Thursday, February 23, 2023

زلزلہ، ترک ماہرین ارضیات نے سرجوڑ لئے سازش کا نظریہ دلیل و منطق سے عاری کچھ تکنینکی گفتگو

 

زلزلہ، ترک ماہرین ارضیات نے سرجوڑ لئے

سازش کا نظریہ دلیل و منطق سے عاری

 کچھ تکنینکی گفتگو

ترکیہ کی مختلف جامعات کے 13 ماہرین ارضیات اور ارضی طبیعات (Geophysicist) نے 5 فروری کو آنے والے خوفناک زلزلے کا تجزیہ شروع کردیا ہے۔ مطالعے کی قیادت استنبول کی جامعہ تیکنیکل علوم(ITU)کررہی ہے۔  ترک سائنسدانوں کی  تحقیق و جستجو کی اس مہم پر گفتگو سے پہلے قارئین کی دلچسپی کیلئےزلزلے کی مبایات پر چند سطور۔ ٰیہاں اس باب میں اپنی علمی کم مائیگی بلکہ بے مائیگی کا اعتراف ضروری ہے۔ اگلے چند پیراگراف میں آپ جو کچھ پڑھیں گے وہ دراصل علماے ارضیات کے گرانقدر کام کی خوشہ چینی ہے جسے مخٹلف مقالوں اور انٹرنیٹ سے حاصل کیا گیا ہے۔

 زمین کی بیرونی سطح جس  پر ہم آباد ہیں وہ سِلوں یا slabs پر مشتمل ہے جنھیں ارضیات کی اصطلاح میں ساختمانی پرتیں یاTectonic Plates کہا جاتاہے۔ یہ سلیں  یا پلیٹیں حرکت کرتی رہتی ہیں، تاہم متصل پلیٹیں اتنے مربوط انداز میں ہِلتی  ہیں کہ ہمیں اسکااندازہ ہی نہیں ہوتا ، جیسے زمین،  سورج کے گرد  1670 کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے گھوم رہی ہے لیکن ہمیں اس حرکت کا احساس نہیں ہوتا۔ حالانکہ طلوع آفتاب، دوپہر کو ڈھلنے اوررات کے چھاجانے کی شکل میں ہم اجرام ہائے فلکی کی حرکت کو ہرروز مشاہدہ کرتے ہیں۔

زمین کی سِلیں حرکت کے دوران ایک دوسرے سے ٹکراتی بھی ہیں اور پرتوں کی ناہموا ٹکّر سے ہمیں وقتاً فوقتاً ہلکے پھلکے جھٹکے محسوس ہوتے ہیں۔ ٰجو آبادیاں بڑی پلیٹوں کے وسط پر ہیں انھیں یہ ٹکراو تصاد م اور  رگڑ کا احساس نہیں ہوتا ،لیکن کنارے پر آباد لوگ چھوٹے موٹے جھٹکے محسوس کرتے رہتے ہیں۔

بعض اوقات پلیٹیں  آمنے سامنے آکر ایک دوسرے کا راستہ روک لیتی ہیں یا یوں کہئے کہ جنگلی بھینسوں کی طرح سینگ پھنسالیتی ہیں۔شائد اسی بنیاد پر قدیم یونانیوں خیال تھا کہ زمین کو بھینسا دیوتا نے اپنے ایک سینگ پر اٹھا  رکھا ہےاور جب دیوتا جی تھک جاتے ہیں تو بوجھ دوسرے سینگ پر رکھ لیا جاتا ہے۔ سینگ کی تبدیلی زلزلے کا سبب بنتی ہے۔

ماہرین ارضیات کا خٰیال ہے کہ پلیٹوں کے ایک دوسرے کے سامنے آجانے سے حرکت رُک جاتی ہے لیکن  پشت سے آنے والا دھکابرقرار رہتا ہے۔ دباو بڑھ جائے پر چٹانوں کی شکست و ریخت شروع ہوتی ہے۔ اگر دباو دونوں جانب سے برقرار رہے تو بیچ کا حصہ اوپر اٹھ کر پہاڑ کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ مثال طور پر اگر آپ ایک موٹےکاغذ کو ہموار سطح پر رکھ اپنے ہاتھ کاغذ کے  کناروں پر رکھ کر اسے دونوں جانب سے آگے بڑھانے کی کوشش کریں تو کاغذ بیچ سے اوپر (fold) اٹھ جائیگا۔ارضیاتی ساخت میں اس نوعیت کی تبدیلی  عام طور سے بہت آہستہ ہوتی ہے جس میں لاکھوں پر  بلکہ بعض اوقات کروڑوں سال لگتے ہیں۔

اگر دباو برداشت سے بڑھ جائے تو دونوں پلیٹیں  پھسل کرایک دوسرے کے راستے سے ہٹنے  لگتی ہیں۔ انشقاق کے  اس عمل کو ارضیات کی اصطلاح  میں ruptureکہتے ہیں۔ دونوں پلیٹیں جس مقام پر آمنے سامنے ملی ہوتی ہیں اسے ماہرین ارضیات نے خطِ دراڑ یا faut lineکا نام دیا ہے۔ انشقاق کے نتیجے میں پلیٹیں  اوپر نیچے یعنی عمودی اور دائیں بائیں دونوں  سمت  پھسل سکتی ہیں۔ پلیٹوں کے پھسلنے سے  سطح  زمین پر ارتعاش محسوس ہوتا ہے جو درحقیقت زلزلے کے پہلا جھٹکا ہے۔ ان پلیٹوں کی صرف ایک سینٹی میٹر حرکت خوفناک زلزلے جا سبب بنتی ہے۔

نقطہ انشقاق دراصل زلزلے کا مقام یا Hypocenter ہے جسے بعض ماہرین Focal Point یا Focusبھی کہتے ہیں۔  اسکے عین اوپر سطحِ زمین کا مقام Epicenter کہلاتا ہیے۔ پلیٹوں کے کھسکنے سے جھٹکے کے ساتھ وہ  توانائی بھی خارج ہوتی ہے جو دونوں پلیٹوں  کی حرکٹ رک جانے کے باوجود پیچھے سے آنے والے دھکے کے نتیجے میں  جمع ہورہی تھی۔اسے یوں سمجھئے کہ  آپ نے گاڑی کے بریک پر سختی سے پاوں رکھا ہوا ہے۔ پیچھے سے کئی تنو مند نوجوان گاڑی کو دھکا لگارہے ہیں اور اگر آپ اچانک بریک سے پاوں ہٹالیں تو کیا ہوگا؟ کچھ ایسا ہی انشقاق کے نتیجے میں ہوتا ہے۔ اس توانائی سے پیداہونے تھرتھراہٹ (Vibrations) زلزلے کے مقام سے سینکڑوں میل دور تک کی زمیں کو ہلاکر رکھ دیتی ہے۔ پہلے جھٹکے کے بعد یہ توانائی رفتہ رفتہ خارج ہوتی رہتی ہے جو رادفات یا  after shocksکا سبب ہے۔

زلزلے کی شدت کو ناپنے کے دوپیمانے ہیں۔ ایک اسکی شدت یا Magnitudeکیلئے جسے Richter Scaleکہتے ہیں کہ اسے فرانسیسی سائینسدان Charles Richterنے 1935 میں ترتیب دیا تھا۔ زلزلہ پیما یا Seismographپر ارتعاش کی شدت کو 1 سے9 پر تقسیم کیا گیا ہے۔ ایک سے دو شدت کے زلزلے انسانوں کو محسوس نہیں ہوتے۔ چار سے پانچ کو ہلکے زلزلے کا نام دیا گیا ہے۔ پانچ سے چھ کسی حد تک سنجیدہ یا moderate سمجھا جاتا ہے۔ چھ  سے 7 شدت کے زلزلے شدید اور آٹھ کو بڑا جھٹکا کہا جاتا ہے جبکہ آٹھ سے زیادہ شدت خوفناک سمجھی جاتی ہے۔

جیسا کہ ہم نے عرض کیا انشقاق کے نتیجے میں پلیٹوں کے سرکنے سے جہاں جھٹکا محسوس ہوتا ہے وہیں زبردست  Seismicتوانائی بھی خارج ہوتی ہے، توانائی کی لہریں زلزلے  کے نقطہ آغاز یا Hypocenter  سےچہار جانب ارتعاش پیدا کردیتی ہیں۔ توانائی کی شدت یا Intensityناپنے کیلئے اطالوی ماہر طبعیاتی ارضیات Mercalliنے 1902 میں  ایک پیمانہ تجویز کیاجو  Scale Mercalli کہلاتا ہے۔ یہ اسکیل 1 سے12 درجات پر مشتمل ہے۔ ایک سے چار معمولی، پانچ کسی حد تک خطرناک، 6 سے 8 تک سخت اور اسکے بعد اوپر  خوفناک سمجھا جاتا ہے ۔

اب آتے ہیں 6 فروری کے زلزلے کی طرف

امریکی مساحت ارضی USGSکے مطابق، اس زلزلے کا مرکز غازیان تب شہر سے 32.4کلومیٹر شمال مغرب میں سطح زمین سے 17.9کلومیٹر نیچے اور زلزلے کی شدت 7.8تھی۔ توانائی کی شدت کے اعتبار سے اسے Mercalliکے پیمانے پر ایک سے 12  کے معیار پر یہ 11 تھا۔ بر صغیر کے لوگوں نے اس نوعیت کے زلزلے کامشاہدہ  18 برس پہلے کیا تھا جب 8 اکتوبر 2005 کو سارا کشمیر،   اسلام آباد اور خیبر پختونخواہ کا بڑا حصہ لرز اٹھا تھا۔ کشمیر میں آنے والے زلزلے کی شدت  7.6 اور اسکا مرکز سطح زمین سے 15 کلومیٹر نیچے تھا۔

ترکیہ کے جس علاقے میں زلزلہ آیا وہ  افریقی، عرب اور اناطولیہ پلیٹوں کے نقطہ اتصال یا Junctionکے پڑوس میں واقع ہے، چنانچہ وہاں پلیٹوں کی ایک دوسرے سے چھیڑ چھاڑ عام ہے اور وقفے وقفے سے جھٹکے محسوس ہوتے رہتے ہیں۔ ابتدائی تحقیقات کے مطابق انشقاق کا عمل مشرقی اناطولیہ دراڑ (Fault line)  سے شروع ہوا اور ترک ماہرین کا خیال میں  پلیٹوں کی پھسلنے سے کچھ دوسری دراڑیں بھی سرگرم ہوگئیں۔ زلزلے کے بعد ترک سائیسدانوں نے دراڑ کے 15 کلومیٹر حصے  کا جائزہ (mapping)لیا اور انکا خیال ہے کہ مجموعی طور پر پلیٹیں پانچ مقامات پر انشقاق یا Ruptureکا شکار ہوئیں۔ امریکی مساحت ارضی کا کہنا ہے کہ بیک وقت دوزلزلے آئے۔ پہلے شمال مشرق اور جنوب مغرب کی جانب پلیٹوں کے سرکنے  سے زمین لرز اٹھی جبکہ مشرق سے مغرب کی جانب انشقاق نے دوسرے جھٹکے کو جنم دیا۔ ترک ماہرین تین زلزلوں کی بات کررہے ہیں لیکن  ارضیات  کے دوسرے علما کے خیال میں  یہ نیا زلزلہ نہیں بلکہ ایک مضبوط رادفہ یا After Shockتھا۔

دنیا بھر کے ماہرینِ ارضیات ترکوں کے اس تحقیقاتی مطالعے کو بہت دلچسپی سے دیکھ رہے ہیں۔ اسکے نتیجے میں زلزلے کی پیشن کوئی کا کوئی نظام مرتب ہوجانے کا تو کوئی امکان نہیں لیکن پلیٹوں کی حرکت ، انشقاق اور خط دراڑ کے تجزئے سے شائد ان علاقوں کی نشاندہی ممکن ہوجائے جہاں شدید زلزلے کے امکانات  بہت واضح ہیں۔

یہاں ایک نظریہ سارش کا ذکر بھی شائد قارئین کی دلچسپی کاباعث ہو۔ امریکی فوج نے جامعہ الاسکا کے تعاون سے  بلند فضا اور گہرے پانیوں میں  ریڈیو کمیونیکیشن کو موثر بنانے کیلئے High-frequency Active Auroral Research Program یا HAARPکے عنوان سے ایک منصووبہ شروع کیاہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس مقصد کیلئے آواز کی لہروں پر قابو پانے کی جو  تیکنیک وضع کی کئی ہے اسے زیرزمین ارتعاش پیدا کرنے کیلئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ان لہروں کے ذریعے بادلوں کی حرکت بھی متاثر کی جاسکتی ہے،  گویا چچا سام،  موسم کو بطور ہتھیار استعمال کرنے  یا Weaponizing Weatherکی شیطانی خواہش رکھتے ہیں۔ مستقبل میں شائد HAARPکے ذریعے زلزلہ لانا یا بادلوں کا رخ موڑنا ممکن ہوجائے لیکن فی الوقت یہ ٹیکنالوجی اس مقام پر نہیں پہنچی،  چنانچہ ہمیں   نظریہ سازش   منطق و دلیل سے   محروم اور بے بنیاد نظر آتا ہے۔

حوالہ جات:

Dorling Kindersley, What Causes an Earthquake? (Internet Article)

روزنامہ صباح ترکیہ



Tuesday, February 21, 2023

مسیحی برادری کے ایامِ صوم (LENT)

 

مسیحی برادری کے ایامِ صوم (LENT)

بدھ سے مسیحی دنیا کے لئے انتہائی مبارک و مقدس ایام کا آغاز ہوچکا  ہے جسے Lentکہا جاتا ہے اسے ہم اردو میں روزوں کا موسم بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس سال روزوں کا آغاز 22 فروری سے ہواہے۔ ایام صوم کا پہلا دن یورپ و امریکہ میں Ash Wednesdayیا 'راکھ کا بدھ' کہلاتا ہے ۔اس روزاپنے ماتھوں پر راکھ سے  صلیب کا نشان بناکر  ایام  صوم کا استقبال کیا جاتا ہے ۔ امریکہ فرانس اور بعض دوسرے ممالک میں راکھ کے بدھ سے پہلے والے منگل کو Fat Tuesdayمنایا جاتا ہے جب لوگ روزوں کے آغاز سے پہلے خوب کھاتے پیتے اور موج مستی کرتے ہیں۔ بڑے شہروں میں مارڈی گرا Mardi Gras کے نام سے پریڈ کا اہتمام ہوتا ہے۔ تاہم Fat Tuesday اور مارڈی گرا محض سماجی تہوار ہیں اور انکی کوئی مذہبی حیثیت نہیں۔ مسیحی روزوں کے پس منظر پر ایک مختصر سے گفتگو شائد احباب کو پسند آئے۔

یہ تو آپ کو معلوم ہی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت یحییٰ یا John علیہ السلام کی ولادت با سعادت تقریباً ایک ہی زمانے میں ہوئی تھی جسکی تفصیل سورہ آل عمران میں دیکھی جاسکتی ہے۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام ایمان لانے والوں کو مقدس غسل دیا کرتے تھے جسے بپتسمہ کہتے ہیں اسی بنا پر عیسائی دنیا میں حضرت یحییٰ کو John the Baptist علیہ السلام کہا جاتا ہے۔

انجیل مقدس کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام بپتسمہ کیلئے دریائے اردن  (فلسطین) پر حضرت یحییٰ علیہ السلام کے پاس آئے جو اسوقت بنی اسرائیل کی طرف اللہ کے نبی تھے۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بپتسمہ دینا بے ادبی جانا۔ انکا خیال تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام مرتبے میں ان سے بڑے ہیں اور انھیں خود مسیح علیہ السلام سے بپتسمہ لینا چاہئے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا یہ طئے کردہ اصول ہے کہ نیا آنے والا ہر نبی اپنے پیشرو نبی کی شریعت کا پابند ہوتا ہے اور اسوقت تک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نبوت عطا نہیں ہوئی تھی لہذا حضرت یحییٰ علیہ السلام نے بپتسمہ کی رسم شروع کی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جسمِ اطہرکو پانی میں ڈبکی دی۔ پانی سے اوپر آتے ہی آسمان سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت کی صدا آئی لیکن اسکے ساتھ ہی شیطان آزمائش کیلئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اپنے ساتھ ایک ویرانے میں لے گیا اور انھیں چالیس دن تک مقید رکھا جہاں کھانا پینا بھی میسر نہ تھا۔ اس دوران شیطان انکو اپنی اطاعت کے عوض دنیا کے اقتدار، دولت اور دوسری نعمتوں کی پیشکش کرتا رہا لیکن حضرت ثابت قدم رہے۔ سب سے شدید آزمائش بھوک و پیاس کی تھی ۔ چالیسویں دن شیطان نے انکی نبوت پر شک کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہر نبی کو اللہ نے معجزہ دیا ہے اور اے عیسیٰ علیہ السلام اگر تم نبی ہو تو دعا کرو کہ اللہ تمہارے لئے ان پتھروں اور مٹی کو رزق بنادے تاکہ تم کم ازکم اپنی بھوک ہی مٹالو۔ جس پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ میں صابر ماں کا بیٹا ہوں۔ میرے رب کو میری تکلیف کا خوب پتہ ہے اور وہ اپنے بندوں پر بے حد مہربان ہے۔حضرت کے اس جواب پر شیطان   یہ کہتا ہوا وہاں سے چلاگیا کہ اللہ نے مجھے آدم علیہ السلام کے سامنے بھی ایسے ہی رسوا کیا تھا۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اس بھوک و پیاس کی یاد تازہ کرنے اور شیطانی آزمائش کے مقابلے کیلئے خود کو تیار کرنے کی غرض سے روزے رکھے جاتے ہیں۔ پاکستان و ہندوستان کے مسیحی ان چالیس دنوں میں صرف رات کو ایک بار کھانا کھاتے ہیں لیکن یورپ اور امریکہ میں روزوں کے دوران کوئی ایک محبوب چیز چھوڑ دینا کافی ہے، مثلاً بلانوش حضرات اس عرصے میں شراب ترک کردیتے ہیں۔ سگریٹ نوشی ترک کردی جاتی ہے۔چاکلیٹ کی شوقین خواتین روزوں میں چاکلیٹ نہیں کھاتیں۔ کوک اور سوڈا کے رسیا اس دوران پانی پر گزارہ کرتے ہیں۔کچھ لوگ گوشت چھوڑدیتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ روزوں کا اختتام 19 اپریل  کو جمعہ مقدس یا Good Fridayپر ہوگا۔

   جمعہ مقدس اور ایسٹر کے تعین کیلئے مسیحی (Gregorian)کے ساتھ  رومن یا Julianکیلنڈر سے بھی مدد لی جاتی اور حساب کتاب میں اختلاف  کی بناپر  مغرب   میں اختتام ِ موسم صوم  کی تاریخ مختلف ہوتی ہے۔ اس سال مغرب  (رومن کیتھولک)میں 6اپریل  جبکہ مشرق میں  7 اپریل  تک روزے  رکھے جائینگے۔

 مسیحی عقیدے کے مطابق اس روز دن کے بارہ بجے حضرت کو سولی دی گئی تھی اور مسیح علیہ السلام کا جسمِ اطہر 3 گھنٹے سولی پر ٹنگا رہا۔ اسی وجہ سے جمعہ کو 12 سے 3 بجے دوپہر تک رقتِ قلب اور گریہ و زاری سے دعائیں مانگی جاتی ہیں۔ انجیل مقدس کے مطابق سولی کے دودن بعد یعنی اتوار کو حضرت دنیا میں واپس آگئے تھے اور ظہور مسیح کی یاد میں  9 اپریل کو مغربی دنیااور 16اپریل کو  مشرق میں عیدِ ایسٹر Easterمنائی جائیگی۔مسیحی احباب کو Lentکی برکت و رحمت اور عیدِ ایسٹر مبارک۔

تشکر: مفید معلومات کی فراہمی پر میں ڈاکٹرافضال فردوس کا شکر گزار ہوں ، ہیوسٹن میں مقیم ڈاکٹر صاحب ایک عمدہ شاعر اور مسیحی خطیب ہیں۔ڈاکٹر صاحب  خاصے وسیع القلب   ہیں  اور اکنا کی سماجی سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لیتے ہیں۔



Thursday, February 16, 2023

ترک خواتین یہ ایک صدی کا قصہ ہے دوچار برس کی بات نہیں

 

ترک خواتین

یہ  ایک صدی کا قصہ ہے دوچار برس کی بات نہیں

ترکیہ اور شام میں آنے والے زلزلے سے ساری انسانیت اشک بار ہے۔ منہدم  عمارات اور کچلے معصوم لاشوں کو دیکھ کر دل ڈوبتا محسوس ہوتا ہے۔ تاہم اسی دوران ترک خواتین کی پون صدی پر مشتمل جدوجہد رنگ لاتی نظر آرہی ہے۔ یہ اعصاب شکن و جاں گسل جدوجہد دوگز کپڑے کیلئے ہے جو حوا کی بیٹیاں اپنےسروں پر رکھنا چاہتی ہیں۔ معلوم نہیں اس چار گرہ کے ڈوپٹے اور آنچل میں کیا تباہ کاری چھپی ہے کہ  مغرب کو اس سے اپنی پوری تہذیب زمیں بوس   ہوتی نظر آرہی  ہے۔ بقول امام خمینی، یورپ ہمارے تباہ کن ہتھیاروں سے  اتنا خوفزدہ نہیں جتناڈر اسے ہماری بچیوں کے آنچل سے ہے

'حقِ اظہارِ حیا' کے حصول کیلئے ترکوں نے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ ترک تاریخ کے مقبول ترین وزیراعظم عدنان منیدریس اپنے وزرائے خارجہ وخزانہ کے ہمراہ پھانسی چڑھے۔ شہید عدنان میندریس مسلسل تین بار وزیر اعظم منتخب ہوئے ،1954 کے انتخابات میں انکی پارٹی نے 541کےایوان میں 502نشستیں جیتیں۔ جناب میندریس پر جو فرد جرم عائد ہوئی اسکے مطابق  دینی مدارس کی بحالی، بہت سی بند مساجد کا اجرا ، عربی میں اذان اور خاتون پولیس افسران کو سر ڈھانکنے کی اجازت، ریاست کے خلاف گھناونا جرم اور سیکیولر ازم سے صریح  انحراف قرار پائی۔ 'استغاثہ' نے ثبوت کے طور پر پارلیمان میں  قائد حزب اختلاف عصمت انونو اور وزیراعظم کے درمیان مکالمہ پیش کیا۔ ملکی حالات پر گفتگو کرتے ہوئے جناب  عدنان میندریس نے ایک معصوم سا سوال کیا کہ اگر خواتین بلا کسی جبر،  اپنی مرضی و رضا سے سر ڈھانک کر گھر سے باہر آئیں تو اس سے سیکیولراقدار کیسے  متاثر ہونگی۔ اس پر حزب اختلاف کے کسی رکن نے کہا کہ حجاب ایک مذہبی علامت ہے جسکی عوامی مقامات پر نمائش و اظہار قانون کے منافی ہے۔  وزیر اعظم نے  کہا 'پھر تو  پارلیمان کو خواتین کے حقوق کے تحفظ کیلئے قانون سازی کرنی چاہئے' اس پر قائد حزب اختلاف نے  پوچھا کہ  کیا آپ پارلیمان کے ذریعے شریعت لانا چاہتے ہیں؟ تو جناب میندریس نے کہا 'یہی جمہوریت یے  اور اگر پارلیمان چاہے تو ملک میں شریعت نافذ ہوسکتی ہے" اس بات پر وزیرخارجہ فطین رستم نے پر امید انداز میں کہا کہ انشاء اللہ وہ دن ضرور آئے گا جبکہ وزیر خزانہ حسن ارسلان بےاختیار اللہ اکبر کہہ اٹھے۔

یہ مقدمہ کتنا شفاف تھا اسکا اندازہ چیف پراسیکیوٹر محمد فیاض کے بیان سے ہوتا ہے جو انھوں نے پریس کو جاری کیا۔ محمد فیاض کے مطابق  صدر جمال گرسل نے جناب میندریس اور انکے ساتھیوں کے  پروانہ موت (ڈیتھ وارنٹ) پر دستخط کرنے سے یہ کہہ کر انکار کردیا تھا کہ مقدمے میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں ھوئے۔

اس عبرتناک انجام سے بھی اسلام پسندوں نے کوئی سبق نہ سیکھا اور 'حق اظہارِ حیا' کی جدوجہد جاری رہی۔ جون 1996 میں پروفیسر نجم الدین اربکان المعروف 'خواجہ صاحب' سیکیولر جماعت راہِ مستقیم پارٹی (DYP)سے شراکتِ اقتدار کا معاہدہ کرکے وزیراعظم بنے تو انھوں نے سرکاری دفاتر میں حجاب پر پابندی ہٹانے کی کوششیں شروع کردیں۔ قارئین کی دلچسپی کیلئے عرض ہے کہ پروفیسر صاحب سابق امیرِ جماعت اسلامی پاکستان، قاضی حسین احمد کے گہرے دوست تھے۔ حجاب پر پابندی کے خاتمے کی راہ مستقیم کی سربراہ اور نائب وزیراعظم محترمہ تانسو چلر بھی حامی تھیں۔ لیکن اس سے پہلے کہ پارلیمان میں کوئی قراراداد آتی، ترک فوج نے خواجہ صاحب کے دینی رجحان  پر تشویش  کا اظہار شروع کردیا اور صرف ایک سال بعد نہ صرف انکی حکومت برطرف کردی گئی بلکہ انکی جماعت پر بھی پابندی لگادی گئی۔

پھانسی برداشت کرنے والوں کیلئے اقتدار سے معزولی اور جماعت پر پابندی کیا چیز تھی۔ رفاح پارٹی پر پابندی لگتے ہی اسلام پسند پروفیسر صاحب  کی قیادت میں فضیلت پارٹی (FP)کے نام سے منظم ہوگئے اور 1999 کے انتخابات میں فضیلت پارٹی تیسری بڑی جماعت بن کر ابھری۔ مزید یہ کہ  فضیلت کے ٹکٹ پر محترمہ مروہ صفا قاوفجی Merve Safa Kavakcıرکن پارلیمان منتخب ہوگئیں۔ جب مروہ حلف اٹھانے پہنچیں تو وہ اسکارف اوڑھے ہوئے تھیں چنانچہ انھیں دروازے پر روک لیا گیا۔ ڈاکٹر مردہ کو  ایک ماہ کی مہلت دی گئی کہ وہ حجاب اتار کر آئیں اور حلف اٹھالیں۔ مروہ نے اسکارف اتارنے سے انکار کردیا جس پر پارلیمان سے انکی رکنیت ختم کرنے کیساتھ  وزارت انصاف نے  فضیلت پارٹی  کو بھی  کالعدم کردیا۔

مروہ قرآن کی حافظہ ہونے کیساتھ امریکہ کی موقر جامعہ ہارورڈ سے پی ایچ ڈی ہیں۔ رکنیت کی منسوخی پر وہ امریکہ چلی گئیں جہاں  انھوں نے جامعہ Howard اور جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں درس وتدریس کا سلسلہ شروع کردیا۔ امریکی ٹیلی ویژن کو ایک انٹرویو میں مروہ نے بہت ہی مغموم لہجے میں کہا کہ انکے حجاب سے امریکی ثقافت کو کوئی خطرہ نہیں اور وہ اسکارف کے ساتھ سارا کام کرتی ہیں لیکن میرے ملک کے امن کو دو میٹر کے اس کپٖڑے سے سخت خطرہ لاحق ہے۔ ہائے اس چار گرہ کپڑے کی قسمت غالب

اللہ کا کرنا کہ فضیلت پارٹی کے کالعدم ہونے کے دو سال بعدطیب رجب  ایردوان کی قیادت میں اسلام پسند پھر  برسراقتدار آگئے۔ فٹبال کا یہ کھلاڑی  اسوقت 48 سال کا جوانِ رعنا تھا۔ جس زمانے میں ایردوان استنبول کے رئیس شہر (Mayor)تھے، انھیں  ایک  رزمیہ  نظم پڑھنے کا 'الزام' میں سزا بھی ہوچکی ہے۔ دلچسپ بات کہ جس روز نظم پڑھنے کے جرم میں ایردوان جیل بھیجے جارہے تھے اسی دن انھوں نے 'نغمات یوں نہیں مرتے ' کے عنوان سے اپنی آواز میں 4معروف شعرا کے  8 انقلابی گیتوں پر مشتمل ایک پورا  البم جاری کردیا۔ صرف ایک ہفتے میں اس البم کی دس لاکھ کاپیاں فروخت ہوئیں،  جناب ایردوان نے ساری کی ساری آمدنی ترک شہدا کی پسماندگان کیلئے وقف کردی۔

جناب ایردوان کے بطور وزیراعظم حلف اٹھانے کے بعد سرکاری تقریبات میں خاتونِ اول اور وزرا کی بیگمات کی عدم شرکت پر اعتراض ہوا لیکن  وزیراعظم کی اہلیہ محترمہ  امینہ ایردوان نے صاف صاف کہدیاکہ  میں حجاب کے بغیر گھر سے نکلنے کا تصور بھی نہیں کرسکتی۔

جولائی 2016 میں مصر،  متحدہ عرب امارات اور امریکہ کی مدد سے ترک افواج کے سیکیولر عناصر نے ایردوان حکومت کے خلاف بغاوت کی۔  بمباری اور فائرنگ کے باوجود ترک عوام نے  مسلح باغی فوجیوں کی مشکیں کس دیں اور یہ نام نہاد انقلاب سختی سے کچل دیا گیا۔ تحقیقات کے دوران معلوم ہوا کہ بغاوت کو عدلیہ اور سول افسران کے ایک حصے کی حمائت بھی حاصل تھی۔ غیر آئینی سرگرمیوں کے ذمہ داروں کو سزائیں دینے کیساتھ ملازمتوں سے برطرف کردیا گیا اور انتظامیہ سیکیولر انتہا پسندوں سے بڑی حد تک پاک ہوگئی۔ اسی دوران  حکومت نے بیرون ملک تعینات سفارتی عملے کیلئے حجاب کی پابندی ختم کردی اور 2017 میں مروہ صفا قاوفجی پورے وقار کیساتھ ملائیشیا میں ترکیہ کی سفیر مقرر کردی گئیں۔

گزشتہ سال کے وسط سے حجاب پر پابندی کے خاتمے کیلئے ٹھوس و پائیدار اقدامات پر غور شروع ہوا۔ شروع میں خیال تھا کہ اس کیلئے ایک صدارتی حکمنامہ (آرڈیننس) کافی ہوگا لیکن آئینی ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر مستقبل میں انتہا پسند انتخاب جیت گئے تو پوری بساط لپیٹی جاسکتی ہے۔ چنانچہ طئے پایا کہ آئینی ترمیم کے ذریعے حجاب کو  تحفظ فراہم کردیا جائے۔

ترکیہ میں آئینی ترمیم کیلئے  مسودہ سب سے پہلے پارلیمان کی مجلس قائمہ برائے دستور میں پیش کیا جاتا ہے۔  مجلس قائمہ میں پیشی کیلئے ترمیم کی حمائت  میں پارلیمان کے نصف سے زیادہ ارکان کے دستخط ضروری ہیں۔ ترک پارلیمان 600 ارکان پر مشتمل ہے۔ مجلس قائمہ سے منظوری کے بعد پارلیمان میں رائے شماری کے دوران ترمیم کے حق میں کم ازکم 3/5یا 360 ووٹ نہ آ نے پر مسودہ  ردی کی ٹوکری میں ڈالدیا جاتا ہے۔ اگر 360 سے زیادہ لیکن 400 سے کم ارکان نے ترمیم کے حق میں ہاتھ اٹھائے تو معاملہ صدر کے سامنے پیش ہوگا۔ ایوانِ صدر ترمیم پر مزید مباحثے اور دوبارہ رائے شماری کیلئے  اسے پارلیمان کو واپس بھیج سکتا ہے اور صدر کو یہ  اختیار بھی ہے کہ وہ ترمیم پر عوام کی رائے معلوم کرنے کیلئے اسے ریفرنڈم کیلئے پیش کردے۔ اگرریفرنڈم میں نصف سے زیادہ ووٹروں نے ترمیم کی توثیق کردی تو یہ آئین کا حصہ بن  جائیگی۔دو سری طرف اگر رائے شماری کے دوران 400 سے زیادہ ارکانِ پارلیمان  نے ترمیم کی حمائت کردی توپھر ریفرنڈم کی ضرورت نہیں۔

 دوہفتہ قبل  پارلیمان کے اسپیکر مصطفےٰ سینتوپ  Mustafa Şentop  نے کہا تھا کہ اسکارف پر پابندی ختم کرنے کیلئے مجوزہ آئینی ترمیم پرتمام جماعتیں متفق ہیں اور  366 ارکان نے ترمیمی بل پر دستخط کردئے ہیں۔ گزشتہ ہفتے ترک پارلیمان  کی مجلسِ قائمہ برائے آئینی امور نے دستور میں ترمیم کی توثیق کردی جسکے تحت حجاب پر پابندی غیر قانونی ہوگی۔ اسپیکر کا کہنا ہے کہ  366 ارکان کے دستخطوں سے یہ ترمیمی بل پیش کیا گیاہے۔

مجوزہ ترمیم میں کہا گیا ہے کہ کسی خاتون کو کسی بھی صورت، تعلیم، کام، ووٹ ڈالنے اور منتخب ہونے کے حق، سیاسی سرگرمیوں، سول سروس یا مذہبی وجوہات کی بنا ء پر حجاب پہننے یا لباس کے حصے کے طور پر سرکاری اور نجی اداروں کی جائیداد اور خدمات کو استعمال کرنے سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ حجاب کی مذمت اور اس حوالے سےالزام، طنز، اسستہزا اور کسی بھی قسم کا امتیازی سلوک غیر قانونی ہوگا۔اداروں کے یونیفارم میں بھی ریاست اس بات کو یقینی بنائیگی کہ کسی خاتون کو مذہبی وجوہات کی بنا پر حجاب اور اپنی پسند کالباس پہننے سے نہ روکا جائے۔اب یہ ترمیم بحث اور رائے شماری کیلئے پارلیمان میں پیش کی جائیگی۔

اسوقت ترک پارلیمان میں برسرٓ اقتدار اتحاد کے پاس 335 نشستیں ہیں۔ سیکیولر خیالات کی حامل ریپیلکن پیپلز پارٹی (CHP)کے ارکان 135 نشستوں پر براجمان ہیں۔ ماضی میں حجاب کی شدید مخالفت کرنے والی  ریپبلکن پیپلزپارٹی نے بھی آئینی کمیٹی کے اجلاس میٓں ترمیم کی مخالفت نہیں کی ۔

ترک سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ ریپبلکن پارٹی ترمیم کے حق میں ووٹ دیکر معاملے کو 14 مئی کے انتخابات سے پہلے حل کرلینا چاہتی ہے تاکہ ریفرنڈم کی نوبت نہ  آئے۔ سیکیولر عناصر کو ڈر ہے کہ  عام انتخابات کے دوران اسکارف پر ریفرنڈم ہونے کی صورت میں حجاب کی حمائت کرنے  والوں کی اکثریت صدرایردوان کے نام پر بھی ٹھپہ لگادیگی۔

اگرری پبلکن ڈیموکریٹک ہارٹی کے ارکان  انفرادی آزادی، صنفی مساوات ، عمدہ طرز حکمرانی اور برداشت کے کلچر کیلئے اپنے عزم پر قائم رہے تو امید ہے کہ یہ ترمیم مارچ تک منظو ہوجائیگی، ورنہ صدر ایردوان نے اس پر ریفرنڈم کرانےکا عندیہ دیا ہے۔ رائے عامہ کے جائزروں کے مطابق ترک خواتین کی تین چوتھائی اکثریت حجاب پر پابندی ختم کرنے کے حق میں ہے۔ دلچسپ بات کہ اسکارف نہ اوڑھنے والی خواتین بھی پابندی کی مخالف ہیں ۔ انکا کہنا ہے کہ اپنے لئے لباس کا انتخاب ہر فرد کا حق ہے اور حکومت کو اس میں مداخلت کا کوئی حق نہیں۔ ترک ٹیلی ویژن پر مباحثے میں یورپی اسکرٹ پہنے  ایک خاتون نے کہا  'میرے لئے  یہ بات قابل قبول  نہیں  کہ کوئی شخص مجھے برقعہ پہنے کو کہے تو پھر میں دوسرے کے برقعوں پر اعتراض کرنے والی کون؟ کاش یہ سادہ سی مبنی برانصاف اور منطقی دلیل  ترک اور یورپی  روشن خٰیالوں کو سمجھ آجائے

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل  کراچی، 17 فروعری 2023

ہفت روزہ دعوت دہلی ، 17 فروری 2023

روزنامہ امت کراچی ، 17 فروری 2023

ہفت  روزہ رہبر سرینگر 19 فروری 2023

روزنامہ  قومی   صحافت لکھنو


Thursday, February 9, 2023

جاسوسی غبارہ یا مواصلاتی سیارہ؟؟

 

جاسوسی غبارہ یا مواصلاتی سیارہ؟؟

چار فروری کو امریکہ کے ایف 22 طیارے نے 'گرم دمِ جستجو' یعنی heat seeking میزائل داغ کر مشتبہ چینی غبارہ مار گرایا۔ چین نے امریکی فضائیہ کی اس کاروائی کو طاقت کے غیر ضروری  استعمال اور بین الاقوامی روایات کی سنگین خلاف ورزی قراردیا ہے۔بیجنگ کا کہنا ہے کہ چین کے ایک نجی ادارے نے یہ غبارہ  (air ship)موسمیاتی تحقیق کیلئے بھیجا تھا۔  تجارتی ہوائی ٹریفک سے بہت زیادہ اونچائی پر اڑنے والے غبارے سے  زمین پر موجود افراداو اسباب  کو کوئی خطرہ نہ تھا اور سائنسی اہمیت کے اس آلے کو  میزائیل مار کر تباہ کردینا  قابل مذمت ہے۔ چینی وزارت قومی دفاع کے ترجمان کرنل تن کیفائی (Tan Kefei)  نے کہا کہ  بیجنگ مستقبل میں اس قسم کی صورتحال پر  جوابی  ردِ عمل  کا حق محفوظ رکھتا ہے۔

فروری کے آغاز پر یہاں اسوقت سنسنی پھیل گئی جب دفاعی نامہ نگاروں  نے انکشاف کیا کہ امریکہ کی فضائی حدود میں ایک نامعلوم غبارہ پروار کررہاہے۔ اس انکشاف کا ماخذ وہ معلومات تھیں جو امریکی فضائیہ کے کچھ افسران  نے نام نہ بتانے کی  شرط پر امریکی خبررساں ایجنسی ایسوسی ایٹیڈ پریس (AP)کو فراہم کی تھیں۔ اے پی کے مطابق ان  اہلکاروں نے بتایا کہ  ایک مشتبہ چینی 'جاسوس غبارہ' امریکی فضائی حدود میں کچھ دنوں سے پرواز کررہا ہے۔ مذکورہ سینئر دفاعی اہلکار نے امریکی وزارت دفاع المعروف  پینٹاگون کے نامہ نگاروں کو آگاہ کیاکہ بلندی پر اڑنے والے اس غبارے کا حجم تین ٹرکوں کے برابر ہے اور اس پر  معلومات اکھٹا کرنے کیلئے حساس کیمرے اور جاسوسی کے آلات نصب ہیں۔

یہ غبارہ مبینہ طور پر 28 جنوری کو بحرالکاہل میں امریکی کالونی گوام پر سے پرواز کرتا ہوا ریاست الاسکا (Alaska)کی فضائی حدود میں داخل ہوا اور کینیڈا کے صوبوں البرٹا، برٹش کولمبیا اور سیسکیچون (Saskatchewan)کے اوپر سے ہوکر یکم فروری کو ریاست مونٹانا (Montana)میں داخل ہوا۔ چینی غبارہ  تین فروری کو ریاست مزوری Missouri آیا اور جنوبی کیرولینا (South Caroline) کے راستے بحراوقیانوس کی طرف نکل گیا جہاں اپنی فضائی حدود میں امریکہ نے اسے مارگرایا۔

 غبارہ اتنا بڑا تھا کہ 60 ہزار فٹ کی بلندی پر اڑنے کے باوجود  کمرشل پائلٹ اسے دیکھ سکتے تھے تاہم حفظِ ماتقدم کے طور پر یکم فروری کو مونٹانا کے بلنگز-لوگن  (Billings Logan)بین الاقوامی ہوائی اڈے  پر دوپہر ڈیڑھ بجے سے ساڑھے تین بجے تک تمام پروازیں معطل کردی گئیں۔

جمعرات دو فروری کو  پینٹاگون کے پریس سیکریٹری بریگیڈیئر جنرل پیٹرک رائڈر نے ایک سرکاری بیان میں  کہا کہ غبارہ امریکی فضائیہ  کی نظر میں ہے  اور  بہت زیادہ اونچائی پر پرواز کی وجہ سے یہ  کمرشل ہوائی جہازوں،  شہریوں یا فوجی تنصیبات کیلئے کسی خطرے کا باعث نہیں۔ جنرل صاحب نے امریکیوں کو یقین دلایا کہ  غبارے کی حساس معلومات تک رسائی روکنے کے اقدامات کرلئے گئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ  چینی حکام کو معاملے کی سنگینی سے آگاہ  کردیا گیا ہے۔جنرل رائیڈر نے مزید کہا کہ امریکی فضائیہ کیلئے اس غبارے کو مارگرانا کچھ مشکل نہیں لیکن چونکہ اس  کے گرنے والے ملبے سے زمین پر موجود لوگوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے اسلئے فوج کے کماندارِ اعلی یعنی صدر بائیڈن نے اسکی اجازت نہییں دی۔

دوسرے دن  چینی وزارت خارجہ کی ترجمان محترمہ ماو ننگ (Nao Ning)نے اس بات کی تصدیق کردی کہ چین کا ایک  غبارہ جسے ترجمان نے Air Ship  کہا،  امریکہ کی فضائی حداود میں داخل ہوگیا ہے۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ  ایک نجی چینی ادارے کا یہ غبارہ  موسمیاتی تحقیق کیلئے فضا میں بھیجا گیا ہے جو سمت اندازی کی محدود صلاحیت  (Limited Self Steering)کی بناپر اپنے طے شدہ راستے سے بہت دور ہٹ گیا۔ننگ صاحبہ کا کہنا تھا کہ یہ  جاسوس غبارہ نہیں  بلکہ ایک معمولی سا موسمیاتی طیارہ ہے جو امریکہ کے برفانی طوفان کا مشاہدہ کرتے ہوئے مونٹانا چلا گیا۔ ترجمان نے کہا کہ چین کو امریکی فضائی حدود میں غیر ارادی داخلے پر افسوس ہے، چینی حکام اپنے  امریکی ہم منصبوں سے رابطے میں ہیں اور ہم اس ماورائے تدبیر (Force Majeure)صورتحال کا خوشگوار اختتام چاہتے ہیں۔

چینی غبارہ  امریکہ میں اسکی شمالی سرحد سے داخل ہوا اور ترچھا (diagonal) سفر کرتا مشرق میں بحراوقیانوس کو نکل گیا۔ اس دوران دواہم مقامات پر اسکی پرواز امریکیوں کو مشکوک بلکہ خطرناک محسوس ہوئی۔

1.              ریاست  مونٹانا میں امریکہ کا مالمسٹروم ایئر فورس بیس (Malmstrom Air Force Base)   ہے، جو  دوسری جنگ عظیم کے دوران گریٹ فالس  (Great Falls)شہر کے قریب 1942 میں تعمیر ہوا۔ تزویرائی اہمیت  کی تین جوہری تنصیبات میں سے ایک یہاں واقع ہے۔مالمسٹروم امریکہ کے بین البراعظمی منجنیقی (Intercontinental Ballistic)میزائیلوں کا اڈا  بھی ہے۔

2.              ریاست مزوری کا وہائٹ مین فضائی اڈہ Whiteman Airforce Baseبھی 1942 میں تعمیر ہوا۔ یہ  غیر مرئی (B2 Stealth)بمباروں کا ہیڈکوارٹر ہے۔

امریکی فضائی حدود میں  چینی غبارے کی پرواز کا واقعہ اس وقت پیش آیا جب  وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن اپنے پہلے دورہ بیجنگ کی تیاریوں میں مصروف تھے اور حسب توقع  امریکی وزیرخارجہ کی روانگی غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردی گئی۔ دو فروری کی شام صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے  ٹونی بلینکن  نے چین کی اس ”غیر ذمہ دارانہ” حرکت کو دوسرے ملک کی فضائی حدود میں دراندازی اور ایک آزاد مملکت کی خودمختاری کی صریح خلاف ورزی قرار دیا جو “مہذب” دنیا کو کسی صورت  قبول نہیں۔ کاش  فاضل وزیرخارجہ سے کوئی پوچھتا کہ امریکہ کے ڈرون شمالی وزیرستان، عراق، شام،  یمن اور لیبیا میں جو پھول برساتے رہے ہیں اسے کیانام دیا جائے۔ اب سے چند ہی ماہ پہلےکابل میں امریکی ڈرون نے اپنے ایک مبینہ دشمن کو قتل کیا ہے۔ کیا امریکہ کی جانب سے افغان فضائی حدود کی پامالی اور اسکی خودمختاری پر حملہ چینی غبارے کی 'گستاخی' سے کسی طرح کم ہے۔ چینی غبارہ تو 60 ہزار فٹ کی بلندی پر سے پرامن انداز میں پرواز کرتا گزر گیاجبکہ امریکی ڈرون نے وزیرستان میں وسیع و عریض قبرستان آباد کئے ہیں۔سچ ہے کہ  آدمی اگر بے حیا ہوجائے تو اسے کچھ بھی کہتے شرم نہیں آتی ۔

دونوں جانب سے بیانات کی گھن گرج میں امریکی بحریہ جنوبی کیرولینا کے ساحل  Myrtle Beachکو تباہ ہونے والے غبارے کے ملبے کیلئے کھنگھال رہی ہے جو  7 میل کے علاقے میں پھیلا ہوا ہے۔ پینٹاگون کے ذرایع نے سطح سمندر سے کچھ حصوں کے ملنے کی تصدیق کی ہے جنھیں تجزئے کیلئے وفاقی تحقیقاتی ادارے (FBI) کی تجربہ گاہ بھیج دیا گیا ہے۔ بحریہ کے تجربہ کار غوطہ خوروں  اور خودکار زیرِ آب گاڑیوں (Unmanned Underwater Vehicles) یا UUV کی مدد سے غبارے کی باقیات تلاش کی جارہی  ہیں۔ اس مقام پر پانی کی گہرائی صرف  47 فٹ ہے، اسلئے امریکی ماہرین پرامید ہیں  کہ ملبے کی تلاش زیاد مشکل نہیں۔

چین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی Xinhuaنے اطلاع دی ہے کہ چینی محکمہ موسمیا ت کے سربراہ Zhuang Guotaiکو برطرف کردیا گیا۔ مبصرین کے خیال میں یہ چین کے اس موقف کو تقویت دینے کی کوشش ہے کہ امریکہ نے جس غبارے کو گرایا ہے وہ موسمیاتی تحقیقات کے مشن پر تھا جو راستہ “بھٹک” کر چچا سام کے دیس جا پہنچا اور چین اس غلطی کی تحقیق کیساتھ اسکے ذمہ داروں کاامواخذہ بھی کررہا ہے۔

امریکہ کے  سنجیدہ عناصر  غبارے پر امریکہ کے غیر ضروری ردعمل کو صدر بائیڈن کی بوکھلاہٹ قرار دے رہے ہیں۔  امریکی وزارت دفاع  کے مطابق،  اہم فوجی اور جوہری تنصیبات سمیت امریکی سرزمین کا ایک ایک انچ رقبہ ، خلا میں تیرتے چین کے 500 سے زیادہ مصنوعی سیارچوں یا سیٹیلائٹس کی نظروں میں ہے۔ اگر پینٹاگون کا یہ تجزیہ درست ہے تو جدید ترین سیارچوں کی موجودگی میں چین کو جاسوسی کیلئے غبارہ بھیجنے کی کیا  ضرورت تھی۔ دفاعی مبصرین کا خیال ہے کہ ٖ 28 جنوری کو گوام پر سے گزرتے ہی امریکہ کے دفاعی نظام نے  اس اڑن طشتری کو شناخت کرنے کے بعد نہ صرف  اسکی نگرانی شروع کردی تھی بلکہ چینی حکام سے  رابطے کا آغاز ہوچکا تھا۔ غیر مرئی یا Stealthصلاحیتوں سے محروم یہ غبارہ  اپنے حجم کے اعتبار سے اتنا بڑا تھا کہ  ریڈار کی نظروں سے  اسکا چھپنا ممکن ہی نہ  تھا۔  چین جیسے ملک کی جانب سے اس قسم کے  آلے کو امریکہ کی جاسوسی کیلئے  استعمال کی توقع نہیں کی جاسکتی ۔

لیکن جمعرات کو معاملہ میڈیا پر آتے ہی صدر کے  قدامت پسند مخالفین نے آسمان سر پر اٹھالیا۔ سینیٹ کی مجلس قائمہ برائے  سراغرسانی کے نائب سربراہ اور اگلے سال ہونے والے صدارتی انتخابات میں  ریپبلکن پارٹی کی ٹکٹ کے متوقع خواہشمند سینیٹڑ مارکو روبیو نے چین کی اس جسارت کو امریکہ کی بھیانک تزویراتی کمزوری قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ چین کی جانب سے امریکی دفاعی نظام کا مضحکہ اڑانے کا اظہار ہے۔  مونٹانا سے ریپبلکن پارٹی کے رکن کانگریس رائن زنکے Ryan Zinkeنے دہائی دی کہ انکی ریاست پر دشمن کا 'طیارہ' منڈلا رہا ہے اورصدر بائیڈن کو کوئی پرواہ نہیں۔نیوہیمپشائر کے گورنر  کرس  سنونو نے  اے بی سی ٹیلی ویژن سے باتیں  کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے قلب میں جاسوس غبارہ بھیج کر چین نے امریکی صدر کے اعصاب کو آزما یا جس میں جو بائیڈن بری طرح ناکام رہے۔

غالباً اسی دباو کا اثر تھا کہ  صدر بائیڈن نے غبارے کو گرانے کا حکم دیدیا۔ تاہم امریکی وزیر دفاع جنرل (ر)   آسٹن کا کہنا ہے کہ صدر بائیڈن نے یکم فروری ہی کو اسے مارگرانے کا حکم دیدیا تھا۔ لیکن  صدر کی ہدائت تھی  کہ غبارہ تباہ کرتے ہوئے امریکیوں کی جان و مال اور دفاعی اثاثو ں کو کوئی نقصان نہیں پہنچنا چاہئے اسی لئے Air Ship کو کھلے سمندر پر نشانہ بنایا گیا۔

ابھی امریکہ در آئے  چینی غبارے سے اٹھنے والی دھول بیٹھی بھی نہیں کہ لاطینی (جنوبی) امریکہ سے ایسی ہی اطلاعات آرہی ہیں۔ دفاعی ذرایع  کے مطابق ایک غبارہ کولمبیا سے بحر کریبین کے ساحل کو چھوتا کوسٹا ریکا کی طرف پرواز کررہا ہے۔ چینی غبارہ مارگرانے پر تائیوان نے 'اطمینان' کا اظہار کیا ہے۔ تائیوانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ چین کی جانب سے تائیوان کی فضائی حدود کی خلاف وزری روزمرہ کا ایک معمول  ہے اور جنگی طیاروں کے ساتھ چینی ڈرون  تائیوان کی فضا میں  کھلے عام دنداتے پھر رہے ہیں۔

غبارہ گرانے پر چینی وزارت قومی دفاع کے اس ردعمل  یعنی  ' ہم مستقبل میں ایسی صورتحال پر اپنے ردعمل کا حق محفوظ رکھتے ہیں ' کی بعض سیاسی ماہرین تشریح اسطرح کررہے ہیں کہ چین تائیوان کی طرف پروازکرنے والے امریکی طیاروں پر قدغنیں عائد کرسکتا ہے۔ بیجنگ کیلئے تائیوان اسکا اٹوٹ انگ ہے اور امریکہ سمیت دنیا کے اکثر ممالک اس حقیقت کو عملاً تسلیم کرتے ہیں۔ لاطینی امریکہ کے چھوٹے ملکوں اور ویٹیکن سمیت دنیا کے صرف  14ممالک تائیوان کو سرکاری طور پر  آزادو خودمختار ملک مانتے ہیں۔ہمارے خیال میں  چین امریکہ عسکری کشیدگی بڑھنے کا امکان بہت زیادہ نہیں کہ بیجنگ کی ترجیحِ اول معیشت و تجارت ہے جسکے لئے  تصادم کے بجائے تعاون کی حکمت عملی چینی سفارتکاری کی بنیاد ہے

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 10 فروری 2023

ہفت روزہ دعوت دہلی 10 فروری 2023

روزنامہ امت کراچی 10 فروری 2023

ہفت روزہ رہبر سرینگر 12 فروری 2023

روزنامہ قومی صحافت لکھنو