

حکومت اور شاہ صاحب کی کشیدگی نے صحارا کے محاذ پرہیجان پیداکردیا۔پہلے وزیراعظم عثمانی کی کوششوں سے صحارا کے معاملے پر الجزائر اور مراکش بات چیت میں مصروف تھے اور تنازعے کے پرامن حل کی توقع میں پولیساریو نے بھی غیر اعلانیہ جنگ بندی کر رکھی تھی لیکن شاہی فرمان کے تحت عالمی امور پر سفارتکاری کا اختیار عثمانی حکومت سے واپس لے لیا گیا تھاجسکی وجہ سے سفارتی کوششیں منجمد ہوگئیں  اور میز کے بجائے میدان سج گیا۔ تادم تحریر تشدد کا کوئی بڑا واقعہ پیش نہیں آیا لیکن پولیساریو کی نقل و حرکت میں اضافہ ہوگیاہے۔ الجزائر اور مراکش کے درمیان سفارتی سردمہری اتنی بڑھی کہ 25 اگست کو الجزائر نے مراکش سے سفارتی تعلقات منقطع کردئے۔مقتدرہ نے سفارتی ناکامی کا موردِ الزام حکومت کا ٹہرایا۔شاہی محل کا کہنا تھا کہ وزارت خارجہ کے غیر ذمہ دارانہ طرزعمل سے پڑوسی ناراض ہورہے ہیں اور شاہ صاحب نے الجزائر سے ثالثی کیلئے ریاض اور ابوظہبی کو مدد کیلئے پکارا۔

اسوقت انتخابی مہم عروج پر تھی۔ایک عام تاثر یہ پیداہوا کہ بادشاہ سلامت اور PJDکے درمیان کشیدگی اب اس نہج پر آچکی ہے کہ شاہ صاحب کیلئے اخوانیوں کیساتھ چلنا مشکل ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے تیونس میں بھی النہضہ کی حکومت اور صدر قیس سعید کے درمیان کشیدگی عروج پر ہے اور 25 جولائی کو تیونسی صدر  نے پارلیمان کو منجمد کرکے حکمرانی و قانون سازی کے جملہ اختیار اپنے ہاتھ میں لے لئے ہیں۔ یہ افواہ بھی ہے کہ النہضہ کے قائد راشد الغنوشی سمیت پارٹی کی اعلٰی قیادت پر غداری کے مقدمات قائم کئے جارہے ہیں۔

شاہی ذرایع اور PJDکے مخالفین نے یہ تاثر دیا کہ اخوان کو مقتدرہ کیساتھ چلنے کا تجربہ نہیں، الجزائر، مصر، تیونس اور مراکش ہرجگہ ایک ہی جیسا حال ہے۔ اس خوف کو عام کیا گیا کہ گر PJDدوبارہ اقتدار میں آگئی تو مشتعل ہوکر شاہ صاحب سارا نظام ہی لپیٹ دینگے۔ ان انتخابات میں مبینہ طور پر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے گہری دلچسپی لی اور RNIکو بھرپور مالی امداد فراہم کی گئی، کہا جارہا ہے کہ استقلال پارٹی کو بھی درہم و دینار نذر کئے گئے ہیں۔  

زبر دست منفی پروپیگنڈے کی بناپر PJDکو شکست کا ڈرتو تھا لیکن اس شرمناک کارکردگی کی پارٹی کے بدترین مخالفین کو بھی توقع نہ تھی کہ 10 سال سے برسراقتدار جماعت ایوان میں آٹھویں نمبر پر آجائیگی۔ فتح و شکست انتخابات کا حصہ ہٰں چنانچہ سیاسی جماعتیں بدترین نتائج کیلئے ہروقت تیار رہتی ہیں لیکن مراکش میں حکومت اور برسراقتدار جماعت کے خلاف مقتدرہ نےجس انداز میں مہم چلائی ہے اسکی کہیں مثال نہیں ملتی۔ تاہم اسکا سب سے خوش آئیند پہلو یہ ہے کہ نتائج کا اعلان ہوتے ہی سابق وزیر اعظم عمادالدین عثمانی نے کہا کہ ہمیں عوام کا فیصلہ دل و جان سے قبول ہے۔ قوم نے ہمیں آئینہ دکھادیا ہے۔ نتایج کی روشنی میں ہم اپنا احتساب کرینگے اور خدمت کے نئے عزم سے اپنا سفر جاری رکھیں گے۔ دوسری طرف نئے وزیراعظم عزیزاخنوش نے ملک کیلئے عثمانی صاحب کی خدمات کااعتراف کرتے ہوئے کہا کہ انکی انتظامیہ سابق وزیراعظم کے تجربے سے فائدہ اٹھائیگی اور ملک کی تعمیر و ترقی کے ہر کام میں PJDکو شریک رکھا جائیگا۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 17 ستمبر 2021

ہفت روزہ دعوت دہلی ، 17 ستمبر 2021

روزنامہ امت کراچی 17 ستمبر 2021

ہفت روزہ رہبر 19 ستمبر 2021

قومی صحافت لکھنو